رزق حرام
سعد عبد اللہ (استاذ قرآن انسٹیٹیوٹ ،لطیف آباد، حیدر آباد)
رزق حرام کی تباہ کاریاں
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں بھیجا ہے یہاں انسان کو زندگی گزارتے ہوئے کئی طرح کے معاملات کا سامنا ہے۔ انسان کی کچھ بنیادی ضروریات ہیں۔ جیسے غذا، لباس ، رہائش اور تعلیم وغیرہ۔ نسل انسانی کے ارتقاء کے لیے اللہ تعالیٰ نے توالد وتناسل کا سلسلہ قائم کیا ہے۔ انسان شادی کرتا ہے اولاد پیدا ہوتی ہے ایک گھر بنتا ہے۔ اس گھر کو چلانے کے لیے وسائل درکار ہیں۔ انسان کی ضروریات کے ساتھ ساتھ انسان کی بے شمار خواہشات بھی ہیں۔ ایک دوسرے سےآگے بڑھنے کی طلب ہے۔ جس کے لیے مال واسباب درکار ہیں۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین پر جو کچھ ہے انسان کے لیے پیدا کیا ہے۔لیکن ان کے حصول کے لیے کچھ حدود وقیود مقرر فرمادی ہیں اور حلال اور حرام کے احکام نازل فرمائے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’ جو شخص حرام مال حاصل کرے گا اور اس سے (اپنی ضروریات میں) خرچ کرے گا تو اس میں برکت نہیں ہوگی اور اگر اس مال سے صدقہ دے گا تو(عنداللہ) قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور ترکہ میں اس مال کو چھوڑ کرمرے گا تو وہ (مال) اس کے لیے جہنم کا توشہ ہوگا۔‘‘(مسند احمد)
نبی اکرم ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’قیامت کے دن سب سے حسرت ناک انجام اس شخص کا ہوگا جس نے دنیا میں حرام مال کمایا ہوگا اور وہ اسے جہنم میں لے جائے گا۔‘‘(مسند احمد بن حنبل)
حرام چیزیں دو طرح کی ہیں۔ ایک تووہ چیزیں جن کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے۔ لیکن کسی حکمت کی بنا پراس کا کھانا حرام کردیا ہے۔ جیسے مردار، بہتا ہوا خون یا خنزیر اور جو چیز غیر اللہ کے نام پر ذبح کی گئی ہو۔ دوسرے وہ چیزیں جو اصل میں تو حلال تھیں مگر انسان نے خود ( اس کو ناجائز طریقے سے حاصل کرکے) اپنے لیے حرام بنا لیا۔ جیسے چوری کا مال یا جھوٹ بول کر یا دھوکہ دے کر کمایا ہوا مال۔
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مال ِ حرام کی قباحت کو اس انداز میں ذکر فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاکیزہ مال ہی قبول کرتا ہے اور اللہ رب العالمین اپنے بندوں کو بھی اسی چیز کا حکم دیتا ہے، جس کا حکم اپنے پیغمبروں کو دیا۔ پھر آپ ﷺ نے قرآن مجید کی یہ آیات تلاوت فرمائیں:
{یٰٓاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًاط اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ(51)} (المومنون )
’’ اے رسولو! پاکیزہ اور حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ اے اہل ایمان ! جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے، اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔‘‘ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے شخص کا تذکرہ فرمایا جو دور دراز کا سفر کرکے آیا ہو، اس کے چہرے پر سفر کے اثرات ہوں، اس کے لباس پر مٹی ہو ،چہرے اور بالوں پر مٹی ہو اور وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہا ہو:’’ اے میرے رب! اے میرے رب! اس کی دعا کیسے قبول ہوگی۔ اس کا کھانا حرام کا، اس کا پینا حرام کا اور اس کی پرورش حرام سے ہوئی۔‘‘(مشکوٰۃ)
معلوم ہوا کہ اعمال اور دعاؤں کی قبولیت میں ایک بہت بڑی رکاوٹ حرام کا مال ہے۔
جس طرح حرام سے بچنا ضروری ہے اسی طرح شک وشبہ کی کمائی اور مشکوک مال سے بھی بچنا ضروری ہے۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’حلال ظاہر ہے حرام ظاہر ہے اور اس حلال وحرام کے بیچ میں شبہ والی چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ آیا وہ حلا ل ہیں یا حرام ہیں۔پس جو شک وشبہ والی چیزوں سے بچا،اس نے اپنے دین کو بچا لیا اور جو ان شبہ والی چیزوں میں پڑ گیا تو اس کی مثال اس چرواہے جیسی ہے جو شاہی چراگاہ کے پاس اپنے جانوروں کو چرائے۔ قریب ہے کہ کوئی جانور اس میں گھس جائے ۔
خبردار! ہر ایک بادشاہ کی ایک مخصوص چراگاہ ہے جس میں دوسرے کے جانوروں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔( یعنی یہ زمین اللہ تعالیٰ کی چراگاہ کی طرح ہے۔ تاکہ اس کی مخلوق اس سے فائدہ اٹھائے۔ البتہ بنی نوع انسان کے لیے اللہ تعالیٰ نے کچھ حدود وقیود قائم فرمادی ہیں۔)
’’خبردار! جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے۔ جب وہ درست رہا تو سارا جسم درست رہا، جب وہ خراب ہوگیا تو سار ا جسم خراب ہوگیا، سن لو! وہ دل ہے۔‘‘( بخاری)
ہمارے اسلاف حلال میں بڑی تحقیق کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ایک مشتبہ شے کھالی تو معلوم ہوجانے پر حلق میں انگلی ڈال کر فوراً قے کردی۔
حضرت سعدؓ نے حضور اکرمﷺ سے سوال کیا کہ کیا کروں کہ میں مستجاب الدعوات ہوجاؤں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اپنی خوراک پاکیزہ رکھو، تمہاری دعائیں قبول ہوں گی۔ رزق حرام میں مقدار زیادہ ہونے کے باوجود بھی برکت نہیں ہوتی۔ بعض مرتبہ اللہ تعالیٰ اس حرام مال کی وجہ سے کسی شخص کو ایسی پریشانیوں یا مصیبتوں میں مبتلا کر دیتے ہیں کہ وہی مال، جو اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں اور ظلم وزیادتی سے کمایا تھا، اس کی تباہی وبربادی کا سبب بن جاتا ہے۔
موجودہ نظام معیشت میں بہت سی چیزیں تو واضح طور پر حرام اور ناجائز ہیں۔ جنہیں تمام علماء نے بھی حرام قرار دیا ہے۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:-
(i) تمام بنک اکاؤنٹس کا سود/منافع
(ii) حرام اور ممنوعہ چیزوں کی تجارت مثلاً کمپیوٹر نیٹ کیفے جہاں بیٹھ کر لڑکے لڑکیاں فلمیں دیکھتے ہیں۔ ایسی موبائل کی دکانیں جہاں گانے اور فلمیں ریکارڈ کرکے بیچے جاتےہیں۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں شراب کی دکانیں وغیرہ۔
(iii) فحش اور لادینی کتابوں اوررسالوں کی فروخت۔
(iv) فلموں کا کاروبار۔
(v) منشیات کی خرید وفروخت۔
(vi) ملازم کا اپنا کام دیانتداری سے نہ کرنا۔
(vii) رشوت لینا۔
(viii) رشوت دے کر ناجائز کام کرانا۔
بعض چیزوں کی حرمت پر خود علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ لہٰذا وہ ہم مشکوک چیزوں میں شمار کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ بیان ہو چکا کہ ہمیں شبہ والی چیزوں سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ ان میں چند درج ذیل ہیں:-
i. بلا سود بینکاری کا منافع۔
ii. تمام انعامی سکیمیں جن کا فیصلہ قرعہ اندازی سے کیا جاتا ہے۔
iii. لاٹری ۔
iv. انشورنس سکیموں کے فوائد۔
v. اسٹاک مارکیٹ کاکاروبار۔
vi. اکثر کمپنیوں کے شیئرز پر ملنے والا منافع۔
vii. لہو ولعب کو ترویج دینے والے سامان کی تجارت۔
viii. تراویح پڑھانے کی اجرت۔
ix. کثرتِ رزق کے لیے کافر ممالک کے غیر اسلامی ماحول میں جا کر ملازمت کرنا۔
x. کریڈٹ کارڈ کا استعمال۔
xi. تما م سیونگ سرٹیفیکیٹس۔
xii. عورتوں کی وہ تمام ملازمتیں جہاں بلا ضرورت بے پردگی لازمی ہو جائے۔
xiii. عورتوں کی تصویر والی چیزوں کی خرید وفروخت۔
xiv. عورتوں کے نیم عریاں/باریک کپڑے تیا ر کرنے اور غیر اسلامی ڈیزائن میں سلائی۔
xv. بنک سے سود پر قرض لے کر کاروبار کرنا۔
جدید دنیا میں مسلمانوں کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ اخلاقی، تہذیبی اور معاشرتی معاملات میں دانشوروں کا ایک ایسا طبقہ پیدا ہو گیا ہے جو انسانی زندگی کے بارے میں دینی مؤقف کو سمجھنے کی یاتو اہلیت ہی نہیں رکھتا یا اس حمیّت سے محروم ہے جس کے بغیر دینی سوچ پنپ ہی نہیں سکتی۔ مذکورہ بالا مسائل میں امت کے مجموعی مؤقف سے اختلاف یا انحراف کرنے والے لوگ اسی قبیل سے ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک دنیاوی ترقی اور خوشحالی گویا مدارِ حق بن گئی ہے اور دین سے پیدا ہونے والی انسانی تہذیب اور اس کے بنیادی عوامل ان حضرات کی نظر سے بالکل اوجھل ہیں یا پھر یہ ان کی طرف دیکھنے سے کتراتے ہیں۔ اصول کی بات یہی ہے کہ اس امت کو اگر اپنی ہیئت اجتماعی کو برقرار رکھنا ہے تو پھر مشتبہات کے پھیلاؤ سے بھی بچنا پڑےگا۔
رزق حرام کے نقصانات:
1- انسان کے جوہر میں غیرت اور حیا کا ایک مادّہ ہوتا ہے ۔ رزق حرام سے پہلی ضرب اسی پر پڑتی ہے۔ ایک دینی شخصیت کی تشکیل میں حمیّت اور عفت ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کسبِ حرام سے یہ ستون گرجاتے ہیں۔
2- حرام کمائی کے نتیجے میں معیار ِ زندگی میں جو بلندی پیدا ہوتی ہے، وہ فخر اور تکبر کا یقینی سبب بنتی ہے۔ حرام کی دولت پر اکڑنا تو اسلام سے نکلنے کے مترادف ہے۔ اس میں اور ابوجہل کی اکڑ میں کوئی فرق نہیں۔
3- شرک اور تکبر کے بعد اسلام جس چیز کو پہلے قدم پر ہی ختم کرنے کا تقاضا کرتا ہے، وہ حبِّ دنیا اور حبِّ مال ہے۔اسلام اور حبِّ دنیا اسی طرح متضاد ہیں جیسے ایمان اور کفر۔ رزق ِحرام کمانے والا دین کے اس بنیادی مطالبے یعنی حبِّ دنیا کے ترک کو نہ صرف نظر انداز کرتا ہے بلکہ اس امّ المعاصی(گناہوں کی ماں) کو عملاً دین پر ترجیح دینے کا عادی بن جاتا ہے۔
4- مسلمان اور رزقِ حلال میں وہی نسبت ہے جو مرد اور مردانگی میں ہے۔ رزقِ حرام کی دلدل میں پھنسنے والا مردانگی کے تمام اوصاف سے دست برداری اختیار کرلیتا ہے۔ اور ایک ایسی نفسیاتی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے جہاں انسان ہر چیز کا سودا کر سکتا ہے۔
5- کسبِ حلال اور اس کے لیے کی جانے والی کوششیں آدمی کو بندگی کی فطری روح کے ساتھ اپنے رب کے ساتھ جوڑے رکھتی ہیں۔ اس کی خلاف ورزی کرنے سے اللہ سے تعلق کی حقیقی اساس منہدم ہو جاتی ہے۔ شکر، صبر،توکل جیسے اوصاف ختم ہوجاتے ہیں۔
6- اس کی نحوست تمام زیرِ کفالت افراد(بیوی،بچے وغیرہ) کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
7- اس کا ہر دینی عمل یقیناً بے سود اور بے معنی ہو جاتا ہے۔
8- اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔
9- مال میں سے برکت اٹھ جاتی ہے۔
10- عبادت میں دل نہیں لگتا اور ایمان کی حلاوت محسوس نہیں ہوتی۔
اگر ہم اپنی اصلاح چاہتے ہیں تو ہمیں دوکام تو فوری کرنے ہوں گے۔
گریہ وزاری کے ساتھ توبۃ النصوح۔
تمام حرام اموال واملاک سے فوری دستبرداری ۔
حرام مال سے جتنا فائدہ اٹھایا جا چکا ہے۔ اس کا کفارہ اداکرنے کے لیے بھی دوکام ضروری ہیں۔
• مسلسل استغفار اور حلال کمائی سے حسبِ استطاعت اللہ کے راستے ہیں خرچ ان دونوں کاموں کو کرنا بالکل مشکل نہ سمجھیں ۔ آخرت میں جوپکڑ ہونی ہے۔ اس کے مقابلے میں یہ مشقت کچھ بھی نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہمیں رزقِ حلال کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین
tanzeemdigitallibrary.com © 2024