(منبرو محراب) امتحانِ زندگی :اہلِ فلسطین اور اُمتِ مسلمہ - ابو ابراہیم

9 /

امتحانِ زندگی :اہلِ فلسطین اور اُمتِ مسلمہ

(قرآن و حدیث کی روشنی میں)

 


مسجدجامع القرآن، قرآن اکیڈمی، کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے12اپریل 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
رمضان کا مبارک ماہ اپنی برکتوں اور سعادتوں  کو بکھیرنے کے بعد چلا گیا لیکن اللہ تعالیٰ اب بھی موجود ہے ، قرآن بھی موجود ہے اور مساجد بھی موجود ہیں ۔ اس حوالے سے چند بنیادی باتیں عرض کرنا مقصودہیں ۔
پہلی بات
رمضان کا حاصل کیا تھا ؟ قرآن بتاتا ہے : 
{لَـعَلَّـکُمْ تَتَّقُوْنَ(183)}(البقرۃ)
’’ تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے۔‘‘
یہ تقویٰ کا تقاضا اب بھی موجود ہے ۔ وہی اللہ تعالیٰ جس کا حکم مان کر ہم نے رمضان کے روزے رکھے ہیں اسی کا تقاضا ہے کہ پوری زندگی اس کا تقویٰ اختیار کرو ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَلْـتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍج} (الحشر:18)’’اے اہل ِایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان کو دیکھتے رہنا چاہیے کہ اُس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے!‘‘
یہ زندگی بھر کا روزہ ہےکہ گناہوں سے، نافرمانیوں سے اپنے آپ کو بچائیں ۔ لیکن ہم سب اپنا جائزہ لیں کہ رمضان میں فجر کی نماز میں کتنی صفیں تھیں اور آج کتنی رہ گئیں ؟ معاذاللہ ! کیا اللہ ہمارا رب نہ رہا ؟ کیا عبادت کے تقاضے پورے ہوگئے ؟ اسی طرح دیگر معاملات میں بھی دیکھ لیں، رمضان ختم ہوتے ہی ہمارے رویے کیا ہو جاتے ہیں ۔ رمضان کا حاصل اگر تقویٰ تھا تو آج تقویٰ کے معاملے میں ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ 
پھر رمضان کا تحفہ قرآن پاک ہے ۔ رمضان میں ثواب کی نیت سے کئی مرتبہ اس کی تکمیل کی گئی۔ تکمیل قرآن کے موقع پر دعائیں بھی ہو گئیں، مٹھائی بھی بہت جگہ تقسیم ہو گئی، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے مگر اسی تکمیل قرآن کے موقع پر دعا ہم نے کی تھی کہ اے اللہ ! قرآن کو ہمارا امام بنا دے۔ کیا آج ہمارے لیے وہ امام بن رہا ہے؟ ہمارے گھر والوں کے لیے، ہمارے دفاتر میں، ہمارے اداروں میں، ہماری عدالتوں میں، ہماری پارلیمنٹ میں قرآن امام ہے ؟ہماری عدالتوںکے فیصلے ، ہماری پارلیمنٹ کی قانون سازی ، ہمارے سیاسی ، معاشی ، معاشرتی معاملات قرآنی تعلیمات کی روشنی میں طے پارہے ہیں ؟  یہ اصل بات ہے جس پر ہم نے غور کرنا ہے ۔ عیدکی چھٹیاں ہیں ، لوگ اپنے اپنے پروگرامز بنائے بیٹھے ہیں ، ذرا پندرہ بیس منٹ نکال کر اس پر بھی غور کریں ، اپنے گھر والوں کو بھی پاس بٹھائیں ، بچوں کو بھی ترغیب دیں کہ ہم نے رمضان سے کیا حاصل کیا؟ لوگ لاکھوں روپے دے کر تربیتی ورکشاپ کرواتے ہیں کہ اگلے چھ مہینے یہ Lessonکام آئے گا ۔ یا ہفتے ، سال ، تین سال کاکوئی کورس کرتے ہیں اور اپنی سی وی میں شامل کرتے ہیں ۔ یہ جو مہینے بھر کا کورس اللہ نے ہم سے کروایا ہے ، روزے کی مشقت بھی ہم نے اٹھائی ہے ، قرآن کی تکمیل بھی کی ہے ، رات کا قیام بھی حسبِ توفیق کیا ہے ۔اس سارے کورس اور محنت و مشقت سے ہم نے کیا حاصل کیا ہے ؟ اور جو حاصل کیا ہے اس سے زندگی بھر یا کم ازکم سال بھر کیا کام لینا ہے ؟
رمضان کے بعد شوال کا مہینہ ہے اور شوال کے مہینے میں چھ روزے نفلی ہیں لیکن بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے ، رسول اللہ ﷺنے فرمایا :  ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے اور رمضان کے بعد شوال میں چھ روزے رکھ لیے گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھ لیے ۔‘‘ یہ روزے شوال کے پورے مہینے میں (عید کے علاوہ) کبھی بھی ، الگ الگ بھی اور اکٹھے بھی رکھے جا سکتے ہیں۔ البتہ شرعی مسئلہ ہے کہ جن کے ذمہ قضا روزے ہیں وہ پہلے قضا پورے کریں ۔
اللہ کی شان کریمی ہے کہ ایک جگہ قران میں کہتا ہے جو بھلائی لے کر آئے گااللہ تعالیٰ اُسے اس سے بہتر عطا فرمائے گا ۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ دس گنا زیادہ عطافرمائے گا ۔ کم سے کم نیکی کا اجر اللہ سبحانہ و تعالیٰ 10 گنا عطا فرماتا ہے ۔ اس اعتبار سے رمضان کے روزے اور چھ روزے شوال کے کوئی بندہ رکھ لیے تو گویا پورے سال کے روزوں کا ثواب مل رہا ہے ۔
روزہ فرض ہو یا نفل اس کو رکھنے کے اپنے فوائد ہیں ، اس کے نتیجہ میں روح بیدار ہوتی ہے ، قرب الٰہی کا احساس پیدا ہوتاہے ، اللہ کی فرمانبرداری ، ضبط نفس اور صبر کی مشق ہوتی ہے ۔ رمضان میں نیکی کا ایک ماحول تھا ، بدی سے بچنا اور خیر میں آگے بڑھنا آسان تھا ۔ مگر رمضان کے بعد یہ ماحول بنانا پڑے گا ۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ فرماتے تھے کہ باہر کا ماحول تو دجالی ماحول ہے جس کے اثرات گھروں تک پہنچے ہوئے ہیں ۔ اس دجالیت کا مقابلہ ہم نے خود کرنا ہے ۔لہٰذا اس کے لیے ہمیں قرآن کا ، دین کا ، خیر کا ماحول خود بنانا پڑے گا ۔ اس سے ہمیں تقویت اور طاقت ملے گی اور ہمیں خیر میں آگے بڑھنے میں مدد ملے گی۔ اس کے لیے ہم مسجد سے جڑیں ، مساجد کو آباد رکھیں۔ رمضان میں تو نوافل کے لیے بھی مساجد بھر گئیں اور اب فرض نماز کے لیے بھی لوگ نظر نہیں آرہے۔ خدارا اس پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔
دوسری بات:
اس وقت شہر کراچی کے جو حالات ہیں کہ مسلسل چوریوں کا معاملہ ، ڈکیتیوں کا معاملہ ، لوگوں کو سرے عام گولیاں ماری جارہی ہیں ، رمضان کے آخری عشرہ میں کم سے کم 50 ایسے کیسز ہیں جن میں لوگوں کو قتل کیا گیا ہے ۔ آپ تصور کریں ، عین عید سے قبل ، رمضان کے آخری عشرہ میں جس کا بیٹا مارا گیا ، بھائی چلا گیا ، موٹرسائیکل پر جاتے ہوئے کسی نے گولی ماردی ، کچھ چھیننے کے دوران گولی ماردی گئی ، ان خاندانوں پر عید کیسی گزر رہی ہوگی ۔ مگر کوئی پرسان حال نہیں ہے ، انتظامیہ کہاں ہے ، حکومت کیا کر رہی ہے ، ادارے کدھر ہیں کوئی پتا نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حالات پر رحم فرمائے اور حکمرانوں کو ہدایت دے ۔
تیسری بات:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ مختلف پیرائے میں بیان کرتا ہے کہ دنیا کی زندگی امتحان ہے ۔فرمایا:
{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط}(الملک:2) ’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔‘‘
اللہ کو جو عمل مطلوب ہے وہ کوالٹی،خلوص، یقین ،ایمان، للہیت اور اللہ کے ساتھ محبت کی کیفیت کے ساتھ مطلوب ہے چاہے تھوڑا ہی کیوں نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔یہ امتحان سب کے لیے ہے مگر مسلمان کے لیے زیادہ ہے کیونکہ مسلمان کے پاس مکمل دین ہے ، قرآن ہے اور اللہ کے آخری رسول ﷺکا مکمل اُسوہ ہے ۔ اب مسلمان پابند ہے کہ اس دین کے مطابق اپنی زندگی گزارے ۔ قدم قدم پر اس کا امتحان ہے ، خوشحالی ، تنگدستی ، تندرستی ، بیماری ، خوشی ، غمی غرض ہر حال میں امتحان ہے ۔ اگراس مسلسل امتحان میں بندہ اس حالت میں اپنے رب کے پاس پہنچا کہ جیسا فرمایا گیا : {وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(102) } (آل عمران) ’’اور تمہیں ہرگز موت نہ آنے پائے مگر فرمانبرداری کی حالت میں۔‘‘
یعنی مرتے دم تک وہ اللہ کے دین پر کاربند رہا اور فرمانبرداری کی حالت میں موت آگئی تو زندگی کے اس امتحان میں کامیاب ہوگیا۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ مومن کا معاملہ بہت عجیب ہےیعنی خوبصورت ہے۔ اس کے ہر کام میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اسےکوئی نعمت ملتی ہے تو اس پر شکر کرتاہے اور اس شکر میں اس کےلیے مزید خیر ہوتی ہے اور جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو صبر کرتاہے اور اس صبر میں بھی اس کے لیے خیر پوشیدہ ہے ۔
مسئلہ فلسطین:
مومن کا معاملہ کس قدر عجیب ہے اس کی مثال دیکھنی ہے تو فلسطین کے مسلمانوں میں دیکھ لیں ۔ وہاں کی ماؤں کو دیکھ لیں،وہاں کی بیواؤں کو دیکھ لیں ، وہاں کے بچوں اور بچیوں کو دیکھ لیں۔ ابھی تازہ ترین اسماعیل ہنیہ صاحب کے بیٹوں اور پوتوں کی شہادت کا معاملہ سامنے آیا ہے ۔ اس باپ دادا کا کردار دیکھ لیں ۔ اس پر اللہ کا شکر اس نے ادا کیا ۔ ایمان کی کیفیت ہی الگ ہے ۔ انہیں پتا ہے کہ ہم نے اسرائیل کو چھیڑ کر پورے عالم کفر سے ٹکر لے لی ہے ۔ انہیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ سارا عالم اسلام بشمول عرب خاموش بیٹھے ہیں ۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ ہمارے سامنے راستہ ایک ہی ہے کہ ہم مسجد اقصیٰ کی حرمت پر قربان ہو جائیں ۔ ان کو پتا تھا کہ سارا عرب اسرائیل کے آگے جھک گیا ہے اور اس کو تسلیم کرتا چلا جارہا ہے ، اس صورت میں صہیونی مسجد اقصیٰ کی حرمت کی پامالی کریں گے ، اس کو شہید کریں گے لہٰذا غزہ کے مسلمانوں نے خود کو مسجد اقصیٰ کی حرمت کے لیے پیش کرتے ہوئے جنگ کا آغاز کر دیا ۔ خالد قدومی صاحب جو حماس کے پاکستان میں نمائندے ہیں جن کو پاکستان کی سینٹ میں بھی بلوایا گیا تھا اُن کا میرے پاس میسج آیا کہ فلسطین کے مسلمان کیا کہہ رہے ہیں ۔ ان کے مطابق وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم تو اس وقت مشکل ، درد اور تکلیف کی کیفیت میں ہیں ۔ آپ پاکستانی انصارکو عید مبارک ہو ۔ کیفیت یہ ہے کہ ایک باپ (اسماعیل ہنیہ)جس کے بیٹے چلے گئے ، ایک دادا جس کے پوتےچلے گئے وہ کہہ رہا ہے کہ میرے بچے اور میرے پوتے بھی باقی فلسطینی بچوں کی طرح ہیں ، یہ نہیں کہ میرے بچے شہید ہوگئے تو کوئی بڑا مسئلہ پیش آگیا ۔ جس طرح ہزاروں فلسطینی بچے شہید ہوگئے ہیں اسی طرح یہ بھی ہیں ۔ یہ لیڈر شپ ہوتی ہے ۔ اسی طرح ایک بیوہ کہتی ہے میرے شوہر ! تم چلے گئے جنت میں تمہاری عید ہوگی ۔ ایک ماں کہتی ہے بیٹا ! تم چلے گئے جنت میں تمہاری عید ہوگی ۔ ایک شوہر کی بیوی شہید ہوگئی اس نے کہا : اللہ کی بندی تو پہلے چلی گئی ، میں پیچھے رہ گیا ہوں ۔ یہ عجیب لوگ ہیں ۔ ان کی اس استقامت کو دیکھ کر آسٹریلیا سے 50 عورتوں نے اسلام قبول کرلیا اور پے در پے مثالیں سامنے آرہی ہیں ۔ لوگ سوچتے ہیں کہ یہ کس مٹی کے بنے لوگ ہیں ۔ ان کے پاس کھانے کو نہیں ہے، پینے کو نہیں ہے، ان کے دو ارب مسلمان بھائی ایک بوتل پانی بھجوانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں مگر یہ ڈٹے ہوئے ہیں، یہ جانیں دینے کو سعادت سمجھ رہے ہیں ۔ آج ویڈیو آئی ہے بچے غزہ کے ملبے پر کھڑے ہو کر عالم اسلام کو عید مبارک کہہ رہے ہیں کہ تم کو خوشیاں مبارک ہوں ۔ سوچنے کی بات ہے کہ امتحان تو فلسطین کے مسلمانوں کا بھی ہے اور پوری اُمت مسلمہ کا بھی ہے۔ وہ تو ان مشکل ترین حالات میں بھی امتحان میں کامیاب ہورہے ہیں اور باقی اُمت مسلمہ اس امتحان میں کہاں کھڑی ہے ؟ 
بچپن سے حدیثیں یاد ہیں کہ مسلمان ایک جسد کی طرح ہیں، جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہوتو سارا جسم درد محسوس کرتا ہے۔ ایک عمارت کی ایک ایک اینٹ مل کر اس عمارت کو مضبوط کرتی ہے۔ایسی عمارت استقامت کا مظاہرہ کرنے سے بنتی ہے ۔ جیسا کہ فرمایا :
{مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللہِط وَمَنْ یُّؤْمِنْ م بِاللہِ یَہْدِ قَلْبَہٗط} (التغابن:11) ’’نہیں آتی کوئی مصیبت مگر اللہ کے اذن سے۔اور جو کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہے‘ وہ اُس کے دل کو ہدایت دے دیتا ہے ۔ ‘‘
شہدا ء کے بارے میں فرمایا : {وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّـقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَـآئٌ وَّلٰـکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ(154)} (البقرۃ) ’’اور مت کہو اُن کو جو اللہ کی راہ میں قتل ہو جائیں کہ وہ مردہ ہیں۔(وہ مردہ نہیں ہیں) بلکہ زندہ ہیں‘ لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہے۔‘‘
اس بارے میں دوسری جگہ فرمایا:{بَلْ اَحْیَــآئٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ(169)}(آل عمران) ’’بلکہ وہ تو زندہ ہیں ‘ اپنے ربّ کے پاس رزق پا رہے ہیں۔‘‘
ہمارا تو یقین ہے کہ اسماعیل ہنیہ کےبیٹوں اور پوتوں کو شہادت کے بعد اللہ کے ہاں رزق عطا ہورہا ہوگا ۔ وہ تو استقامت اور صبر کا مظاہرہ کر کے کامیاب ہو رہے ہیں۔ اللہ کی رضا پر راضی رہ کر، اپنے شہید بچوں کو اٹھاکر دعا کر رہے ہیں کہ یااللہ ہم تو تیری رضا پر راضی ہوگئے تو بھی ہم سے راضی ہو جا ۔
خدا کی قسم جو مرنے کے لیے تیار ہو جائے دنیا اس کو شکست نہیں دے سکتی۔ شوق شہادت ہی مسلمان کی شان رہی ہے ، مسلمان کا زیور رہا ہے ۔ اسی جذبے سے وہ کفار کے سامنے کھڑے ہوتے تھے تو سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوتے تھے ۔ اس وقت مادہ پرستی کا دور دورہ ہے، امریکہ بدمعاش کا ہمیں ڈر ہے ، عرب حکمران بھی خوفزدہ ہیں ۔ نیتن یاہو کہہ رہا ہے سارے عرب حکمران اندر سے ہمارے ساتھ کھڑے ہیں ، تجارت اور معاشی تعلقات ہیں ۔ یعنی ان کے نزدیک دنیا اصل مسئلہ ہے آخرت اصل مسئلہ نہیں ہے ۔ یہاں سے آپ موازنہ کرلیں کہ کون اس امتحان میں کہاں کھڑا ہے ؟ فلسطین کے مسلمان اس پر اللہ کا شکر ادا کر رہے ہیں کہ ہمارے بچے اللہ کے ہاں قبول ہوگئے ، کوئی کہہ رہے میری دو نسلیں اللہ نے قبول کر لیں ، کوئی اس پر خوش ہے کہ میرے خاندان کے 36 افراد شہید ہوگئے۔ جبکہ دوسری طرف اُمت کی ترجیحات الگ ہیں ، برینڈڈ کپڑے نہیں ملے تو ٹینشن ہے ، آئی فون15 پرو نہیں ملا تو ٹینشن ہے، نئی گاڑی نہیں آئی تو ٹینشن ہے ۔ آج ہمارا یمان ہمیں لا کر مسجد میں کھڑا نہیں کر رہا ۔ امتحان صرف اہل غزہ کا نہیں ہے پوری اُمت کا ہے ۔ اس اُمت سے بڑھ کر تو غیر مسلموں نے مظاہرے کیے ہیں اور اپنے حکومتوں سے بڑھ چڑھ کر مطالبے بھی کیے ہیں ، اپنی اپنی حکومتوں کو مورد الزام بھی ٹھہرایا ہے ۔ یہ نظارےمسلم ورلڈ میں دکھائی نہیں دے رہے ۔
جہاں تک تنظیم اسلامی کا تعلق ہے تو ہم نے ہر خطاب جمعہ ، ہر موقع اور ہر پلیٹ فارم سے فلسطینیوں کے حق میں آواز اُٹھائی ہے ، صدرمملکت ، وزیراعظم ، وزراء ، آئی ایس پی آر ، ممبران پارلیمنٹ سب کو لکھا ہے کہ اپنی ذمہ داریاں ادا کریں ، مسلم اور غیر مسلم سفارتخانوں کو خطوط لکھے ۔پاکستان کے کئی اخبارات میں ہم نے اشتہار دے کر حکومت کو متوجہ کیا ہے کہ پاکستان ہی اسرائیل کو جواب دے سکتاہے عرب تو بیٹھ گئے ہیں ۔ اسماعیل ہنیہ نے بھی کہا کہ اگر پاکستان کوئی جواب دے گا تو اسرائیل باز آئے گا ۔
عرب ممالک نے 34 ملکوں کی فوج بنائی تھی وہ کہاں ہے ؟ کیا اس کا مقصد صرف بادشاہتوں کو بچانا ہے؟  اسرائیل تو کہتاہے کہ نیل سے فرات تک سارا گریٹر اسرائیل ہے ۔ یہ عرب ممالک کہاں بچیں گے ۔ کسی عرب ملک میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ اسرائیل کو روک سکے ۔ یہ صرف پاکستان ہے جس کو اللہ نے ایٹمی قوت بھی دی ہے اور صلاحیت بھی دی ہے ۔ قائد اعظم کی پالیسی تھی کہ فلسطینیوں کے ساتھ ظلم ہو گا تو ہم پاکستان سے جواب دیں گے ۔ 23 مارچ 1940ء کو جب قرارداد لاہور پاس ہوئی تھی تو اسی موقع پر فلسطینی مسلمانوں کے حق میں بھی ایک قرارداد پاس ہوئی تھی ۔ لیکن آج ہم بھول گئے کہ مسجد اقصیٰ  ہمارا تیسرا حرم ہے ۔ اگر ہم مسجد الحرام یا مسجد نبوی ﷺ کے کسی حصہ پر کسی کافر کا قبضہ برداشت نہیں کر سکتے تو تیسرے حرم پر کیونکر کر سکتے ہیں ؟اس کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمانوں پر ہے ۔ مفتیان کرام اس پر فتویٰ بھی دے چکے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے معاملے میں جہاد فرض ہو چکا ہے ۔ جس کے پاس جتنی طاقت اور جتنا اختیار ہے وہ اسی حساب سے مکلف ہے ۔ آج ہم مادہ پرستی میں ڈوبے ہوئے ہیں ، اگر ایمان کی دولت نہ ہو تو پھر امریکہ کا ڈر ہوگا ، کرسیوں کے چلے جانے کا ڈر ہوگا ، مفادات کے چلے جانے کا ڈر ہوگا ۔ اس ایمان کی آبیاری کے لیے پورے رمضان ہم نے قرآن سنا اورسنایا ۔ بہرحال ہمارے حالات جیسے بھی ہیں لیکن جب ایمرجنسی نافذ ہو جاتی ہے تو روٹین کے معاملات کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسرائیل تو باز نہیں آرہا ،عید کے دن بھی مسلمانوں کو شہید کیا، جوبائیڈن بھی روک نہیں پارہا ۔ نہ کوئی اور روک پا رہا ہے۔ اب اُمت کو خود کھڑا ہونا ہوگا ، ہمارا خیال ہے کہ پوری اُمت اپنی اپنی حکومتوں سے مطالبہ کرے ۔ ہماری سیاسی پارٹیاں چھوٹے چھوٹے ایشوز پر دھرنے دیتی ہیں ، کیا25 کروڑ عوام کو مسجد اقصیٰ کی حرمت کے لیے اپنی حکومت سے مطالبہ نہیں کرنا چاہیے؟ میں تمام سیاسی جماعتوں اور تمام دینی، مذہبی جماعتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ ایک ایجنڈے پر جمع ہو جائیں کہ ہم سب نے مل کر اپنی حکومت کو مجبور کرنا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حق میں کوئی قدم اٹھائے۔ OICکے چارٹر میں لکھا ہے کہ فلسطینیوں کی عسکری اور مالی مدد کرنا ہر مسلمان ملک پر لازم ہے ۔ کم ازکم آپ آواز تو اٹھائیں ۔ روزقیامت جواب آپ نے بھی دینا ہے ، یہ امتحان آپ کے لیے بھی ہے ۔ ہم تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے ان شاء اللہ ۔ حکومت کے پاس اختیار ہے اور طاقت بھی ہے وہ سفارتی اور تجارتی سطح پر اقدام کر سکتے ہیں اور انہیں کرنا چاہیے ۔ ایمان والے اپنے ایمان پر ہونے کا ثبوت تو پیش کریں۔ اللہ تعالی ہمیں بھی غیرت دے، ہمارے حکمرانوں کو بھی غیرت عطا فرمائے، مسلم افواج کو بھی غیرت عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین!