اداریہ
خورشید انجم
’’رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ ‘‘
ہفت روزہ ندائے خلافت کے ہر شمارہ کے اسی ورقہ کے انتہائی دائیں طرف یہ درج ہوتا ہے۔ ’’تنظیم اسلامی کا ترجمان، نظامِ خلافت کا نقیب۔‘‘ ندائے خلافت کے اجراء کا مقصد اور غرض و غایت کیا ہے؟ اس کی تفہیم کے لیے اس کے پہلے شمارہ کے افتتاحیہ (اداریہ) جس کا عنوان ’’فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاءِ‘‘ تھا اُس سے ایک اقتباس قارئین کی خدمت میں پیش ہے:
’’واقعہ یہ ہے کہ رسائل اور جرائد سے تو بک سٹال بھرے پڑے ہیں اور ندائے خلافت کے اجراء سے ان کی تعداد میں اضافہ کرنا مقصود نہیں۔ پھر ہم بھاری بھر کم اور رنگ برنگے ہفت روزوں سے مقابلہ کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے، ہمارے پیش نظر تو محض اختصار سے اور سادگی کے ساتھ اپنی بات آپ تک پہنچانا ہے۔ یہ خوبی ہم اپنے پرچے میں پیدا کرنے اور برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگئے تو بس یہی مطلوب ہے۔ع ’’ نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا دیوے۔‘‘ الحمد للہ کہ اپنے پرچے کی یہ ظاہری بے بضاعتی ہماری کم ہمتی کی آئینہ دار نہیں بلکہ حقیقت پسندی کا اظہار ہے۔ اسلام کا سیاسی نظام یعنی خلافت ہی نہیں، ہمارے زمانے میں تو اسلام اپنی تہذیبی قدروں سمیت پورے کا پورا ہی ’’غریب‘‘ یعنی ایک اجنبی سا بن کر رہ گیا ہے اور اس کے لیے کام کر کے اپنی عاقبت سنوارنے کی خواہش رکھنے والے بھی سب ’’غرباء‘‘ ہیں… فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاءِ … لیکن اس بشارت کا مصداق بننے کے لیے ہمیں غربت شعار بننے کے علاوہ اپنی جانوں پر کھیلنا ہوگا، اپنے اوقات لگانے ہوں گے، اپنا مال کھپانا ہوگا۔ یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے۔ ہماری بات لاکھ حق سہی، ٹھنڈے پیٹوں برداشت تو نہ کی جائے گی۔ لوگ پھولوں کے ہار لیے آپ کے اور ہمارے استقبال کے لیے نہیں کھڑے ہیں، وہ تو راہوں میں کانٹے بچھانے کی تیاری کر رہے ہیں
آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہےایسے میں ہمیں تائید ایزدی ہی کی محتاجی نہیں، ایک دوسرے کے لیے دعا کی بھی ضرورت ہے۔ دعا مسلمان کا ہتھیار بھی ہے اور سب سے بڑا سہارا بھی کہ استعانت اسی سے تو کی جائے گی جس کی بندگی کا حق ادا کرنے میں ہم کوشاں ہیں۔ تو آئیے رب جلیل سے دعا کریں کہ وہ آپ کو اس وعدے کے ایفاء کی توفیق دے جو آپ نے دین کے کام میں تعاون کا کیا اور ہمیں آپ کا حوصلہ بڑھانے کے طریقے سجھائے۔ اللہ تعالیٰ ندائے خلافت سے خیر کا کام لے اور اسے کبھی کسی شر کا باعث نہ بننے دے۔ اے اللہ! ہماری دعائیں قبول فرما۔‘‘
(افتتاحیہ ندائے خلافت: جلد 1، شمارہ: 1، 21 تا 27 جنوری 1992ء، ’’فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاءِ‘‘)
آج بحمد للہ! ندائے خلافت اپنی مسلسل اشاعت کے 33 ویں سال میں قدم رکھ چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کا سفر مبارک کرے اور جاری رکھے۔ اس کا آغاز بانیٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے چھوٹے بھائی اقتدار احمد صاحب مرحوم نے کیا اور ندائے خلافت کے پہلے مدیر کے طور پر ذمہ داری سنبھالی۔ سابقہ امیر تنظیم اسلامی حافظ عاکف سعید صاحب نے ابتدائی دور میں پرچہ کے معاون مدیر کے طور پر ذمہ داری ادا کی۔ اقتدار احمد صاحب کی رحلت کے بعد انہوں نےندائے خلافت کے مدیر کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ 2002ء میں جب تنظیم اسلامی کی امارت کا بارِگراں اُن کے کندھوں پر آن پڑا تو بانیٔ تنظیم اسلامی سے مشاورت کے بعد اُن کی نظرِ انتخاب ایوب بیگ مرزا صاحب پر آکر ٹک گئی۔ ایوب بیگ مرزا صاحب پر بانیٔ تنظیم اسلامیؒ کی تحریر وتقریر اور نظریات کا اثر بہت پرانا ہے۔ آپ 1966ء میں ہی بانیٔ تنظیم اسلامیؒ کو سننے کے لیے آیا کرتے تھے۔ 1979ء میں بانیٔ تنظیم اسلامیؒ سے بیعت کرکے تنظیم اسلامی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔ بچپن ہی سے تحریر کا شوق تھا۔ 1979ء میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو آپ کا ایک تجزیہ میثاق میں شائع ہوا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً میثاق کے لیے بھی لکھتے رہے اور 1988ء میں جب اقتدار احمد صاحب مرحوم نے ’ندا‘ کی بنیاد رکھی تو آپ کی ملکی، سیاسی اور بین الاقوامی حالات پر تحریریں جریدے کی زینت بننے لگیں۔ ایوب بیگ مرزا صاحب نے تنظیم اسلامی حلقہ لاہور کی امارت کی ذمہ داری بھی ادا کی۔ آپ راوی ہیں کہ 1995ء میں جب آپ وسطی تنظیم کے امیر تھے تو ایک دن مزنگ آفس میں بانیٔ تنظیم اسلامیؒ نے پوچھا: ’’بیگ صاحب… سنا ہے آپ کچھ لکھ لیتے ہیں؟…آپ نے جواباً عرض کیا… ’’ڈاکٹر صاحب … یہ افواہ کسی دشمن نے اُڑائی ہوگی‘‘ تدریجاً یہ مکالمہ حقیقت کا روپ دھار گیا جب 2003ء میں امارت کی ذمہ داریوں کے باعث حافظ عاکف سعید صاحب نے ایوب بیگ مرزا صاحب کو ہفت روزہ ندائے خلافت کا مدیر مقرر کر دیا۔ اسی سال آپ کو مرکزی ناظم نشر و اشاعت کی ذمہ داری بھی تفویض کر دی۔ ایوب بیگ مرزا صاحب راوی ہیں کہ بانیٔ تنظیم اسلامیؒ کے ساتھ مزنگ آفس میں ہونے والی گفتگو کے دوران آپ نے اُن سے اپنے لیے خصوصی دعا کی درخواست کی کہ اللہ یہ کام میرے لیے آسان کر دے۔ اللہ والوں کی دعا کی قبولیت کے بارے میں سنا تو بہت تھا لیکن ایوب بیگ مرزا صاحب کے حق میں ان کے استاد و مربیّ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی دعا کی قبولیت کا آنکھوں دیکھا حال ناقابلِ بیان حد تک قابلِ رشک ہے۔ ڈاکٹر صاحبؒ کی کثیر الجہات شخصیت کے مختلف پہلو ان کے مختلف شاگردوں اور ساتھیوں میں نمایاں ہوئے۔ ڈاکٹر صاحبؒ کی انقلابی فکر کو جنہوں نے قبول کیا اُن میں کسی نے وعظ و نصیحت کو اپنا شعار بنایا تو کوئی شعلہ بیان مقررٹھہرا،کوئی تاریخ کااستاد بنا تو کوئی عربی زبان کا،کوئی فلسفہ و حکمت ِدین میں آگے بڑھا تو کوئی علمِ دین میں۔ لیکن آپ کی شخصیت کا ایک اعتبار سےسب سےاہم لیکن مشکل الفہم پہلو اُن کی سیاسی بصیرت کا پہلو تھا جو ایوب بیگ مرزا صاحب کے حصے میں آیا جسے ان کی اپنی ذاتی صلاحیتوں نے چار چاند لگا دیے۔ آپ کا دورِ نظامت ِ نشر و اشاعت مختلف قسم کے مشکل ادوار پر مشتمل تھا ۔جو جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء سے شروع ہوا۔ یہ دور اس کی افغان پالیسی پر تنقید کرنے والےاسلام پسندوں کے لیے مشکل ترین دور تھا۔پھر افغان جنگ ہو یا وکلا تحریک،صدر زرداری کا ’سب پر بھاری‘ دور ہو یا وزیر اعظم نواز شریف کاپانامہ ٔدور، بیگ صاحب کی حق شناسی و حق گوئی ہر ایک پر عیاں تھی۔اور بالآخر عمران خان کا ’’ہائبرڈ‘‘دور آیا جس میں آپ بلاخوف لومۃ ولائم بے لاگ تبصرے کرتے رہے اور حق گوئی کے اپنے دیرینہ مشن پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرنے والےکی مثال اولمپک مشعل بردار کی سی ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ یہ ذمہ داری دیتا ہے وہ اپنے حصہ کا کام کر کے مشعل اگلے ساتھی کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔ چنانچہ اپریل 2024ء میں امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ صاحب نے ایوب بیگ مرزا صاحب کو ملکی و ملی معاملات پر اپنا معاونِ خصوصی مقرر کر دیا اور یوں مرکزی ناظم نشر و اشاعت کی ذمہ داری کا بارِ گراں راقم کے ناتواں کندھوں پر آن پڑا۔
ناچیز کا آبائی تعلق پشاور کی ہند کو بولنے والی برادری سے ہے اور تقریباً اڑھائی سو سال سے ہمارا خاندان پشاور میں مقیم ہے۔ پشاو ر کے ایک مقامی عالم دین (سید محمد امیر شاہ قادری الگیلانی المعروف مولوی جی ) جو جمعیت العلماء پاکستان کے مرکزی نائب امیر بھی تھے، نے اپنی کتاب ’’تذکرہ حُفَّاظ ِپشاور‘‘میں اڑھائی سو سال پرانے ہمارے بزرگوں کا ذکر کیا ہے۔ گھر کا ماحول عام گھرانوں کا ساروایتی ماحول تھا۔ البتہ والدہ کا مزاج تو روایتی مذہبی ہی تھا جبکہ والد صاحب مولانا مودودی ؒسے متاثر تھےاور تفہیم القرآن کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ والد صاحب سرکاری ملازمت سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کرایک دوست کے کاروبار سے منسلک ہوگئے۔ غالباً 1978ء میں والد صاحب کاروبار کے سلسلہ میں کچھ عرصہ کے لیے لاہور منتقل ہوئے۔ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لیے میں ان کے پاس لاہور آیا تو انہوں نے ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کا تعارف کراتے ہوئے درس سننے کے لیے چلنے کا کہا۔ ہم باپ بیٹے نے مسجد شہداء میں درس قرآن سنا۔ وہاں نماز جمعہ کا اعلان ہواتوہم وہاں سے مسجد دارُالسلام باغ جناح جا پہنچے۔ یہ بانیٔ تنظیم اسلامیؒ سے راقم کا پہلا تعارف تھا۔ کالج لائف کا آغاز ہوا تو اسلامی جمعیت طلبہ سے تعارف ہوا اور جمعیت کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ وہاں پر بانیٔ تنظیم اسلامیؒ کا اس زاویہ سے بھی تعارف ہواکہ وہ اسلامی طلبہ جمعیت کے ناظم اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ بعد ازاں جب 1981ء میں بانیٔ تنظیم اسلامیؒ پشاور کے دوروزہ دورے پرتشریف لائے تو راقم نے بھی ان کے پروگرام میں شرکت کی اور مکتبہ سے کچھ کتب خریدیں۔تقریباً دو سال بعد اوائل جنوری 1983ء میں جب ڈاکٹر اسرار احمدؒ ،عبد الرزاق صاحب کے ہمراہ دوبارہ پشاور دورہ پر تشریف لائے تو راقم بھی برادرم مجاہد نسیم کے ہمراہ بیعت کرنے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ بانیٔ تنظیم اسلامیؒ نے ہمارے ساتھ کچھ گفتگو کےبعد ہم دونوں سے فرداً فرداً بیعت لے لی۔پشاور میں ایف ۔ ایس ۔سی اور گریجویشن کرنے کے بعد اسلام آباد منتقل ہوا اور کچھ عرصہ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی میں گزارنے کے بعد نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ماڈرن لینگویجز (اب یونیورسٹی) سے ایم اے عربی کیا۔ بعد ازاں پشاور یونیورسٹی سےایم ۔اے اسلامیات بھی کرلیا۔
1990ء میں اسٹیبلشمنٹ انچارج کی حیثیت سے سعودی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی برائے افغان مہاجر ین سے کام کا آغاز کیا اور ساتھ ساتھ کچھ دوسری اضافی ذمہ داریاں بھی انجام دیتا رہا۔ 2010ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران تنظیمی طور پر نقیب اسرہ اور مقامی تنظیم کے امیر کے طور پر ذمہ داریاں انجام دیں۔ 2010ء میں اس وقت کے ناظم اعلیٰ اظہر بختیار خلجی صاحب سے ملاقات کے بعد تنظیم کے ساتھ ہمہ وقتی کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے امیر حلقہ میجر فتح محمد صاحب کے ساتھ بحیثیت ناظم (نائب امیر) کام کیا اور پھر جنوری 2012ء میں امیر حلقہ کے طور پر تقرر کردیا گیا۔
17 جولائی2015ء کو ناظم تربیت محترم انجینئر حافظ نوید احمد صاحب کا انتقال ہوا تو ماہ اگست میں سابقہ امیر تنظیم محترم حافظ عاکف سعیدصاحب نے یہ ذمہ داری قبول کرنے کاتقاضا کیا۔ اپنی نااہلی اور بے بضاعتی کا ذکر کیا لیکن ایک نہ چلی۔ چنانچہ جنوری 2016ء میں لاہور منتقل ہو کر بطور ناظم تربیت کام شروع کردیا۔ اب 8 سال پرانے واقعہ کا اعادہ ہوا اور امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ صاحب نے مرکزی شعبہ نشرو اشاعت کی نظامت سنبھالنے کا تقاضاکیا۔ یہاں بھی ایک نہ چل سکی اور ذمہ داری قبول کرتے ہی بنی۔
بہر حال میں اپنی سابقہ زندگی میں نہ تو باقاعدہ قلم کا مزدور رہا ہوں نہ ہی تحریری میدان میں کبھی مستقل طبع آزمائی کی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی بے بضاعتی کا بھی کما حقہ ادراک ہے۔ پھر اپنے پیشرو جیسی سیاسی بصیرت کا بھی حامل نہیں۔ البتہ میرے لیے امید افزا اور حوصلہ کن بات یہ ہے کہ ایوب بیگ مرزا صاحب کی رہنمائی اور عملی تعاون مجھے حاصل ہے اور ان کی مشفقانہ سرپرستی کی یقین دہانی میرے لیے سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ اطمینان کا ایک اور نہایت اہم پہلو یہ بھی ہے کہ انتہائی مخلص، باصلاحیت، دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور تنظیمی تقاضوں کا شعور رکھنےوالے نیز حالات حاضرہ پر گہری نگاہ رکھنے والے ساتھیوں کی ایک مستعد جماعت کا تعاون بھی میسر ہے۔صدق دل سے یہ دعا ہے کہ ’’رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ ‘‘ کہ اے میرے پروردگار مجھ پروہ بوجھ نہ ڈالیو جس کی مجھ میں طاقت نہ ہو۔ قارئین سے بھی گزارش ہے کہ وہ میرے لیے دعا کریں کہ میں اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھا سکوں۔؎
میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گُہر کی آبرو
میں ہوں خزف تو تُو مجھے گوہرِ شاہوار کر!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024