الہدیٰ
حضرت موسیٰ ؑ کا مدین کی طرف سفر
آیت 22{وَلَمَّا تَوَجَّہَ تِلْقَآئَ مَدْیَنَ } ’’اور جب اُس نے مدین کی طرف رخ کیا‘‘
نقشے پر دیکھیں تو مصر جزیرہ نمائے سینا کے ایک طرف ہے جبکہ مدین کا علاقہ اس کے دوسری طرف واقع ہے۔ گویا مصر سے مدین جانے کے لیے آپؑ کو پورا صحرائے سینا عبور کرنا تھا۔آپؑ نے مدین جانے کا عزم اس لیے کیا کہ یہ علاقہ فرعون کی سلطنت سے باہر تھا۔
{قَالَ عَسٰی رَبِّیْٓ اَنْ یَّہْدِیَنِیْ سَوَآئَ السَّبِیْلِ(22)} ’’اُس نے کہا: اُمید ہے میرا رب سیدھے راستے کی طرف میری راہنمائی کر ے گا۔‘‘
یعنی اس لق و دق صحرا میں سفر کرتے ہوئے میرا رب مسلسل میری راہنمائی کرتا رہے گا اور اس طرح میں راستہ بھٹکنے سے بچا رہوں گا۔ظاہر ہے کہ ایک وسیع و عریض صحرا میں راستہ بھٹک جانے والے مسافر کا انجام تو ہلاکت ہی ہو سکتا ہے۔
آیت 23{وَلَمَّا وَرَدَ مَآئَ مَدْیَنَ} ’’اور جب وہ مدین کے کنویں پر پہنچا ‘‘
یہ کٹھن اور طویل سفر طے کرنے میں کتنا عرصہ لگا ہو گااور اس دوران آپؑ کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا‘اس سب کچھ کا ذکر چھوڑ دیا گیا ہے اور اب بات وہاں سے شروع ہو رہی ہے جب آپؑ مدین کے کنویں پر پہنچ گئے:
{وَجَدَ عَلَیْہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ ز} ’’اُس نے اس پر لوگوں کے ایک گروہ کو (اپنے جانوروں کو) پانی پلاتے ہوئے پایا۔‘‘
آپؑ نے دیکھا کہ کنویں پر لوگوں کا ہجوم تھا اور وہ کنویں سے پانی نکال نکال کر اپنے جانوروں کو پلا رہے تھے۔
{وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِہِمُ امْرَاَتَیْنِ تَذُوْدٰنِ ج } ’’اور اُس نے ان سے الگ دو عورتوں کو دیکھا جو (اپنے جانوروں کو) روکے کھڑی تھیں۔‘‘
ان عورتوں کی بکریاں پیاس کی وجہ سے پانی کی طرف جانے کے لیے بے تاب تھیں لیکن وہ ہجوم چھٹ جانے کے انتظار میں انہیں روکے کھڑی تھیں۔
{قَالَ مَا خَطْبُکُمَاط} ’’اُس نے کہا:آپ دونوں کا کیا معاملہ ہے؟‘‘
حضرت موسیٰؑ نے ان سے پوچھا کہ آپ اپنی بکریوں کو ایک طرف کیوں روکے کھڑی ہیں اور انہیں پانی کی طرف کیوں نہیں جانے دیتیں؟
{قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتّٰی یُصْدِرَ الرِّعَآئُ سکۃ} ’’انہوں نے کہاکہ ہم (اپنے جانوروں کو) پانی نہیں پلا سکتیں جب تک تمام چرواہے (اپنے جانور) نکال نہ لے جائیں‘‘
جب یہ تمام چرواہے اپنے اپنے جانوروں کو پانی پلا کر چلے جاتے ہیں تو اس کے بعد ہی ہم اپنے جانوروں کو پانی پلا سکتی ہیں۔
{وَاَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ(23)} ’’اور ہمارے والد بہت زیادہ بوڑھے ہیں۔‘‘
یعنی اصل میں تو یہ مَردوں کے کرنے کا کام ہے مگر ہمارے والد بہت بوڑھے ہیں‘گھر میں کوئی اور مرد ہے نہیں‘چنانچہ مجبوراً ہم لڑکیوں کو ہی بکریاں چرانا پڑتی ہیں۔ باقی سب چرواہے مرد ہیں ‘ہم ان کے ساتھ لڑ جھگڑ کر پانی پلانے کی باری نہیں لے سکتیں۔ چنانچہ ہم ان کے جانے کا انتظار کرتی ہیں اور ان سب کے چلے جانے کے بعد اپنی بکریوں کو پانی پلاتے ہیں۔
درس حدیث
مل کر کھانے میں برکت ہے
عَنْ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ ((یَقُوْلُ طَعَامُ الْوَاحِدِ یَکْفِی الْاِثْنَیْنِ وَطَعَامُ الْاِثْنَیْنِ یَکْفِی الْاَرْبَعَۃَ وَ طَعَامُ الْاَرْبَعَۃِ یَکْفِی الثَّمَانِیَۃٍ)) (رواہ مسلم)
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرماتے تھے: ’’ایک کا کھانا دو کے لیے کافی ہو جاتا ہے، اور دو کا کھانا چار کے لیے اور اسی طرح چار کا کھانا آٹھ کے لئے کافی ہو جاتا ہے۔‘‘
tanzeemdigitallibrary.com © 2024