(حالاتِ حاضرہ) ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ - ادارہ

10 /

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

پروفیسر یوسف عرفان

اسرائیل سے غزہ فتح نہ ہوسکا مگر اس نے محاذ جنگ کو پھیلا دیا ہے۔ آگے دوڑ ،پیچھے چھوڑ،یعنی اسرائیل سے اپنے قریبی علاقے زیر نہیں ہورہے مگراس نےا پنے حلیف یا پالتو دوست ممالک ( اعلانیہ اور غیر اعلانیہ دشمن نما دوست) کے ساتھ ساز باز کرکے دو رمار جنگی درندگی بڑھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ایران اسرائیل میزائل بازی نے اسرائیل کو پاک ایران سرحد تک جنگی کارروائی کا جواز فراہم کردیا۔ اللہ خیر کرے۔ ہندو بھارت اسرائیل کا دوسرا گھر ہے۔بھارت کے اندر ’’ہند وتوا مہم‘‘ اور ’’کشمیر پالیسی‘‘کا اصل کارساز اور کرتا دھرتا اسرائیلی صہیونی ریاست ہے۔ دریں صورت،’’بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ‘‘ نے بھارت کو خطے میں اسرائیل کا تھانیدار بنادیا ہے۔ نیز’’ بہاولپور فضائی سازش 17 اگست 1988ء کے بعد اسرائیلی افواج نے مقبوضہ کشمیر میںڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ موجودہ بھارتی وزیر اعظم اور سابق وزیراعلیٰ بھارتی گجرات نریندر مودی نے سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کا قتلِ عام (22 فروری 2002ء میں) کیا۔ 06 دسمبر1992ء میں بابری مسجد گرائی گئی۔ا س مسجد میں صدیوں سے باجماعت پنجگانہ نماز ادا کی جاتی تھی۔ آج بابری مسجد کی جگہ فرضی دیوتا کا رام مندر (22 جنوری 2024ء) بنا دیا گیا ہے۔ فی الحقیقت اس وقت ’’ بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ ‘‘ نے پاکستان کے معاشی، معاشرتی ، اندرونی ، بیرونی حالات اور نظریاتی سرحدوں کو ہر طرف سے گھیر رکھا ہے۔ علاوہ ازیں امریکہ و اتحادی قوتیں اور ادارے افغانستان کی طرح پاکستان کے اندر بھی مخلوط ،  وسیع البنیاد اور کمزور سرکار سازی میں کامیاب رہتے ہیں۔ 
امریکہ نے ریمنڈ ایلن ڈیوس(سانحہ لاہور 27 جنوری 2011ء) کی 46 روزہ اسیری کے وقت سرکاری طورپر اعلان کیا تھا کہ ہمارا (امریکہ و اتحادی ممالک) پاکستان کے اندر انٹیلی جنس نیٹ ورک آپریشنل مکمل ہو چکا ہے۔ اب ہمیں پاکستان کے اندر مرضی کی محاذ آرائی اور کارروائی کرنے کے لیے فوج اور ISI کو قبل از وقت اعتماد میں لینے یا مدد حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب ہم پاکستان میں اپنی مرضی سے جب ، جہاں اورجیسے چاہیں کام کرسکتے ہیں۔ تقریباً یہی کیفیت بھارتی نیٹ ورک کی پاکستان کے اندر ہے جیسا کہ بھارتی وزیراعظم مودی نے پاکستان کے اندر ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ علیحدگی پسند مسلح گروہوں کی دامے درہمےسخنے مدد کرنے کا سرکاری اعلان جاری کررکھا ہے۔ پورے پاکستان میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں خواتین و مرد اور بچوں کا قتل عام معمول بن گیا ہے۔ قتل و غارت اور جرائم میں روز افزوں اضافہ ہے۔ 
بھارتی دہشت گرد سربجیت سنگھ (1983 تا مئی 2013ء) نے پاکستان سینکڑوں مسلم شہریوں کو قتل کیا اور رنگے ہاتھوں گرفتار ہوا۔ اس وقت کراچی کی نام نہاد پاک بھارت خیر سگالی این جی او کے سربراہ نے بھارتی قیدی شمشیر سنگھ کی رہائی کا بندوبست کیا۔آصف علی زرداری کے پہلے دور صدارت میں سربجیت سنگھ کی رہائی کا صدارتی پروانہ جاری ہو چکا تھا۔ سربجیت سنگھ کو دو روز بعد بھارت لوٹنا تھا۔ سربجیت سنگھ کا پریوار،ماں ،بہن ،بیوی ، بچے لاہور پہنچ چکے تھے۔ پاکستانی میڈیا نے سربجیت سنگھ کی مظلومیت اور پریوار /فیملی کی خوشی کے شادیانے بجا رکھے تھے۔غالباً رہائی سے دودن پہلے کوٹ لکھپت جیل لاہور کے قیدی عامر تانیا(عامر سرفراز) نے قومی غیرت کے تحت سربجیت سنگھ کو جیل میں مار (02 مئی 2013ء) دیا۔ اب بھارت کی رسوائے زمانہ سرکاری دہشت گرد تنظیم ’’را‘‘ RAW نے پنجاب سیکرٹریٹ لاہور کے عقب میں واقع بستی اسلام پورہ (سابق کرشن نگر) میں رہائش پذیر عامر سرفراز کوگھر میں گھس کر ماردیا (15 اپریل 2015ء)  ۔۔۔۔ نوبت ایں جارسید۔
       بدقسمتی سے اس وقت پاک ایران اور افغان سرحدوں پر بھارتی دہشت گردی کے مراکز، ہیڈکوارٹرز 
سرگرم ہیں۔ ہزاروںپاکستانی مسلمان شہریوں کا قاتل اور بھارتی دہشت گرد حاضر سروس بحری فوجی افسر کلبھوشن یادیو کو پاکستانی صوبہ بلوچستان سے 2016ء میں رنگے ہاتھ گرفتار کیا گیا۔ کلبھوشن یادیو ایرانی بلوچستان کی سرزمین ہیڈ کوارٹر بنا کر پاکستان میں دہشت گردی کرتا تھا۔ بی ایل اے کی دہشت گردی کا مرکز بھی پاک ایران اور افغان سرحدی علاقے ہیں۔بھارت نے اپنے عالمی اتحادیوں اور ان کے خفیہ اداروں کی مدد سے نام نہاد ’’آزادپختون ریاست‘‘ کے قیام کی مہم بھی تیز تر کررکھی ہے۔ البتہ پاکستان کی ایرانی ،افغانی ،کشمیری اور بھارتی سرحدوں پر اسرائیل بالواسطہ اور بلاواسطہ پہلے ہی موجود ہے۔ علاوہ ازیں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام UNDP کے تحت ہونے والے حالیہ الیکشن نتائج میں پاکستان کی جغرافیائی شکست وریخت کے سیاسی خدوخال کو پروان چڑھایا ہے۔دریں تناظر ایران پاکستان کے اندر بھارتی دہشت گردی کا ذریعہ رہا ہے۔ جبکہ ایران، امریکہ و اسرائیل گٹھ جوڑ کی حقیقت اس امر سے مزید واضح ہو جاتی ہے کہ ایران نے شام میں اسرائیلی بمباری سے برباد ہونےو الے ایرانی قونصل خانے کا انتقام حسبِ بیان اس طرح لیا کہ امریکہ و اسرائیل کی ریاستی انتظامیہ کو قبل از وقت اعتماد میںلیا اور بعدا زاں اسرائیل پر خالی میزائل (بارود اور وارہیڈ کے بغیر) داغ دیئے۔ جس کے رد عمل میں اسرائیل نے ایرانی شہر اصفہان پر ’’ محتاط میزائل بازی ‘‘ کا مظاہرہ کیا۔مگر اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ ایران اسرائیل میزائل بازی کے شو کے بعد پاکستان کی ناکہ بندی کا امکان بڑھ گیا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ایرانی صدرا براہیم رئیسی کا والہانہ دورہ پاکستان کو عالمی و علاقائی سطح پر ایران کا سٹرٹیجک پارٹنر بنا کر پیش کر ےگا ۔ جبکہ ایران( شاہ اور خمینی) قبل اور بعدازانقلاب بھارت کا دوست رہا ہے۔ حتیٰ کہ خمینی کے دور میں رفسنجانی امریکی و اسرائیلی اسلحہ کی ترسیل بذریعہ بھارت وصول کرنے کا ذمہ دار تھا۔ ایران یہ اسلحہ عراق کے صدر صدام حسین کے خلاف استعمال کرتا تھا۔ ایران کے اسرائیل اور امریکہ سے تعلقات یار وابط کا یہ پہلو در پردہ یا عالمی سرکاری میڈیا سے اخفا میں رکھنے کی کسی حد تک کامیاب کوشش کی جاتی تھی۔ یاد رہے کہ عراق ایران جنگ سے قبل اسرائیل نے ’’ایرانی فرمائش‘‘ پر عراقی جوہری تنصیبات / پلانٹ فضائی بمباری میں برباد کردیا تھا۔ ایران کی’’ منافقانہ خواہش‘‘ تھی کہ پاکستان کی ضیاء الحق انتظامیہ اسرائیلی و امریکی اسلحہ کی خفیہ ترسیل کا ذریعہ بنے۔ضیاء الحق کے انکار کے بعد یہ’’ در پردہ کردار‘‘ پاکستان اور عالم اسلام کے ازلی دشمن ہندو بھارت نے اداکیااور پاکستان کی غیر جانبدار مصالحانہ ثالثی کو رد کردیا اور جب ضیاء الحق کا جہاز ایرانی دعوت پر ایران ائیر پورٹ پہنچا تو خمینی انتظامیہ نے نہ صر ف استقبال سے انکار کیا بلکہ ایران ائیر پورٹ کی جملہ لائٹ بھی آف کردیں اور نعرہ لگا یا کہ ’’سگِ امریکائی ، چہ کار آمدہ ای‘‘ مگر ضیاء الحق نے غیرجانبدار ثالثی کردار سے کبھی دستبرداری اختیار نہیں کی۔ البتہ ایران نے ’’ انقلاب ایکسپورٹ ‘‘ کرنے کی عملاً کوشش کی اور اپنی مؤثر لابی کے ذریعے وفاقی سیکرٹریٹ تقریباً 3 دن معطل رکھا ہے۔نیز اس دوران رفسنجانی نے بار بار کہا اور اخبار’’کہیان‘‘ کے اداریوں میں لکھا کہ بھارت کا دشمن ایران کا دشمن بھی ہے۔ ایران عراق جنگ (88-1980ء) کے دوران ایران در پردہ امریکہ و اسرائیل کا ’’ دشمن نما دوست‘‘ رہا اور ہمہ نوعی امداد اور حمایت حاصل کرتا رہا۔ جب اس ’’در پردہ منافقانہ امداد‘‘ کا امریکی عوام کو علم ہوا تو امریکی صدر رونالڈریگن(1980-89)کے خلاف عوام نے عدالت کے دروازے پر دستک دی اور مشہور Centra Affair  مقدمہ کئی سال ( ریگن کی صدارت کے بعد بھی) چلتا رہا۔پاکستان میں اسلامائزیشن کے خلاف عالمی و علاقائی اتحادی قوتوں نے ’’ ایرانی لابی‘‘ کے ذریعے مؤثر ترین عملی کردار ادا کیا۔
قصہ مختصر کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے موجودہ والہانہ اور تفصیلی دورے سے بھی پاک ایران تلخی بڑھ گئی جب صدر ابراہیم رئیسی کی مرضی سے پاکستانی بلوچستان پر بلااشتعال بارود سے بھرے(وار ہیڈ) میزائل داغے گئے۔ یہ ایرانی میزائل’’حملہ‘‘ امریکہ ، اسرائیل اور بھارتی فرمائش پر کیا گیا تھا تا کہ’’ ناپسندیدہ آرمی چیف‘‘ کی نیت، صحت اور پالیسی کا پتہ چلے کہ یہ جوابی کارروائی کرے گا یا سرنگوں ہو کر کہے گا کہ پاکستانی ہتھیاروں کو زنگ لگ چکا ہے۔ فوج امن چاہتی ہے اور امریکہ سے اپیل ہے کہ وہ خطے میں امن کے لیے کوشش مزید تیز کردے ۔ مگر معاملہ الٹ نکلا چیف نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا جواب بھرپور میزائل باری سے دیا اور ایران میں بھارتی دہشت گردی کا بڑا مرکز ختم کردیا۔ اب ابھی نندن کو چائے پلا کر ’’ امن کی خاطر‘‘ واپس بھارت نہیں بھیجا جائےگا امن کی آشا جنگی تیاری یا بھرپور جواب سے پروان چڑھائی جائے گی جیسا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا فرمان ہے کہ ’’اگر امن چاہتے ہو تو جنگ کے لیے تیار رہو۔‘‘ اگر ایران کی سرزمین پر بھارتی دہشت گردی کے ہیڈ کوارٹر پر جوابی فضائی کارروائی نہ ہوتی تو ایرانی صدر کے والہانہ دورے کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔ 
ایرانی سرزمین کے بعد افغان سرزمین سے بھارتی دہشت گردی روکنے کے لیے پاکستان نے میزائل حملے میں بھارتی اڈا ختم کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’ ناپسندیدہ چیف‘‘ نے ایران اورافغانستان کو براہ راست اور بھارت کو بالواسطہ جواب دیا جس سے امریکہ و اسرائیل اور عالمی اتحادی طاقتوں اور اداروں کے کان کھڑے ہوگئے اور اب دنیا مکمل تیاری ،منصوبہ بندی اور جنگی حکمتِ عملی کے ساتھ ساز باز کرکے کارروائی کرے گی ۔ا ب پاکستان کے اندر بیرونی تانے بانے تروتازہ کیے جارہے ہیں ۔ا س وقت پاکستان اندرونی انتشار اور افتراق کے ساتھ ساتھ بیرونی سازشوں کے مہیب گرداب میں پھنسا ہوا ہے ۔ دریں تناظر اسرائیل کو اپنے جوہری، جہادی اور نظریاتی دشمن پاکستان کے خلاف بھرپور مہم جوئی کی ضرورت پیش آرہی ہے اور یہ سب ا سرائیل کے جنگی عزائم کا شاخسانہ ہے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا والہانہ تفصیلی (کسی حد تک عوامی بھی ) دورہ خطے میںمزید کشیدگی کا باعث بنے گا ۔ پاکستان کو جوہری قوت بنانے والےغیرت مند پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جملہ مصائب اور قید وبند کے مسائل کا سبب سابق ایرانی صدر احمدی نژاد تھا۔ جس نے ڈاکٹر اے۔ کیو۔ خان پر لگائے گئے امریکی ، عالمی الزامات کی تصدیقی بیانات سے توثیق کی تھی۔ جس کے نتیجے میں پاکستانی کمانڈر جنرل مگر ایرانی و قادیانی حلیف صدر پرویز مشرف نے امریکی جہاز اسلام آباد ائیرپورٹ پر بلا لیا تاکہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو عالمی مجرم قرار دے کر امریکہ کے حوالے کردیا جائے۔ اللہ بھلا کرے چودھری شجاعت حسین اور ظفرا للہ جمالی (سابق وزرائے اعظم) کا جو محب وطن نیشنلسٹ عوام اور احباب کی مضبوط آواز بن گئے اور جنرل پرویز مشرف کو انٹرنیشنلسٹ ہیرو بننے سے باز رکھا۔ علاوہ ازیں پاکستان عرصہ دراز سے سعودی عرب کا حلیف رہا ہے۔ نیز سعودی عرب نے پاکستانی مسائل کو سلجھانے کے لیے دامے ، درہمے، سخنے مدد کی مگر جب ایران اور امریکہ کے امدادی اور حمایت یافتہ یمنی حوثیوں نے سعودی ریاست کا ناطقہ بند کردیا تھا تو سعودی عرب نے اپنے جوہری، جہادی حلیف پاکستان کی طرف دیکھا اور پاکستان کی پارلیمان نے  ریاستی دفاعی معاہدے کی پیروی کی بجائے غیر یقینی طور پر غیرجانبدار خاموش تماشائی بننے کو ترجیح دی ۔ یادرہے کہ اس وقت وزیراعظم محمد نواز شریف تھے۔ جو ریاستی حلیف ہونے کے ساتھ سعودی حکمرانوں کے ذاتی اور قریبی دوست بھی تھے۔ مگرا یرانی پارلیمانی ، سیاسی اور میڈیائی لابی نے پاکستان اور وزیرا عظم نواز شریف کو بے بس کرکے رکھ دیا تھا۔ نتیجتاً سعودی عرب علاقائی اور عالمی معاملات میں  تنہائی کا شکار ہو کر رہ گیا۔ ایک طرف یمنی حوثی اور دوسری طرف صہیونی اسرائیل تھا۔ دریں صورت سعودی عرب زیادہ دیر’’تنہا‘‘ نہیں رہ سکتا تھا۔ سعودی حکام نے دفاعی امور کے حوالے سے اس روس کا دورہ کیا جس کو افغان جہادکے باعث جغرافیائی شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 
افغان جہاد کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے پاکستان کے اصولی ،اخلاقی اور انسانی مؤقف کی عملی ، مالی اور اخلاقی حمایت کی تھی ۔ سعودی عرب روس سے مایوس ہوا اور بالآخر دفاعی معاملات میں اسرائیل کے اعلانیہ سرپرست امریکہ کی جھولی میں جا گرا اور اس طرح مصری غاصب جنرل السیسی کی طرح سعودی عرب میں امریکہ واسرائیل نواز ولی عہدمحمد بن سلمان کی  راہ ہموار کی گئی۔ یاد رہے کہ مصری صدر جنرل السیسی کی ماں یہودی ہے۔اس مذکورہ صورتحال کے پس منظر میں پاکستان میں ایرانی پارلیمانی لابی کا بظاہر معمولی اور بے ضرر اقدام تھا مگر اس کی باز گشت نے عالمی بساط کو الٹ پلٹ کردیا ۔ لہٰذا پاک ایران معاملات کو عمیق مطالعاتی جائزے میں پرکھنے کی ضرورت ہے۔ تفکر، تحمل اور تدبر درکار ہے ۔ ہوش مندی اور ہمہ تن بیداری کی ضرورت ہے۔ وگرنہ ایرانی پالیسی کا ہدف دورمار ہے۔ زخم کاری اور جان لیوا ہوسکتا ہے لہٰذا ہرقدم پھونک پھونک کر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ایرانی پالیسی کا خیر کجا من نمائدا کجامی زند۔ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔ واللہ اعلم بالصواب