کیا سماں ہے یہ کیا تماشا!
عامرہ احسان
دنیا پر بلاشرکت غیرے مغربی طاقتوں کی حکمرانی پر اگرچہ ایک ضرب افغانستان میں 31اگست 2021ء میں لگی۔ مگر مغربی میڈیا بشمول سوشل میڈیا، تھنک ٹینکوں کی جادوگری، عسکری برتری سے بڑھ کر مؤثر ہے۔ گلوب بھر کے دل دماغوں کا دھیان ہٹا دیا گیا۔ طالبان کا افغانستان یوں بھی دنیا کے لیے ایک معمہ تھا سمجھنے کا نہ سمجھانے کا! دہشت گردی کا ہوّا، عورت کی آزادی پر پورے میڈیا کی اٹھتی لکھوکھا انگلیوں نے دل دماغ پر جالے تان دیے۔ حقائق کا مکمل بلیک آؤٹ رہا۔ یہ دنیا شاید مغربی ساحروں کی بجائی جاتی بین پر یونہی جھومتی رہتی کہ دنیا کے وسط میں طوفان الاقصیٰ برپا ہوگیا! اور پھر چل سو چل۔ اسرائیلی اخبار ’ہیرٹز‘ (8اکتوبر 2023ء) کے مطابق اس حملے میں 700اسرائیلی مارے گئے۔ 130شہری اور فوجی یرغمال بنے۔ یہ تعداد اب 1139 اسرائیلی اموات کے مقابل 34ہزار فلسطینیوں کی شہادت تک جا پہنچی ہے۔ 20اپریل کی UNRWA رپورٹ کے مطابق غزہ میں ہر 10منٹ پر ایک بچہ مارا جاتا ہے۔ زخمی اس کے علاوہ ہیں۔ (مرنے والوں میں دوتہائی عورتیں اور بچے ہیں۔) سو یہ جنگ نہیں ہے جو فوجوں کے مابین لڑی جاتی ہے۔ صرف بمباری اور ٹینکوں سے رہائشی علاقوں میں عمارات، ہسپتال، اسکول، بیکریاں، خوراک کے ذخائر، باغات بستیاں تباہ کی گئی ہیں۔ یہ ’جنگ‘ جدید تاریخ میں ہونے والی ایسی ہولناک درندگی پر مبنی ہے جس پر پوری دنیا تھرا اٹھی۔ اس کی مکمل ذمہ داری مذکورہ بالا مغربی طاقتوں کے اکٹھ پر عائد ہوتی ہے۔ تمام خوبصورت بین الاقوامی اصطلاحوں کے پرخچے اڑ گئے۔ جمہوریت، انسانی حقوق، بچوں کا تحفظ (چائلڈ لیبر پر ہنگامہ کرنے والے، چڑیوں کی طرح بچوں کا شکار کر رہے اور بھوک سے ترسا تڑپا کر مار رہے ہیں!) جنیوا کنونشنز، جنگی جرائم سب کا جنازہ اٹھ گیا۔ عورت کی تعلیم کے نام پر افغانستان کو مطعون کرنے، دیوار سے لگانے والوں نے یہاں عورت کی تکابوٹی کر ڈالی۔ حاملہ خواتین 60ہزار کی تعداد میں رُل گئیں۔ نوجوان دنیا بھر میں بپھر کر اٹھے۔ مناظر ہی ایسے تھے۔ ایک یہی دیکھ لیجیے: ایک بچہ اپنے سینے سے ایک بیگ لگاکر اٹھائے ہوئے ڈاکٹر خاتون کو اشارہ کرتا ہے اس کی طرف۔ بیگ سے خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ ڈاکٹر پریشان ہوکر پوچھتی ہے: اس میں کیا ہے؟ بچہ جو چہرے پر زخموں کے نشان لیے کسی ملبے سے نکل کر آ رہا ہے کہتا ہے: اس میں میرا شہید منا بھائی احمد ہے۔ میں اسے لے آیا ہوں! ڈاکٹر سُن رہ جاتی ہے۔ ناقابل یقین! ناقابل فراموش! بے بس محبت! والہانہ رستے ہوئے خون کا رشتہ! ایسے لامنتہا تڑپا دینے والے مناظر نے انسانوں کو ہلا مارا۔ امریکی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں ہٹ دھرم بغاوت کے مناظر ہیں۔ غزہ میں اعلیٰ ترین انسانی کردار کی عظمت جس نے دنیا کو غزہ کی محبت میں دیوانہ کردیا۔ دوسری طرف ظلم وجبر کے کردار، امریکا، برطانیہ، فرانس، کینیڈا سبھی بڑے مغربی ممالک کے خونخواروں کی اسرائیل پرستی اور انسانیت کے خلاف ہولناک جنگی جرائم پر نفرت کی لہر ایسی اٹھی کہ میڈیا کی توجہ ہٹانے، حقائق چھپانے کی ہر کوشش ناکام ٹھہری۔ کویتی ڈاکٹر غزہ سے لوٹ کر دنیا کو بتا رہا ہے کہ وہاں صرف ایک چیز کی فراوانی ہے، موت! ہر قسم کی موت! حتیٰ کہ فضائی غذائی امداد نے انسانوں پر گر کر بھی موت برسا دی! ان کے پاس صرف اللہ کا سہارا ہے۔ بدترین بلاؤں میں گھرے، انہیں تو ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنا چاہیے تھا۔ مگر وہ؟ ایک دوسرے پر جان چھڑکتے، ایثار کے پیکر ہیں۔ مسکراہٹ سے آپ کا استقبال کرتے، ہاتھ نہیں پھیلاتے! اتنا غنا؟ اتنی غیرت؟ بس انہیں بیان کرنے کو ایک جملہ ہے: ’بدترین حالات میں اخلاق کی بلندیوں پر اعلیٰ ترین اشرف ترین کردار۔!‘ ’احسنِ تقویم، بمقابلہ ’اسفل سافلین‘! اعلیٰ ترین تعلیمی اسناد، چاند،مریخ کے فاتح مغربی۔ برسرِزمین خنزیر اور بھیڑیے بھی جن کے کردار، وحشت ودرندگی کی بدبو سے اب منہ چھپالیں۔ دنیا نے انہیں جان پہچان کر وہ طوفان برپا کردیا کہ 6ماہ میں ریکارڈ توڑ تحریک نے عظیم مظاہروں سے سب کو لرزا دیا۔ 5لاکھ کا مارچ واشنگٹن میں۔ کینیڈا کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ۔ برطانیہ میں کئی مارچ 10لاکھ سے زیادہ۔ یعنی اس سیارے کی مخلوق بھاری اکثریت میں فلسطین کے حق میں کھڑی ہوگئی۔ میڈیا کے ہاتھ سے بازی چھن گئی! بائیڈن کے انتخاب کے لیے خطرے کی گھنٹی بج اٹھی۔ لالے پڑ گئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ریکارڈ توڑ درجے میں ریٹنگ گر گئی۔ نیتن یاہو پر خوف کے دورے پڑے کہ: ’یہ سیاسی دباؤ ہماری اسلحہ سپلائی روک دے گا! ہمیں مقابلے میں دباؤ کی صورت نکالنی ہوگی!‘ اسی کے لیے یہ ملی بھگت حملے ہوئے۔ اتوار 14اپریل کو ایران نے کراماتی حملہ کیا کہ 300ڈرون میزائل مارے اسرائیل پر، مگر مالی، جانی نقصان کے بغیر! تم حملہ کرو ہو کہ کرامات کرو ہو! عسکری ماہرین نے اسے رضائے باہمی سے طے شدہ قرار دیا صرف شہ سرخیاں لگانے کو۔ دھوم دھڑکا میڈیا کی مہربانی سے خوب رہا۔ ملٹری آتش بازی ٹھا، ڈز۔ زوں۔ شوں! سائرن بج رہے ہیں۔ زبردست صوتی اثرات۔ پورا خطہ آگ کی لپیٹ میں آنے کے خدشات۔ چیختی چلاتی خبریں۔ نیتن یاہو کا ڈراما: ’دنیا یک زبان ہوکر ایران کو لازماً روکے‘، ’ایران پورے عالم کے لیے ایک خطرہ ہے!‘ چنانچہ حسب فرمائش برطانوی ہندو وزیراعظم: ’اسرائیل کی سیکورٹی کے لیے برطانیہ کھڑا ہوگا‘، نوعیت کے بیانات اسرائیل کے مغربی سرپرستوں نے فوری داغ دیے۔ تین دن بعد امریکا نے (الجزیرہ رپورٹ) ایران سے رابطہ کرکے کہا کہ اسرائیل کو اپنی عزت، ساکھ بچانے کے لیے ایک ’علامتی‘ حملہ کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ خاموش سفارت کاری کے نتیجے میں اسرائیل نے اصفہان پر (ایران جیسا ہی) بے ضرر حملہ کردیا۔ باقی تاثر طے شدہ پالیسیوں کے مطابق عالمی میڈیا نے دے کر ایک مناسب وقت اسرائیل کو دے دیا جس میں دنیا میں بڑھتی ہوئی اسرائیل مخالف لہر کو افاقہ ہو جائے، بریک مل جائے، دھیان بٹ جائے۔ سو تبادلۂ خیالات، گفت وشنید کی طرح یہ اسرائیل ایران مابین تبادلۂ ڈرون میزائل تھا اور بس! سب ٹائیں ٹائیں فش! اس دوران جب میڈیا نے ایران اسرائیل ہوّا کھڑا کیے رکھا، اسرائیل نے غزہ میں خوفناک تباہی مچائے رکھی جو بلیک آؤٹ ہوگئی نئے افسانے کے پیچھے! اسکول کے کھیل کے میدان میں 7بچے مار ڈالے۔ خان یونس میں ہسپتال سے اجتماعی قبر سے 190لاشیں ملیں۔ ایک مردہ حاملہ عورت کی بچی کو زندہ بچا لیا گیا۔ پیدائشی یتیم! ماں باپ دونوں رفح میں حملے میں شہید ہوگئے۔ مزید 18لوگ بھی اسرائیل نے رات کو شکار کیے۔ جسے عسکری ٹارگٹ کہا وہاں سب عورتیں بچے تھے۔ گویا اسرائیل ایران باہمی حملوں سے نیتن یاہو مزید متشدد اور پراعتماد ہوکر نکلا ہے۔ امریکا نے اسی ہنگامے میں نہایت پراعتماد ہوکر مزید 26ارب ڈالر کی فنڈنگ اسرائیل کے لیے پاس کردی!
اسی دوران مغربی میڈیا میں عوام کی ذہن سازی کے لیے صحافیوں کو دی گئی ہدایات پر مبنی ایک دستاویز لیک ہوگئی۔ نیویارک ٹائمز ودیگر کے مدیران نے غزہ کی جنگ میں نشریات/ خبر سازی میں الفاظ کا چناؤ سکھایا۔ اسرائیل کے لیے نرم الفاظ کا انتخاب اور حماس کے لیے تیز وتند اصطلاحات کی تربیت دی گئی۔ چنانچہ نیویارک ٹائمز نے اسرائیلی اموات کو ’قتلِ عام‘ 53مرتبہ لکھا۔ جبکہ غزہ کی بے پناہ اموات پر یہ صرف ایک مرتبہ لکھا گیا! ’ذبیحہ‘ کا لفظ 22مرتبہ اسرائیل کے لیے اور ایک مرتبہ غزہ کے لیے! نیز یہ بھی کہ ’فلسطین‘ اور ’مقبوضہ علاقہ‘ بھی نہ لکھا جائے۔ ’مہاجر کیمپ‘ بھی ممنوعہ الفاظ میں شامل ہے جبکہ یہ یو این کی اصطلاح ہے، بے دخل فلسطینیوں کے لیے۔ لفظ ’دہشت گردی‘ کا استعمال 7اکتوبر کے لیے کیا جائے۔ (35ہزار کے قاتل درندوں کے لیے نہیں!) ’نسل کشی‘ اور ’نسلی صفایا‘ چونکہ بین الاقوامی قانون کی زبان اور جنگی جرم ہے اس لیے اخبارات اسرائیل کے لیے یہ اصطلاح استعمال نہ کریں! میڈیا سے ذہن سازی کی کامیابی دیکھنی ہو تو گزشتہ 22سالوں میں ٹاک شوز، میڈیا سے تیار شدہ مسحور، بے نور، بے جہت پاکستانی عوام کی ژولیدہ فکری نمونہ ہے! فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے جبکہ ہماری رگِ جاں فرنگ کے مالیاتی، نظریاتی، میڈیائی، تعلیمی قبضہ گیر استحصال کا شکار ہے!
میں کس سے پوچھوں، کسے پکاروں
یہ کیا سماں ہے؟ یہ کیا تماشا؟
tanzeemdigitallibrary.com © 2024