(زمانہ گواہ ہے) اسرائیل پر ایرانی حملہ: توقعات و خدشات - محمد رفیق چودھری

10 /

مسجد اقصیٰ کی حرمت تمام مسلمانوں کے لیے یکساں طور پر اہمیت کی

حامل ہے ، یہ بہترین موقع ہے کہ تمام مسلم ممالک ون پوائنٹ ایجنڈے پر

اکٹھے ہوجائیں کہ ہم نے مسجد اقصیٰ کی حفاظت کرنی ہے :رضاء الحق

ایرانی حملے سے نتین یاہو کو یہ کہنے کا موقع مل سکتا ہے کہ اسرائیل

ظالم نہیں بلکہ مظلوم ہے :ڈاکٹر حسن صدیق

امریکہ اور یورپ کی اسرائیل کی بے جا حمایت اور سپورٹ سے عالمی

امن کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے : برگیڈئیر (ر) جاوید احمد

اسرائیل پر ایرانی حملہ: توقعات و خدشات کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: اسرائیل پر ایرانی حملے کے بعد ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کا حملہ کامیاب تھا اور 50 فیصد اہداف اس نے پورے کیے ہیں جبکہ اسرائیل کا دعویٰ ہے اس نے 99 فیصد ایرانی ڈرونز اور میزائل مارگرائے اور ایرانی حملے کو ناکام بنا دیا ۔ آپ بتائیں کہ ان دونوں میں سے کس کا دعویٰ درست ہے ؟ 
برگیڈیئرجاوید احمد: اگر ملٹری پوائنٹ آف ویو سے دیکھیں تو اسرائیل اس حملے سے بالکل بوکھلا اور سٹپٹا گیا ہے۔سٹیٹ ٹو سٹیٹ حملہ اور دشمن کے گھر تک پہنچ جانا ہی بڑی کامیابی ہے ۔ ایران نے جو ڈرونز اور میزائل فائر کیے ان کو گرانے کا دعویٰ امریکہ بھی کر رہا ہے ، فرانس بھی کر رہا ہے ، اردن بھی کر رہا ہے ، یعنی اتنے ممالک نے مل کر اس حملے کا مقابلہ کیا اور اس کے باوجود بھی میزائل اسرائیل میں جاگرے تو یہ ایران کی کامیابی ہے ۔ اسرائیل اگر کہتا ہے کہ اس کا نقصان نہیں ہوا تو یہ بھی اس کے لیے خوشی کی خبر نہیں ہے کیونکہ ایرانی میزائل ہدف تک پہنچے ہیں اور اگلی مرتبہ اس کا نقصان بھی کر سکتے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ کتنے سال ہو گئے اسرائیل پر کسی نے حملے کی کوشش نہیں ، 1967ء کی جنگ میں اسرائیل فاتح تھا ، 1972ء کے بعد تو کسی ملک نےاس پر حملہ کی جرأت ہی نہیں کی ۔ ایران نے یہ جرأت کی ہے لہٰذا اس کو کریڈٹ دینا پڑے گا ۔
سوال: پاکستان کے بعض دینی و سیاسی حلقوں میں اور سوشل میڈیا پر اسرائیل پر ایرانی حملے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے اور یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ یہ حملہ ملی بھگت یا نوراکشتی تھی ، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے ؟
ڈاکٹر حسن صدیق: بدقسمتی سے ہمارے سیاسی ، سماجی اور دینی حلقوں کی جانب سے جو موقف سامنے آرہا ہے وہ افسوسناک حدتک مبالغہ آمیز ہے۔ ماضی میں ایران کا جو بھی کردار رہا ہے ، چاہے وہ پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے ہو یا فرقہ واریت کے حوالے سے ہو اس پر آپ انگلی اُٹھا سکتےہیں لیکن حالیہ صورتحال میں ایران کو کریڈٹ دینا پڑے گا۔ کیونکہ تیس 35 سال میں واحد ملک ہے جس نے اسرائیل پر حملہ کیا ہے جس سے اسرائیل کے تمام تر دفاعی دعوے خاک میں مل گئے ہیں ۔ ایسے میں ایرانی حملے کو ڈرامہ قرار دینا افسوسناک ہے ۔ اسرائیل نے جب شام میں ایرانی سفارتخانے پر حملہ کرکے ایرانی پاسداران انقلاب کے سینئر عہدیداروں کو قتل کیا تھا تو اس وقت مسلم ممالک کا واضح موقف آنا چاہیے تھا کیونکہ سفارتخانے پر حملہ اس ملک پر حملہ کے مترادف ہوتاہے ۔ روس اور چین نے اس پر بہت اچھا موقف دیا لیکن مسلم ممالک کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ۔ ایرانی حملے سے حاصل کیا ہوا ؟ دیکھئے سب سے پہلے تو اسرائیل کا ایئر ڈیفنس سسٹم ایکسپوز ہو گیا۔ دوبارہ جو بھی حملہ کرے گا تو اس کے لیے ٹارگٹس کو حاصل کرنا آسان ہو گا ۔علاوہ ازیں سیمسنگ کمپنی نے اسرائیل میں اپنی انوسٹمنٹ ختم کردی اور اپنے مینوفیکچرنگ یونٹس بند کردیے ہیں ۔ یعنی اسرائیل کی اکانومی کو بھی نقصان پہنچا ہے ۔ جو لوگ ایرانی حملے کو ڈراما کہہ رہے ہیں وہ یہ بھی تو دیکھیں کہ اسرائیلی حملے میں ایران کے سینئر جرنیل جاں بحق ہوئے تھے ۔ کوئی ملک اپنا نقصان کیوں کرے گا ؟ ایرانی حملے سے ایک بات یہ بھی ظاہر ہو گئی کہ اگر مسلمانوں کی اسرائیل کے ساتھ جنگ ہوتی ہے تو چین اور روس مسلمانوں کا ساتھ دیں گے ۔ اسرائیل کا دھوکہ اور فریب بھی کھل کر دنیا کے سامنے آگیا ہے ۔ اسرائیلی صدر کہہ رہا ہے کہ ہم پُرامن مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں جبکہ ان کے اس فریب کے بارے میں قرآن نے چودہ سو سال پہلے ہی بتا دیا تھا :
{وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ لاقَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ(۱۱)} ’’اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ مت فساد کرو زمین میں‘وہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔‘‘
سوال: اسرائیل پر ایرانی حملے کی حماس اور افغان طالبان نے حمایت کی ہے ۔ دوسری طرف اردن نے کھل کر اسرائیل کا دفاع کیا ہے ۔ آپ یہ فرمائیے کہ مسلم ممالک اسرائیل کے خلاف ایک پیج پر کیوں نہیں آرہے ؟
رضاءالحق: قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط}’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔‘‘(الملک:2)
جس طرح اس وقت غزہ کے مسلمانوں کے لیے سخت امتحان ہے ، 8 اکتوبر سے لے کر اب تک ان کو مسلسل شہید کیا جارہا ہے ، وہاں پر قحط کی صورتحال الگ سے پیدا ہو چکی ہے ، زخمیوں اور مریضوں کے لیے ادویات تک میسر نہیں ہیں ۔ اس کے باوجود وہ مسجد اقصیٰ کی حرمت کے لیے کھڑے ہیں۔ یہ باقی اُمت مسلمہ کے لیے بھی امتحان ہے اور باقی امت کا حال یہ ہے کہ اردن ، مصر اور متحدہ عرب امارا ت کھل کر اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں ، سعودی عرب سمیت باقی تمام مسلم ممالک بھی خاموش ہیں ۔ جہاں تک ایران کی بات ہے تو جس طرح باقی نیشن سٹیٹس ہیں اسی طرح وہ بھی کلاسک نیشنل سٹیٹ ہے ۔ یہ ضرورہے کہ مسلک کا تڑکا لگا ہوا ہے لیکن بنیادی طور پر اس کے بھی اپنے قومی مفادات ہیں اور اپنے قومی مفادات کے لیے جس حد تک وہ جاسکتاہے جائے گا ۔غزہ پر اسرائیلی بمباری تو 8 اکتوبر سے جاری ہے لیکن ایران نے اس وقت تک اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جب تک اس کے قومی مفاد کو زک نہیں پہنچی۔ اسی طرح  آرمینیا اور آذر بائیجان کے درمیان جب جنگ ہوئی تو باوجود اس کے کہ آذربائیجان ایران کا ہم مسلک ملک تھا لیکن ایران نے آرمینیاکا ساتھ دیا تھا ۔ حیرت کی بات ہے کہ اسرائیل آذر بائیجان کو سپورٹ کر رہا تھا ۔یہ بات قابل افسوس ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کی دنیا میں انٹرنیشنل لیول پر جو سٹریٹجک معاملات ہیں ان کے اپنے تقاضے ہیں ۔ عرب ممالک کا معاملہ یہ ہے کہ وہ 7 اکتوبر سے پہلے اسرائیل کے انتہائی قریب ہو چکے تھے ۔ تین امریکی صدور ( کلنٹن ، اوباما، جوبائیڈن) نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ اگر غزہ کا معاملہ ختم ہو جاتاہے تو عرب حکمران دوبارہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے لیے تیار ہیں ۔ ترکی ایک طرف غزہ کے حق میں بیان دیتاہے اور دوسری طرف اسرائیلی جہازوں کو فیول بھی فراہم کر رہا ہے ۔ پاکستان بہرحال ایک نظریاتی ملک ہے اور اللہ نے ایٹمی صلاحیت بھی دی ہے ، اگر اچھی قیادت آ جائے تو امت مسلمہ کو لیڈ کر سکتاہے ۔ امارت اسلامیہ افغانستان نے البتہ واضح طور پر حماس کی حمایت کی ہے اور اگر افغانوں کو موقع ملے تو وہ ضرور غزہ والوں کی مددکریں گے اور جہاد میں حصہ بھی لیں گے۔ لیکن ابھی ان کی اتنی پوزیشن نہیں ہے ۔ اُمت مسلمہ ایک پیج پر اس وقت آسکتی ہے جب سب کا قبلہ ایک ہو اور سب کے مدنظر ایک واضح مقصد ہو کہ ہم نے امت کے اجتماعی مفاد کے لیے کام کرنا ہے اور اس سے بڑھ کر اللہ کے دین کے قیام کے حوالے سے جو ہماری ذمہ داری ہے اس کو پورا کرنا ہے۔ لیکن جیسے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ پرویز مشرف نے لگایا تھا اسی طرح کے نعرے ہر مسلم ملک سے لگ رہے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی حرمت سب کے لیے یکساں ہے ۔ یہ بہترین موقع تھا کہ سب مسلم ممالک ون پوائنٹ ایجنڈے پر متحد ہو جاتے کہ ہم سب نے مل کر مسجد اقصیٰ کی حرمت کا ہرصورت میں دفاع کرنا ہے ۔
سوال: 7اکتوبر سے لے کر اب تک مغربی طاقتیں  اسرائیل کو اسلحہ ، بارود ، مالی اور عسکری ، سفارتی لحاظ سے ہر قسم کاتعاون فراہم کر رہی ہیں ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں مغربی طاقتوں کی طرف سے اسرائیل کی بے جا طرفداری عالمی امن کے لیے انتہائی نقصان دہ عمل نہیں ہے ؟ 
برگیڈیئرجاوید احمد:عالم کفر میں بھی اس وقت فلسطین کے حوالے سے دو گروہ ہیں۔ سارا عالم کفر وہ اسرائیل کا حمایتی نہیں ہے۔ آپ دیکھیں کہ عالمی عدالت انصاف میں 52 ممالک اسرائیل کے خلاف گئے ، ان میںزیادہ تر غیر مسلم ممالک ہیں ۔ اسرائیل کے ساتھ وہی ممالک ہیں جنہوں نے یہودیوں کو یہاں لا کر فلسطینیوں  کی سرزمین پر بسایا اور فلسطینیوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک طرف غزہ ہے ، دوسری طرف مغربی کنارہ ہے اور درمیان میںآپ نے یہودیوں کو بسا دیا۔ ان کو لانے والوں کی بدنیتی شروع سے ہی عیاں تھی ورنہ دو ریاستی فارمولا تب کامیاب ہوتا جب آپ یہودیوں کو ایک طرف بساتے ۔تاریخ کا یہ سبق ہے کہ جب اس طرح کی اندھیر نگریاں ہوتی ہیں تو پھر عالمی امن کو خطرہ لاحق ہوتا ہے ۔ پہلی جنگ عظیم بھی اسی وجہ سے شروع ہو ئی تھی کہ انہو ں نے دوسروں کو دبانے کے لیے فیصلے کیے تھے ، دوسری جنگ عظیم بھی اسی طرح شروع ہوئی تھی ۔ اب بھی امریکہ ، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی جیسے ممالک جو اسرائیل کو بے جا سپورٹ کر رہے ہیں اسی طرح کی غلطیاں کر رہے ہیں ۔
سوال: غزہ پر ساڑھے چھ ماہ سے اسرائیلی جارحیت جاری ہے ، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ حالیہ اسرائیل ایران کشیدگی کی وجہ سے فلسطین کاز کو کتنا نقصان پہنچے گا اور اگر خدانخواستہ یہ کشیدگی بڑھتی ہے تو اس کے فلسطین پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟
ڈاکٹر حسن صدیق: اسرائیل کا جو ٹارگٹ تھا کہ وہ حماس کو ختم کر دے گا وہ پور انہیں ہوسکا جس کا بدلہ وہ غزہ کے بچوںاور عورتوں کو شہید کر کے لے رہا ہے ۔ یہ اصل میں اسرائیل کی شکست ہے ۔ اس نے حماس کے سربراہ کے بچوں کو شہید کر دیا لیکن حماس کے کسی بڑے لیڈر کو شہید نہیں کر سکا ۔اس کا پلان تھا کہ حماس کا نیٹ ورک توڑ کر اور فلسطینیوں کو مصرکی طرف دھکیل کر غزہ پر مکمل قبضہ کرلے گا لیکن ابھی تک اس میں وہ ناکام ہے۔ اب نیتن یاہو کی سیاسی ساکھ بھی خطرے میں ہے اور اس کو بچانے کے لیے وہ پورے خطے کو جنگ میں جھونکنا چاہتا ہے ۔ ایرانی حملے سے نیتن یاہو کو یہ کہنے کا موقع مل سکتا ہے کہ اسرائیل ظالم نہیں بلکہ مظلوم ہے ۔ دوسرا ایرانی حملے کے بعد اسرائیل کو مزید امداد اور اسلحہ بارود مل جائے گا ۔ اس کی جو امداد رکی ہوئی تھی وہ بھی دینے کا امریکہ نے اب اعلان کر دیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے اپنے ایئر ڈیفنس کو بھی مزید مستحکم کرنے کے لیے موقع حاصل کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ میں الیکشن ہو نے والے ہیں ، انہو ںنے عوام کا سامنا بھی کرنا ہے۔ اس کے علاوہ صہیونیت ایک عالمی جنگ بھی چاہتی ہے ۔ پہلی عالمی جنگ انہوں نے اس لیے کروائی تھی تاکہ خلافت عثمانیہ کو توڑکر اسرائیل کا راستہ نکالا جائے ۔ دوسری جنگ عظیم انہوں نے اس لیے کروائی تاکہ اسرائیل کو باقاعدہ قائم کیا جائے ۔ اب ان کی کوشش ہے کہ تیسری عالمی جنگ ہو اور اس کے نتیجہ میں پوری دنیا کی بادشاہت ان کے ہاتھ میں آجائے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے جنگی کیبنیٹ بھی بنائی ہوئی ہے جس کے ممبران میں سے دو جرنیل ہیں ۔ جب اس کیبنیٹ کی پہلی میٹنگ ہوئی تو انہوں نے مشورہ دیا اب فوری طور پر ایران پر حملہ کریں ۔ یعنی وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح کھینچ کر امریکہ اور یورپ کو جنگ میں لے آئیں تاکہ تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں گریٹر اسرائیل کا خواب پورا ہو جائے۔تاہم یورپ اور امریکہ عالمی جنگ سے کترا رہے ہیں ، یہی وجہ ہے یوکرائن پر روس کے حملے کے باوجود امریکہ اور یورپ نے محتاط ردعمل دیا ۔
سوال: اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملہ کے بعد ایران نے جنگ ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ اسرائیل ابھی بھی کہہ رہا ہے ہم دوبارہ حملہ کریں گے اور بالکل رحم نہیں کریں گے ۔ اس کے جواب میں ایران کا کہنا ہے کہ ہمارے بھی حوصلے اب جواب دے چکے ہیں اور ہم فیصلہ کن وار کریں گے ۔ اگر خدانخواستہ جنگ چھڑتی ہے تو کیا یہ کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ تو ثابت نہیں ہوگی؟
رضاءالحق:اسرائیل کی جنگی کیبنیٹ میں ایسے ہاکس ہیں جو ہر صورت میں جنگ کو پھیلانا چاہتے ہیں ۔ اگرچہ دوسری آوازیں بھی ہیں لیکن ہاکس کا پلڑا بھاری ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران نے کشیدگی ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے لیکن جنگ کے سائے ابھی بھی منڈلا رہے ہیں۔ امریکہ ، برطانیہ ، جرمنی اور فرانس کی حکومتیں مکمل طور پر اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں۔ انٹر نیشنل کورٹ میں جب اسرائیل کے خلاف کیس گیا تو وہاں جرمنی نے اسرائیل کے حق میں بیان دیا کہ غزہ میں کوئی نسل کشی نہیں ہورہی بلکہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے ۔ احادیث میں جس بڑی جنگ (الملحمۃ الکبریٰ ) کا ذکر ہے ، بعض لوگوں کے نزدیک وہ نائن الیون کے بعد سے ہی شروع ہو چکی ہے ، اگرچہ اس میں مختلف مراحل آئے اور آئیں گے۔واللہ اعلم۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کی بھی ایک پلاننگ ہے ۔ اس نے مجرمین کو سزا دینی ہے اور اس کے لیے سارا ماحول تیار ہوگا ۔ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ بحیثیت پاکستانی اور بحیثیت مسلمان ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ ایک بڑا معروف مقولہ ہےکہ :
fool me once,shame on you,
fool me twice, shame on me.
اگر دوسری دفعہ بھی ہم دھوکہ کھائیں گے تو پھر یہ ہماری اپنی کوتاہی اور کمی ہے۔
سوال: ایرانی صدر 22 اپریل کو پاکستان کے سرکاری دورے پر آرہے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے بعد ایرانی صدر کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس تاریخی دورے کےنتیجے میں پاکستان اور ایران کا کوئی مشترکہ موقف اسرائیل کے خلاف آ سکتا ہے؟
ڈاکٹر حسن صدیق: اسرائیل کے ساتھ حالت جنگ میں ہونے کی وجہ سے ایرانی صدر کا دورہ ایک بین الاقوامی اہمیت کا حامل واقعہ ہوگا ۔ جیسا کہ یوکرائن پر روسی حملے کے وقت سابق وزیراعظم پاکستان کا دورہ روس بین الاقوامی اہمیت کا حامل تھا ۔ اسی طرح ایرانی صدر کے دورہ کی وجہ سے یہ تاثر جائے گا کہ پاکستان ایران کے ساتھ کھڑا ہے ۔ لہٰذا پاکستان کو چاہیے کہ سب سے پہلے تو اپنا ایک واضح موقف دے کہ ایران کے ساتھ ہمارے اختلافات اپنی جگہ لیکن اسرائیل کے معاملے میں ہم نہ صرف ایک پیج پر ہیں بلکہ ترکی ، ملائشیاء اور دیگر ممالک جو اسرائیل کے خلاف ہیں ان کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ لائحہ عمل بنائیں گے ۔ دوسری طرف سعودی انوسٹمنٹ کی بات بھی چل رہی ہے ، پاکستان نے پروپوزل بھیجا ہے کہ زراعت ، تیل اور گیس کے شعبہ میں سعودی عرب 36 ارب ڈالر کی انوسٹمنٹ کرے ۔ توقع ہے کہ ایرانی صدر کے دورے سے اس پر اثرنہیں پڑے گا کیونکہ چین نے ایران اور سعودی عرب کو جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ایران کے ساتھ معاشی اور تجارتی تعاون بڑھانا چاہیے ۔ اگر پاک ، چائنہ ،روس ، ایران اور افغانستان کا معاشی بلاک بن جاتا ہے تو پاکستان کو IMFکے پاس جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔ پاکستان کا حق ہے کہ وہ ملکی مفاد میں فیصلہ کرے اور امریکی غلامی سے نکلے جس کی وجہ سے پاکستان آج تک ایران کے ساتھ گیس کا منصوبہ مکمل نہیں کر سکا۔اب بھی امریکہ کی یہی کوشش ہوگی کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل نہ ہو اور نہ ہی سی پیک جیسے منصوبے مکمل ہوں کیونکہ وہ پاکستان کو معاشی غلام رکھنا چاہتا ہے ۔دوسری طرف بھارت ایران سے تیل اور گیس بھی لیتا ہے ، یوریا بھی لیتا ہے اس کو امریکہ کچھ نہیں کہتا ۔ اگر پاکستان بھی اپنا موقف مضبوط رکھے گا تو بیک وقت مغربی ممالک کےساتھ بھی تعلقات رکھ سکے گا اور ایران کے ساتھ بھی ۔
سوال: پاکستان اُمت مسلمہ کا ایک اہم ملک ہے ، اس تناظر میںموجودہ حالات میں پاکستان کا باوقار موقف اور پالیسی کیا ہونی چاہیے ، آپ کیا تجویز کرتے ہیں ؟
برگیڈیئرجاوید احمد:پہلی بات یہ ہے کہ ہر حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ جو بھی پالیسیز بنائے وہ عوام کی توقعات او رخواہشات کے مطابق ہوں دوسرا یہ کہ جو فیصلے بھی کرے وہ اصولوں پر مبنی ہوں ۔ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے۔ لہٰذا ہماری حکومت پر دو فرائض عائد ہوتے ہیں ۔ (1)نظریہ پاکستان کی حفاظت کرے ، (2) نظریہ پاکستان کو مدنظر رکھ کر پالیسی بنائے ۔ نظریہ پاکستان محض کاغذ کا ٹکڑا نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے قرآن ہے ، اس کے پیچھے اللہ کے رسولﷺ کی تعلیمات ہیں ۔ اس کے تحت پاکستان وجود میں آیا ، یہی قائداعظم کا نظریہ تھا ۔ انہوں نے ہی کہا تھا کہ ہم قرآن سے ہدایت حاصل کریں گے ۔ فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے بھی پاکستانی قوم کا وہی موقف ہے جوقرآن کی ہدایت ہے اور بانی پاکستان کا موقف تھا۔ لہٰذا ہمیں مسلمان قوم کی حیثیت سے فیصلے کرنے چاہئیں اور فلسطینی مسلمانوں کے دفاع کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہو جانا چاہیے۔ اگر ہماری حکومت اس نظریہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتی تو وہ غلط کر رہی ہے ۔ ہمیں اس بات کا احسا س ہوناچاہیے کہ پاکستان اسلامی دنیا کی سپر پاور ہے اور اس کا مقام بلند کرناچاہیے ۔ عرب ممالک بھی پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں ، پاکستان کوئی قدم اٹھائے گا تو سب مسلم ممالک بھی قدم اٹھائیں گے ۔ ان شاءاللہ۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو پھر ہم سے بڑا منافق کوئی نہیں ہوگا اور منافقین تو کفار سے بھی نچلے درجے میں ہوں گے ۔ من حیث القوم ہمیں اس بارے میں ضرور سوچنا چاہیے ۔