(حالاتِ حاضرہ) محنت کشوں کی دنیا - نعیم اختر عدنان
10 /
محنت کشوں کی دنیا
نعیم اختر عدنان
ہر سال یکم مئی کا دن عالمی سطح پر’’یوم مزدور‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ امریکہ کے شہر شکاگو میں 1886 ء کو محنت کشوں نے 8 گھنٹے کے اوقات کار اور دیگر جائز مطالبات کے حصول کے لئے پر امن مظاہرہ کیا جسے نظام کہنہ کے پاسبانوں نے ریاستی طاقت کے ذریعے یوں کچل دیا کہ کئی ایک کو فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا تو بہت سے محنت کشوں کو گرفتاری کے بعد بذریعہ عدالت تختہ دار پر لٹکا دیا ، اس دلخراش واقعہ کی یاد میں یوم مئی کی مناسبت سے ان مزدوروں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے عالمی راہنما ، مزدور تنظیمیں پیغامات جاری کرتے ہیں ، جلسے اور جلوس منظم کیے جاتے ہیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر مضامین شائع ہوتے اور گفتگو ئیں ہوتی ہیں، حکمرانوں کی جانب سے مزدوروں کی حالت بہتر بنانے کے لئے کئے گئے اقدامات کا ذکر ہوتا ہے اور مستقبل کے لئے خوش کن اعلانات ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ ضروری بھی ہے اور اہم بھی۔ ترقی یافتہ ممالک میں محنت کشوں کو ان کے حقوق کے حوالے سے کسی حد تک مناسب اور منصفانہ معاوضہ یعنی اجرت کے ساتھ ساتھ دیگر سہولیات بھی حاصل ہیں ۔ جبکہ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں مزدور کی حالت ’’ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات‘‘ ہی کی نقشہ کشی کرتے نظر آتی ہے ۔ اسلامی دنیا یعنی مسلمان ممالک میں محنت کشوں کے حالات نا قابل بیان حد تک خراب ہیں،گویا نظام ظلم کا اصل شکار یہاں کا محنت کش طبقہ یہی ہے ، چاہے وہ کارخانے میں کام کرنے والا مزدور ہو یا،کھیت و کھلیان میں کام کرنے والا مزارعہ یا ہاری ہو۔ اگرچہ اسلامی تعلیمات میں محنت کش کی عظمت اور اس کے انسانی حقوق کی پاسداری کی تعلیم پوری آب و تاب سے موجود ہے مگر مزدور سے متعلق اسلامی تعلیمات و احکامات پر عمل کا معاملہ ، ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے، کا عکاس ہے ۔گویا یہاں بھی ظلم و استحصال کی حکمرانی مسلط ہے ۔نبی رحمت ﷺ نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل یہ لافانی و لاثانی اعلان فرما کر محنت کشوں کی عظمت اور ان کے حقوق کو کس خوبصورتی سے بیان فرمایا تھا۔ فرمان رسالت مآبﷺ ہے:’’یہ (ملازمین) تمہارے بھائی ہیں جن کو اللہ تعالی نے تمہارے ماتحت کر دیا ہے ، ان کو وہی کھلاؤ جو تم خود کھائو ، انہیں وہی لباس پہناؤ جو تم خود پہنو ، ان سے ایسا کام نہ لو جس سے وہ نڈھال ہو جائیں۔ اگر ان سے زیادہ کام لو تو ان کی مزید مدد کرو ۔‘‘
اسی طرح ایک مرتبہ حضرت سعد انصاریh نے نبی اکرمﷺ سےمصافحہ کیا۔ آپؐ نے ان کے ہاتھوں کی سختی کومحسوس کیا۔ ان کے دونوں ہاتھ پھٹے ہوئے تھے۔ آپؐ نے وجہ پوچھی، تو انہوں نے جواب دیا کہ بیلچہ اور کدال کےساتھ کام کر کے اپنے بچوں کی پرورش کرتا ہوں۔ یہ سن کر آپؐ نے ان کے ہاتھوں کو چوم لیا اور فرمایا یہ وہ ہاتھ ہیں جنہیں جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔ یہ ہے اسلام کی نظر میں مزدور کا مقام۔
ایک اور فرمان نبویؐ میں مزدور کو اللہ کا دوست قرار دیا گیا ہے۔آج اللہ کے اس دوست کی حالت زار کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے ، گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں۔ پاکستان کی حد تک محنت کشوں کے حقوق کے حوالے سے اولین اور اہم ترین معاملہ منصفانہ معاوضہ یعنی اجرت کا ہے۔پاکستان میں گزشتہ نگران حکومت نے مزدور کی کم از کم ماہانہ اجرت میں اضافہ کر کے اس کی شرح تیس ہزار اور سندھ حکومت نے بتیس ہزار مقرر کی تھی۔ کم از کم اجرت میں یہ اضافہ ماضی کے مقابلے میں ایک قابل تعریف اور بڑی پیش رفت کا حامل اقدام قرار دیا جا سکتا ہے تاہم عملی طور پر اس حکومتی فیصلے پر بہت سے اداروں میں عمل درآمد نہیں ہو رہا ۔ آنے والے بجٹ میں اجرت کی شرح میں اضافہ کر کے اسے پچاس ہزار کیا جائے۔ اسی طرح محنت کشوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد بڑھاپے کی پینشن کی موجودہ شرح ساڑھے نو ہزار روپے ماہانہ ہے ، اس میں بھی فوری اور مناسب اضافہ کی ضرورت ہے۔ ہماری رائے میں اولڈ ایج پینشن کو بیس ہزار روپے تک بڑھایا جائے ۔ سیاسی و دینی جماعتیں اپنے منشور اور لائحہ عمل میں مزدوروں کے حقوق و فرائض کو بھی خصوصی اہمیت دیں۔ پاکستان میں رائج مزدور قوانین پر ہر سطح پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے اقدامات کئے جائیں ، آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو بہت سے معاملات میں بہت زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔ ان دستوری و آئینی اختیارات کو استعمال میں لاکر صوبائی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ مزدوروں کو ان کے اسلامی، دستوری و آئینی حقوق کی فراہمی کو یقینی بناتے ہوئے وزارت لیبر اور اس کے ماتحت اداروں کو مزید متحرک اور فعال بنائیں ۔ ہماری ان گزارشات اور سفارشات پر عمل کرنا وقت کا تقاضا بھی ہے اور محنت کشوں کے حالات سنوارنے کا ذریعہ بھی۔ ایک اور گزارش ہے کہ ہر ادارے سے ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ کر کے مزدوروں کو رجسٹرڈ ورکر کے نیٹ ورک میں لایا جائے۔بصورت دیگر