(امیر سے ملاقات ) امیر سے ملاقات قسط 26 - ابو ابراہیم

10 /

جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی جیسی بڑی دینی سیاسی

جماعتیں بھی تجربات کرکے اسی نتیجہ پر پہنچ رہی ہیں

جس نتیجہ پر ڈاکٹر اسراراحمدؒ بہت پہلے پہنچ چکے تھے کہ نفاذ شریعت

کے لیے ہم سب مل کر تحریک کا راستہ اپنائیں۔

یہود و نصاریٰ اپنی تحریف شدہ کتابوں پر عمل پیرا ہو کر مسلسل آگے

بڑھتے جارہے ہیں جبکہ دوسری طرف اُمت مسلمہ قرآن کو ترک

کردینے کی وجہ سے ذلیل و رسوا ہو رہی ہے ۔

تنظیم اسلامی آج بھی اسی بنیادی فکر، منہج اور طریقہ کار پر قائم ہے

جس کو ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے طے کیا تھا ۔

امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائِ تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات

میز بان :آصف حمید

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:رمضان المبارک میں تنظیم اسلامی کے زیراہتمام بانی تنظیم ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے شاگردوں نے ماشاءاللہ بہت بڑے لیول پر دورہ ترجمہ قران کی محفلیں سجائیںاورہزاروں لوگوں نے اس سے استفادہ کیا۔ تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے لوگوں کو قرآن کی طرف بلانے کا مقصد کیا ہوتاہے اور جو لوگ دورئہ ترجمہ قرآن سنیں رمضان کے بعد ان کے لیے کیا لائحہ عمل ہے؟
امیر تنظیم اسلامی: اللہ کے رسولﷺ اور ان کے صحابہ کرام ؇کے رمضان کو دیکھیں تو ان کی راتوں کا اکثر حصہ قرآن حکیم کے ساتھ بسر ہوتا تھا۔ ہمارے ہاں قرآن تراویح میں سنایا جاتاہے لیکن سننے والوں کو پتا نہیں ہوتا کہ کیا پڑھا جارہاہے لہٰذا جو مقصد تھا کہ قرآن سے ہدایت حاصل کی جائے وہ پورا نہیں ہو رہا تھا ۔ لہٰذا بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے 80 کی دہائی میںد ورہ ترجمہ قرآن کا شروع کیا ۔ اس سال رمضان میں الحمدللہ 150مقامات پر دورہ ترجمہ قرآن ہوا جس میں تراویح کے وقفہ کے دوران قرآن کا ترجمہ اور تشریح سنایا جاتا ہے اور کچھ مقامات پر خلاصہ مضامین قرآن ہوا جس میں قرآن مجید کے چند مخصوص مقامات کا مطالعہ کراد یا جاتاہے ۔ حقیقت میں رمضان کا مہینہ سجاہی قرآن مجید کے لیے ہے۔ روزوں کی فرضیت کا ایک بڑا مقصد اللہ نے قرآن میں یہی بیان فرمایا ہے کہ ہم اس عظیم نعمت کے ملنے پر اللہ کا شکر ادا کرسکیں ۔ رات کا قیام قرآن کے ساتھ ہو تاکہ ہم قرآن کے پیغام کو سمجھ سکیں اور اس پر عمل کرسکیں ۔ نماز تراویح کا اصل مقصد تو یہی ہے ۔ اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحبؒ نے دورہ ترجمہ قرآن کا آغاز تنہا کیا تھا ۔ آج الحمد اللہ ہزاروں لوگ اس سے مستفید ہورہے ہیں ۔ طلبہ ، تاجر حضرات ، خواتین ، ہر شعبہ اور ہر طبقہ کے لوگ استفادہ کرتے ہیں ، قرآن کا پیغام ان تک پہنچتا ہے اور ان کی زندگیوں میں بدلاؤ آتاہے ۔ رمضان کے بعد کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے ۔ اس حوالے سے مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ کا ایک کتابچہ دوروزے کے عنوان سے ہے جس میں انہوں نے خوبصورت انداز میں یہ بات سمجھائی ہے کہ ایک رمضان کا روزہ ہے اور ایک پوری زندگی کا روزہ ہے ۔ رمضان کے روزہ میں ہم نےایک ماہ یعنی رمضان المبارک کے دوران اللہ کے حکم سے حلال چیزوں کو بھی چھوڑ دیا ۔ یہ تقویٰ حاصل کرنے کی ایک مشق تھی ۔ یہ مشق ہمیںپوری زندگی کے روزے میں کام آنی چاہیے اور ہم پوری زندگی اللہ کی نافرمانیوں ، حرام چیزوں ، گناہوں، سرکشیوں سے بچنے کی کوشش کریں۔دوسری بات انہوںنے لکھی کہ رمضان ایک مہمان کی طرح آتا ہے اور چلا جاتاہے لیکن ہمارے لیے قرآن کا تحفہ چھوڑ دیا جاتاہے۔ آج اُمت کی زبوں حالی بھی ہمارے سامنے ہے جس کی بنیادی وجہ قران حکیم کو ترک کر دینا ہے۔ہم کہتے ہیں کہ رمضان کے بعد بھی قران کریم کے ساتھ تعلق قائم رکھیے۔ تنظیم اسلامی اور قرآن اکیڈمیز کے زیر اہتمام رجوع الی القرآن کورسز شروع ہو رہے ہیں ۔ یہ دس مہینوں کا کورس ہے۔ ہماری ویب سائٹ پر ان کورسز کی پوری تفصیل موجود ہے ۔ اس کے علاوہ تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام ہفتہ وار دروس قرآن کے حلقے بھی قائم ہیں ۔ ان سے استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کیجئے ۔ ایک آخری بات ڈاکٹر صاحب ؒ فرماتے تھے کہ رمضان میں ایک ماحول تھا نیکی کا ، نماز اور تلاوت کا ۔ سب کے لیے اس میں حصہ لینا آسان تھا لیکن رمضان کے بعد یہ ماحول ہم نے خود پیدا کرنا ہے۔ اس کے لیے ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے تھے کہ کسی دینی اجتماعیت میں شامل ہو جائیے۔ تنظیم اسلامی بھی ایک اجتماعیت ہے ، ڈاکٹراسراراحمدؒ کو لاکھوں لوگوں نے سنا اور اب بھی ماشاء اللہ سن رہے ہیں ، ان سب لوگوں کے لیے تنظیم اسلامی کا پلیٹ فارم حاضر ہے ، اس اجتماعیت سے جڑیں گے تو ان شاء اللہ خیر میں آگے بڑھنا اور شر سے بچنا آسان ہو جائے گا ۔
سوال:14اپریل ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کی وفات کا دن ہے۔تنظیم اسلامی اس دن کو ان کی برسی کے طور پر کیوں نہیں مناتی؟
امیر تنظیم اسلامی:ایک ٹرینڈ بن چکا ہے کہ جب کوئی مشہور شخصیت دنیا سے چلی جاتی ہے تو اس کی یاد میں ہر سال برسی منائی جاتی ہے ، اگر صوفیاء سے تعلق ہو تو عرس منایا جاتا ہے ۔ سچی بات ہے کہ ڈاکٹر اسراراحمدؒ خود بھی ان چیزوں کو پسند نہیں کرتے تھے اور وہ جن بزرگوں کے شاگرد تھے ان کے ہاں بھی ایسا کوئی رواج نہیں تھا اور نہ ہی ان چیزوں کی کوئی شرعی دلیل موجود ہے ۔ باقی ایک عقیدت ہوتی ہے تو اس کا اظہار شرعی دائرے کے اندر رہ کر کیا جانا چاہیے ۔ماہ رمضان میں ڈاکٹر صاحبؒ کے شاگردوں کے دروس قرآن لوگوں نے سنے ۔ ہر روز کہیں نہ کہیں ڈاکٹر صاحبؒ کا ذکر خیر انہوں نے کسی حوالے سے کیا ہوگا ۔ سب سے زیادہ مطلوب یہ ہے کہ ان کے لیے دعائےمغفرت کی جائے اور بطور جماعت ہم کچھ دن مخصوص کر کے اس کا اہتمام نہیں کرتےبلکہ سارا سال ان کے لیے دعائیں بھی کرتے ہیں ان کا ذکر خیر بھی کرتے ہیں ، ہمارے جرائد ندائے خلافت اور میثاق شائع ہوتے ہیں ، ان میں ڈاکٹر صاحب ؒ کے مضامین اور ذکر خیر شائع ہوتا رہتا ہے ۔ ابھی انڈیا سے ایک صاحب کا مضمون میثاق میں شائع ہوا ہے، انہوں نے عنوان ہی یہ باندھا تھا : ڈاکٹر اسرارؒ : قرآن حکیم میں رچی بسی شخصیت ۔ ڈاکٹر صاحبؒ یہ فرماتے تھے کہ جس کو مجھ سے عقیدت ہے تو آئے میرے ہاتھ پر بیعت کرکے میرے مشن میں شامل ہو جائے ۔ سچی بات ہے اگر ہم یہ کام کر رہے ہیں تو پھر ہمیں 14 اپریل منانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ کام ہمارے لیے ثواب کا باعث ہوگا اور ڈاکٹر صاحبؒ کے لیے ان شاء اللہ صدقہ جاریہ بنے گا ۔
سوال: یہودیوںکی سرخ گائے کی قربانی اور اسرائیل پر ایرانی حملے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور مستقبل میں اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟
امیر تنظیم اسلامی:ریڈ ہائفرز کے معاملے کو انٹرنیشنل میڈیا پر بھی اور ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر بھی بہت اچھالا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ ان کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے ، پیشین گوئیاں موجود ہیں وغیرہ ۔ اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ ان کی کتابوں کے حوالے سے ہمارا ایمان اور عقیدہ ہے کہ وہ تحریف شدہ ہیں ۔ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہودی ظالم ہیں اورناحق پر ہیں ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ظالم اور ناحق پر ہونے کے باوجود اپنی تحریف شدہ کتابوں پرکتنا عمل کر رہے ہیں اور آگے بڑھتے جارہے ہیں اور ہمارا میڈیا بھی اس کو خوب کوریج دے رہا ہے ، جبکہ دوسری طرف ہمارا عقیدہ اور ایمان ہے کہ قرآن حق ہے اور ہم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس محمد مصطفیٰ ﷺکی تعلیمات موجود ہیں ، آپ ﷺ کا اُسوہ موجود ہے ، آپ ﷺ کی پیشین گوئیاں موجود ہیں ، لیکن ہمارا ان پر کتنا یقین ہے اور عمل ہے ؟ انٹرنیشنل میڈیا پر جو کچھ بھی بتایا جارہا ہے اس پر تو ہمارا یقین ہے ، ہم اس کو سچ سمجھ رہے ہیں ، مگر اللہ نے جو کچھ فرمایا ،اللہ کے پیغمبر ﷺ نے جو کچھ فرمایا اس پر ہمیں کتنا یقین ہے ؟ قرآن میں اللہ کہتا ہے :
{وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَــتَّبِعَ مِلَّـتَہُمْط}(البقرۃ:۱۲۰)
’’اور(اے نبیﷺ! آپ کسی مغالطے میں نہ رہیے) ہرگز راضی نہ ہوں گے آپؐ سے یہودی اور نہ نصرانی جب تک کہ آپؐ پیروی نہ کریں ان کی ملت کی۔‘‘
اللہ تعالیٰ قرآن میں ہمیں دوٹوک انداز میں منع کر رہا ہے کہ یہودو نصاریٰ کی پیروی مت کرو مگر اس کے باوجود ہمارے حکمران امریکہ اور اسرائیل کے آگے جھکے جارہے ہیں ، غزہ میں مسلمانوں کی نسلی کشی کے باجود بھی مسلم ممالک اسرائیل کو اسلحہ ،امداد ، فیول سب کچھ دے رہے ہیں ۔ حالانکہ قران میں واضح حکم ہے :
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَـتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓی اَوْلِـیَـآئَ م}(المائدہ:۵۱)’’اے ایمان والو!یہودو نصاریٰ کو اپنادلی دوست(حمایتی اور پشت پناہ) نہ بنائو۔‘‘
لیکن آپ دیکھ لیجئے ، سارے مسلم ممالک اسرائیل کے مظالم پر خاموش ہیں کہ کہیں ان کے اولیاء ناراض نہ ہو جائیں ۔ پاکستان کی صورتحال سب کو معلوم ہے ۔ کہاجارہا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے سرمایہ کاری آرہی ہے ۔ معلوم نہیں یہ سرمایہ کاری ہے یا کچھ اور ہے کہ کہیں پاکستان مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز نہ اُٹھا دے ۔اس سارے پیراڈائم میں آیات قرآنی کو دیکھئے اور احادیث رسول ﷺ کو دیکھئے ۔ایک حدیث میں واضح طور پر آج کے منظر نامے کو ہمارے سامنے پیش کیا گیا ہے کہ عنقریب قومیں تم پر حملہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو ایسے دعوت دیں گی جیسے کھانے پر دعوت دی جاتی ہے ۔ پوچھا گیا : کیا ہماری تعداد اتنی کم ہوگی ؟ فرمایا : تم کثیر تعداد میں ہوگے لیکن تمہارے اندر وہن (دنیا سے محبت اور موت سے نفرت)کی بیماری پیدا ہو جائے گی ۔ آج ہمارے حکمران اسی بیماری کا شکار ہیں ، کوئی نیوم سٹی بنا رہا ہے ، کسی نے اپنے ملک میں انوسٹمنٹ لانی ہے ۔ ظاہر ہے اگر دنیا مطلوب ہے تو ترجیحات بدل جائیں گی ۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرامین کو پس پشت ڈال دیا جائے گا ۔یہی ہماری ذلت و رسوائی کی اصل وجہ ہے۔ جبکہ دوسری طرف یہود و نصاریٰ اپنی تحریف شدہ مذہبی کتابوں پر عمل پیرا ہیں اور آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔ آپ نے اسرائیل پر ایرانی حملے کا بھی ذکر کیا۔ کچھ عرصہ قبل اسرائیل نے شام میں ایرانی سفارتخانے پر حملہ کیا تھا۔ اس کے جواب میں ایران نے یہ حملہ کیا ہے اور ایران کہتا ہے کہ یہ حملہ امریکہ کو بتا کر کیا گیا ہے لہٰذا جو کچھ میزائل اور ڈرونز ایران نے استعمال کیے تھے ان میں سے زیادہ تر کو راستے میں ہی اُڑا دیا گیا اور اسرائیل کے دفاع میں مسلم ممالک نے بھی حصہ لیا ۔ اردن نے کہا کہ ہم اپنی حدود کراس نہیں ہونے دیں گے، اس نے اپنے جیٹ اُڑا کر ایرانی ڈرونز گرا دیے ۔ اس سارے معاملے سے واضح ہو رہا ہے کہ آج اُمت مسلمہ کہاں کھڑی ہے ؟ UNOمیں ایرانی نمائندے نے کہا کہ ہم نے بس جواب دینا تھا دے دیا اب ہم کچھ نہیں کریں گے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملے کو چھ مہینے ہوگئے ، 30 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اس پر تو کسی نے اسرائیل کو جواب نہیں دیا اور نہ ہی اس کے ظلم کے خلاف آواز اُٹھائی ، نہ مسجد اقصیٰ کے لیے آواز اُٹھائی۔ کیا ایران فلسطین کے لیے، مسجد اقصیٰ کےلیے ، اُمت کے لیے کھڑا ہوا ؟ایسا قطعاً نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی مسلم ملک کھڑا نہیں ہوا۔ہم نے پورے رمضان میں کوشش کی اور لاکھوں لوگوں تک پیغام پہنچایا کہ اسرائیلی مظالم کا واحد توڑ اسلامی ایٹمی پاکستان ہے۔ کسی دوسرے ملک کے پاس ایسی صلاحیت نہیں ہے ۔ قائداعظم نے بھی فرمایا تھا کہ فلسطینیوں پر ظلم ہوگا تو ہم پاکستان سے جواب دیں گے۔ OICکے چارٹر میں لکھا ہے فلسطینیوں کی اخلاقی ، مالی اور عسکری مدد کرنا ہر مسلمان ملک کی ذمہ داری ہے۔ 1940ء میں جب قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی تو اس کےساتھ ایک دوسری قرارداد فلسطینی مسلمانوں کے حق میں بھی پاس کی گئی تھی ۔ لہٰذا یہ پاکستان کی بڑی ذمہ داری ہے کہ فلسطین کے معاملے میں ذمہ دارانہ کردار ادا کرے جیسے 1973ء کی جنگ میں کیا۔ ہم تنظیم اسلامی کی سطح پر جو کر سکتے ہیں کر رہے ہیں،پاکستان کے تمام معروف نیوز پیپرز میں اشتہارات دیے، سوشل میڈیا پرمہم چلائی ۔ جمعہ کے خطبات اور عید کے خطبہ میں مسئلہ کو اجاگر کیا۔ صدر پاکستان ، وزیر اعظم ، ISPR، ارکان پارلیمنٹ ، مسلم اور غیر مسلم ممالک کے سفارتخانوں کو خطوط لکھے ۔ یہ ہمارے اختیار میں تھا ہم نے کیا ۔ البتہ یہ امتحان سب کے لیے ہے، اہل غزہ تو اس امتحان میں کامیاب ہورہے ہیں لیکن باقی امت کو بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہو رہے ہیں یا ناکام ؟
سوال: اسرائیل میں ہر شہری کے لیے مخصوص وقت تک عسکری تربیت حاصل کرنا اور فوج میں حصہ لینا لازم ہے ۔ جبکہ دوسری طرف مسلمان صرف معذرتیں پیش کر رہے ہیں حالانکہ ہمارے نبی ﷺنے ہمیں گھڑسواری اور تیر اندازی سیکھنے کی باقاعدہ ہدایت کی ہے۔کچھ گروپس تیر اندازی اور فائرنگ وغیرہ سکھا بھی رہے ہیں۔ اکثریت جہاد کی تربیت حاصل کیوں نہیں کرتی اور مفتی حضرات جہاد کے فرض ہونے کا فتویٰ جاری کیوں نہیں کرتے تاکہ حکومت اور فوج پر پریشر بڑھے اور ہم لوگ فلسطین جاکر اپنا کردار ادا کر سکیں ؟ (محمد ابراہیم )
امیر تنظیم اسلامی:رسول اللہ ﷺ نے تیر اندازی اور گھڑی سواری کی تعلیم دی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض مدارس میں اس کا اہتمام بھی ہے لیکن موجودہ دور کے لحاظ سے یہ کافی نہیں ہے۔ اس تقاضے کو ہم نے غزہ پر اسرائیلی حملے کے فوراً بعد ہی اُجاگر کرنا شروع کیا تھا اورجن 14 نکات کی ہم نے سفارش کی تھی ان میں یہ بھی شامل تھا کہ ریاستی سطح پر شہریوں کو عسکری تربیت دی جائے جیسے اسرائیل میں ہر شہری کو عسکری تربیت کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ البتہ عوامی سطح پر عسکری تربیت خود کو مسائل میں ڈالنے کے مترادف ہوگی کیونکہ یہاں دہشت گردی کے خطرات بھی ہیں اور اگر لائسنس کے بغیرکوئی گروہ عسکری تربیت دیتا ہے تو وہ اداروں کی نظر میں مجرم تصور ہوگا ۔ بہتر ہے کہ ریاست کی سطح پر عوام کے لیے یہ اہتمام ہونا چاہیے ۔ جہاں تک جہاد کے فرض ہونے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے فتویٰ آچکا ہے ۔ غالباً 6 نومبر 2022ء کو اسلام آباد میں کانفرنس ہوئی تھی جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء موجود تھے وہاں مفتی تقی عثمانی صاحب نے فرمایا تھا کہ قتال فرض ہو چکا ہے البتہ اس میں تفصیل ہوتی ہے کہ جو جتنے قریب ہے اس پر فرضیت پہلے لاگو ہوتی ہے۔ یعنی جو غزہ کے پڑوس میں مسلمان ہیں ان پر فرضیت پہلے ہوگی ، اگر وہ ناکام ہوتے ہیں تو پھر فرضیت کا یہ دائرہ پھیلتا جائے گا اور جس کے پاس جتنا اختیار اور استطاعت ہے وہ اسی قدر مکلف ہو گا ۔ حدیث کے مطا بق منکر کو ہاتھ سے روکیں ، ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو زبان سے روکیں ، اور زبان سے بھی نہیں روک سکتے تو دل میں برا جانیں۔ اس تناظر میں ہم تحریر و تقریر کے ذریعے اپنا فرض ادا کرسکتے ہیں، مظاہروں کے ذریعے اپنی حکومت پر پریشر بڑھا سکتے ہیں ، حکومت کے پاس طاقت اور اختیار ہے، وہ زیادہ مکلف ہے ۔ وہ آگے بڑھ کر عملی قدم بھی اُٹھا سکتے ہیں ۔ اس کا مطالبہ ہمیں ان سے کرنا چاہیے ۔ اس کے علاوہ جو مالی مدد کر سکتا ہے وہ مالی مدد بھی کرے ۔
سوال:ڈاکٹر اسرار احمدؒ کو دنیا سے گزرے 14 برس ہو چکے ہیں اور انہوں نے جس نظریے کی بنیاد پر جماعت قائم کی تھی کہ طاقت جمع کرو پھر اس کے بعد اس نظام کے خلاف جہاد کا اعلان کرو تو کیا 14 سالوں میں اتنی طاقت جمع نہیں ہوئی جو اس نظام کے خلاف بغاوت کا اعلان کر سکے یا یہ جماعت اپنے مقصد کو بھول چکی ہے؟(عمر شعیب )
امیر تنظیم اسلامی: 2008ء میں ڈاکٹر صاحبؒ نے اپنے پورے فکر کا خلاصہ ایک اجتماع میں پیش کیا تھا۔ اس میں انہوں نے 6 نکات پیش کیے تھے اور فرمایا تھا کہ میری خواہش ہے کہ تنظیم ان 6 نکات کو مدنظر رکھ کر آگے بڑھے ۔ اس سے قبل 2002ء میں ڈاکٹر صاحبؒ نے مشاورت سےحافظ عاکف سعید صاحب کو امیر تنظیم مقرر کر دیا تھا ۔ 2010ء میں ڈاکٹر صاحبؒ کا انتقال ہوا تو اس وقت تک وہ مطمئن تھے کہ تنظیم درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ 2020ء میں جب امارت کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تو سابق امیر تنظیم حافظ عاکف سعید صاحب نے بھی وہی 6 نکات دہرائے کہ تنظیم کو ان کی روشنی میں آگے بڑھتے رہنا چاہیےاور میں نے بھی اسی فکر اور اسی منہج پر جماعت کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ۔ ان 6 نکات میں ویلیو ایڈیشن ہو سکتی ہے ، کاموں کی نوعیت میں اضافہ ہو سکتاہے ، افراد کی تعداد بڑھائی یا گھٹائی جا سکتی ہے لیکن بنیادی فکر ، سوچ ، منہج اور طریق کار جو ڈاکٹر صاحب ؒ نے طے کیا تھا الحمد للہ ابھی تک تنظیم اسی پر قائم ہے ۔ یعنی تنظیم اپنے مقصد کو بھولی نہیں ہے بلکہ تنظیم نے ڈاکٹر صاحبؒ کے مشن کو آگے بڑھایا ہے الحمدللہ ۔ 2010ء میں جب ڈاکٹر صاحبؒ دنیا سے تشریف لے گئے تھے تو اس وقت پورے پاکستان میں 45 کے لگ بھگ دورہ ترجمہ قرآن ہورہے تھے ۔ آج الحمد للہ 150 مقامات پر ہورہا ہے ۔ ڈاکٹر صاحبؒ کے دور میں رفقاء کی جتنی تعداد تھی آج اس سے کئی گنا بڑھ چکی ہے ۔ اس وقت مقامی تناظیم کی تعداد 35 کے لگ بھگ تھی ، آج الحمد للہ 150 کے قریب ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جیسی ڈاکٹر صاحب ؒ کو اللہ پاک نے صلاحتیں عطا فرمائی تھیں وہ بعد والوں میں نہیں ہیں لیکن الحمد للہ ان کا مشن آگے بڑھ رہا ہے ۔ جہاں تک سوال ہے 14 سال میں مطلوبہ تعدادکے جمع ہونے کا تو ڈاکٹر صاحبؒ خود 1975ء سے 2002ء تک 27 سال امیرتنظیم اسلامی رہے ہیں، لہٰذا اس طرح اگر تجزیہ کریں گے تو خود سوال اُٹھانے والا مشکل میں پھنس جائے گا ۔ اسی طرح ایک بڑی حساس مثال ہے ۔ نبی اکرم ﷺ 13 سال مکہ میں دعوت دیتے رہے اور کل 125 افراد اسلام لائے جبکہ آپ کے ایک صحابی مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صرف ایک سال میں 75 افراد کو مدینہ سے لے کر آگئے ۔ لہٰذا یہ سوال نہیں ہے۔ البتہ ہم یہ کہیں کہ ہم میں کمزوریاں ، کوتاہیاں ہیں ، اللہ تعالیٰ انہیں دور کرے اور ایسی متعدبہ یا مناسب تعداد جو اپنے وجود پر دین کو حتیٰ الامکان نافذ کیے ہوئے ہواور سمع و طاعت کی پابند ہو ، امیر کی پکار پر لبیک کہنے والی ہو اللہ تعالیٰ میسر فرمائے۔ اگر حکومتی اہلکار ہمارے سامنے کبھی کھڑے ہوں تو ان کو بھی 100 مرتبہ سوچنا پڑے کہ جیلوں میں کتنوں کو ڈالیں گے ،اتنی تعداد تو ہو تو پھر شاید ہم کوئی اقدام کی طرف جانے کی بات کر سکیں گے ان شاءاللہ۔سچی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبؒ کے انتقال کے بعد دنیا جتنا ان کو سن رہی ہے ان کی زندگی میں لوگوں نے ان کو اتنا نہیں سنا ۔ اس میں ان کے قائم کیے ہوئے اداروں کا بہت بڑا کردار ہے جو دنیا تک ڈاکٹر صاحبؒ کی آواز پہنچا رہے ہیں ۔ پھر جہاں ڈاکٹر صاحبؒ کو سنا جارہا ہے وہاں ہم عملی طور پر بھی پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کے مشن سے دلچسپی رکھنے والے اجتماعیت میں شامل ہو کر اپنا کردار ادا کر سکیں ۔
سوال: معروف مذہبی شخصیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب جو کہ پاکستان کے الیکشن اور سارے اداروں سے کافی مایوس ہو چکے ہیں اپنے انٹرویوز میں کہہ چکے ہیں کہ پارلیمانی نظام کا کوئی فائدہ نہیں اور میں اب اسی راستے کو اختیار کروں گا جو شیخ الہندؒ کا راستہ تھا۔ میرے نزدیک تنظیم اسلامی ہی وہ جماعت ہے جو شیخ الہندؒ کے راستے پر گامزن ہے۔کیا یہ بہترین موقع نہیں ہے کہ تمام مذہبی جماعتوں کو منایا جائے کہ وہ منہج انقلاب نبوی کے مطابق اقامت دین کی جدوجہد کے لیے اکٹھے ہو جائیں ؟ اگر آپ نے اس حوالے سے کچھ اقدامات کیے ہوں تو آگاہ کیجئے گا۔ میرے نزدیک یہ بہترین موقع ہے کہ تنظیم اسلامی سامنے آ کر تمام مذہبی جماعتوں کو ایک شورائی نظام کے تحت ایک پلیٹ فارم پر جمع کرے تاکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کرم سے پاکستان حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بن جائے ۔(محمد شمس،چارسدہ )
امیر تنظیم اسلامی:بالکل مولانا فضل الرحمان صاحب نے یہ کہا ہے کہ پارلیمان نہیں اب میدان میں بات ہوگی اور تحریک کے راستے سے بات ہوگی۔پھر انہوں نے غالبا ًسلیم صافی کو انٹرویو دیتے ہوئے جماعت شیخ الہندؒ کا حوالہ دیا ہے ۔ تنظیم اسلامی پہلے سے اسی راستے پر ہے اور ڈاکٹر صاحبؒ کے زمانے سے انجمن خدام القرآن کے تحت’’جماعت شیخ الہند اور تنظیم اسلامی‘‘ کے عنوان سے ہماری ایک کتاب شائع ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحبؒ کے زمانے سے ہی تنظیم اسلامی کی یہ بھی کوشش رہی ہے کہ دینی سیاسی جماعتیں انتخابی سیاست کا راستہ ترک کرکے منہج انقلاب نبوی کے راستے پر آجائیں اور سب مل کر نفاذ شریعت کے لیے ایک بھرپور تحریک چلائیں۔ خصوصاً جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام دو بڑی دینی سیاسی جماعتیں ہیں جن کے پاس سٹریٹ پاور بھی ہے اور طلبہ اور مدارس بھی ہیں اوران کے دھرنوں میں لاکھوں لوگ آجاتے ہیں۔ہمیں سولو فلائیٹ کا کوئی شوق نہیں ہے، ہمیں نفاذ شریعت سے غرض ہے ۔ا لبتہ انتخابی راستے پر چل کر انہوں نے بھی دیکھ لیا ہے ۔ مولانا فضل الرحمان صاحب کے علاوہ سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن صاحب کے کم سے کم تین بیانات موجود ہیں ۔ انہوں نے بھی اعتراف کیا تھا کہ 60 سال کی تحریکی زندگی کے بعد میں بھی اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ انتخابی سیاست کےذریعے اسلام ہرگز نہیں آنے والا ۔ پھر ایک مرتبہ تحریک اسلامی کے سیمینار میں مجھ سے انہوں نے فرمایا کہ ہمارا خیال ہے کہ ڈاکٹر اسرار صاحب ؒ کی تجویز پر ہمیں غور کر لینا چاہیے۔ ایسی اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں ۔ پاکستان کے مختلف علاقوں کے دورہ کے دوران علماء سے بات ہوتی ہے اور اکثر علماء کا یہی موقف ہوتا ہے کہ ہمارا تعلق فلاں سیاسی جماعت سے ہے لیکن ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس انتخابی سیاست کے دلدل سے نکلنا پڑے گا ۔ اگر دو بڑی لیڈنگ دینی سیاسی جماعتیں بھی 75 سالہ تجربات کے بعد اسی نتیجہ پر پہنچی ہیں جو ڈاکٹرا سراراحمدؒ کا موقف تھا تو اس کا مطلب ہے کہ ڈاکٹر صاحبؒ کی بات میں وزن ہے اور تمام دینی جماعتوں کو اس پر غور کرنا چاہیے ۔ ہم تو تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے تمام دینی جماعتوں کو یہی دعوت دیتے آئے ہیں ۔ ملی یکجہتی کونسل جو قاضی حسین احمد مرحوم کے دور میں قائم کی گئی تھی اس کے پلیٹ فارم سے بھی سابق امیر تنظیم اسلامی حافظ عاکف سعیدصاحب نےمتعدد مرتبہ یہ پیغام پہنچایا کہ ہم سب ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر آگئے ہیں جو کہ سیاسی نہیں بلکہ ملی پلیٹ فارم ہے لہٰذا ہمیں ملت کے لیے کچھ کام کرنا چاہیے ۔ اس دعوت کے نتیجہ میں تنظیم اسلامی کو لاہور میں ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا اور وہاں بھی سابق امیر تنظیم اسلامی حافظ عاکف سعید صاحب نے پورا مدعا بیان کیا کہ آئیں ہم سب مل کر نفاذ شریعت کے لیے ایک تحریک چلائیں ۔ جس پر ان حضرات کی طرف سے بات آئی کہ ہمیں اس کو consider کرنا چاہیے ۔حالیہ رمضان المبارک میں بھی ہم نے مولانا فضل الرحمان صاحب اور امیر جماعت اسلامی کو خطوط لکھے ہیں کہ عید کے بعد ہم چاہتے ہیں کہ آپ سے ملاقات ہو ۔ اگر یہ ملاقات ہوگی تو ہم ان کے سامنے ایک بار پھر اپنا مدعا بیان کریں گے ۔اگر ملاقات نہ ہو پائی تو پھر بھی ہم کسی ذریعہ سے پیغام پہنچانے کی ضرور کوشش کریں گے کہ تمام دینی جماعتیں مل کر نفاذ شریعت کے لیے تحریک چلائیں ۔ کم ازکم مشترکات پر تو ہم اکٹھے ہو سکتے ہیں ، خاص طور پر سود ، بے حیائی اور دیگر منکرات کے خلاف ہم ایک ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ سب کے نزدیک منکرات ہیں ۔ انسداد سود کیس 2002ء سے لے کر 2022ء تک جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی نے مل کر لڑا ہے ۔ اسی طرح قادیانی معاملے پر سپریم کورٹ کی طرف سے سفارشات طلب کی گئیں تو ہم نے بھی جواب تیار کیا اور مفتی تقی عثمانی صاحب اور مفتی منیب الرحمان صاحب کی طرف سے بھی کم و بیش وہی جواب دیا گیا ۔ ہم نے اپنا جواب ایک طرف رکھ دیا اور ان کے جواب پر دستخط کرکے جمع کروا دیا ۔ اسی طرح ہم مشترکات پر آسکتے ہیں ۔ ایک بڑا مشترکہ معاملہ تحریک کا راستہ بھی ہوسکتا ہے۔ بڑی دینی سیاسی جماعتیں بھی تجربات کرکے اسی نتیجہ پر پہنچ رہی ہیں جس نتیجہ پر ڈاکٹر اسراراحمد ؒ پہلے تھے تو کیوں نہ ہم سب تحریک کے راستے پر آجائیں۔سود ، بے حیائی اور دیگر منکرات کا خاتمہ سب کا ہدف ہے ہم منکرات کے خلاف تحریک چلا ئیں تو یہ نفاذ شریعت کے لیے تحریک کا ایک اچھا آغاز بن سکتا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب کوئی مشترکہ پلیٹ فارم آ جائے تو پھر ایک امیر ہونا چاہیے، گفت و شنید کی جائے، اتفاق کیا جائے تو ان شاءاللہ تعالیٰ اس میں سے کوئی اللہ تعالی خیر برآمد فرما دے گا۔