(اداریہ) سبَق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا ! - خورشید انجم

10 /

اداریہ
خورشید انجمسبَق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا !

’’ایرانی صدر پاکستان تشریف لا چکے ہیں۔ یاد رہے کہ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ایران پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کیا۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارا ایک دوسرا ہمسایہ بھی ہے جس نے پاکستان کو تسلیم کرنے کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ وہ کل بھی پاکستان دشمنی میں سرفہرست تھا اور آج بھی بغضِ پاکستان میں مبتلا ہے۔‘‘ یہ الفاظ ایک بڑے چینل کے ایک معروف ٹی وی ٹاک شو کے اینکر نے ایرانی صدر جناب ابراہیم رئیسی کے حالیہ دورۂ پاکستان پر تبصرہ کرتے ہوئے ادا کیے۔ ہمیں حیرت نہیں ہوگی اگر قارئین اس مغالطے کا شکار ہو جائیں کہ’’ کل بھی پاکستان کی دشمنی میں سرفہرست‘‘ اور’’ آج بھی بغض ِپاکستان میں مبتلا‘‘ ’اُس ملک‘ سے موصوف کی مراد یقیناً بھارت ہوگی۔ لیکن اینکر نے مزید وضاحت کرتےہوئے اپنی گفتگو کا اختتام ان کلمات پر کیا ’’.... جی ہاں میرا اشارہ افغانستان کی طرف ہے۔‘‘
ہم نے فوراً کاغذ قلم سنبھالا اور جلدی سے 3 سوالات تحریر کر دیے جو قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں کہ شاید وہ اس گُتھی کو سلجھانے میں ہماری مدد کر سکیں۔
1۔ جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو اُس وقت کی حکومتِ افغانستان (بادشاہت) ، جس کے امریکہ کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات تھے ، آج کی امارتِ اسلامیہ افغانستان سے کیا مماثلت ہےجس نے امریکہ کو افغانستان سے ذلیل کر کے نکال باہر کیا؟
2۔ 1947ء میں جب پاکستان قائم ہوا تھاتو اُس وقت کی حکومتِ ایران (بادشاہت)کی انقلابِ ایران کے بعد سے آج تک کی حکومتِ ایران سے کیا مماثلت ہے؟
3۔ ایرانی صدر کے دورۂ پاکستان پر افغانستان کے حوالے سے پروپیگنڈا کا کیا جواز ہے؟ کیا یہ عوام کی ذہن سازی نہیں ہو رہی اور اگر ایسا ہی ہے تو کس کے کہنے پر یہ زہریلا بیانیہ تشکیل دیا جا رہا ہے؟
بہرحال ہم ببانگ دہل اس حقیقت کا واشگاف انداز میں اعلان کرتے ہیں کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا دورۂ پاکستان انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اسرائیل نے شام میں ایران کے قونصل خانہ پر حملہ کیا تھا، جس میں 2 جرنیلوں سمیت کئی افراد جاں بحق ہو گئے تھے تو اسرائیل کی اس ننگی جارحیت اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی پر حکومتِ پاکستان کی طرف سے مذمتی بیان کے جاری نہ کیے جانے کو اہلِ فکر و نظر نے تشویش کی نگاہ سے دیکھا تھا۔ پھر یہ کہ چند ماہ قبل جب دونوں ہمسایہ مسلم ممالک نے ایک دوسرے پر میزائل برسائے تو یہ سانحہ جو دونوں ممالک کے لیے انتہائی مضر ثابت ہو سکتا تھا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ آپس کی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے دونوں اطراف سے قدم بڑھائے گئے جس کے مثبت نتائج نکلے اور جس کے واضح شواہد ایرانی صدر کے دورۂ پاکستان کے دوران دیکھنے کو ملے۔ پاکستان، ایران تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لیےآٹھ خصوصی یاد داشتوں پر دستخط کئے گئے۔ باہمی تجارت کے حجم کودس ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ خصوصی اقتصادی تعاون زون کے قیام پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ گیس پائپ لائن منصوبہ ،جو پاکستان کی طرف سے کئی برس تک بے جا تاخیر کا شکار رہا ،اُس پر عمل درآمد شروع کرنے کے حوالے سے بھی پاکستان کی آمادگی نہ صرف نظر آرہی ہےبلکہ عمل درآمد کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ پھر یہ کہ دونوں ممالک کے سربراہان ِ مملکت کی ملاقات اور ایرانی صدر کے دورے کے اختتام پر جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں بھی خیر سگالی اور باہمی تعاون کو فروغ دینے پر زور دیا گیا ہے۔ البتہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت کا ابلیسی اتحادِ ثلاثہ پاکستان اور ایران میں بڑھتے ہوئے تعلقات پر ہرگز خوش نہیں ہوگا۔ پاکستان کے حکمران اور مقتدر طبقات اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ امریکہ ایرانی صدر کے دورۂ پاکستان کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لے گا۔ پون صدی کی تاریخ شاہد ہے کہ امریکہ کی نام نہاد ’’دوستی‘‘ بلکہ درست تر الفاظ میں ’’غلامی‘‘ سے ہم نے نقصان کے سوا کچھ نہیں پایا۔ پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسی کا ایک اہم ستون یہ ہے کہ پاکستان کو ایران اور افغانستان سے تعلقات بہتر نہ کرنے دیے جائیں۔ اپنے اس ہدف کو پانے کے لیے وہ ہر طریقے سے پاکستان کا بازو مروڑے گا لیکن اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ اور اس کے زیرِ اثر عالمی اداروں سے فوری چھٹکارا حاصل کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے۔
پاکستان ،جو اسلام کے نام پر وجود میں آیاتھا، آج ابلیسی قوتوں کے رحم و کرم پرہے۔ شدید معاشی اور سیاسی بحران واضح طور پر نظر آرہا ہے۔ سودی قرضوں میں جکڑے ہوئےہونے کی وجہ سے ہمارے ایٹمی اثاثے ‘ قومی سلامتی اور خودمختاری سمیت ہر چیز خطرے میں ہے ۔ ملک اس حالت کو کیسے پہنچا ؟ اس کی ہزارہا وجوہات گنوائی جاسکتی ہیں‘ لیکن اس تباہی کااصل ذمہ دار صرف حکمران طبقہ ہی ہے وہ حکمران طبقہ جو حکومتوں میں آنے کے لیے IMF کی شرائط پران سے معاہدے کرتا رہا‘ عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن پر ملک دشمن پالیسیاں بناتا رہا اور اقتدار حاصل کرنے اور کرسی بچانے کے لیے بیرونی آقاؤں کے سامنے اپنا سر جھکاتا رہااور اس طرح اس طبقہ نے ملک کو تباہی کے کنارے تک پہنچا دیا ۔ اس میں سویلین اور فوجی دونوں ادوارِحکومت شامل ہیں۔ پھر یہ کہ سویلین ادوارِ حکومت میں بھی مقتدرہ نے ملکی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد اوراپنےقبیلےکو ترجیح دی۔
ایرانی صدر کے دورۂ پاکستان کے دوران دونوں ممالک کا اپنی اپنی دہشت گرد تنظیموں پر پابندی لگانے کا بھی اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی ایک ناسُور ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ لیکن جب تک دہشت گردی کو جنم دینے والے تمام عوامل کا گہرائی اور گیرائی سے ادراک نہیں کیا جائے گا اور ریاست کی جانب سے ماضی میں کیے گئے اُن اقدامات کا تدارک نہیں کیا جائے گا جن کے باعث اپنے ہی ملک کے شہری ناراض ہوگئے تھے، اُن کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کو تسلیم کرکے اُن کا مد اوا نہیں کیا جائے گا، اس ملک میں حقیقی اور مستقل امن و امان قائم نہیں کیا جا سکتا۔ علاوہ ازیں سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا یہ بیان کون بُھلا سکتا ہے کہ ’’داعش کو امریکہ نے قائم کیا۔‘‘ لہٰذا حکمرانوں اور مقتدر طبقات کو فہم و فراست کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ دشمن کی چالوں کو اُن کے منہ پر دے مارا جائے۔
دونوں ممالک، بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ باہمی تنازعات میں اُلجھ کر غزہ پر جاری اسرائیلی مظالم اور درندگی کو فراموش نہ کر بیٹھیں۔ اسرائیل کی شدید خواہش ہے کہ امریکہ، مغربی یورپ، چین اور روس کو بلاواسطہ مشرق وسطیٰ کی جنگ میں گھسیٹا جائے۔ پھر یہ کہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے اسرائیل جس طرح بعض مسلمان ممالک کی فضائی حدود کو استعمال کر رہا ہے اُس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست یہ بھی چاہتی ہے کہ مسلمان ممالک آپس میں دست و گریباں ہو جائیں۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ غزہ میں تقریباً سات ماہ سے جاری بدترین درندگی کے باعث غزہ کے غیور مسلمانوں کی شہادتوں نے پوری دنیا کے عوام کا ضمیرجھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور اب دنیا بھر میں ناجائز صہیونی ریاست کو نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ لہٰذا اسرائیل غزہ میں جاری وحشیانہ قتل و غارت سے بھی دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج غزہ میں بعینہٖ وہی حالات ہیں جو نائن الیون کے بعد افغانستان میں تھے۔ اُس وقت جس طرح افغانستان پر پوری دنیا متحد ہو کر ٹوٹ پڑی تھی ،آج بھی غزہ میں اسرائیلی درندگی کو مغربی حکومتوں کی بلا واسطہ اور اکثر مسلمان ممالک کی بالواسطہ معاونت حاصل ہے۔امریکہ اور مغربی یورپ کے ممالک تو کھل کر اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔ دوسری طرف مسلمان ممالک کی خاموشی اور بعض معاملات میں اقوال و افعال کے ذریعے ظالم کی تائید و رفاقت ،صہیونیت کے لیے نہ صرف تقویت کا باعث بن رہی ہے بلکہ اُس کا پلڑا بھی بھاری کر رہی ہے ۔گویا جس طرح افغانستان کے خلاف سب نے مل کر طاغوت کا ساتھ دیا تھا، آج اہلِ غزہ کے معاملے میں بھی اسی بدترین تاریخ کو دہرایا جا رہا ہے۔ اہلِ غزہ اپنی جانوں کی قربانی دے کردر حقیقت امتِ مسلمہ اور مسجدِاقصیٰ کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ 35000 سے زائد شہداء جن میں اکثریت عورتوں اور معصوم بچوں پر مشتمل ہے، جرأت، بہادری اور عزمِ مصمّم کی زندہ تصویر ہیں۔ اگرچہ میڈیا کی صہیونیت نوازی ظاہر و باہر ہے لیکن اس کے باوجود خود ناجائز صہیونی ریاست کے اندر سے ایسی خوف میں ڈوبی آوازیں بلند ہو رہی ہیں کہ ’’اب ہم محفوظ نہیں‘‘! مجاہدین غزہ بھی بالآخر مجاہدین افغانستان کی طرح سرخرو ہوں گے ۔ ان شاء اللہ العزیز! آج امتحان غزہ کے مسلمانوں کا بھی ہے لیکن اصل امتحان ایک بار پھر مسلمان ممالک کے حکمرانوں اور عوام کا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ممالک اپنے اصل دشمن کو پہچانیں اور متحد ہو کر اسرائیل کی جارحیت اور مظالم کے خلاف مشترکہ مؤقف اختیار کریں۔ پھر یہ کہ ہر قسم کے دباؤ کو سختی سے رد کرتے ہوئے غزہ کے مظلوم اور مجبور مسلمانوں کو ہر قسم کی سفارتی، مالی اور عسکری مدد فراہم کی جائے تاکہ دشمن کے مذموم مقاصد کو خاک میں ملایا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ امتِ مسلمہ کو اس امتحان میں سرخرو کرے۔ آمین!
سبَق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا