(الہدیٰ) حضرت موسیٰ ؑکے لیے حضرت شعیب ؑ کا پیغام - ادارہ

8 /
الہدیٰ
 حضرت موسیٰ    ؑ کے لیے حضرت شعیب ؑ کا پیغام
 
آیت 25{فَجَآئَ تْہُ اِحْدٰ ىہُمَا تَمْشِیْ عَلَی اسْتِحْیَآئٍ  ز} ’’اتنے میں اُس کے پاس ان دو میں سے ایک لڑکی شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی آئی۔‘‘
{قَالَتْ اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْکَ لِیَجْزِیَکَ اَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَاط} ’’اُس نے کہا : میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تا کہ وہ بدلہ دیں آپ کو اس کا جو آپ نے ہمارے لیے پانی پلایا ہے۔‘‘
یعنی آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلانے کے لیے جومشقت اٹھائی ‘ہمارے والد آپ کو اس کا کچھ اجر دینا چاہتے ہیں۔
{فَلَمَّا جَآئَ ہٗ وَقَصَّ عَلَیْہِ الْقَصَصَ لا} ’’تو جب موسیٰ ؑاُس کے پاس آیا اور اُس نے اسے اپنا سارا قصّہ سنایا‘‘
اس آیت میں لفظ ’’القَصَص‘‘ آیا ہے اور اسی مناسبت سے اس سورۃ کا نام القَصَص ہے۔
{قَالَ لَا تَخَفْ قف نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(25)} ’’اُس نے کہا :اب ڈرو نہیں‘تم نجات پاچکے ہو ظالم لوگوں سے۔‘‘
یعنی آپ علیہ السلام کے ان دشمنوں کی اس علاقے تک رسائی نہیں۔ یہاں آپ کو کسی قسم کی پریشانی یا تکلیف نہیں ہوگی۔ آپ یہاں آرام سے رہ سکتے ہیں۔ 
بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں جس شخصیت کا ذکر ہے وہ حضرت شعیب ؑ تھے ‘اس لیے کہ حضرت شعیبؑ کے مدین میں مبعوث ہونے کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ چنانچہ علّامہ اقبال نے بھی اس شعر میں اسی طرف اشارہ کیاہے:   ؎
اگر کوئی شعیبؑ آئے میسّر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے!
یعنی حضرت موسیٰ ؑ آٹھ یا دس سال تک چرواہے کی حیثیت سے حضرت شعیب ؑ کی خدمت میں رہے اور یہ اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ آپؑ چرواہے سے کلیم اللہ بن گئے۔ 
 
درس حدیث
حیا جنت میں لے جانے والا عمل
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ؓ  قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ‌ ﷺ : ((اَلْحَیَائُ مِنَ الْاِیْمَانِ، وَالْاِیْمَانُ فِی الْجَنَّۃِ، وَالْبَذَائُ مِنَ الْجَفَائِ، وَالْجَفَائُ فِی النَّارِ))(مسند احمد)
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’حیا، ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں (لے جانے والا) ہے اور بد کلامی و بد زبانی، اکھڑ مزاجی اور بدخلقی سے ہے اوراکھڑ مزاجی آگ میں(لے جانے والی) ہے۔‘‘
ہر انسان فطری طور پر زیور حیا سے آراستہ ہوتا ہے۔ اس کے اندر خیر اور بھلائی کے کاموں سے محبت ، عفت وپاکدامنی کے جذبات، سخاوت وفیاضی اور انسانی ہمدردی کی بنیادی صفات موجود ہوتی ہیں۔ حیا انسان کو بے حیائی کے کاموں، نازیبا اور خلاف ادب باتوں اور حرکتوں سے روکتی ہے، اس لئے کہا گیا ہے کہ جب حیااور شرم نہیں تو انسان جو چاہے کرے۔ اس کو روکنے والی کوئی چیز باقی نہیں رہتی ہے۔