(اداریہ) پاکستان اللہ تعالیٰ کی خصوصی نعمت: ناشکری کیوں؟ - خورشید انجم

8 /
اداریہ
خورشید انجم
     پاکستان اللہ تعالیٰ کی خصوصی نعمت: ناشکری کیوں؟
 
{وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْھَا رِزْقُھَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللہِ فَاَذَاقَھَا اللہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ (112) وَلَقَدْ جَاۗءَھُمْ رَسُوْلٌ مِّنْھُمْ فَکَذَّبُوْہُ فَاَخَذَھُمُ الْعَذَابُ وَھُمْ ظٰلِمُوْنَ(113)}    (النحل)
’’اور اللہ نے مثال بیان کی ہے ایک بستی کی جو بالکل امن و اطمینان کی حالت میں تھی‘ آتا تھا اس کے پاس اس کا رزق با فراغت ہر طرف سے۔  تو اُس نے نا شکری کی اللہ کی نعمتوں کی‘ تو اُسے چکھا (پہنا) دیا اللہ نے لباس بھوک اور خوف کا‘ اُن کے کرتوتوں کی پاداش میں۔اور آیا اُن کے پاس ایک رسول انہی میں سے تو انہوں نے اس کو جھٹلا دیا‘ پس آپکڑا انہیں عذاب نے اور وہ خود ہی ظالم تھے۔‘‘
درج بالا آیات سورۃ النحل کی ہیں۔سورۃ النحل میںاللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سی نعمتوں کا ذکر کیا ہے اور پھر لوگوں کو ان کی طرف توجّہ دلا کر کہا ہے کہ ان پر غور و فکر کرو‘ تمہیں اللہ کی معرفت حاصل ہوگی۔ اِن آیات میں ایک قوم کی ناشکری کا قصہ بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلایا‘کس طرح انہوں نے ناشکری کی رَوِش اختیار کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کیسا سلوک فرمایا! تفاسیر میں درج ہے کہ یہ قوم سبا کا قصہ ہے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے خوب زرعی اور معاشی خوشحالی سے نوازا تھا مگر انہوں نے ناشکری کی روش اختیار کی۔تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اس زور کا سیلاب بھیجا کہ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بنایا ہوا بند ٹوٹ گیا‘ جس کے نتیجے میں ان کی بستیاں برباد ہو گئیں اور ان کے سرسبزو شاداب باغ اجڑ گئے۔ قومِ سبا پر جب سیلاب آیا تو وہ تتّر بتّر ہوگئی۔ انہی میں سے دو قبائل اوس اور خزرج بھی تھے جو یمن سے نکل کر مدینہ منورہ آکر آباد ہوگئے تھے۔ اس قوم کو جزیرہ نما ئےعرب پر تجارت کی اجارہ داری حاصل تھی۔ شام سے یمن تک کی تجارتی شاہراہ قومِ سبا کے پاس تھی۔ اس قوم کے بعد یہی چیز قریش کو حاصل ہوئی جس کا تذکرہ سورئہ قریش میں ہے۔فرمایا:
{لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ (1) اٖلٰفِھِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَاۗءِ وَالصَّیْفِ (2) فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ھٰذَا الْبَیْتِ (3) الَّذِیْ اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ ڏ وَّاٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍ(4)}
’’قریش کے مانوس رکھنے کی وجہ سے (یعنی) سردیوں اور گرمیوں کے سفر سے ان کو مانوس رکھنے کی وجہ سے۔ پس انہیں بندگی کرنی چاہیے اس گھر کے رب کی جس نے انہیں بھوک میں کھانے کو دیا اور انہیں خوف سے امن عطا کیا۔‘‘
بیت اللہ کی تولّیت اور خدمت کی وجہ سےقریش ِمکہ کو امن ‘ چین اور سکون بھی حاصل تھا۔ لہٰذا اس سورۃ میں     اللہ تعالیٰ قریش کو یاد دلا رہے ہیں کہ انہیں عرب میں جو عزّت حاصل ہے اور جو امن‘ چین‘ سکون اورخوشحالی میسّر ہے ،  اس پر شکر گزاری کی رَوِش اختیار کریں اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کی عبادت کریں۔فتح مکہ کے بعد دورِ نبوی ﷺ میں اور پھر خلافتِ راشدہ میں مسلمانوں کوپہلے جزیرۂ نما عرب اور پھر تین بر اعظموں میں معاشی، سیاسی، اخلاقی، سماجی، تمدنی اورامورِ عالم میں عروج حاصل ہوا لیکن اُس کے بعد بتدریج کفرانِ نعمت کی روش بڑھتی گئی اور بالآخر 1924ء میں یہ حالت ہوگئی کہ :
مَیں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر اُمم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل‘ طاؤس و رُباب آخر!
قرآن مجید کا اسلوب یہ ہے کہ وہ دراصل ہمیں بھی سمجھا رہا ہے کہ اس آئینے میں اپنی تصویر دیکھو کہ تم کہاں کھڑے ہو‘ تمہاری کیفیت کیا ہے؟امر واقعہ یہ ہے کہ اگر ہم غورو فکر کریں تو ہمارامعاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے‘ اِلا ماشاء اللہ۔   حقیقت یہ ہے کہ انگریز کی دو سو سالہ غلامی کے دور میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمان پستی اور ذلت و رسوائی کی عمیق گھاٹی میں گر چکے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہم پر مہربانی کی اورپاکستان کے لیے تحریک چلائی گئی۔ تحریک ِپاکستان کی بنیاد ہندو کا خوف تھا کہ انگریز کے جانے کے بعد وہ ہم سے ہزار سالہ شکست کا انتقام لے گا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت اندرا گاندھی کے منہ سے یہ الفاظ بھی نکل گئے تھے کہ ’’ہم نے اپنی ہزار سالہ شکست کا انتقام لے لیا ہے۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے پاکستان جیسی نعمت ہمیں عطا کردی۔ کس لیے؟ چونکہ ہم نے کہا تھا کہ ہمارا دین خطرے میں ہے‘ ہماری تہذیب خطرے میں ہے‘ ہماری ثقافت خطرے میں ہے ۔ہندو اکثریت میں ہے‘انگریز کے جانے کے بعد تو ہندو چھا جائے گا۔ لہٰذا ہمیں ایک علیحدہ خطہ چاہیے جہاں ہم آزادی سے اپنے دین پر عمل کرسکیں۔ علّامہ اقبال نے1930ءکے خطبہ میں یہی بات کہی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعا نہ صرف قبول کی بلکہ ہمیں ایک کی بجائے دو پاکستان عطا کردیے۔ ایک مشرقی پاکستان اور ایک یہ موجودہ مغربی پاکستان۔ لیکن پھر ہوا کیا؟ ہم نے بھی وہی کچھ کیا جو قومِ سبا نے کیا تھا: {فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ} ’’تو اُس نے نا شکری کی اللہ کی نعمتوں کی‘‘توہم نے بھی اللہ کی نعمتوں کی نا شکری کی ہے۔ کیا ہم نے بھی یہی وعدہ نہیں کیا تھا کہ اے اللہ! ایک بار ہمیں ایک علیحدہ خطہ عطا کر دے ‘ ہم نیکوکاروں میں ہوں گے‘ ہم تیرے دین کے عادلانہ نظام کو قائم کرکے دکھائیں گے‘ہم اسلام کا نظامِ حریت و اخوت و مساوات قائم کریں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جب ہمیں ایک کے بجائے دو خطے عطا کردیے‘ ہر طرح کی سہولیات عطا کردیں‘ بافراغت رزق ہمارے پاس تھا  ---- انڈیا سے جب کوئی پاکستان آتا تو اسے یوں محسوس ہوتا کہ ایک غریب ملک سےایک خوشحال ملک میں آ گئے ہیں ---- لیکن ہمارا طرزِعمل اور رویّہ مسلسل ناشکری کا رہا۔ اسی دین سے ہم نے اعراض کیا جس کو قائم کرنے کا وعدہ کر کے ہم نے یہ ملک حاصل کیا تھا۔ قرار دادِ مقاصد منظور ہوئی تو پارلیمنٹ کے اندر کہا گیا کہ آج ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں کہ عوامی حاکمیت کے دور میں اللہ کی حاکمیت کا اقرار   ع
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں!
No legislation will be done repugnant to The Quran and The Sunnah!
 ہماری باقی ساری تاریخ بھی اسی طرح کی ہے ۔اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ سزا کے طور پر1971ءمیں ہمارے اوپر عذاب کا کوڑا برسا اور مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوگیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ انہوں نے ’’مشرقی پاکستان‘‘ نام رکھنا بھی گوارا نہیں کیا جبکہ دنیا میں اُس وقت دو جرمنی تھے اور دو کوریا تواب بھی ہیں۔پاکستا ن بھی دو ہو سکتے تھے: مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان۔ لیکن بنگالیوں کے دلوں میں ہمارے خلاف ایسی نفرت تھی کہ انہوں نے نام میں پاکستان کا لفظ بھی گوارا نہیں کیا۔ ہمارے ترانوے ہزار کڑیل جوان ہندو کی قید میں چلےگئے۔ پوری اسلامی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے ہماری معلومات کی حد تک اس کی مثال نہیں ملتی ۔ شہید تو ہوئے ہیں لیکن اتنی بڑی تعداد میں قیدی کبھی بھی نہیں ہوئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا تھا جو ہم پر برسا ہےاور اس کی وجہ فقط ’’اعراض عن الدین‘‘ ہے کہ اس دین سے ہم نے اعراض کی روش اختیار کی۔ اس کے بعد بھی ہماری روش نہیں بدلی اور اب بگاڑ بڑھتے بڑھتے جس حد تک پہنچ گیا ہے وہ ہمارے سامنے ہے ۔ مروّجہ سیاست کی بات کریں تو اُس میں یہ بگاڑ ویسے تو کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے‘ لیکن اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی آخری حدوں کو پہنچ گیا ہے۔ گالیاں دینا اور غیبت کرنا تو ایک معمول سا بن گیا ہے۔ہلڑ بازی ‘ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا‘ الزام تراشی‘ بہتان طرازی‘ کردار کشی‘ بیڈ روم تک کی آڈیو / ویڈیو لیکس کا معاملہ، یہ ہماری سیاست کے سنگ ہائے میل بن چکے ہیں۔ مقتدرہ کی بات کریں تو پون صدی سے اصل حکومت اُنہی کی چل رہی ہے، کبھی کھلے عام مارشل لاء کی صورت میں تو کبھی پردے کے پیچھے سے ’ڈمی‘ یا ’ہائبرڈ‘ حکومتوں کی ڈوریاں کھینچتے ہوئے۔ پون صدی کی تباہی سب کے سامنے ہے مگر طاقت ور شاید سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ معاشی حالت یہ ہے کہ وہ پاکستان جو 1960ء کی دہائی میں جنوبی کوریا اور ملائشیا کو معیشت درست کرنے کے گُر سکھا رہا تھا اور پاکستان کے پانچ سالہ منصوبے کو بنیاد بنا کر اِن ممالک نے اپنی معاشی ترقی کا سفر شروع کیاتھا، آج آئی ایم ایف سے سودی قرضہ لینے کے لیے گھٹنوں کے بل گرا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف اور اُس کے پشتی بان تقریباً نصف صدی سے پاکستان کو ماتھے کے بالوں سے پکڑ کر اُس کی خون آلود ناک سے لمبی لمبی لکیریں نکلوا رہے ہیں۔ معاشی تنگی سے خود کشیاں بڑھ رہی ہیں اور پڑھا لکھا نوجوان طبقہ دھڑا دھڑ ملک چھوڑ کر جا رہا ہے۔دہشت گردی، سٹریٹ کرائم اور بدامنی نے ایک مرتبہ پھر ملک کو اپنے خونخوار پنجوں میں جکڑ لیا ہے۔ گویا وہی کیفیت نظر آتی ہے جو سورۃ الانعام کی آیت۶۵ میں بیان کی گئی:
{قُلْ ھُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓی اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّیُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ    ۭ اُنْظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّھُمْ یَفْقَھُوْنَ (65)}
’’کہہ دیجیے کہ وہ قادر ہے اس پر کہ تم پر بھیج دے کوئی عذاب تمہارے اوپر سے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر دے اور ایک کی طاقت کا مزا دوسرے کو چکھادے۔ دیکھو کس کس طرح ہم اپنی آیات کی تصریف کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں۔‘‘
یہ کیفیت ہے جو اس وقت ہماری ہو رہی ہے۔ہم ایک دوسرے کو مزہ چکھانے کے چکر میں ہیں اور گروہ بندی حد سے بڑھتی جارہی ہے۔ اس ساری صورتِ حال کی بنیادی وجہ اس وعدے کی خلاف ورزی ہے جوقیامِ پاکستان کے موقع پربحیثیت قوم ہم سب نے اللہ سے کیاتھا۔ یہ خلاف ورزی ہم مسلسل کرتے چلےجا رہے ہیں۔ کہاں ہے وہ اسلام جس پر عمل کرنے کا کا وعدہ کر کے ہم نے یہ ملک حاصل کیا تھا؟ سوال یہ ہے کہ اس صورت حال سے نجات کیسے حاصل کریں؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اس کا واحد راستہ ہے ’’توبہ ‘‘! جو کچھ ہو چکا‘ سو ہو چکا۔اب اس سے واپس پلٹا جائے۔ ہمیںاپنے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ اپنے آپ کو ٹٹولیں کہ ہم کتنے مسلمان ہیں! کیا اپنےپانچ چھ فٹ کے وجود پر مَیں نے اسلام کو نافذ کیا کہ نہیں؟ اگر کیا ہے تو کتنے فیصد کیا ہے؟ کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی اور اس کے بعد جو میرا دائرئہ اختیار ہے‘ اس کے اندر بھی شریعت کا نفاذ ہو۔ اس انفرادی توبہ کے ساتھ اجتماعی توبہ بھی ہوتو مکمل توبہ ہو گی‘ جیسا کہ قومِ یونس نےگڑگڑا کر اللہ کے حضور توبہ کی تھی۔ ان کی اجتماعی توبہ قبول بھی ہو گئی تھی اور عذابِ الٰہی کے آثار نظر آنے کے بعد وہ عذاب بھی ان سے ہٹا لیا گیا تھا ۔ اگر ہمیں بھی اللہ کے عذاب سے بچنا ہے تو یہی روش اختیار کرنا ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت ہمارے بزرگوںنے اللہ سے کہا تھا کہ ہم اس ملک میں دین کا نفاذ کریں گےاور اسلام کا بول بالا کریں گے۔ لہٰذا اس دین کے نفاذ اور قیام کے لیے عملی جدّوجہد کی جائے۔ہم اپنے تن من دھن کو اس عظیم کام کے لیے وقف کر دیں ۔بقول جگر مراد آبادی؎
چمن کے مالی اگر بنا لیں موافق اپنا شعار اب بھی
چمن میں آسکتی ہے پلٹ کر، چمن سے روٹھی بہار اب بھی
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
٫ظظظ
محترم نعیم الرحمان صاحب
امیر جماعتِ اسلامی
بسم اللہ الرحمن الرحیم!
02 مئی 2024ء
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ !
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میرا یہ عریضہ آپ کو ایمان و صحت کی بہترین کیفیت اور اہل و عیال کی خیر و عافیت کے ساتھ ملے۔ آمین!
محترم جماعت کے کارکنوں کی ایک بڑی اکثریت نے آپ کو جماعت اسلامی کا امیر منتخب کرکے آپ پر بھرپور اور مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اسلامی اور اعلیٰ تہذیبی روایات کے حوالے سے شاندار تاریخی پس منظر کی حامل اسلامی جماعت کی سربراہی کا اعزاز حاصل ہونے پر ہم آپ کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ محترم نعیم الرحمان صاحب یہ آپ کی خوش نصیبی ہے کہ آپ اُس جماعت کے امیر منتخب ہوئے ہیں جس کے اساسی اور بانی امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ تھے جن کا تعلق اگرچہ برصغیر پاک و ہند سے تھا لیکن پورا      عالم اسلام دین کے حوالے سے اُن کی علمی اور عملی کاوشوں کا معترف تھا خاص طور پر عالمِ عرب میں اُنہیں بڑی قدر اور محبت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا گویا وہ نابغہ روزگار تھے یہ مقام اُنہیں دین اسلام کی بے لوث خدمت سے ملا۔ پاکستان بننے کے بعد اُنہوں نے اپنا جان و مال سب کچھ ملک میں اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے وقف کر دیا۔ محترم حقیقت یہ ہے کہ اس پس منظر میں اور عالم اسلام اور پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامہ میں جماعت ِاسلامی کی امارت پھولوں کی سیج ہرگز نہیں ہے۔ آج  عالم اسلام، عیار مغرب کے دہرے معیار اور اُس کی پشت پناہی سے صہیونیوں کی بے ہنگم جارحیت اور قتل و غارت گری سے بدترین حالات سے دوچار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان طاغوتی قوتوں کے آگے عرب حکمراں سرنڈر کر چکے ہیں۔ اور جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے معاشی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اُس کا اپنا تحفظ اور سیکورٹی خطرات سے دوچار ہے۔ لیکن مسلمان مایوس نہیں ہوتا ایک طرف تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کی قیادت میں مختلف پروگراموں کے ذریعے عوام میں دینی جذبہ ابھارنے اور پاکستان میں عوامی تحریک سے نفاذِ دین کے قیام کے لیے کوشاں ہے تو دوسری طرف آپ نے جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر کی حیثیت سے جس طرح سیکولر عناصر کے دانت کھٹے کیے اور جماعت اسلامی کو کراچی میں ایک زبردست قوت کے طور پر ابھارا ہے یہ بڑی امید افزا بات ہے مجھے یقین ہے کہ اِسی جذبہ کے کار فرما رہنے کی صورت میں پاکستان بھر میں اسلامی جماعتیں سیکولر قوتوں کو پسپا کرکے پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ ان شاء اللہ! آخر میں ہم پھر آپ کو صِدق دل سے  امیر جماعت اسلامی منتخب ہونے پر مبارک دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین!
٫ظظظ