(منبرو محراب) زندگی کے نشیب و فراز میں حکمتیں - ابو ابراہیم

8 /

زندگی کے نشیب و فراز میں حکمتیں

(سورۃ الفجر کی آیات 15 اور 16 کی روشنی میں)


جامع مسجدقرآن اکیڈمی، کراچی میںامیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے 26 اپریل 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
مصائب و آلام ، ابتلا و آزمائش انسانی زندگی کا حصہ ہیں ۔ یہی انسان کا امتحان ہے کہ وہ کس کیفیت میں کیا ردعمل دیتا ہے ۔ لیکن انسان ناشکرا بھی ہے اور بے صبرا بھی۔ جب اس کو کوئی نعمت ملتی ہے ، اسائش ور احت ملتی ہے ، دولت و اختیار ملتا ہے تو اکڑ میں آجاتاہے اور سمجھتا ہے کہ مجھ میں کوئی خاص بات ہے ، تبھی مجھے سب کچھ مل رہا ہے ، یہ تکبر اسے ناشکری ، احسان فراموشی اور غفلت میں مبتلا کر دیتا ہے اور جب اس سے نعمت واپس لےلی جائے، مال ودولت ، اختیار و آسائش واپس لے لی جائے تو بڑا مایوس ہو جاتاہے اور اس مایوسی میں بھی وہ ناشکری کے کلمات ادا کرنے لگ جاتاہے ۔ یہ آزمائش و ابتلا کا معاملہ 24 گھنٹے انسان کے ساتھ رہتا ہے ۔ اسی تناظر میں آج ہم سورۃ الفجر کی آیات 15 اور 16 کا مطالعہ کریں گے جن میں انسان کی انہی کیفیات کو بیان کیا گیا ہے اور ان کی روشنی میں ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گےکہ دراصل اس آزمائش و ابتلا کا مقصد کیا ہے ۔ فرمایا: 

 

{فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ا بْتَلٰـىہُ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗ لا فَـیَـقُوْلُ رَبِّیْٓ اَکْرَمَنِ(15)} ’’انسان کا معاملہ یہ ہے کہ جب اُس کا ربّ اُسے آزماتا ہے پھر اُسے عزّت دیتا ہے اور نعمتیں عطا کرتا ہے ‘تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے عزّت دی!‘‘
وہ لوگ جو دولت ، آسائش ، اختیار کو معیار بناتے ہیں انہیں جب کچھ مل جاتاہے تو وہ اکڑ میں آجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے اور اعلیٰ ہیں تبھی تو رب نے ’عزت ‘بخشی ہے ۔ انسانی سوچ کا یہ انداز سورۃ الکہف میں باغ والے کے قصے میں بھی بیان ہوا ہے اور    قرآن مجید میں دیگر مقامات پر بھی اس طرح کے واقعات بیان ہوئے ہیں جب کسی کو کوئی نعمت مل گئی تو وہ تکبر اور غرور میں آگیا اور سمجھا کہ اگر میں بُرا ہوتا تومجھے اتنی نعمتیں کیوں ملتیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ زیر مطالعہ آیات میں واضح فرمارہا ہے کہ نعمتوں کا عطا کیا جانا بھی انسان کے لیے آزمائش ہے اور نعمتوں کا چھن جانا بھی آزمائش ہے۔ جیسے اگلی آیت میں بھی فرمایا :   

 

{وَاَمَّــآ اِذَا مَا ابْتَلٰـىہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗلافَـیَـقُوْلُ رَبِّیْٓ اَہَانَنِ(16)}’’اور جب وہ اسے آزماتا ہے پھر اُس کا رزق اس پر تنگ کر دیتا ہے‘تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا!‘‘
آپ دیکھئے کہ ان دونوں آیات میں لفظ ابتلا آرہا ہے ۔ عربی زبان میں ابتلا کے معنی امتحان ہیں ۔ انسان کو اس دنیا میں امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے ، اس کو کچھ عطا کیا جائے تو وہ بھی امتحان ہے اور اگر کچھ واپس لے لیا جائے تو وہ بھی امتحان ہے ۔ خوشی ، خوشحالی ، تندرستی ، مال و دولت بھی امتحان ہے اور تنگدسی ، بیماری ، غربت اور غم بھی امتحان ہے ۔ یعنی انسان کا ہر حال میں ، ہر لحظہ امتحان ہو رہا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط}’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔‘‘(الملک: 2)
زندگی کے ہر لمحہ جو کچھ ہم پر بیت رہا ہے یہ امتحان ہے ۔ کبھی اللہ تعالیٰ ایک اور انداز سے بھی فرماتا ہے: 

 

{وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃًطوَاِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ(35)} (الانبیاء)’’اور ہم آزماتے رہتے ہیں تم لوگوں کو شر اور خیر کے ذریعے سے۔اور تم سب لوگ ہماری ہی طرف لوٹا دیے جائو گے۔‘‘ 
اگر انسان کو اس پر یقین ہو جائے کہ دنیا کی یہ چند روزہ زندگی ایک امتحان ہے تواس کی زندگی ہر قسم کے غم اور پریشانی سے پاک ہو جائے گی ۔ سورۃالنحل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃًج} (آیت:97) ’’جس کسی نے بھی نیک عمل کیا ‘ خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ بشرطیکہ ہو وہ مؤمن ہو تو ہم اُسے (دُنیا میں) ایک پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے۔‘‘
اس زمین پر حیات طیبہ کیا ہے ؟ بندہ اللہ کے فیصلے پر راضی رہے ، دل میں اللہ پر کامل ایمان اور مکمل بھروسا ہو ، دل میں اللہ کے لیے محبت کے جذبات ہوں ۔ اس بات پر مکمل یقین ہو کہ سب کچھ اس کے اذن سے ہورہا ہے ۔ اچھی اور بُری تقدیر اللہ کی طرف سے ہے ۔ المختصر انسان کے ساتھ جو بھی حالات پیش آئیں وہ اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں ۔ یہ یقین اور ایمان جس کے دل میں ہو تو اس کی زندگی کو اللہ تعالیٰ پاکیزہ بنا دیتاہے ۔ ایسا ایمان بہت بڑی دولت ہے اور اتنی بڑی نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی پریشانی اور غم سے نجات دے دیتاہے ۔ حماس کے لیڈر اسماعیل ہانیہ کے بیانات ہم نے سنے، جب ان کو ان کے بیٹوں اور پوتوں کی شہادت کی خبر ملی ، اسی طرح ان کی بیوہ بہو کا بیان بھی سنا ۔ کہتی ہیں اللہ کی امانت تھی اللہ نے واپس لے لی ، ہم اللہ کے فیصلے پر راضی ہیں ۔ ایسا ایمان بہت بڑی نعمت ہے اوردنیا والوں کے لیے بہت عجیب یعنی دلفریب اور خوبصورت شے ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا کی 50 عورتیں غزہ کے مسلمانوں کے صبر و تحمل کو دیکھتے ہوئے ایمان لے آئیں ۔ انہوں نے ریسرچ کی کہ کون سی چیز غزہ کے مسلمانوں کو طاقت اور ہمت دے رہی ہے ، یہاں تک کہ وہ دشمن قیدیوں کے ساتھ بھی بہترین سلوک کر رہے ہیں ۔ انہیں پتا چلا کہ وہ طاقت اسلام اور قرآن ہے ۔ قرآن خود بھی یہی کہتاہے : 
{وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا}(الانفال:2)’’اورجب انہیں اُس کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں توان کے ایمان میں اضافہ ہو    جاتا ہے ۔‘‘
ایسا ایمان اور ایسا یقین قرآن کو سننے ، پڑھنے اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے حاصل ہو گا ۔ جو لوگ قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوں گے ان کو دیکھ کر بھی ایمان تازہ ہوگا ۔ ہمارے سامنے فلسطین کے مسلمانوں کی مثال موجود ہے جن کو دیکھ کر غیر مسلم بھی ایمان لا رہے ہیں ۔ یہ ہے حیات طیبہ جو اللہ پر کامل ایمان اور بھروسے والی ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے صبر اور شکر کے بہت سارے واقعات میں بھی انسانوں کے لیے سبق رکھا ہے۔ سلیمان علیہ السلام کواللہ نے ایسی بادشاہت عطا کی جو اور کسی کو عطا نہ ہوئی اور وہ اس پر کیا فرماتے ہیں : 
{لِیَبْلُوَنِیْٓ ئَ اَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُط} (النمل:40) ’’تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ کیا مَیں شکر ادا کرتا ہوں یا نا شکری کرتاہوں۔‘‘
یہ بادشاہت نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے میرے لیے امتحان ہے کہ میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا نہیں ۔اسی اللہ کے بندے مصیبت میں بھی اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہیں اور صبر کرتے ہیں ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؄ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:جب مسلمان کا بچہ مرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کرلی۔فرشتے عرض کرتے ہیں: ہاں۔اللہ کہتا ہے : تم نے اسکے دل کا پھل توڑ لیا؟ فرشتےعرض کرتے ہیں: ہاں ،اللہ پوچھتا ہے : پھر میرے بندے نے کیا کہا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: تیرا شکر کیا اور ’انا للہ و انا الیہ راجعون‘ پڑھا۔اللہ فرماتا ہے میرے بندے کے لیے جنت میں گھر بناؤ اور اس کا نام بیت الحمد رکھو ۔ یعنی وہ گھر جو اللہ کی تعریف کرنے اور اللہ کا شکر ادا کرنے پر اللہ تعالیٰ بندے کو عطا فرمائے گا ۔اس وقت اس صبر و رضا کی عمدہ مثالیں ہم فلسطین میں دیکھ سکتے ہیں ۔ ان کا اللہ پر یقین اور اعتماد اور ان کے ایمان کی کیفیت ہم دیکھ بھی رہے ہیں اور سن بھی رہے ہیں۔یہ کیفیت مطلوبِ مومن ہے کہ بندہ زندگی کے اس امتحان میں ہر حال میں اللہ کی رضا پر راضی رہے اور کلمہ شکر ادا کرتا رہے۔ بخاری شریف کی حدیث ہے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے ہر کام میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اسے آسودہ حالی ملتی ہے اور اس پر وہ(اللہ کا) شکر کرتا ہے تو یہ شکر کرنا اس کے لیے باعث خیر ہے اور اگر اسے کوئی تنگی لاحق ہوتی ہے اور اس پر صبر کرتا ہے تو یہ صبر کرنا بھی اس کے لیے باعث خیر ہے۔‘‘ 
سبق کیا ملتا ہے ؟ جب کوئی کامیابی یا نعمت مل جائے تو بندہ مومن تکبر میں نہیں آتا، یہ نہیں کہتا کہ یہ میرے علم، تجربے اور مہارت کی وجہ سے ہے ۔ جیسے آج ہم معاشرے میںاس قسم کی باتیں سنتے ہیں کہ دھوپ میں بال سفید نہیں کیے ، جدی پشتی خاندانی کاروباری ہیں گھاٹے کا سودا نہیں کرتے ، ایک ریڑھی سے بزنس شروع کیا تھا آج 100 فیکٹریاں ہیں وغیرہ ۔ ایسے الفاظ تکبر کی علامت ہیں ،سورہ کہف میں باغ والے کا واقعہ بیان ہوا ہے ۔ اس نے بھی یہی کہا تھا : یہ عمدہ باغ میرا ہے ، اس کا نہری نظام ، باڑیں ، درختوں کی دیکھ بھال سب میری صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اللہ نے اس کے باغ کو پل بھر میں چٹیل میدان میں تبدیل کر دیا۔ قارون کا واقعہ بھی قرآن میں بیان ہوا ہے ۔ اس نے بھی یہ کہا تھا :
{اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْط}(القصص:78) ’’اُس نے کہا کہ مجھے تویہ سب کچھ ملا ہے اُس علم کی بنیاد پر جو میرے پا س ہے۔‘‘ 
دماغ کا یہ خناس بڑے بڑے لوگوں کو لے ڈوبا جس طرح قارون اپنے خزانےپر تکبر کی وجہ سےہلاک ہو  گیا۔ کچھ بھی اس کے ہاتھ نہیں آیا ۔ اس کے برعکس مومن کا معاملہ بڑا خوبصورت ہے کہ اس کو بڑی سے بڑی نعمت مل جائے تو پھر بھی شکر کرتا ہےا ور اور بڑے سے بڑا نقصان ہو جائے تو پھر بھی صبر کرتا ہے اور دونوں صورتوں میں اس کے لیے خیر ہی خیرہے ۔ اس کائنات میں سب سے بڑھ کر امام کائنات نبی مکرم ﷺکو عطا کیا گیا اور جب مکہ فتح ہو رہا تھااور آپ ﷺ مکہ میں داخل ہو رہے تھے تو آپﷺ کی کیا کیفیت تھی ؟ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کیفیت اتنی عاجزانہ تھی کہ آپ ﷺ کی پیشانی اونٹ کے کجاوے پر ٹکی ہوئی تھی کہ اے اللہ ! میں تیرے عاجز اور شکرگزار بندے کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہورہا ہوں کسی فاتح کی حیثیت سے نہیں ۔ اس کائنات میں اللہ کی محبوب ترین ہستی جن کو اللہ نے سب سے بڑھ کر نوازا ، آپ ﷺ کی کیفیت یہ تھی تو باقی کسی کی کیا اوقات ہے کہ اپنے آپ کو کچھ سمجھے اور اکڑمیں آنے کی کوشش کرے ؟ مومن کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ جب اس کو کوئی نعمت ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے ۔ اس پر اللہ اسے مزید عطا فرماتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا: 
{ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ } ’’ اگر تم شکر کرو گے تومَیں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔‘‘( ابراہیم:7)
اسی طرح مومن پر جب کوئی مصیبت آتی ہے ، جب اس کا کوئی نقصان ہو جاتا ہے تو اسے بھی وہ اللہ کی طرف سے امتحان سمجھتا ہے ، اس پر صبر کرتا ہے اور اللہ کے فیصلے پر راضی رہتا ہے۔ اس میں بھی اس کے لیے خیر ہی خیر ہے ۔ بخاری شریف میں اس حدیث کا آخری جملہ بڑا ہی قیمتی ہے کہ یہ کیفیت مومن کے سوا کسی کو نہیں مل سکتی۔ 
آج ہم اپنا جائزہ لے لیں۔ کتنے لوگ ہیں جن کے اڑھائی تین لاکھ کچن میں خرچ ہورہے ہیں ، دو اڑھائی لاکھ بچوں کی فیس پر خرچ ہورہے ہیں ، گاڑی برینڈڈ چاہیےاورہر دوسرے سال چینج کرنی ہے، سمارٹ فون برینڈڈ چاہیےاور ہر چھ مہینے بعد چینج کرنا ہے ، شادی پر دو تین کروڑ خرچ ہو جائیں تو کوئی ایشو نہیں ہے لیکن پھر بھی کہتے ہیں کہ گزارا نہیں ہورہا ۔ اگر اس کو ناشکری نہ کہا جائے تو پھر کیا کہا جائے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ    اس وقت معاشی حالات مجموعی طور پر سخت خراب ہیں ۔   مگر ذرا اپنے سے نیچے والوں کو بھی تو دیکھیں۔       رسول اللہﷺنے فرمایا کہ دنیا کے معاملات میں اپنے سے نیچے والوں کو دیکھ لیا کرو ۔ اگر ایسا کریں گے تو ہم بھی شاید اللہ کا شکر ادا کر سکیں گے کہ کتنے کروڑوں لوگوں سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں زیادہ دیا ہے ۔ کتنے لوگ جو بجلی کا بل نہیں دے سکتے اور اس وجہ سے خودکشیاں کر رہے ہیں ، کتنے لوگ جو گھر کا کرایہ نہیں دے سکتے اور کتنے لوگ ہیں جن کے پاس رہنے کے لیے چھت نہیں ہے ، وہ فٹ پاتھوں پرسو رہے ہیں ، کبھی غور کیا ہم نے؟اللہ تعالیٰ ناشکری سے بچائے ۔ 
اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ہم ہر بات پر صبر کریں ۔ اگر بیٹے کا رزلٹ سکول سے اچھا نہیں آیا تو باپ کبھی صبر نہیں کرے گا بلکہ اس کا اہتمام کرے گا کہ آئندہ اس کی تیاری اچھی ہو ۔ایک قاتل نے کسی کو قتل کر دیا ۔ مقتول کے ورثا صبر کریں گے ؟ ہرگز نہیں ۔ بلکہ مجرم کو سزا دی جائے گی ۔ آج ہمارے ملک میں نظام باطل ہے، کرپشن، اقرباپروری، رشوت، سود، بے حیائی، ظلم اور  بے انصافی عروج پر ہے، تو کیا ہم صبر کرلیں ؟ ہرگز نہیں بلکہ اللہ حکم دیتاہے کہ اس باطل نظام کو ہٹا کر اللہ کے دین کو قائم اور نافذ کرو ۔ اس کی جدوجہد میں بھی ہمارے لیے امتحان ہے ، آزمائشیں ہیں اور صبر کے مراحل ہیں ۔ یہ الگ موضوع ہے ۔ تاہم اللہ تعالیٰ ہر لمحہ امتحان لے کر یہ دیکھ رہا ہے کہ ہم میں سے عمل کے اعتبار سے بہترین کون ہے اور اس امتحان میں مومنانہ شان یہ ہے کہ بندہ نعمت پر اللہ کا  شکر ادا کرے اور مصیبت پر صبر کرے۔ 
مال و دولت کی کثرث کامیابی یا اللہ کی رضا کی علامت ہرگز نہیں ہے ۔ نمرود اور فرعون کو اقتدار ملا ، قارون کو خزانہ ملا ، ابو جہل کو سرداری ملی ۔ یہ بھی امتحان تھا ۔ وہ اکڑ گئے اور ناکام ہوئے جبکہ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کو بھی بادشاہت عطا کی ۔ انہوں نے کہا یہ اللہ کی طرف سے میرا امتحان ہے ۔ وہ کامیاب ہو گئے ۔ اسی طرح ہر پیغمبر کو صبر کے مراحل سے گزار کر بھی انسانوں کے لیے ایک سبق فراہم کیا گیا ۔ حضرت ایوب علیہ السلام 18 برس تک بیمار رہے لیکن اللہ کی ناشکری کا ایک کلمہ بھی زبان پر نہیں آیا بلکہ صبر کرتے رہے ۔ اسی طرح اللہ نے اپنے آخری رسول ﷺ کو پوری انسانیت کے لیے کامل نمونہ بنایا : 
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ}(الاحزاب:21)’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے ‘‘
اللہ کے رسولﷺ کی زندگی میں ہر طبقہ کے انسان کے لیے نمونہ ہے ۔ آپ ﷺکو اقتدار بھی ملا ، اختیار بھی ملا، ہر نعمت اللہ نے عطا فرمائی لیکن آپ ﷺ نے ہرچیز کو اللہ کی تعلیم کے مطابق انسانوں کی دنیوی اور اُخروی فلاح کے لیے استعمال کیا اور اپناطرززندگی ، رہن سہن ایسا رکھا کہ عام آدمی سے بھی زیادہ سادہ اور فقر کی کیفیت تھی۔فتح خیبر کے بعد عام مسلمان کے گھرانوں میں بھی خوشحالی آگئی تھی مگر آپ ﷺ نے پھر بھی فقر اختیار کیے رکھا۔ اس پر  ازواج مطہرات کی جانب سے ایک تقاضا بھی آیا اور سورہ احزاب کی آیت 21 نازل ہوئی ۔ ازواج مطہرات نے بھی اللہ کی رضا کو ترجیح دی اور فقر ہی اختیار کیا ۔ 
جہاں تک مصائب کی بات ہے تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکو تین صاحبزادے عطا کیے تھے ، تینوں واپس لے لیے لیکن آپ  ﷺ اللہ کی رضا پرراضی رہے ۔ طائف کی گلیوں میں جس طرح آپﷺ کو ستایا گیا ، اُحد کے میدان میں جو کچھ ہوا اس میں اُمت کے لیے بہت بڑا سبق ہے کہ اللہ کے دین کے راستے میں کس طرح صبر واستقامت کا مظاہرہ مطلوب ہے ۔ اس بات کو سمجھیں گے تو ہماری زندگیوں میں بھی ایک باوقار رویہ نظر آئے گا۔ ان شاء اللہ! 
اصل نکتہ یہ ہے کہ زندگی امتحان ہے ، مصیبت میں بھی امتحان ہے مگر دنیا کا مال و اسباب جس قدر زیادہ مل جائے تو وہ اتنا ہی بڑا اور سخت امتحان ہے ۔ اس لیے کہ اس میں سرکش اور غافل ہوجانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔ امام احمد بن حنبل ؒ پر وقت کے حاکم نے اس قدر مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالے ، اتنے کوڑے برسائے گئے کہ راوی کہتے ہیں اگر ہاتھی جیسے قوی جانور پر اتنا ظلم ہو تا تو شاید وہ بھی ہلاک ہو جاتا مگر آپ ؒ استقامت کا پہاڑ ثابت ہوئے اور حکمرانوں کے باطل مطالبے کے سامنے سر نہیں جھکایا ۔ لیکن جب نیا حکمران آیا اور اس کے دل میں امام ؒ کے لیے عزت تھی، اس نے اشرفیوں کی ایک تھیلی امام ؒ کے لیے بھیجی تو آپ ؒ زار وقطار رونے لگے اور وہ اشرفیاں واپس کردیں ۔ اللہ کی بارگاہ میں التجا کی ۔ یارب ! وہ امتحان میرے لیے آسان تھا جس میں تو مجھ سے کچھ لے رہا تھا (زیادہ سے زیادہ جان ہی اللہ کی راہ میں جاتی تو وہ بھی بڑی کامیابی تھی ) مگر یہ امتحان مجھ پر انتہائی زیادہ سخت ہے جس میں تو مجھے کچھ دے رہا ہے ۔ 
معلوم ہوا کہ کسی چیز کا مل جانا بھی بڑا امتحان ہے ۔ بہرحال اللہ کی مشیت ہے، کچھ کو اللہ زیادہ دے رہا ہے، کچھ کو کم دے رہا ہے، دنیا کا نظام اللہ نے چلانا ہے، اس کی حکمت ہے لیکن بندے کے لیے امتحان یہ ہے کہ وہ نعمت کے مل جانے پر شکر بجا لاتا رہے ، اللہ کا احسان مند رہے اور اس کی نعمتوں کی ناقدری نہ کرے ۔ جو نعمتیں اللہ نے عطا کی ہیں ان کو اللہ کے دین کی راہ میں استعمال میں لائے ، انہیں نافرمانی اور سرکشی کے راستوں پر صرف نہ کرے اور جب مصیبت کا معاملہ آئے تو صبرو استقامت کا دامن نہ چھوڑے ۔ اللہ فرماتا ہے :
{وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ(155)الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ لا قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ وَاِنَّــآ اِلَـیْہِ رٰجِعُوْنَ(156) اُولٰٓئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبـِّـہِمْ وَرَحْمَۃٌقف وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ(157)}(البقرۃ)
’’اور (اے نبیﷺ!) بشارت دیجیے ان صبر کرنے والوںکو۔ وہ لوگ کہ جن کو جب بھی کوئی مصیبت آئےتو وہ کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ ہی کے ہیں اور اُسی کی طرف ہمیں لوٹ جانا ہے۔یہی ہیں وہ لوگ کہ جن پر اُن کے ربّ کی عنایتیں ہیں اور رحمت۔ اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘  
 اللہ تعالیٰ ہمیں ان میں شامل فرمائے۔ یہ اصل تعلیم ہے جو  ہمیں قرآن سے حاصل کرنی چاہیے۔ آج بدقسمتی سے باقی  تو سب کچھ پڑھایا جارہا ہے، موٹیویشنل سپیکرز بھی بہت  ہیں، کچھ اسلامک ٹیگ لگا کر ماڈرن سائیکالوجی بھی ہمیں   پڑھا رہے ہیں۔یہ موٹیویشنل سپیکرز اور سائیکالوجسٹ  لاکھوںروپے ایک لیکچرکے لیتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود معاشرہ سدھار کی بجائے تباہی کی طرف ہی جارہاہے۔ اصل سائیکالوجی اور اصل سبق ہمیں قرآن سے   ملے گا،اللہ کے رسول ﷺکے اسوہ سے ملے گا، آپﷺ کی تعلیمات سے ملے گا۔یہاں سے ہم سبق لیں گے تو ہماری زندگیوں میں بھی نکھار آئے گا اور ہمارا معاشرہ بھی سدھرے گا۔ان شاء اللہ! اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !