وزیراعظم پاکستان کے نام کھلا خط
محترم و مکرم جناب شہباز شریف
وزیر اعظم
اسلامی جمہوریہ پاکستان
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میرا یہ عریضہ آپ کو ایمان اور صحت کی بہترین کیفیت میں ملے ۔ آمین !
میں آپ کو دوسری مرتبہ پاکستان کا وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ علاوہ ازیں یہ کہ جمہوریت کی تاریخ میں شریف فیملی کو منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اُن کا گھرانہ پانچویں مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر جلوہ افروز ہوا ہے۔ یقیناً یہ آپ کے لیے قابلِ فخر ہے۔ کسی بھی دنیوی نظام میں اعلیٰ اور ارفع مناصب انتہائی اہم اور نازک ذمہ داریوں کے متقاضی ہوتے ہیں۔ محترم وزیر اعظم صاحب اتفاق سے اس وقت جبکہ آپ نے پاکستان میں عنانِ حکومت سنبھالی ہے اسرائیل برہنہ جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے فلسطینیوں خاص طور پر اہلِ غزہ پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ محترم وزیر اعظم صاحب درحقیقت یہ قیامت ہے جو امتِ مسلمہ پر ڈھا دی گئی ہے یوں لگتا ہے کہ جیسے ایک صدی پہلے جب مولانا حالی نے کہا
اے خاصہ خاصان رسلؐ وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
تو وہ صہیونیوں کے ظلم و ستم اور امتِ مسلمہ کے ضعف اور بے بسی کو کھلی آنکھ سے دیکھ رہے تھے۔
محترم وزیراعظم صاحب آپ اُس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو ہیں جس کے بارے میں پیرس میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کے سابق وزیراعظم بن گوریان نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ ہمارا سب سے بڑا حریف اور دشمن پاکستان ہے اور اصل مقابلہ پاکستان سے ہی ہوگا۔ پھر یہ کہ حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو اسرائیل کے لیے حقیقی خطرہ قرار دیا ہے اور کون نہیں جانتا کہ ماضی میں اسرائیل بھارت سے مل کر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ آور ہونے کی سازش کرتا رہا ہے۔
محترم وزیر اعظم صاحب، بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے اسرائیل کو جو Illegitimate Child of the West قرار دیا تھاوہ اسرائیل کے فلسطینیوں کے علاقے پر غاصبانہ قبضہ کے حوالے سے ہی کہا تھا لیکن اُس کے پس منظر میں یہودیوں کی اسلام دشمنی اور صہیونی ذہنیت کا سراغ بھی آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہی صہیونی ذہنیت 7 اکتوبر 2023ء سے درندگی، بہیمیت اور انسان دشمنی کی صورت میں آشکار ہو رہی ہے۔ وہ دن رات غزہ کی شہری آبادی اور معصوم لوگوں پر وحشیانہ انداز میں بمباری کر رہا ہے۔ روزانہ سینکڑوں فلسطینی شہید ہو رہے ہیں۔ زخمیوں کے لیے ہسپتالوں میں جگہ نہیں رہی۔ اس ساری صورتِ حال سے آپ مجھ سے کہیں زیادہ واقف ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے پوری امتِ مسلمہ کو جسدِ واحد قرار دیا تھا جس کےایک حصہ کی تکلیف سے دوسرا حصہ بھی متاثر ہوتا ہے۔ مفکرِ پاکستان علامہ اقبالؒ نے بھی وحدتِ امت کے حوالے سے ہمیں بہت کچھ بتایا اور سمجھایا ہے۔ پاکستان نے یقیناً بنیادی ضروریات زندگی کے حوالے سے غزہ کے مسلمانوں کے لیے امداد بھجوائی ہے لیکن ایک تو یہ ناکافی ہے دوسرا یہ کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے کی ضرب المثل اسرائیل پر پوری اترتی ہے۔ امریکہ اور یورپ اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ لیکن اسرائیل کے فلسطینیوں پر بے تحاشا ظلم کو امریکہ اور یورپ کی عوام نے بُری طرح مسترد کر دیا ہے اور وہاں لاکھوں لوگ اسرائیل کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ گویا اِس حوالے سے امریکہ اور یورپ کی ریاستوں اور عوام میں نقطۂ نظر کا بڑا فرق واقع ہوگیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ فرق ریاستی سطح پر بھی اثرانداز ہوگا۔
محترم وزیر اعظم صاحب! میں اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ آج کے حالات کے تناظر میں اسرائیل سے محاذ آرائی کوئی آسان کام نہیں لیکن جنرل سید عاصم منیر جنہیں حُسنِ اتفاق سے آپ نے ہی اپنی پہلی حکومت میں پاکستان کی بہادر افواج کا سربراہ مقرر کیا تھا وہ ڈیڑھ سال سے مسلسل اپنی فوج کے ہر جوان اور افسر کو قرآن مجید کی یہ آیت{کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَـبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً م بِاِذْنِ اللہِطوَاللہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(249)} (سورۃ البقرۃ) ’’بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے اللہ کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے اور اللہ استقلال رکھنے والوں کے ساتھ ہے‘‘پڑھا اور سمجھا رہے ہیں۔ امتِ مسلمہ بحیثیت مجموعی اس وقت کمزوری اور ضعف کا شکار ہے اور بعض وجوہات کی بنا پر مایوسی بھی طاری ہے لیکن کوئی چیز ناممکن نہیں ہوتی۔ یقیناً آپ یہ بات مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ فلسطین کے لیے فوجی امداد دینا اور نجی اور ریاستی، ہر دو سطح پر فلسطین کے لیے عسکری اور فوجی مدد فراہم کرنا او آئی سی کے مینڈیٹ میں باقاعدہ شامل ہے۔ پھر میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ فوری طور پر جنگ کا راستہ اختیار کر لیا جائے۔ یقیناً ہمیں پہلے تجارتی، سفارتی اور مزاحمت کے غیر جنگی ذرائع اختیار کرنا ہوں گے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امتِ مسلمہ اگر خاموش تماشائی بنی رہی تو فلسطینیوں کی نسل کُشی کا جو سلسلہ شروع کیا جا چکا ہے وہ اپنے انجام کو پہنچ جائے گا اور بعدازاں پورا عرب اور پھر دیگر مسلمان ممالک اُس کی درندگی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ خاص طور پر یہ کہ اسرائیل سمجھتا ہے کہ گریٹر اسرائیل کے راستے میں اسلامی ایٹمی پاکستان سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
محترم وزیراعظم صاحب فلسطینیوں کی عملی مدد کرکے آپ نہ صرف پاکستان بلکہ امتِ مسلمہ کے لیڈر کی حیثیت سے تاریخ میں یہ رقم کروا دیں کہ کس طرح مسلمانوں کے ازلی دشمن اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیا گیا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین!
والسلام مع الاکرام
شجاع الدین شیخ
امیر تنظیم اسلامی