(زمانہ گواہ ہے) ایرانی صدر کا دورۂ پاکستان - محمد رفیق چودھری

8 /

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پورا عالم اسلام اور اس کے حکمران مجرموں

کے کٹہرے میں کھڑے ہیں: ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا

اس میںمسئلہ کشمیر پر جاندار موقف کا شامل نہ ہونا المیہ ہے : رضاء الحق

ایرانی صدر کے دورہ کے بعد ایران نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ ہم اکیلے

نہیں ہیں اور ہمارے پڑوسی ہمارے ساتھ ہیںاور پاکستان کی

طرف سے بھی یہ پیغام گیا ہے کہ ہمارے پاس امریکہ کے علاوہ دوسرے

آپشنز بھی موجود ہیں : ڈاکٹر انوار علی

 

ایرانی صدر کا دورۂ پاکستان کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

 

مرتب : محمد رفیق چودھری

میز بان :وسیم احمد

 

سوال:موجودہ حالات میں جب اسرائیل ایران پر باقاعدہ حملہ آور ہے، ایرانی صدر کا دورہ پاکستان کتنی اہمیت کا حامل ہے؟
فرید احمد پراچہ:حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پورا عالم اسلام اور اس کے حکمران مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ 200 سے زائد دن ہو گئے ہیں غزہ پر اسرائیلی بمباری مسلسل جاری ہے ، 35 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں ، ان میں 17 ہزار کے قریب صرف بچے ہیں ،کوئی ہسپتال باقی نہیں رہا ، حتیٰ کہ اہل غزہ کو نکال نکال کر جہاں(رفح)بھیجا گیا وہاں بھی اب اسرائیلی بمباری شروع ہے۔ ان حالات میں یکم اپریل کو اسرائیل نے شام میں ایرانی سفارتخانے پر حملہ کیا جس میں ایران کے دو جرنیل ، کچھ بریگیڈئر اور القدس فورس کے کچھ لوگ جاںبحق ہو گئے۔ اس کے جواب میں 13 اپریل کو ایران نے بھی اسرائیل پر میزائل اور ڈرونز داغے ۔ پھر 19 اپریل کو ایک اطلاع تھی کہ اسرائیل نے اصفہان پرکوئی میزائل پھینکا ہے ۔ البتہ اس سارے معاملے میں متضاد باتیں سامنے آرہی ہیں ۔اس کے بعد ایرانی صدر کا کسی ملک کا پہلا دورہ تھا ۔ پاکستان کی ایک سٹریٹجیک پوزیشن ہے ، اس کی سرحدیں ایران سے ملتی ہیں اور پھر یہ ایک ایٹمی طاقت ہے ۔ اگرچہ موجودہ پاکستانی حکومت کا غزہ کے حوالے سے کوئی واضح مؤقف سامنے نہیں آیا لیکن بہرحال ماضی میں پاکستان کا فلسطین کے حوالے سے ایک کلیئر مؤقف رہا ہے۔ اب بھی الخدمت فاؤنڈیشن حکومت کے تعاون سے اہل فلسطین کے لیے امداد بھیج رہی ہے ۔ ان حالات میں ایرانی صدر کا دورہ پاکستان بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس کے دو پہلو ہو سکتے ہیں ۔ 1۔ ایران یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ اس کو کوئی خوف نہیں ہے اور حالات بالکل نارمل ہیں ۔ 2۔اس تاثر کو زائل کرناکہ وہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی ساتھ نہیں دے گا ۔ شاید یہ پیغام دینا مقصود ہو کہ ایران اور پاکستان ساتھ کھڑے ہیں ۔ اس کے علاوہ شاید مل کر آگے بڑھنے کا بھی کوئی امکان ہو اورمل کر جواب دینے پر بھی غور ہو ۔ اس دورے سے ایران کو یقینی فائدہ ہے لیکن پاکستان کو بھی فائدہ ہوگا کہ جو عام تاثر تھا کہ پاکستان امریکی دباؤ میں آکر ایران سے دور ہورہا ہے تو یہ ختم ہو جائے گا ۔
سوال:پاکستان اورا یران نے اگلے پانچ سال میں دوطرفہ تجارتی حجم 10 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ کتنی بڑی ڈیویلپمنٹ ہے؟
ڈاکٹر انوار علی:یقیناً یہ ایک قابل حصول ٹارگٹ ہے لیکن یہ اتنا آسان ٹارگٹ نہیں ہے ۔ اگر اس خطے کی صورتحال اور تاریخی پس منظر کو دیکھا جائے ، خاص طور پر پچھلے کچھ عرصہ سے پاک ایران تعلقات کی صورتحال کو دیکھا جائے تو یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ کتنی بڑی ڈویلپمنٹ ہے ۔ یقیناً کاغذی حد تک تو یہ بڑی پیش رفت ہے لیکن عملی طور پر خصوصاً پاکستان سائیڈ سے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے ۔پاک ایران موجودہ تجارت کا حجم 2 ارب ڈالرتک ہے ۔ اس میں سے 1.5ارب ڈالرز کا شیئر ایران کے پاس ہے کیونکہ وہ پاکستان کو تیل ایکسپورٹ کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ غیر قانونی طور پر بھی ایرانی تیل اور مصنوعات کی سمگلنگ پاکستان میں ہورہی ہے جو اس قانونی تجارت سے شاید بڑھ کر ہو ۔ اس سمگلنگ کو روکے بغیر اگر یہ چاہیں کہ تجارتی حجم کو 2 ارب سے بڑھا کر 10 ارب تک لے جائیں گے تو یہ آسان نہیں ہے ۔ دوسری طرف پاکستان کی اتنی ایکسپورٹ بھی نہیں ہے ۔ ہم ایران کو کیا دے سکتے ہیں؟بے شک خطے کے استحکام کے لیے یہ بڑی ڈویلپمنٹ ہے اور پاکستان کی طرف سے بڑا واضح پیغام بھی گیا ہے لیکن اس ہدف کے حصول کے لیے ہمیں بڑی محنت کرنی پڑے گی ۔ پاکستان حکومت کو اس کے لیے باقاعدہ ماہرین کی خدمات حاصل کرنا پڑیں گی جو واقعتاً اچھی منصوبہ بندی کر سکیں۔ تب جا کر پاکستان کو فائدہ ہوگا ورنہ اگر پہلے کی طرح صرف دعوؤں تک ہی محدود رہے تو پھر مزید مشکل میں پھنس جائیں گے ۔ لہٰذا پاکستان کو پورے خلوص کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے ، اس سے پاکستان کو آزاد معاشی پالیسی بنانے میں بھی مدد ملے گی ۔
سوال:ایرانی صدر نے عوامی اجتماع سے خطاب کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا،اسی طرح صحافیوںسے ملاقات کا بھی ایک پروگرام پہلے سے طے تھا، یہ دونوں ایونٹ بڑی اہمیت کے حامل تھے لیکن نہ ہو سکے ۔ آپ کے خیال میں اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں ؟
رضاء الحق :دنیا کے موجودہ منظرنامہ کے مطابق جب کسی ملک کا سربراہ دوسرے ملک کا دورہ کرتاہے تو ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے کہ اس کو وہاں عوامی جلسے سے خطاب کا موقع دیا جائے ۔ ترکی کے صدر کو مشرقی یورپ میں اس کی اجازت ہے مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں پر ترکی مہاجرین کی بڑی تعداد موجود ہے جو ترکی کے انتخابات میں بھی حصہ لیتی ہے ۔اور ووٹ ڈالتی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں کوئی اور ایسی مثال ہمارے سامنے نہیں ہے ۔ لہٰذا ایک تو ایرانی صدر کی جانب سے عوامی جلسہ سے خطاب کی خواہش ہی غیر روایتی تھی اور حیران کن بھی تھی ۔ اس کے علاوہ فرقہ واریت کا عنصر بھی اس میں مانع ہو سکتاہے کیونکہ ایرانی صدر کا تعلق ایک خاص فرقے سے ہے ۔ پھر یہ کہ امریکہ نے بھی پاکستان پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے ۔ میتھیو ملر ( ترجمان امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ) نے ببانگ دہل پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ اگرپاکستان ایران کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے تو اس کی بھاری قیمت اس کو چکانا پڑے گی ۔ اسی طرح امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی ترجمان ودانت پٹیل نے بھی کہا ہے کہ جو بھی ملک ایران سے تعلقات بڑھائے گا تو اس کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ ان حالا ت میں ہوسکتا ہے ایران دیکھنا چاہ رہا ہو کہ پاکستان کتنی لچک دکھاتاہے ۔ جہاں تک صحافیوں سے ملاقات کی منسوخی کا تعلق ہے تو حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ اپنا سیکورٹی وجوہات کی بنا پر کیا گیا لیکن میرا خیال ہے کہ وجوہات اس کے علاوہ بھی ہیں۔ایک تو فرقہ وارانہ عنصر اس میں بھی رکاوٹ بنتا ہے کیونکہ پاکستان میں بہت ساری قومیں اور مسلکوں کے لوگ رہتے ہیں ۔ پھر یہ کہ ایرانی صدر کی جلسہ عام سے خطاب کرنے کی خواہش نے بھی شاید پاکستان کے حکام کے کان کھڑے کر دیے کہ پریس کانفرنس میں تو کسی کو کچھ کہنے سے روکا نہیں جا سکتا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان اور ایران کی ٹاپ لیول کی قیادت نے مل کر فیصلہ کیا ہوگا کہ انٹرنیشنل میڈیا کے سامنےبات نہ کی جائے۔ جیسے گزشتہ سال یوکرائن کے وزیر خارجہ آئے تھے تو انہیں بھی انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے نہیں پیش نہیں ہونے دیا گیا ۔ وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ کوئی ایسا سوال نہ پوچھ لیا جائے جس سے کشیدگی بڑھنے کا امکان ہو ۔ مثلاً اگر کوئی ایرانی صدر سے پوچھ لیتا کہ انڈیا چاہ بہار میں ملوث ہے اور وہ پاکستان کے خلاف ہے ، آپ اس کو کیوں اجازت دیتے ہیں تو ایک متنازعہ پوزیشن بن سکتی تھی ۔ اسی طرح پاکستان سے بھی ایسے سوالات کیے جاسکتے تھے ۔جن کا جواب دینا مشکل ہوتا لہٰذا پاکستان نے محتاط رویہ اپنایا جو کہ میرے نزدیک ٹھیک تھا ۔
فرید احمد پراچہ:پاکستان میں کرنل قذافی کو خطاب کا موقع دیا گیا تھا ، قذافی اسٹیڈیم اسی کی یادگار ہے لیکن جہاں فرقہ واریت کا مسئلہ ہو تو وہاں اجازت نہ دینا درست اقدام ہے کیونکہ اس وقت امت کو متحد ہونے کی ضرورت ہے ، اُمت کو مشترکہ پیغام دینے کی ضرورت ہے ۔
سوال:امریکہ نے کہا ہے کہ ایران سے تجارت کے خواہشمند پابندیوں کے حوالے سے خبردار رہیں ۔ کیا امریکی محکمہ خارجہ کے اس بیان کو پاکستان کے لیے دھمکی تصور کیا جائے؟
ڈاکٹر انوار علی:امریکہ تو کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ پاک ایران تعلقات مثالی ہوں ۔ تاہم جو کچھ ہوا وہ نہایت اہم ہے ۔ پہلی بات یہ کہ یہ دورہ پہلے سے طے شدہ تھا ، مارچ میں اس کی پلاننگ ہوئی تھی اور اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ ایران کی کشیدگی بڑھی ہے ۔ اس کے بعد تہران سے میسج آیا کہ اگر پاکستانی حکومت کو کچھ تحفظات ہیں تو دورہ موخر کیا جاسکتاہے لیکن پاکستان سے واضح پیغام گیا جیسا طے ہے ہم اسی کے مطابق کریں گے ۔ پھر جس طرح کا حکومتی سطح پر استقبال کیا گیا اس سے بھی پوری دنیا کو ، بالخصوص امریکہ کو جاندار پیغام گیا کہ ہم بھی آپشن رکھتے ہیں ۔ اس سے امریکہ کو بھی یہ بات سمجھ آئے گی کہ اگر ہم نے پاکستان کو چھوڑ دیا تو اس کے پاس متبادل آپشنز بھی ہیں ۔ لہٰذا امریکہ کی دھمکی خالی خولی دھمکی ہے ۔ میرا نہیں خیال کہ اس کے حوالے سے بہت زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ وہ پاکستان سے اپنے تعلقات اس درجہ بگاڑے کہ وہ کہیں اور دیکھنے پر مجبور ہو جائے ۔ ممکن ہے امریکہ پاکستان کی طرف مزید جھکاؤ کرے اور پاکستان کو تجارتی اور معاشی فائدہ ہو جائے۔ ہو سکتا ہے بہت سے لوگوں کو یہ دورہ پسند نہ آیا ہو اور اس دور ے کے کیا نتائج برآمد ہوں گے یہ کہنا بھی قبل ازوقت ہوگا لیکن بہرحال جو سامنے نظر آرہا ہے وہ بہت خوش آئند ہے ۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ کھل کر سٹینڈ لے اور اس دورے کے مثبت نتائج حاصل کرنے کی کوشش کے ۔
سوال:ایرانی صدر کے دورہ کے موقع پر پاکستان اور ایران کے درمیان بہت سے ایم او یو سائن ہوئے ہیں ۔ لیکن پاک ایران گیس پائپ لائن کے حوالے سے خاموشی اختیار کی گئی ہے ،اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
فرید احمد پراچہ:اس موقع پر تقریباً 8ایم او یو سائن ہوئے ۔ کچھ انرجی کے سیکٹر میں ہیں ، کچھ آئی ٹی کے شعبے سے متعلق ہیں ، اس کے علاوہ باہمی تجارت کو پانچ سال میں 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کا کہا گیا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایم او یو تو ایک ابتدائی چیز ہوتی ہے ۔ لیکن اس پر عمل درآمد کرنا دونوں ملکوں کی ذمہ داری ہے ۔گیس پائپ لائن کے معاہدے کی پاسداری بھی دونوں ملکوں پر ضروری ہے۔ یہ معاہدہ 2013ء میں ہوا تھا ۔ ایران نے اپنی طرف سے 900 کلو میٹر پائپ لائن بچھا دی ہے جبکہ پاکستان امریکی دباؤ میں اسے مکمل نہیں کرسکا ۔ ہم آپ کے پروگرام کے توسط سے حکومت پاکستان سے یہ کہیں گے کہ آپ بزدلانہ فیصلوں پرچل رہے ہیں ۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم ایک غیرت مند اور آبرو مندانہ طرز عمل رکھنے والی قوم ہیں تو پھر ہمیں اپنے ملکی مفاد میں جراتمندانہ فیصلے کرنے ہوں گے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہم مہنگی گیس اور بجلی خرید رہے ہیں جس سے نہ ہماری انڈسٹری چل سکتی ہے اور نہ ہی ہمارے گھر چل سکتے ہیں اور اس وجہ سے یہاں مہنگائی کا بھی ایک عذاب ہے ۔ جبکہ ایران سے ہم گیس اور تیل انتہائی سستے داموں لے سکتے ہیں ، بارٹر(barter) سسٹم کے تحت بھی لے سکتے ہیں اور لوکل کرنسی میں بھی لے سکتے ہیں ۔ اب پاکستان کو بہرحال اپنی پالیسی واضح کرنی چاہیے ، چاہے پارلیمنٹ کے ذریعے کرے ۔ بزدلانہ پالیسی نہ بنائیں، امریکہ سے نہ ڈریں ورنہ اگر ایران انٹرنیشنل کورٹ میں چلا گیا تو پاکستان کو 18 ارب ڈالر کا ہرجانہ دینا پڑ سکتا ہے ۔ اس لیے اس پر ہو سکتا ہے اعلانیہ بات نہ ہوئی ہو لیکن بہرحال پاکستان کو فیصلہ کرنا ہے ۔ ہمارے لیے موقع ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے نجات حاصل کریں لیکن جب آپ یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم نے بھیک کے اوپر اور کشکول ِ گدائی پر گزارہ کرنا ہے تو پھر آپ کوئی بھی قدم نہیں اُٹھا سکتے ۔
سوال:ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر ان سے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی لیکن مسئلہ کشمیر پر اگرچہ سرسری بات ہوئی لیکن وہاں پر بھارتی درندگی جس قدر بڑھ رہی ہے اس پر کوئی سیر حاصل گفتگو نہیں ہوئی اس کی کیا وجہ ہے ؟
رضاء الحق :ایرانی صدر کے دورہ کے موقع پر جو 28نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے اس میں غزہ کے معاملے پر تفصیلی تذکرہ ہے ، شام میں ایرانی سفارتخانہ پر اسرائیلی حملہ کی بھی مشترکہ طور پر مذمت کی گئی ہے لیکن کشمیرکے مسئلہ پر جس قدر تفصیلی بات ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی حالانکہ کشمیر کا مسئلہ بھی کم اہم نہیں ہے ۔ وہاں بھی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں ۔ ہیومن رائٹ واچ کے مطابق نسلی کشی کے جو دس سٹیج ہوتے ہیں بھارت کشمیر میں ان میں سے 9 ویں سٹیج پر پہنچا گیا ہے ۔ بھارت میں اس وقت الیکشن مہم چل رہی ہے اور وزیراعظم نریندرا مودی نے تقریر کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ مسلمان گھس بیٹھیے ہیں اور عرب سے آکر یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ یعنی وہ اعلانیہ لوگوں کو مسلمانوں کی نسل کشی پر اُکسا رہاہے اور اسی مسلم دشمن ایجنڈے کی بنیاد پر بی جے پی 2014ء سے اقتدار میںرہی ہے اور اس ایجنڈے میں وہ مسلسل آگے بڑھ رہی ہے ۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مسلسل پسپائی اختیار کرتاچلا جارہا ہے ۔ سب سے پہلے تو شملہ معاہدہ میں ہم نے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کو ایک بائی لیٹرل معاملہ بنا دیا ۔ اس کے بعد ہماری کشمیر پالیسی مسلسل متزلزل رہی اور آخر کار 5 اگست 2019ء میں جب بھارت نے کشمیر کا سپیشل سٹیٹس بھی ختم کر دیا تو اس وقت بھی ہم نے کوئی قدم نہیں اُٹھایا ۔ یہاں تک کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بھارتی حکومت کے فیصلے کی توثیق کردی اور ہم دیکھتے رہ گئے ۔ ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر ہم توقع کر رہے تھے کہ دونوں ممالک کے مشترکہ اعلامیہ میں مسئلہ کشمیر پر بھی اسی طرح کھل کر با ت ہوگی ۔ بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت انتہائی ضروری ہو چکا ہے کہ جہاں جہاں بھی امت مسلمہ کے مسائل ہیں ان کو مل کر حل کیا جائے ۔ میانمار اور سنکیانگ کے مسلمانوں کے لیے بھی مل کر آواز اُٹھائی جائے ۔ لیکن مشترکہ اعلامیہ میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سرسری سی روایتی بات کی گئی ہے کہ سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق دونوں ممالک مل کر مسئلہ کشمیر حل کریں ۔ اصل میں امریکہ کی ڈکٹیشن سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ گیس پائپ لائن بھی مکمل نہ ہو۔ اسی طرح امریکہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جو ثالثی کی پیش کش کرتا ہے تو اس کا بھی ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتا ہے ۔ اسی طرح ایران کے بھی بھارت کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں لہٰذا اس لیے بھی کشمیر کے مسئلے پر کھل کر کوئی مؤقف نہیں اپنا یا ۔
سوال:ایرانی صدرکے دورے کےموقع پر جو 28 نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا آپ کی نظر میں اس میں سب سے اہم بات کیا تھی؟
فرید احمد پراچہ:28 نکات میں کئی چیزیں ہیں ۔ جیسا کہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانا ، غزہ کا معاملہ ہے ، سمگلنگ کی روک تھام کی بات کی گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ بارڈرز پر ہی مارکیٹیں بنائی جائیں گی تاکہ دو طرفہ تجارت کو فروغ ملے ۔ اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا کہ پاکستان ایران دوستی قائم رہے گی اور اس حوالے سے دونوں ممالک کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے ۔ مجموعی طور پر28 نکات اچھے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے پاک ایران تعلقات اب معمول پر آرہے ہیں۔ یہ سب سے اہم بات ہے کیونکہ ماضی میں پاک ایران تعلقات میں بہت بگاڑ آرہا تھا ۔ جیسا کہ2016ء میں مودی نے ایران کا دورہ کیا تھااور چاہ بہار میں بھارت کو بہت بڑی کامیابی ملی تھی ۔ چاہ بہار پر امریکہ ، ایران اور بھارت نے مل کر 55 بلین ڈالرز کا فنڈ قائم کیا تھا ۔ پھر یہ کہ ایرانی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی تھی جیسا کہ کلبھوشن کا معاملہ ابھی التواء میں ہے ۔ اس لحاظ سے سب سے اہم نکتہ یہی ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک کے تعلقات معمول پر آرہے ہیں اور اسی راستے پر دونوں کو مزید آگے بڑھنا چاہیے ۔
سوال: جنوری میں دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز دہشت گردی کے تعاقب میں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار تھیں۔ ابھی حالات کچھ بدلے ہیں اور اب ہم کہہ رہے ہیں کہ اس امن کی سرحد کو خوشحالی کی سرحد میں تبدیل کریں ۔ بظاہر تو یہ بڑا اچھا عزم ہے لیکن کیا یہ ممکن ہو سکے گا ؟
رضاء الحق :دہشت گردی یقیناً ایک ناسور ہے ۔ پاک ایران بارڈر پر دونوں طرف مسلح گروہ موجود ہیں جو آپریٹ کر رہے ہیں ۔ان کا مقصد دونوں ملکوں کو نقصان پہنچانا ہے ۔لیکن دہشت گرد کی صحیح تعریف بھی ضروری ہے اور دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کیا جائے۔ مشترکہ اعلامیہ کے نکتہ نمبر 17 میں افغان حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ تمام افغانستان میں گروہوں کو ملا کر حکومت تشکیل دیں ۔ حالانکہ افغانستان ایک خود مختار ملک ہے وہ اپنے حوالے سے فیصلے خود کر سکتا ہے ۔ ہم اگر خطے میں امن چاہتے ہیں تو افغانستان کو بھی ساتھ لے کر چلنا پڑے گا لیکن یہاں کچھ عجیب ہورہا ہے ۔ ایرانی صدر کے دورہ کے دوران پاکستان کے ایک بڑی نجی ٹی وی چینل کے ایک معروف اینکر نے اپنی گفتگو کا آغاز اس طرح کیا کہ :ایران کے صدر ابراہیم رئیسی پاکستان تشریف لا چکے ہیں، ناظرین آپ کو یاد ہوگا کہ جب پاکستان قائم ہوا تھا تو سب سے پہلے ایران نے اس کو تسلیم کیا تھا،آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ ایک دوسرا ملک بھی ہے جس نے اس وقت بھی پاکستان کو تسلیم کرنے کی قراردارکی مخالفت میں ووٹ دیااور آج بھی وہ پاکستان دشمنی میں سب سے آگے ہے ۔ عام بندہ سوچے گا کہ شاید انڈیا کی بات ہورہی ہے لیکن اینکر نے واضح کہا کہ وہ ملک افغانستان ہے ۔ اس طرح کی سوچ اور رویے سے امن قائم نہیں ہوسکتا ۔ حالانکہ اس وقت کا ایران آج کے ایران سے مختلف ہے اسی طرح آج کا افغانستان اس وقت کے افغانستان سے مختلف ہے ۔ پا ک ایران تعلقات کو معمول پر لانا خوش آئند ہے لیکن افغانستان سے تعلقات بگاڑنا کسی صورت درست نہیں ہے ۔ جہاں تک خوشحالی کی سرحد بنانے کا تعلق ہے تو جب تک سمگلنگ ، منشیات ، اغواء برائے تاوان ، دہشت گردی جیسے معاملات کو پاک ایران سرحد پر مکمل طور پر روکا نہیں جائے گا تب تک مقصد حاصل نہیں ہوسکتا ۔ دوسرا یہ ہے کہ امریکہ کے خوف سے نکلنا ہوگا اور صرف ملکی مفاد میں آزادانہ پالیسیاں بنانا ہوں گی ورنہ امریکہ کبھی نہیں چاہے کہ پاک ایران تعلقات بہتر ہوں یا پاک افغان تعلقات معمول پر آئیں ۔
سوال: غزہ کی صورتحال کے تناظر میں ایرانی صدر کا دورہ پاکستان علاقائی سلامتی اور بین الاقوامی گریٹ گیم کے حوالے سے کتنی اہمیت کا حامل تھا ؟
ڈاکٹر انوار علی:اسرائیل چاہتا ہے کہ جنگ پھیلے اور دیگر ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آئیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم بھی صہیونی سازش کا نتیجہ تھیں ۔ ان جنگوں کا فائدہ صرف صہیونیوں کو ہوا ہے ۔ امریکہ کی اکانومی کا انحصار بھی اس پر ہے کہ دنیاآپس میں لڑتی رہے۔ البتہ موجودہ صورتحال میں امریکہ بھی نہیں چاہتا کہ جنگ پھیلے ۔ لیکن ایران اور اسرائیل کے درمیان جو کشیدگی بڑھی ہے تو اس سے امکان پیدا ہوگیا ہے کہ یہ جنگ پھیلے گی اور دیگر ممالک بھی اس میں ملوث ہوں گے ۔ایرانی صدر کے دورہ کے بعد ایران نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ ہم اکیلے نہیں ہیں اور ہمارے پڑوسی ہمارے ساتھ ہیں ۔ پاکستان کی طرف سے بھی یہ پیغام گیا ہے کہ ہم اقتصادی حوالے سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے اپنےپڑوسی ممالک کی طرف بھی دیکھ رہے ہیں اور ہمارے پاس امریکہ کے علاوہ دوسرے آپشنز بھی موجود ہیں۔میرے خیال میں امریکہ بھی چاہتا تھا کہ یہ دورہ ہو کیونکہ یہ میسج بنیادی طور پر اسرائیل کو گیا ہے کہ ایران اکیلا نہیں ہے لہٰذا جنگ کو پھیلانا اچھا نہیں ہے ۔ امریکہ میں الیکشن بھی قریب ہیں اور وہاں کے حکمران اپنا مفاد بھی دیکھتے ہیں ۔ اس خطے کی اہم قیادت ایران اور پاکستان کا آپس میں مل بیٹھنا اہم پیش رفت ہے اور اس کے بعد مجھے نہیں لگتا کہ اسرائیل پاکستان سے کوئی تصادم مول لے ۔ البتہ ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ ہمارے حکمران صحیح فیصلہ کریں ۔اس وقت امت مسلمہ کی جو زبوں حالی ہے اور جس طرح فلسطین میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے اس کے خلاف پاکستان اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔
سوال:اس وقت دنیا میں جو ایک گریٹ گیم چل رہی ہے اس کے حوالے سے اور علاقائی سلامتی کے حوالے سے ایرانی صدر کا دورہ پاکستان کتنی اہمتی کا حامل ہے ؟
فرید احمد پراچہ:اس وقت امن کو سب سے زیادہ خطرہ اسرائیل اور امریکہ سے ہے کیونکہ وہ نہ تو اقوام متحدہ کو مانتے ہیں اور نہ ہی سلامتی کونسل کی بات سنتے ہیں ۔ نہ انہیں انسانی حقوق کا کوئی پاس ہے اور نہ ہی جنیوا کنونشن کا کوئی لحاظ ہے ۔ خان یونس اور دیگر فلسطینی علاقوں سے اب اجتماعی قبریں مل رہی ہیں ۔ پوری دنیا کے باشعور عوام ان مظالم کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں ۔ یورپ میں کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ اور طالبات مظاہرے کر رہے ہیں ۔ یہ سب لوگ تو انسانیت کے ناطے سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں ، امت مسلمہ کو بھی خواب خرگوش سے نکلنا چاہیے اور خاص طور پر پاکستان ، افغانستان ، ایران اور ترکی کو خصوصی کردار ادا کرنا چاہیے ۔ ایرانی صدر کا دورہ پاکستان سے اس کی اچھی ابتدا ہو سکتی ہے ۔ ان مسلم ممالک کو مزید آگے بڑھ کر فلسطینیوں کے لیے اور عالمی امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ افغانستان تو ایک لحاظ سے عملاً یہ بتا چکا ہے کہ باطل کے خلاف کھڑا ہونا ہی اصل راستہ ہے ۔
{وَمَا لَــکُمْ لَا تُـقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ} (النساء:75)’’اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم قتال نہیں کرتے اللہ کی راہ میں‘‘
یہی وہ راستہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے بتایا ہے ۔ اس راستے پر چل کر عالم اسلام اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتا ہے اور اس کے بعدہی عالمی امن قائم ہوگا ان شاء اللہ