(کارِ ترقیاتی) لہو دیا قدم قدم - عامرہ احسان

8 /

لہو دیا قدم قدمعامرہ احسان

غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے تقریباً سات ماہ میں بدلتے منظر کا مرکز ومحور اب کولمبیا یونیورسٹی نیویارک بن چکی ہے۔ جس طرح طوفانِ نوح کا سونامی ’فار التنور‘ ایک مخصوص تنور سے اُبل پڑا اور پھر آسمان سے موسلادھار بارش کے دروازے کھل گئے، زمین پھٹ گئی اور پانی سب کچھ بہا لے گیا۔ آج اسرائیل اور اسے اسلحہ فراہم کرنے والے درندہ صفت حکمران اور دنیا کے باقی گونگے شیاطین جو تماش بین ہیں، اُن کے ہاتھوں یہ بہیمیت اس مقام پر آن پہنچی ہے کہ جابجا ’ فارالتنور‘ کے مناظر ہیں۔ ان سات مہینوں میں ہر آن ہر ساعت جنگی جرائم کا بے پناہ ارتکاب ہوا ہے، مگر بین الاقوامی قوانین کا اطلاق کرنے میں ’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ‘ کا فارمولا آڑے آجاتا ہے۔ ایک بھرپور دور ہر ہر خطۂ زمین پر مظاہروں کا چلا، اب بھی جاری ہے۔
اب نیا تنور جو اُبل پڑا ہے وہ امریکا کی سبھی بڑی یونیورسٹیوں میں، کولمبیا یونیورسٹی نیویارک سے اٹھنے والا طوفان ہے۔ 120 سے زائد تنظیموں پر مشتمل طالب علموں کا اشتراک واتحاد ’CUAD ‘(کولمبیا یونیورسٹی، اپارتھائیڈ اینڈ ڈائی ویسٹمنٹ‘ ہے۔) یہ تحریک، اسرائیلی ’اپارتھائیڈ‘ (نسلی تفریق/ امتیاز) غزہ قتلِ عام، فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف اٹھائی گئی۔ اس کا مطالبہ یونیورسٹی سے اسرائیل کی اسلحہ سازی میں سینکڑوں ملین ڈالر کے اثاثوں کی سرمایہ کاری ختم کرنا ہے۔ سرمایہ کاری اسرائیل کے لیے اسلحہ فراہم کرنے کے مترادف ہے جس پر طلبہ  سیخ پا ہیں۔ طلبہ یونیورسٹی میں خیمہ زن، 17اپریل سے ’غزہ یکجہتی کیمپ‘ لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ نہایت غیرمعمولی ردعمل ہے۔ دنیا بھر سے چنیدہ طلبہ نہایت محنت طلب تعلیم میں دن رات ایک کرتے اپنے خوردونوش تک کی فکر/ فرصت نہیں رکھتے۔ شوہر کی تعلیم کے دوران کولمبیا یونیورسٹی میں گزرے 4سالوں کی چشم دید گواہی ہے یہ۔ یونیورسٹی کی صدر نے نیویارک پولیس اُن پر چڑھا دی جو 1968ء، ویتنام جنگ کے خلاف تحریک کے بعد پہلا واقعہ تھا پولیس گردی کا! اس پر سینکڑوں کولمبیا کے اساتذہ طلبہ مظاہرے کو بذریعہ پولیس دبانے کے خلاف نکل آئے کلاسیں چھوڑ کر۔ یونیورسٹی نے کلاسیں بند کرکے باقی سمیسٹر آن لائن کردیا۔ مظاہرہ منتشر کرنے کو سو طلبہ گرفتار ہوئے جس سے مظاہرے اور خیمہ زن ہونے کا احتجاج جنگل کی آگ     کی طرح امریکا بھر میں پھیل گیا۔ کولمبیا یونیورسٹی میں سرمایہ کاری (اسرائیل سے) ختم کرنے پر ریفرنڈم ہوا جس پر  76.55فیصد نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔
چالیس یونیورسٹیاں اِس وقت امریکا میں شدید مظاہروں، نعروں ، خیمہ زنی کی زد میں ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ سنبھالنے سے قاصر ہے۔ یاد رہے کہ یہ سب بشمول مایہ ناز آئی وی لیگ یونیورسٹیوں کے، اہم تعلیمی ادارے ہیں جو ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت کے حامل ہیں۔ نوجوانوں کے رجحانات کی عکاسی کررہے ہیں۔ یہودیوں میں خوف، اضطراب، اندیشوں کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ماحول میں شدید گرما گرمی ہے۔ ایسے ہی مظاہروں پر پوچھ گچھ کے ضمن میں ہارورڈ اور پین سلوانیا یونیورسٹیوں کی صدور نے استعفے دے دیے تھے۔ کولمبیا کا برنارڈ کالج جہاں 55طلبہ کو معطل کیا گیا، وہاں برنارڈ پروفیسروں نے کالج صدر کے خلاف بیک زبان عدم اعتماد کا ووٹ جاری کردیا۔ نیویارک یونیورسٹی میں خیمے لگے ہیں۔ ایک جگہ ’فلسطین کی عوامی یونیورسٹی میں خوش آمدید‘ کا بینر لگا ہے۔ ایک جگہ نماز باجماعت ادا ہو رہی ہے۔ انتفاضہ زندہ باد و دیگر فلسطینی نعروں اور جھنڈوں کا ہر طرف راج ہے، ہر یونیورسٹی کے مظاہرے میں۔ اس پر فلسطینی مجاہدین کی تحریک کی طرف سے داد و تحسین اور شکرگزاری کا بیان جاری ہوا ہے۔ مجاہدین نے عرب و اسلامی ممالک کے طلبہ کو اپنی خاموشی توڑنے اور غزہ کی حمایت میں کھڑے ہونے پر اُبھارا ہے کہ وہ مقاماتِ مقدسہ کے تحفظ اور صہیونی مجرموں کے خلاف آواز بلند کریں۔ 
پاکستان میں شرمناک منظر ہے! پنجاب گروپ آف کالجز میں سے ایک (کامرس کالج) میں لڑکیاں  فحش ترین بول گاکر بازو لہراتی ’جوانی، جوانی سے ٹکرا گئی‘ الاپتی فدا ہورہی ہیں۔ واحد غیرت مند پیغام ایک طلبہ تنظیم نے جرمن سفیر کے ’عاصمہ جہانگیر کانفرنس‘ سے خطاب میں مداخلت کرکے دیا۔ کانفرنس شہری حقوق کے تحفظ پر تھی۔ علی عبداللہ نامی نوجوان نے جرمنی میں طلبہ کے احتجاجی کیمپ (فلسطین کے حق میں) اکھاڑے جانے پر احتجاج کیا کہ یہاں پر آپ حقوقِ انسانی اور آزادیٔ اظہار کی بات کیسے کررہے ہیں؟ جس پر سفیر صاحب سیخ پا ہوکر گرماگرمی پر اتر آئے۔ یہ پاکستان ہے لہٰذا وہ چلّا اٹھے۔ ورنہ گزشتہ اتنے مہینوں میں مغرب میں ہونے والی ایسی بے شمار مداخلتوں پر ہنری کلنٹن، بلنکن، بائیڈن سمیت سبھی نے ہمیشہ خاموشی، تحمل اور مسکراہٹ کے ساتھ برداشت کیا ہے ہر جگہ! مگر ہم غلام ہیں سوجسارت ممکن نہیں! 
یاد رہے کہ یہ مظاہرے اب برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، ترکیہ کے تعلیمی اداروں تک پھیل چکے ہیں۔ لندن میں 13بہت بڑے عوامی مظاہرے ہو چکے  فلسطین یکجہتی مہم کے تحت۔ پولیس کی تعیناتی پر اب تک وہاں 38.4ملین پاؤنڈ خرچ ہوچکے ہیں۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی، واشنگٹن ودیگر تعلیمی اداروں کے اساتذہ نے انتظامیہ کو خط لکھا ہے کہ طالب علموں کو آزادیٔ اظہار کا قانونی حق حاصل ہے۔ ان کی آواز سنی جائے، خواہ آپ اس کے حق میں ہوں یا نہ ہوں۔ ہمارے اساتذہ، طلبہ؟ جُہل اور بے حسی کا سناٹا! اِس وقت یونیورسٹیوں کا دباؤ اتنا بڑھ گیا ہے کہ نیتن یاہو کے ہاتھ پاؤں بھی پھول گئے ہیں۔ اُس نے کہا: ’’امریکا کے کیمپسوں میں جو کچھ ہورہا ہے وہ خوفناک ہے! (اور غزہ میں؟) یہودی مخالف جتھوں نے بڑی یونیورسٹیوں میں ڈیرے جما لیے ہیں۔ وہ اسرائیل کی تباہی کے لیے پکار رہے ہیں۔ (سنسنی خیزی پھیلا رہا ہے یاہو!) اب اہم ترین یہ ہے کہ وہ سب جو ہماری تہذیب اور اقدار کو عزیز رکھتے ہیں، (بچوں عورتوں کی قتل و غارت گری، ہسپتالوں میں اجتماعی قبروں میں مریضوں کو مار کر دباڈالنا، کچھ زندہ دفن کردینے کی مجرمانہ اقدار؟ )اٹھ کھڑے ہوں اور کہہ دیں کہ بس کر دو بہت ہوچکا!‘‘ (کسے کہہ دیں؟ غزہ کو ملبہ، کھنڈر کر دینے والے کو؟) 
اوون جونز (گارڈین کا برطانوی کالم نگار اور مصنف) نے نیتن یاہو کی اس تنقید پر اسے غزہ کی چار تصاویر تعلیمی اداروں کے ملبوں کی دکھا دی ہیں کہ: یہ وہ ہے جو اسرائیل نے غزہ کی یونیورسٹیوں سے کیا! امریکی طلبہ اِس وقت باربار یہ دہرا رہے ہیں کہ انہی یونیورسٹیوں سے ہمارے والدین اور بزرگوں نے 1960ء میں ویتنام جنگ اور 1980ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف ایسی ہی احتجاجی تحریک سے جنگ اور اپارتھائیڈ ختم کروایا تھا۔ اِسی بنا پر تل ابیب سے واشنگٹن تک اب زلزلہ برپا ہوگیا ہے طلبہ تحریک سے! امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک اور ترجمان (برائے مشرقِ وسطیٰ و شمالی افریقہ) نے غزہ پر امریکی پالیسی کے خلاف استعفیٰ دے دیا ہے۔ یہ تیسرا ہائی پروفائل استعفیٰ ہے! ادھر مائیکو پیلیڈ، امریکن اسرائیلی مصنف اور سامراج دشمن سرگرم کارکن، کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ کو داد و تحسین پیش کرتا، وہاں تقریر کرتا، جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں ولولہ انگیز نعرے لگواتا دیکھا جاسکتا ہے۔ 
سابق اسرائیلی جنرل کا یہ بیٹا کہتا ہے: 8دہائیوں سے قتل عام جاری ہے اسے روکنا ہوگا۔ ایک بھی اور فلسطینی نہ مارا جائے۔ کل نہیں، اگلے ہفتے نہیں،جنگ بند کرو ابھی فوراً! یہ جنگ تمہاری محنتوں سے رکے گی۔ پلٹ کر تم اپنا یہ کارنامنہ فخر سے دیکھو گے کہ تم نے فلسطین آزاد کروانے میں کتنا بڑا کردار ادا کیا۔ عورتیں بچے ناقابل یقین تعداد میں مر رہے ہیں۔ قیامت توڑی جا رہی ہے۔ نہ صاف پانی، نہ پٹیاں، نہ ادویہ، نہ مرہم۔ اب ایک پائی بھی نہیں، ایک بم، ایک گولی، ایک ڈالر بھی اسرائیل کو نہیں جائے گا۔ یہ ہمارے ٹیکسوں کے ڈالر ہیں۔ ہم کہہ رہے ہیں۔ اب نہیں! اپارتھائیڈ ختم کرو۔ ابھی۔ فوری! ہر کیمپس کھڑا ہو اور بتا دے۔ فلسطین کب آزاد ہوگا؟ (سب یک زبان) ’ابھی‘۔ پوری تقریر ابھی! فوری! فلسطین کی آزادی فوراً، سے بھری ہوئی تھی۔ پورے مجمع میں بجلی بھر کر …!Now  ! Nowکے نعرے لگوائے۔ آرون شبتائی، تل ابیب کا چوٹی کا یہودی شاعر جو غیرجانبدار بے لاگ بے خوف شاعری کرتا ہے۔ بمبار اسرائیلی پائلٹ سے کہتا ہے: ’جب تم آئندہ اپنے جہاز میں چکر لگاؤ۔ جنین پر۔ پائلٹ! بچے یاد رکھنا اور بوڑھی خواتین بھی۔ جن کے گھروں کو تم نشانہ بناؤ گے۔ اپنے میزائل پر ایک تہہ چاکلیٹ کی چڑھا دینا۔ نشانہ بالکل درست رکھنا تاکہ تمہاری سوغات، تحفہ میٹھا ہو۔ جب دیواریں گرنے لگیں! (تو وہ چاکلیٹ چاٹ لیں؟!)
تیرے وقار کے لیے، لہو دیا قدم قدم… یروشلم، یروشلم!