(الہدیٰ) حضرت موسیٰ ؑ کی قوت اور امانت - ادارہ

10 /
الہدیٰ
 حضرت موسیٰ       ؑ کی قوت اور امانت
 
 
آیت 26{قَالَتْ اِحْدٰ ىہُمَا یٰٓاَ   بَتِ اسْتَاْجِرْہُ  ز} ’’ان دونوں میں سے ایک نے کہا : اَبّا جان! آپ ان کو ملازم رکھ لیں‘‘
اِسْتَاْجَرَ  ’’اج ر‘‘ مادہ سے باب استفعال ہے۔ ’’مُسْتأجِر‘‘ وہ شخص ہے جو کسی کو اجرت پر ملازم رکھے‘ جبکہ اجرت پر کام کرنے والے کو عربی میں ’’آجر‘‘ یا ’’اَجِیر‘‘ کہا جاتا ہے۔
{اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ(26)}’’یقیناً بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں وہی ہوسکتا ہے جو طاقتور اور امین ہو۔‘‘
حضرت موسیٰd کی شخصیت کی یہ دونوں خصوصیات ان بچیوں کے مشاہدے میں آ چکی تھیں۔ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ جب ان کی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے آپؑ کنویں کی طرف بڑھے تھے تو آپ کا ڈیل ڈول دیکھ کر کسی چرواہے نے آپؑ سے اُلجھنے کی جرأت نہیں کی تھی اور سب نے بلا چون و چرا آپؑ کو پانی پلانے کا موقع دے دیا تھا۔ اس کے علاوہ ان بچیوں کو آپؑ کے شریفانہ رویّہ سے آپؑ کی امانت داری کا تجربہ بھی ہو چکا تھا۔ کسی مردکاسامنا کرتے ہوئے ایک شریف عورت فطری طور پر اس کی نظر کے بارے میں بہت حسّاس ہوتی ہے۔ آپؑ نے چونکہ لڑکیوںسے بات چیت کرتے ہوئے ان کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا‘ اس لیے انہوں نے آپؑ کی امانتداری کی گواہی دی کہ جس شخص کی نگاہ میں خیانت نہیں ہے وہ کسی اور معاملے میں بھی خیانت نہیں کرے گا۔
 
درس حدیث
منافق کی چار نشانیاں
 
 ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو ؓ ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ ﷺ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏(( أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا إِذَا ‏‏‏‏‏‏اؤْتُمِنَ خَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ))   (صحیح بخاری)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :’’ چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ (بھی) نفاق میں ہی ہے، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ (وہ یہ ہیں) جب اسے امین بنایا جائے تو (امانت میں) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب (کسی سے) عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب (کسی سے) لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔‘‘
تشریح:نفاق کا اصل یہ ہے کہ منافق کفر کو چھپاتا ہے اور ایمان کو ظاہر کرتا ہے۔ اس حدیث میں کچھ بری عادتوں کا ذکر ہے جیسے جھوٹ، امانت میں خیانت، وعدہ خلافی اور گالم گلوچ۔ ان برائیوں سے ہمیں بچنا چاہیے تاکہ ہم دعویٰ ایمان میں سچے ہوں۔