(اداریہ) ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی تاریخ (حصّہ اول) - خورشید انجم

10 /

اداریہ
خورشید انجمناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی تاریخ(حصّہ اول)

قضیۂ فلسطین کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ارضِ مقدس پر ناجائزصہیونی قبضہ کے پس منظر کا اچھی طرح ادراک ناگزیرہے۔صہیونیوں کے اہداف کیا ہیں اور انہیں حاصل کرنے کے لیے گزشتہ کئی صدیوں سے یہود نے کس کس طرح سازش کے بیج بوئے ہیں ۔اور اب جب کہ رفح کے بارڈر پر اسرائیل قبضہ جما کر اسے بند کر چکا ہے۔ غزہ کے محصور مسلمانوں کو جو معمولی درجے میں امداد پہنچ رہی تھی اُسے بھی بند کر دیا گیا ہے۔ پھر یہ کہ مصر اور قطر کے تعاون سے جنگ بندی کا انتہائی جامع منصوبہ جسے حماس نے تو قبول کر لیا تھا لیکن اسرائیل نے اُسے بھی مسترد کر دیا ہے اور اسرائیل کی اس ہٹ دھرمی پر امریکہ اور دیگر مغربی ممالک مکمل طور پر خاموش ہیں۔گویارفح پر زمینی حملہ کرکےغزہ کے مسلمانوں کی نسل کشی کے اسرائیلی منصوبہ کی در پردہ حمایت کی جا رہی ہے۔ اسرائیل کی اس درندگی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ تاریخ کے دریچوں میں جھانک کر قارئین کے سامنے صہیونیوں کےحقیقی مذموم مقاصد کو بے نقاب کیا جائے اور اُمتِ مسلمہ بالعموم اور مملکتِ خداداد پاکستان بالخصوص کے کرنے کے کام بھی واضح کر دیے جائیں۔اس تحریر میں ان تمام معاملات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اسرائیل کی غزہ پر وحشیانہ بمباری کو شروع ہوئے سات ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور میڈیا میں بتائے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 35000 مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔ جن میں اکثریت بچوں اور عورتوں پر مشتمل ہے۔85000 سے زائد افراد شدید زخمی ہیں اور اس سے تقریباً دو گنا زائدملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔پھر یہ کہ غزہ کے سکولوں، ہسپتالوں، پناہ گزین کیمپوں پر صہیونی فوج کی بمباری جاری ہے اور اطلاعات کے مطابق غزہ میں 80 فیصد گھر تباہ کر دیئے گئے ہیں۔لہٰذا گمان ہے کہ شہداء اور زخمیوں کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ 90 فیصد آبادی شدید موسم میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بیس لاکھ سے زائد افراد تک بجلی، گیس، تیل کے علاوہ خوراک، پانی اور جان بچانے والی ادویات کی رسائی بھی روک دی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت غزہ میں 15 لاکھ سے زائد افراد مختلف امراض اور فاقہ کشی کا شکار ہیں ۔ غزہ میں امداد فراہم کرنے والے ادارے ’اونروا‘ (UNRWA) پر جھوٹے الزام لگاکر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔گزشتہ سات ماہ کے دوران شمالی غزہ، غزہ شہر، دیر البلح اور خان یونس پر انسانیت سوز مظالم ڈھاتے ہوئےاسرائیل غزہ کے شہریوں کو مسلسل جنوب کی طرف دھکیل رہاہے اور اس وقت مصری سرحد سے جڑے رفح کے علاقے میں تقریباً 14 لاکھ فلسطینی موجود ہیں۔ جن پر اسرائیل کی شدیدترین بمباری جاری ہے ۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہونے رفح پر زمینی حملے کا بھی اعلان کر دیا ہے ۔ گویا غزہ کے مسلمانوں کی زندگی انتہائی مشکل بنا دی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل سرزمینِ غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تُلا ہوا ہے ۔وہ امریکہ اور مغربی ممالک کی مکمل اور غیر مشروط معاونت کے ساتھ فلسطینی مسلمانوں کی نسل کُشی کر رہا ہے۔اسرائیل کے ان انسانیت سوز مظالم بلکہ جرائم کے خلاف گزشتہ ایک ماہ کے دوران امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں طلبہ اور پروفیسرز کا شدید احتجاج دیکھنے میں آیا ہے۔امریکہ کی یونیورسٹیوں سے شروع ہونے والا یہ احتجاج اب مغربی یورپ اور آسٹریلیا کی یونیورسٹیوں تک پھیل چکا ہے۔دوسری طرف ان تمام ممالک کی حکومتیں اور یونیورسٹیوں کی انتظامیہ بالعموم احتجاج کرنے والے طلبہ پر سخت ترین کریک ڈاؤن کر رہے ہیں۔ گھسے پٹے ’’اینٹی سیمیٹزم‘‘ (anti semitism) یعنی ’’سامی النسل لو گوں سے نفرت‘‘ کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ اپنی جگہ بحث طلب ہے کہ کیا صرف یہودی سامی النسل ہیں؟ کیا فلسطینی مسلمان سامی النسل نہیں؟ پھر یہ کہ وہ صہیونی، جو آج ناجائز ریاست اسرائیل کا زمامِ کار چلا رہے ہیں، جب ان کا سامی النسل ہونے سے دور دور تک کا تعلق نہیں بلکہ مشرقی یورپ سے تعلق رکھنے والے اشکنازی (خزر) یہودی ہیں جنہوں نے چھٹی صدی عیسوی میں یہودیت قبول کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ انہیں کیسے اس اصطلاح پر مکمل اجارہ داری (Monopoly)  دے دی گئی ہے۔ میڈیا پروپیگنڈا اورطاقتور کےباطل بیانیہ کا بزورِ شمشیر نفاذ پوری شدت سے جاری ہے۔حال ہی میںفرہنگ کے امام امریکہ نے یہود نوازی میں ایک حیران کن جسد لگائی ہے۔ امریکہ کے ایوانِ زیریں نےبھاری اکثریت سے ایک قانون منظور کیا ہے جس کی رو سے ریاست ِاسرائیل کے خلاف بات کرنا بھی اینٹی سیمیٹزم تصور کیا جائے گا اور اس جرم کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ بہرحال مسلمان ممالک کے لیے مقامِ شرم ہے کہ کسی بھی مسلم ملک کی بڑی یونیورسٹی میں اسرائیل کی مخالفت اور اہلِ فلسطین کے حق میں کوئی بڑا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ پاکستان کی بات کریں تو حکومتی اور ریاستی اداروں کی سطح پر انتہا درجہ کی بے حسی اپنی جگہ باعثِ ذلت و رسوائی ہے لیکن ہماری یونیورسٹیوں کی حالت ِ زار بھی یہ ہے کہ حسبِ معمول سیکولر / لبرل سرگرمیاں تو جاری ہیں لیکن کسی یونیورسٹی میں قابلِ ذکر احتجاج نظر نہیں آیا۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک امریکی ہم جنس پرست میوزک بینڈ یہاں نوجوانوں کو لہوو لعب میں مشغول رکھے گا اور پاکستان کی کئی یونیورسٹیوں میں ان کے میوزک کنسرٹس ہوں گے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ؎
دیکھ مسجد میں شکستِ رشتۂ تسبیحِ شیخ
بُت کدے میں برہمن کی پختہ زُنّاری بھی دیکھ
اس مجرمانہ طرزِ عمل کی ویسے تو متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ہمارے نزدیک ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کے مصداق خرابی کی اصل جڑ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی جامعات میں موجود سیکولر/ لبرل پروفیسرز نوجوان نسل کی نظریاتی اور اخلاقی اساس تباہ کرنے پر مستعد و مامور ہیں۔ یونیورسٹیوں میں تعلیم و تعلم کے شعبہ سے وابستہ ان سیکولر / لبرل دانشوروں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اہلِ مغرب کی مرتب کردہ تاریخ اورمغربی میڈیا پر بیان ہونے والے ہر لفظ کو حق تصور کرکے آمنّا و صدّقنا کہتے چلے جاتےہیں۔ہمارے نزدیک یہ ناگزیر ہے کہ نوجوان نسل کا نظریاتی، اخلاقی اور تاریخی قبلہ درست کیا جائےتاکہ پھر عملی اقدامات کی طرف بڑھا جا سکے۔ بحیثیت مسلمان ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ ہم دشمن کی مکاری اور عیاری کا ادراک کریں اور تاریخ کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے کھوج لگائیں کہ وہ مغرب جوآج بے چون و چَرااسرائیل کی مکمل تابعداری کررہاہے،اس کا ریاستِ اسرائیل سے تعلق کیا ہے؟ بظاہر عیسائی ممالک یہودیوں کے اتنے خیر خواہ کیسے بن گئے؟ تعداد میں انتہائی قلیل صہیونیوں نے پوری مغربی دنیا کو اپنے شکنجے میں کیسے کَس لیا؟ صہیونیت کا فری میسنز اور الومناتی جیسے فسادی گروہوں سے کیا تعلق ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہود کے مغربی یورپ میں اثر و رسوخ کا باقاعدہ آغاز صلیبی جنگوں  سے ہوا۔ فری میسنز کی بنیاد نائٹس ٹیمپلرسے جڑی ہوئی ہے۔ نائٹس ٹیمپلر کی کہانی 1099ءمیں پہلی صلیبی جنگ کے دوران شروع ہوتی ہے جب یورپ سے تعلق رکھنے والے رومن کیتھولک عیسائیوں کی افواج نے مسلمانوں سے یروشلم چھین لیا۔ پہلی صلیبی جنگ میںفرانسیسی کمانڈر ہیوز ڈے پیانز نے اپنے علاوہ آٹھ فوجیوں پر مشتمل ایک فوجی دستہ تشکیل دیا جس کا نام پوور نائٹس آف کرائسٹ آف دی ٹیمپل آف سولومن رکھا گیا۔ یہ گروہ بعد میں نائٹس ٹیمپلر کہلایا۔نائٹس ٹیمپلر اعلیٰ سطحی کمانڈرز یا نائٹس تھے جن کا ہیڈکوارٹر یروشلم کے مقدس ماؤنٹ ٹیمپل پر بنایا گیا۔ ولیم گائی کار، مینلی پی ہال، لیو ٹاکسل اور البرٹ پائک سب اپنی کتب میں رقم طرازہیں کہ نائٹس ٹیمپلر درحقیقت یہودیت کے پیروکار تھے، اسی لیے اپنی کارروائیوں میں عیسائیوں کو بھی لوٹتے رہے اور ان کا قتل عام بھی کرتے رہے۔ یہ نائٹس ٹیمپلر کے ہی کچھ اراکین تھے جنھوں نے 14ویں صدی کے دوران فرانس سے بھاگ کر برطانیہ میں فری میسنزنامی تنظیم شروع کی۔یکم مئی 1776ء کو جرمنی کے شہر بویریا میں فری میسنری کے زیرِاثر ایک گروہ نے الومیناتی کی بنیاد رکھی۔ فری میسنز اورالومیناتی نے تاریخ کا رخ موڑنے کے لیے طاقت کا استعمال بھی کیا۔ان کے پیروکاروں میں ہر دور کی اہم ترین سیاسی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی، عسکری شخصیات موجودرہیں۔ یہ ایک ایسی ناقابلِ تردید حقیقت ہے جس کے عمومی طور پر دنیا بھر کے فلاسفہ اور محققین قائل ہیں۔ فری میسنز اور الومیناتی کے ساتھ انتہائی قربت کا حامل ایک بڑا نام روتھ شیلڈ خاندان کا بھی ہے ۔ روتھ شیلڈ خاندان کی تاریخ اور صہیونیوں کے ساتھ اُس کے تعلق پر آئندہ بات ہوگی۔ان شاء اللہ (جاری ہے)