(منبرو محراب) اہل ثروت کے کرنے کے اصل کام - ابو ابراہیم

10 /

اہل ثروت کے کرنے کے اصل کام

(سورۃ القصص کی آیات 77 اور 78 کی روشنی میں)

 

مسجدجامع القرآن، قرآن اکیڈمی، لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے03مئی 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
اللہ تعالیٰ نے انسان کو مال عطا کیا ہو تو اسے کیا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا ہو اور وہ مال بھی حقیقی نفع کا باعث بنے، اس حوالے سے قرآن میں جا بجا ہدایات ملتی ہیں ۔ انہی میں سے ایک مقام سورۃ القصص کی آیات 77 اور 78 ہیں جن میں قارون کا واقعہ بیان ہوا ہے لیکن اس واقعہ کے ذیل میں انسان کو یہ تربیت دی گئی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ دولت عطا فرمائے تو اس کو کس طرح خرچ کرنا چاہیے ۔ قارون ایک مالدار شخص تھا جسے اللہ نے بہت سارا مال عطا فرمایا تھا اور اس پر واضح بھی کیا تھا کہ مال کا حقیقی تصرف کیا ہونا چاہیے اور اس سے بھلائی کس طرح حاصل کرنی ہے مگر اس نے سرکشی اور نافرمانی کی اور اللہ کا عذاب اس پر نازل ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ہدایت کی تھی کہ :
{وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰىکَ اللہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللہُ اِلَیْکَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ ط اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ(77)}’’اور جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے اس سے دارِ آخرت حاصل کرنے کی کوشش کرو‘اور مت بھولو تم دنیا سے اپنا حصّہ‘اور لوگوں کے ساتھ احسان کرو ‘ جیسے اللہ نے تمہارے ساتھ احسان کیا ہے‘اور زمین میں فساد مت مچائو‘یقیناً اللہ فساد مچانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
اس پوری رہنمائی میں دولت کے استعمال کے حوالے سےانتہائی اہم نکات بیان ہوئے ہیں جو انتہائی توجہ طلب ہیں ۔
1۔ آخرت کاگھرحاصل کرو
یہ دنیا کی زندگی اصل زندگی نہیں ہے بلکہ اصل زندگی سے پہلے صرف امتحان ہے اور یہ عارضی گرزگاہ ہے۔ آخرت کی زندگی اصل زندگی ہے ۔ وہاں ہمیشہ رہنا ہے ۔ لہٰذا اگر اللہ دنیا میں مال عطا کرے تو اس کا بہترین مصرف یہ ہے کہ اس کے ذریعے آخرت کا گھر حاصل کرنے کی کوشش کرو ۔ تاہم اس کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ مال حلال ذرائع سے کمایا گیا ہو ۔ حرام مال سے تو صدقہ بھی قبول نہیںہوتا ۔ حرام کا لباس جسم پر ہو تو دعا قبول نہیں ہوتی۔ اللہ طیب ہےاور طیب کو قبول فرماتا ہے۔ مال حلال ذرائع سے کماؤ اور اللہ کے بتائے ہوئے طریقے سے خرچ کرو تو یہی مال آخرت کے گھر کا سبب بن جاتا ہے ۔ سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : 
{وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ ط}(آیت:261) ’’اللہ جس کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے۔‘‘
سورہ توبہ میں ذکر آتا ہے :
{اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَط}(التوبہ:111) ’’یقیناً اللہ نے خرید لی ہیں اہل ِ ایمان سے اُن کی جانیں بھی اور اُن کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنّت ہے۔‘‘
حالانکہ اللہ کو کسی سودے کی حاجت نہیں ہے ، یہ جان و مال بھی اسی کا دیا ہوا ہے ، ہماراذاتی کچھ بھی نہیں ہے اس کے باوجود یہ اللہ کی شان کرم نوازی ہے جس کا وہ ذکر کر رہا ہے کہ جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے اسے اللہ کی اطاعت میں لگاؤ گے تو بدلے میں اللہ اس سے بہتر عطا کرے گا ۔ حضرت زین العابدینؒ فرماتے ہیں کہ انسانی جان اور زندگی کوئی کمتر شے نہیں ہے کہ اسے کمتر چیزوں میں لگا اور کھپا دیا جائے اس کے بدلے میں جنت حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اصل ٹھکانہ تو آخرت ہے ، اس کی فکر کرو ، وہاں کے لیے جمع کرو ۔جیسے عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تم زمین پر نہ جمع کر و ، یہاں چوری کا بھی ڈر ہے اور دیمک کھاجاتی ہے، وہاں آسمانوں میں جمع کرو جہاں نہ چوری کا ڈر ہے اورنہ ضائع ہونے کا اندیشہ ہے ۔ آخرت میں جمع کرنے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے کچھ چیزیں شریعت میں لازم کر دی ہیں ۔ جیسے زکوٰۃ اور عشر ہے، یہ تو ہرصاحب نصاب پر فرض ہیں ۔ اس کے علاوہ کچھ صدقات اور خیرات بھی ہیں جو ہر کوئی دے سکتاہے اور کسی وقت بھی دے سکتا ہے ۔
ضروری نہیں کہ بہت سارا مال ہو گا تو تب ہی انسان آخرت کا گھر خرید سکتاہے بلکہ خلوص نیت کے ساتھ اگر کوئی اپنے تھوڑے سے مال میں سے بھی خرچ کرے گا تو اللہ کے ہاں اس کی بھی اہمیت ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺنے یہاں تک فرمایا کہ کھجور کا ایک دانہ بھی اللہ کی راہ میں دے کر اگر تم اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچا سکتے ہو تو دے ڈالو۔جنگ تبوک کے موقع پر ڈھیروں مال اللہ کی راہ میں لوگوں نے جمع کرایا ۔ایک انصاری صحابیؓ کے پاس دینے کو کچھ نہیں تھا۔ انہوں نے رات بھر ایک یہودی کے ہاں مزدوری کی۔ صبح انہیں بدلے میں چند کھجوریں ملیں ۔ آدھی کھجوریں تو گھر میں بچوں کے لیے چھوڑدیں اور باقی آدھی حضور ﷺ کی خدمت میں لا کر پیش کردیں۔ صحابہ کرامؓ حیران تھے کہ ڈھیروں مال کے سامنے ان چند کھجوروں کی کیا اہمیت ؟ حضور ﷺنے اپنے دست مبارک سے ان کھجوروں کو سارے مال کے اوپر پھیلادیا اور فرمایا یہ چند کھجوریں اس پورے مال پر بھاری ہیں۔ معلوم ہوا کہ خلوص ِنیت سے دیا ہوا تھوڑا مال بھی اللہ کے ہاں بہت مقبول ہے ۔
جن لوگوں نے اپنے آپ کو زکوٰۃ تک محدود رکھا ہوا ہے تو ان سے گزارش ہے کہ اللہ کو ہمارے مال کی کوئی حاجت نہیں ہے بلکہ وہ تو چاہتا ہے کہ اس کے بدلے میں تمہیں بہتر عطا کرے لہٰذا صرف زکوٰۃ تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا : 
(( اِنَّ فِی الْمَالِ لَحَقًّا سِوَی الزَّکوٰۃِ)) ’’بے شک مال میں زکوٰۃ کے علاوہ حصہ مقرر ہے۔ ‘‘
اس دنیا میں انسان اتنی محنت اور کوشش کرکے اپنا گھر بناتا ہے تاکہ اس کے بچوں کی زندگی بہتر طریقے سے گزرے ۔ حالانکہ یہ دنیا تو عارضی ہے ۔ ہمیشہ کا گھر آخرت میں ہے لہٰذا ہمیں یہاں کی بجائے آخرت کے گھر کی زیادہ فکر کرنی چاہیے اور اپنی اولاد کو بھی ترغیب و تشویق دینی چاہیے کہ وہ بھی آخرت کے گھر کی فکر کریں، اس پر خرچ کریں ، اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے صرف آخرت میں ہی فائدہ نہیں ملتا بلکہ اللہ دنیا میں بھی فائدہ دیتاہے۔ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ روزانہ اللہ کے دو فرشتے نازل ہوتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! جو تیری راہ میں دے رہا ہے ، اسے اور دے دے اور جو تیری راہ سے روک رہا ہے ، تو بھی اس سے روک لے ۔
2۔دنیا کاحصہ مت بھولو !
ہمارا دین فطری دین ہے۔ اس کی تعلیمات فطرت کے عین مطابق ہیں ۔ مسیحیت کے ماننے والوں نے اپنے طور پر رہبانیت اختیار کرلی کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں میں چلے جاؤ اور گھر باراور دنیا کے معاملات سے بالکل دور ہو جاؤ ، یہ تصور اسلام میں نہیں ہے ۔ ہمارا دین تو زندگی کے عین منجد ھار میں ہمیں رکھ کر چاہتا ہے کہ ہم اللہ کی عبادت بھی کریں ۔ یعنی دنیا کے معاملات بھی ہیں ، گھر بار ہے ، تجارت ہے ، سیاست ہے ، معیشت ہے ، معاشرت ہے اوریہ سب بھی اللہ کی منشا کے مطابق کرنا عبادت ہے۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے جو جائز حاجات ہیں انہیں بھی پورا کرنا ہے اور حاجات کو جائز طریقے سے پورا کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ ثواب کا بھی باعث ہے۔ اس کے علاوہ ماں باپ ہیں ، بیوی بچے ہیں ، سب رشتہ دار ہیں ان کے حقوق پورے کرنا بھی ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے ۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ وہ لقمہ جو تم اپنے ماں باپ کو کھلاتے ہو ، جو اپنے بیوی بچوں کو کھلاتے ہو، وہ مال جو تم اس لیے کماتے ہو کہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے وہ بھی صدقہ ہے ۔ یعنی ثواب کا کام ہے ۔ حدیث میں ہے :
((کسب الحلال فریضۃ بعد الفریْضَۃ)) ’’رزق حلال کمانے کی کوشش کرنا فرض ہے مگردیگر فرائض کے بعد ۔‘‘
یعنی یہ نہیں کہ بندہ صرف مال کمانے کو ہی زندگی کا مقصد بنا لے ۔ صرف اسی میں لگا رہے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کو چھوڑ دے ۔ مال کے لیے دیگر فرائض کو چھوڑ دینا الٹا گناہ کا باعث بن جائے گا ۔ سورۃ المزمل میں اللہ تعالیٰ نبی اکرم ﷺ سے مخاطب ہے ۔
{یَـبْـتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللہ ِلا}(آیت:20)
’’ اللہ کے فضل کو تلاش کرتے ہوں گے۔‘‘
پہلے آپ ﷺ کو رات کے اکثر حصّہ میں قیام کا حکم تھا اور آپﷺ پر ایمان لانے والوں کی اکثریت نے بھی ایسا ہی معمول بنا رکھا تھا لیکن بعدازاں اللہ تعالیٰ نے تخفیف کرتے ہوئے جو جواز بیان کیے ان میں سے ایک رزق حلال کمانا بھی شامل ہے۔معلوم ہوا کہ دیگر فرائض کو ادا کرنے کے بعد حلال رزق کمانے کی کوشش کرنا بھی فرض ہے ۔
3۔ اپنے مال سے لوگوں سے بھلائی کرو ۔
تیسری بات زیر مطالعہ آیت میں یہ بیان ہوئی کہ جیسے اللہ نے تم پر احسان فرمایا تم بھی لوگوں کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرو ۔ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کا ہی احسان ہے۔ اللہ کا ہی فضل ہے ۔
{ یَـبْـتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللہ ِلا} جو کچھ بھی ہمیں مل جائے وہ اللہ کا فضل ہے ، انسان صرف محنت کرتاہے ، کوشش کرتاہے ، دینا نہ دینا اللہ کے اختیار میں ہے ۔ انسان کا اپنا کچھ بھی نہیں ہے ۔ یہ کہنا کہ یہ میری کمائی ہے ایک غلط فہمی ہے۔ بقول ڈاکٹر اسراراحمدؒ اگرکسی کو کم ملا ہے تو یہ بھی اس کا امتحان ہے اور اگر کسی کو زیادہ مل گیا ہے تو یہ بھی اس کا امتحان ہے۔ اگر صاحب ِنصاب ہو تو زکوٰۃ فرض ہے مگر تمہارے مال میں اللہ نے دوسروں کا بھی حق رکھا ہے ۔ سورہ بنی اسرائیل میں اللہ کا فرمان ہم پڑھتے ہیں :
{وَاٰتِ ذَاالْقُرْبٰی }(بنی اسرائیل:26) ’’اور حق ادا کرو قرابت داروںکا۔‘‘
اگر اللہ نے تمہیں مال دیا ہے تو یہ اللہ کا فضل ہے ، تمہاری ضرورت پوری ہورہی ہے ، اس سے زیادہ جو تمہارے پاس ہے ، تمہارا اخلاقی فرض ہے کہ اسے رشتہ داروں کی فلاح کے لیے خرچ کرو جن کی ضروریات ہیں ، تمہارے ماتحت جو ملازمین ہیں ان کا بھی حق ہے ، آس پڑوس میں اگر کوئی ضرورت مند ہے تو اس کا بھی تمہارے مال میں حق ہے ۔ اللہ تمہیں زیادہ دے کر دراصل آزما رہا ہے کہ تم ان سب کا حق ادا کرتے ہو یا نہیں کرتے ۔
اگر تم اپنے مال سے کسی کی مدد کرتے ہو تو یہ تم اس پر احسان نہیں کر رہے بلکہ اپنا اخلاقی فرض پورا کر رہے ہو ، لہٰذا کسی پر احسان مت جتلاؤ بلکہ تمہیں اللہ کا احسان مند ہونا چاہیے کہ اللہ نے تمہیں توفیق دی اور جس کو دے رہے ہو اس کا بھی شکریہ ادا کرو کہ اس کی وجہ سے تم کو حق ادا کرنے کا موقع ملا ۔ اللہ کا دین ہماری یہ تربیت چاہتا ہے ۔
آج بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کی یہ حالت ہے کہ لاکھوں کروڑوں کی کرپشن کو جرم نہیں سمجھا جارہا اور جرم کیوں سمجھا جائے گا جب حکومت خود ایسے کام کرے ۔ نگران حکومت نے گندم یوکرائن سے منگوا لی اور ادھر مہنگے داموں کو فروخت کردی ۔ اب کسان بیچارے مجبور ہیں کہ ہم کہاں جائیں ، کس کو بیچیں ۔ کسان کی محنت ، پیسہ سب کچھ برباد ہو رہا ہے ۔ صرف اشرافیہ کی حرص کی وجہ سے جس نے دولت کو معبود بنا رکھا ہے ۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
((تعس عبدالدینار وعبدالدرھم))’’ ہلاک ہو گیا درہم کا بندہ اور دینار کا بندہ‘‘
اشرافیہ کو صرف دولت چاہیے ، چاہے قوم کو بیچ کر کمائی جائے یا لوگوں کے گلے کاٹنے پڑیں ۔ قوم مقروض ہوتی ہے تو ہوتی رہے ، ملکی سلامتی داؤ پر لگتی ہے تو لگتی رہے مگر ہماری اشرافیہ کو زیادہ سے زیادہ دولت چاہیے ۔یہ حکومت کو 22 فیصد سود پر قرض دے کر عوام کا لہو نچوڑ رہی ہے ۔ لہٰذا ایک طرف اس اشرافیہ کی دولت کے ڈھیر ہیں اور دوسری طرف عوام خودکشیاں کر رہی ہے ؟
پاکستان اسلام کے لیے بنایا گیا تھا اور اسلام کہتا ہے کہ جیسے اللہ نے تم پر احسان کیا ہے ایسے ہی تم بھی لوگوں کے ساتھ بھلائی کرو ۔ تم دینے والے بنو ، چھیننے والے مت بنو اور جب دے رہے ہو تو تکبر کا اظہار مت کرنا بلکہ احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرض کو ادا کرو۔
4۔ مال کو فساد کا ذریعہ نہ بناؤ 
فرمایا :
{وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ ط اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ(77)} ’’اور زمین میں فساد مت مچائو‘یقیناً اللہ فساد مچانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
ایک وہ فساد ہے جو منافقین پھیلاتے تھے ، وہ رسول اللہ ﷺکی اقامت دین کی جدوجہد کے راستے میں روڑے اٹکاتے تھے ۔ سورۃ البقرہ میں فرمایا کہ وہ سب سے بڑے فساد مچانے والے ہیں ۔معلوم ہوا کہ قرآن کی اصطلاح میں نفاذ اسلام کے راستے میں روڑے اٹکانا بھی ایک فساد ہے ۔ آج ہمارے گھروں میں بیٹیاں پردہ کرنا چاہتی ہیں ، گھروالے روک دیتے ہیں ، نوجوان نمازی بننا چاہتے ہیں تو گھروالے ، دوست احباب حوصلہ شکنی کرتے ہیں ، بیٹا رشوت نہیں لینا چاہتا ، حرام نہیں کمانا چاہتا تو گھر والے کہتے ہیں اس کے بغیر گزارہ کیسے ہو گا۔اسی طرح 75 برس ہوگئے ، کبھی فوجی حکمران اور کبھی سول حکمران شریعت کے نفاذ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔ قرآن کہتا ہے کہ یہ سب سے بڑا فساد ہے ۔ اس پر ہم سب کو غور کرنا چاہیے ۔
ایک فساد وہ ہے جو مال کے غلط استعمال کے ذریعے پھیلایا جاتاہے ۔ایک خاندان میں شادی پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتاہے ، ہندوانہ رسومات ، ناچ گانا ، طرح طرح کے کھانے ، کروڑوں کے زیورات ، کروڑوں  کا جہیز اور بے جا اخراجات ۔ دوسری طرف اسی خاندان میں یتیم بچے بچیاں ہوتی ہیں ، بیوائیں ہوتی ہیں ، ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا ۔ ذرا سوچئے ان کے لیے زندگی کا تصور کتنا مشکل ہو جائے گا ، کسی غریب نے اپنی بیٹی کو رخصت کرنا ہے ، کسی بھائی نے بہن کے ہاتھ پیلے کرنے ہیں ، وہ کیا کریں گے ۔ نتیجہ میں رشوت ، کرپشن ، لوٹ مار ،ڈاکہ ، چوری، قتل و غارت گری اور جرائم کا راستہ کھلے گا ۔ بے جاتصرف کی اس دوڑ سےاس طرح بھی فساد پیدا ہوتاہے ۔ خاندانوں میں نفرتیں ، لڑائی جھگڑے اور فتنے پیدا ہوتے ہیں اور معاشرہ تباہی کا شکار ہوتا ہے۔
5۔اللہ کا شکرادا کرو
دوسری آیت میں فرمایا :
{قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ ط} (القصص:78) ’’اُس نے کہا کہ مجھے تویہ سب کچھ ملا ہے اُس علم کی بنیاد پر جو میرے پا س ہے۔‘‘
یہ بالکل وہی انداز ہے جو سورۃ الکہف میں باغوں والے شخص کا تھا ۔ وہ بھی یہی کہہ رہا تھا کہ یہ سب میری تدبیر اور سوچ کا نتیجہ ہے ۔ آج مادہ پرستانہ سوچ نے ہمارے مزاج میں بھی گھر کر لیا ہے ، آج ایک بچہ بھی کہتا ہے : I got it.،کارپوریٹ سیکٹر والے کہتے ہیں: we did this ,yes we can۔ یہ دجالی فتنہ ہے ۔ اللہ کے نبی ﷺ نے ہر جمعہ کو سورۃ الکہف کی تلاوت کی فضیلت بیان فرمائی کہ جو اس کو پڑھے گا فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا ۔ سورۃ الکہف کا آغاز بھی الحمدللہ سے ہوتا ہے اور اللہ کے نبی ﷺ نے سکھایا کہ جب پانی پیو تو کہو الحمد للہ ، کھانے سے پہلے کھانے کی دعا بھی الحمد للہ سے شروع ہوتی ہےاور کھانے کے بعد کی دعا میں بھی الحمد للہ ہے۔ جو بھی نعمت انسان کو ملے اس کے بعد اللہ کا شکر ادا ہمارے دین نے ہمیں سکھایا ۔ اس کے مقابلے میں ایسی مادہ پرستانہ سوچ رکھنا کہ یہ میں نے کیا ہے ، یہ میرا ہے ، یہ مومنانہ رویہ نہیں ہے ۔ سورۃ الکہف میںہے کہ جب باغ والے کا باغ تباہ ہو گیا تو وہ کہنے لگا : کاش میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اس مادہ پرستی، ہر قسم کے شرک ، اسباب میں کھو جانے اور دجال کے فتنے سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔آمین !