(فلسطین نمبر) قومی فلسطین کانفرنس - ابو ابراہیم

10 /

فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی محبت مسلمانوں کے ’’جینز‘‘ میں شامل ہے۔ شجاع الدین شیخ

مسئلہ فلسطین پوری امت کا مسئلہ ہے اس پر آواز بھی امت کی سطح پر بلند ہونی چاہیے۔

امریکی یونیورسٹیوں کے طلبہ دنیا کو سمجھا رہے ہیں کہ مسئلہ فلسطین انسانیت کا مسئلہ ہے۔

مسئلہ فلسطین پر ’’اتحاد تنظیمات مدارس‘‘ کے علماء کا متفقہ فتویٰ آنا چاہیے۔

فلسطینی مسلمانوں کی مالی، اخلاقی اور عسکری مدد کرنا OIC کے منشور اور مینڈیٹ کا حصہ ہے۔

ایوانِ اقبال لاہور میں منعقدہ ’’قومی فلسطین کانفرنس‘‘ سے امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ کا خصوصی خطاب

 

مرتب: ابو ابراہیم

 

مرکزی جمعیت اہلحدیث کے زیراہتمام   ایوانِ اقبال لاہور میں قومی فلسطین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جمعیت اہلحدیث کے مرکزی امیر سینیٹر پروفیسر ساجد میر کی زیرِصدارت منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں لیاقت بلوچ، مولانا عبدالغفور حیدری، شجاع الدین شیخ، مولانا فضل الرحمٰن، مولانا احمد لدھیانوی، شاہ اویس نورانی، مولانا امجد خان، کیپٹن (ر) صفدر، فلسطینی راہنما ڈاکٹر سعد اور دیگر علماء و سکالرز نے خطاب کیا۔ اس موقع پر امیر  تنظیم اسلامی جناب شجاع الدین شیخ نے کہا کہ سب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایک اہم قومی ہی نہیں بلکہ امت کی سطح کے مسئلے پر ہم سب یہاں جمع ہوئے۔اس حوالے سے میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کی قیادت، ذمہ داران اور انتظامیہ کو مبارک بادپیش کرتا ہوںکہ انہوں نے مختلف مکاتب فکرکے علماء و اہل علم کو جمع کیا ۔ اللہ تعالیٰ ہماری اس کانفرنس کو بابرکت بنائے اور ہم سب کے کرنے کے جو کام ہیں ان کی طرف اللہ ہمیں متوجہ فرمائے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط}(الملک:2)’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔‘‘
یہ زندگی امتحان ہے۔ یہ امتحان غزہ کے مسلمانوں کا بھی ہے ،سارے مسلمانوں کا بھی ہے اور اہل پاکستان کابھی ہے۔غزہ کی مائوں اور بوڑھوں نے اپنے بچے قربان کرکے اظہار کر دیا کہ وہ اپنے امتحان میں کامیاب ہیں ۔ ان شاء اللہ! غزہ کی ایک بوڑھی ماں کہتی ہے کہ میرے پانچ بچے اللہ کی راہ میں قربان ہوگئے، اگر مزید ہوںتو وہ بھی میں اللہ کی راہ میں قربان کردوں۔اسی طرح اسماعیل ہنیہ کے اپنے بیٹوں اور ان کی بہو کے اپنے شوہر کی شہادت پر جذبات آپ نے دیکھ لیے ۔سوال یہ ہے کہ ہم اس امتحان میں کہاں کھڑے ہیں ؟ جوہمارے کرنے کے کام ہیں کیاان کو ہم انجام دینے کی کوشش کررہے ہیں ؟
میرے بھائیو بزرگو!اللہ یہ دیکھ رہا ہے کہ جوشخص اپنا حصہ ڈال سکتا ہے وہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے یا نہیں ۔ غزہ کے معاملے میں جذبات اپنی جگہ ہیںلیکن 35ہزار افراد کی شہادتیں ، ایک لاکھ افراد کا زخمی ہونا،سینکڑوں بلڈنگوں کا تباہ ہوجانا،23لاکھ انسانوں پر زندگی اجیرن کردینابھی اگر اُمت کو نہیں ہلا رہا تو پھر اُمت کو اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
{اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ لا}(الحدید:16) ’’کیا ابھی وقت نہیں آیا ہے اہل ایمان کے لیے کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد کے لیے اور اُس (قرآن) کے آگے کہ جو حق میں سے نازل ہو چکا ہے؟‘‘
یہ کانفرنسیں ہورہی ہیں اچھی بات ہے لیکن آج ہمیں امریکہ کی یونیورسٹیز کے نوجوان سمجھا رہے ہیں کہ یہ صرف مسلمانوں اور یہودیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔ آج امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک کامکروہ چہرہ بھی کھل کر سامنے آگیا ہے جب کہ وہ غیر مسلم جن میں انسانیت نام کی کوئی شے ہے تو وہ اظہار کرکے ہم مسلمانوں کو اپنی ذمہ داریاں یاد دلا رہے ہیں۔ یہ مسئلہ دیوبندی، بریلوی، اہل ِ حدیث، اہل ِ تشیع کانہیں بلکہ یہ پوری امت کامسئلہ ہے اور اس پر آواز بھی اُمت کی سطح پر بلند ہونی چاہیے ۔
اتحاد تنظیمات المدارس مختلف مکاتب فکر کا ایک فورم ہے، کیاہی اچھا ہو اگر سب اس فورم کو استعمال میں لے آئیں اور ہرجمعہ کو عوام کی ذہن سازی اور یاددہانی کے لیے ہم پانچ منٹ معین کرنے کی کوشش کریں۔ ہمارے ریاستی اداروں کو جب اپنے حق میں کوئی رائے چاہیے ہوتی ہے تووہ اتحاد تنظیمات مدارس کے علماء کو کال کرتے ہیں، آج آپ ان کو کال کیجیے اور ان کے فورم سے بات آگےجانی چاہیے۔میں سمجھتا ہوں کہ اتحادتنظیمات مدارس کے علماءکا ایک متفقہ فتویٰ آنا چاہیے بلکہ اس پر عمل درآمد کروانے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ اس ملک کی 60 فیصد آبادی نوجوانوںپر مشتمل ہے اورعلماء کے پاس منبر سمیت دوسرے ذرائع بھی موجود ہیں۔ اس متفقہ مسئلہ پر نوجوانوں کو حرکت میں لانے کی ضرورت ہے۔ عوام سے دعا کی بھی التجا کی جائے کیونکہ دعا مومن کا بہت بڑا ہتھیار ہے۔ ہمارے ہاں قنوت نازلہ کا بھی اہتمام نہیں ہورہا، اس کی طرف بھی متوجہ کیا جائے۔ اسی طرح مالی طور پر ہم فلسطینیوں کی جو مدد کرسکتے ہیں وہ بھی کریں اور دوسروں کو بھی اس طرف توجہ دلائیں ۔ وہ مصنوعات جن کا منافع براہ راست اسرائیل کو جاتاہے ان کا بائیکاٹ غیر مسلم بھی کر رہے ہیں جب کہ ہماری تو دینی غیرت کا تقاضا ہے کہ اس پر متفقہ لائحہ عمل آنا چاہیے ۔ پاکستان میں چیمبر آف کامرس کی مختلف فیڈریشنز سے اگر ہمارے روابط ہیں، اس کے علاوہ حکمرانوں، مقتدر طبقات، پارلیمنٹ کے ممبران سےاگر روابط ہیں توان کو کام میں لا کر بائیکاٹ کی مہم کو آگے بڑھانا چاہیے ۔
یہ مملکت پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوئی تھی ۔ بانی پاکستان قائد اعظم نے کہا تھاکہ اگر یہود گڑ بڑکریں گے تو ہم پاکستان سے جواب دیں گے۔23 مارچ 1940ء کو جب قرارداد لاہور پاس ہوئی تھی تو اس وقت فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بھی ایک قرارداد پاس ہوئی تھی ۔  ہمارے جینز میں فلسطین اور اقصیٰ کی محبت موجود ہے ۔ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل کوکچھ کامیابیاں ملی تھیں تو اس وقت اسرائیلی وزیراعظم بن گوریان نے کہا تھا کہ ہمارا سب سے بڑا دشمن پاکستان ہے  لہذا ہمیں کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے ۔موجودہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کہتاہے کہ اگر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ختم ہوجائے توہمیں خوشی ہوگی۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے بڑا پیارا تجزیہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جوبیماری پیدا کی اس کاعلاج بھی پیدا کیا ہے ۔ اسرائیل بیماری ہے جو برطانیہ اور امریکہ کی بدمعاشی کے نتیجےمیں مئی 1948ء میں قائم ہوااور پاکستان علاج ہے جواس سے پہلے 1947ء میں قائم ہوا۔اللہ نے ہمیں چھپڑ پھاڑ کر ایٹمی صلاحیت عطا کی۔ فلسطین کے بچےاور بوڑھے پہلے بھی شہید ہورہے تھے اوروہ پکار رہے تھے کہ یاجیش الباکستان این انتم۔ 1973ءمیں ہم نے اپنے پائلٹس بھیج کر فلسطینیوں کی مدد کی ۔ آج عرب ممالک اسرائیل کے سامنے بچھ چکے ہیں ، 34 ممالک کی اسلامی فوج کا کچھ پتا نہیں جس کے سربراہ ہمارے ایک سابق آرمی چیف ہیں۔ اقبال نے بھی کہاتھاکہ فلسطین کے مسئلہ پر عربوں سے امید نہ رکھنا۔ عجم میں صرف افغان طالبان ہیں جنہوں نے اللہ پر بھروسا کرکے ہمیں کچھ دکھا دیا۔ پاکستان کو اللہ نے ایٹمی صلاحیت ، بہترین میزائل ٹیکنالوجی اور بہترین افواج دی ہیں ۔ میرا سوال ہے کہ یہ ایٹمی صلاحیت شوکیس میں رکھنے کے لیے ہے ؟یہ میزائیل ٹیکنالوجی سٹور میں رکھنے کے لیے ہے ؟اور بہترین فوج کمروںمیں بٹھانے کے لیے ہے یااس کاکوئی استعمال باطل کو آنکھیں دکھانے کے لیے بھی ہو گا؟
بہرحال عوام سےاور علماء دونوں سے میری گزارش ہے کہ حکومت پریشر بڑھائیں اور حکمرانوں کو بتائیں کہ ہم تو صرف بات کرسکتے ہیں تم جواب دے سکتے ہو۔تم امت کو حرکت میں لا سکتے ہو،تم سفارت کاری کرسکتے ہو۔ تم مالی تعاون کرسکتے ہو ،اخلاقی مدد کرسکتے ہومگر اس سےبھی آگے بڑھ کر عملی اقدامات بھی اٹھا سکتے ہو۔ OIC جب قائم ہوئی تھی توا س کے چارٹر میں لکھا گیا تھا کہ فلسطینی مسلمانوں اور اقصیٰ کی حفاظت کے لیے ،ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے صرف مالی اور اخلاقی نہیںبلکہ عسکری تعاون بھی ہم نے کرنا ہے ۔ ہمارا حکمرانوں اور مقتدر طبقات سے مطالبہ ہونا چاہیے کہ اب صرف کانفرنسیںاور مظاہرے نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنےکی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں،مقتدر طبقات اور ریاستی اداروں کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ واضح  فرماتاہے :  

 

{اَتَخْشَوْنَہُمْ جفَاللہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْہُ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(13)} (التوبہ)’’کیا تم ان سے ڈر رہے ہو؟ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو ۔‘‘
آج امریکہ اوربرطانیہ سے ڈرنے کی بجائے ہمیں اللہ سے ڈرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم تکبیرات کہتے ہیں :اللہ اکبر،اللہ اکبر،ہم سب اپنے دلوں میں جھانک کردیکھیںکیا اللہ بڑا ہے یا امریکہ ؟ اللہ ہم سب کو دین پر حقیقی طور پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین !