(زمانہ گواہ ہے) اسرائیلی مظالم کے خلاف امریکی یونیورسٹیز میں جاری مظاہرے - محمد رفیق چودھری

10 /

ایسی ریاست اور ایسی اجتماعیت صرف خلافت کے ذریعے ہی قائم ہو سکتی جو جہاد

کا اعلان کرے ، اس کے قیام کے لیے ہمیں جدوجہد اور کوشش کرنی چاہیے : رضاء الحق

ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ مغلوب، محکوم اور مفتوح لوگ ہمارے حکمران ہیں،

ان میں اتنی جرأت ہی نہیں ہے کہ یہ کسی سٹیج پر جا کر کہہ سکیں کہ

ہم فلسطین کو سپورٹ کرتے ہیں: قیصر احمد راجہ

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: اسرائیل کی درندگی غزہ سے نکل کرسڑکوں، چوک، چوراہوں، آڈیٹوریمز اور یونیورسٹیوں تک پہنچ گئی ہے ۔ پوری دنیا خاص طورپر امریکہ کی یونیورسٹیوں میں مظاہرے زور پکڑ رہے ہیں اور ان مظاہرین پر بھی اب مظالم کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ حالانکہ ان مظاہرین میں عیسائی اور یہودی بھی شامل ہیں ۔ یہ بتائیے کہ غزہ کے حق میں ان مظاہروں کا یونیورسٹیز تک پہنچ جانا کتنی بڑی پیش رفت ہے؟
قیصر احمد راجہ :یہ بہت بڑی پیش رفت ہے۔ غزہ کا معاملہ صرف غزہ کے لوگوں کا امتحان نہیں ہے بلکہ یہ پوری دنیا کے ضمیر کا امتحان ہے۔یہ مظاہرے صرف امریکہ میں ہی نہیں بلکہ کئی دوسرے ممالک میں بھی ہورہے ہیں۔ امریکہ اسرائیل کی حمایت میں اتنا آگے نکل گیا تھا کہ وہ کسی کا دباؤقبول نہیں کر رہا تھا ، اقوام متحدہ ، انسانی حقوق کی تناظیم ، عالمی عدالت انصاف ،کسی کو خاطر میں نہیں لا رہا تھا ۔ کوئی کتنا ہی عزم سے آگے بڑھ رہا ہو ، اگر اس کے جوتے میں ایک چھوٹا سا کنکر بھی چلا جائے تو اس کے لیے چلنا مشکل ہو جائے گا ۔ یہ مظاہرے ایک اچھی ڈویلپمنٹ اس لیے ہیں کہ ان کے ذریعے اب امریکہ کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک لگ چکی ہے اور یہ سلسلہ اب رکنےوالا نہیں ہے بلکہ آگے بڑھنا ہے ۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ یہ مظاہرے ختم ہو جائیں گے بلکہ نئے ایشوز کھڑے ہوں گے ۔ امریکہ میں اس وقت جو غربت پھیل رہی ہے اور بے گھر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ اسرائیل کو قرار دیا جارہا ہے ۔ کیونکہ وہ پیسہ، جو امریکی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو نا تھا، وہ سارا اسرائیل کو جارہا ہے ۔ خود امریکیماہرین کے مطابق اس وقت7 لاکھ افراد امریکہ میں بے گھر ہیں اور امریکہ نے 300ارب ڈالر اسرائیل کو دے دیے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ پیسہ غلط جگہ استعمال ہورہا ہے ۔ 3 سے 4 بلین ڈالرز جو سالانہ اسرائیل کو جارہے ہیں اس کا 99 فیصد اسرائیلی افواج کو جاتاہے ، اس کا مطلب ہے کہ یہ پیسہ بچوں کے قتل اور جنگی جرائم کے لیے استعمال ہورہا ہے ۔ امریکی اب اس پر سراپا احتجاج ہیں اور کہتے ہیں تم اسرائیل کی خاطر ہمیں مار رہے ہو ہم پر ظلم کر رہے ہو، ہمیں بے گھر کر رہے ہو ۔ یہ سارے ایشوز اب اُٹھنا شروع ہو چکے ہیں جو کہ اچھی پیش رفت ہے ۔
سوال:ان مظاہروں کے خلاف امریکی پولیس اور یونیورسٹیوں کی انتظامیہ بہت زیادہ کریک ڈاؤن کررہی ہے ، مظاہرین کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں ، ان کو یونیورسٹیز سے نکالا جارہا ہے۔ کیا یہ مظاہرے امریکی پالیسی پر اثرانداز ہوں گے ؟ 
رضاء الحق: امریکہ کی خاص طور پر دو بڑی یونیورسٹیوں  (کولمبیااور UCLA) میں بڑے پیمانے پر مظاہرے بھی ہورہے ہیں اور ان کے خلاف کریک ڈاؤن بھی بڑے پیمانے پر ہوا ہے ۔ مظاہرین کے پُرامن کیمپس کو اکھاڑ دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے دو تین باتیں بہت اہم ہیں ۔ ایک یہ کہ مظاہرین میں صرف طلبہ شامل نہیں ہیں  بلکہ پروفیسرز اور انتظامیہ کے لوگ بھی شامل ہیں ۔ دوسرا یہ کہ ان مظاہرین کے خلاف اینٹی سیمٹزم کا الزام لگایا جارہا ہے جو یہودیوں کا پراناحربہ رہا ہے ۔ حیرت کی بات ہے کہ جن یہودیوں کے خلاف ہولو کاسٹ ہوا تھا وہ آج خود وہی تاریخ غزہ میںد ہرا رہے ہیں اور اس کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر بھی اینٹی سیمٹزم کا الزام لگایا جارہا ہے۔ اس اینٹی سیمٹزم کی اصطلاح کو استعمال کرکے وہ مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کو قانونی شکل دے رہے ہیں ۔
امریکی ایوانِ زیریں میں ایک بل پیش ہواہے کہ اینٹی سیمٹزم کی اصطلاح میں توسیع کی جائے۔ یہ بل وہاں  سے سادہ اکثریت سے پاس ہو گیا ہے اور اب یہ سینٹ میں بھی پاس ہو جائے گا ۔ اس بل کے مطابق یہودیوں  کے خلاف الفاظ کو ہی اینٹی سیمٹزم نہیں سمجھا جائے گا بلکہ صہیونی یہودیوں کے خلاف بات کرنے کو بھی اینٹی سیمٹزم سمجھا جائے گا اور بات کرنے والے کو باقاعدہ سزا ہو سکے گی ۔ اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل کے خلاف بات کرنا بھی جرم بن جائے گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ ان مظاہروں کو امریکہ میں مقیم مسلمانوں اور ان کی تناظیم کی جانب سے جس طرح سپورٹ کیا جانا چاہیے تھا اس طرح نہیں کیا گیا ۔ اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ مظاہرین میں عیسائی ، یہودی ، سیکولر اور بائیں بازو کے لوگ بھی ہیں ۔ جب LGBTQکے حوالے سے مظاہرے ہوتے ہیں تو ان میں بھی یہ لوگ شامل ہوتے ہیں ۔ کیونکہ یہ انسانیت کے نام پر یہ سب کرتے ہیں ۔ اس لیے مسلم تناظیمنے ان سے تھوڑا فاصلہ رکھا ہواہے ۔ کیونکہ دشمن کا دشمن دوست نہیں ہوتا بلکہ عارضی اتحادی ہوتا ہے ۔ اس عارضی اتحاد میںمسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اصول بنائیں کہ ہم اپنے بنیادی بیانیے اور نظریے پر سمجھوتہ کیے بغیر کس طرح اتحاد کر سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر ان مظاہروں کی شروعات مسلمانوں کی طرف سے ہونی چاہیے تھی بجائے اس کے کہ کوئی دوسرا شروع کرےاور مسلمان اس میں شریک ہوں ۔
سوال: امریکہ سمیت پوری مغربی دنیا میں جب بھی LGBTQکے حق میں مظاہرے ہوتے ہیں ، چاہے وہ عوامی سطح پر ہوں یا یونیورسٹی لیول پر،وہاں کی حکومتیں ان کو سپورٹ کرتی ہیں ۔ آج انہی یونیورسٹیوں میں اسرائیلی مظالم کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں تو ریاستی اور یونیورسٹی انتظامیہ قہر بن کر ان پر ٹوٹ پڑی ہے ۔کیا انتظامیہ کے اس رویے نے مغرب کے آزادی اظہار رائے کے تصور کو بے نقاب نہیں کر دیا اور کیا مغرب کا دوغلا پن کھل کر سامنے نہیں آگیا ؟ 
قیصر احمد راجہ :دوغلاپن تو وہ ہے کہ انسان کسی اخلاقی معیار پر مضبوطی سے جما ہوا ہو اور پھر کہیں اس میں پہلو تہی نظر آئے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دوغلا پن ہے ۔ مغرب کا تو پہلے سے ہی ایک مخصوص ایجنڈا ہے جس میں ان کے اپنے حلال حرام کے معیارات ہیں۔جیسا کہ ہم جنس پرستی کو انہوں نے جائز قرار دے دیا۔ دہرا معیار رکھنے کے لیے انسان کو منافق ہونا پڑتاہے ۔ لہٰذا جو چیز مغربی یا اسرائیلی مفاد کے خلاف جاتی ہو، اس کو وہ قبول نہیں کرتے۔ لیکن مغرب کے پالیسی بنانے والے منافق نہیں ہیں بلکہ وہ بدمعاش ہیں ۔ کسی دانشور سے منسوب مقولہ ہے کہ اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ حکومت اصل میں کس کی ہے تو آپ دیکھیںکہ کس پر تنقید کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ یہاں سے طے ہو جاتا ہے کہ آپ کا اصل حکمران کون ہے۔ یورپ میں آپ ہولو کاسٹ کی بات کریں تو آپ کو جیل ہو جاتی ہے ۔ ویسے وہ آزادی اظہار رائے کا بڑا چرچا کرتے ہیں ۔ یعنی ان کا کوئی اعلیٰ اخلاقی معیار نہیں ہے۔ پاکستان میں آپ ملک پر ہزار تنقید کر لیں ، سٹیٹ کے خلاف بات کرلیں ، مذہب کے خلاف بات کرلیں آپ کو ٹی وی پر جگہ مل جائے گی ۔ امریکہ میں نوم چومسکی کو جگہ نہیں ملتی ۔ کیونکہ ان کے قومی مفاد کے خلاف جو بات کرے گا اس کو ہرگز جگہ نہیں ملتی ۔ برطانیہ میں جارج گیلووے کوجگہ نہیں ملتی۔ اگران کو بلایا بھی جاتاہے تو ذلیل کرنے کے لیے بلایا جاتاہے کیونکہ وہاں معاملات طے شدہ ہوتےہیں ۔ ہم لوگوں کی غلطی تھی کہ ہم مغرب کو وہ عزت دے رہے تھے جس کے وہ لائق نہیں ہے اور نہ ہی کبھی خود انہوں نے اس کا دعویٰ کیا ہے ۔
سوال:ہمارے ہاں جو حکومت کے خلاف بات کرے ، جو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کرے تو اس کو سراہا جاتاہے اور کہا جاتاہے کہ ظالم کے خلاف کلمہ حق بلند کیا ہے
قیصر احمد راجہ : میرے خیال میںحکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کرنا کوئی بُرائی نہیں ہے ۔ جمہوریت میں ہر کسی کو حق حاصل ہوتاہے کہ وہ بات کرے لیکن سٹیٹ کے خلاف بات کرنا بُرا ہے ۔ مثال کے طور پر پاکستان ایک نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے ، آپ نظریہ کے خلاف بات کرتے ہیں ، گھما پھر اکر آپ اسلام کے خلاف بات کرتے ہیں تو آپ ٹی وی پر آجائیں گے حالانکہ یہ سٹیٹ کے خلاف بات ہے ۔ جبکہ مغرب میں سٹیٹ کےخلاف بات آپ کرتے ہیں تو آپ کو کبھی نہیں آنے دیا جاتا۔ آپ مظاہرہ کریں گے تو آپ کو پکڑا جائے گا ۔ یہی کچھ آج وہاں یونیورسٹیوں کے طلبہ کے ساتھ ہورہا ہے۔ اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ پولیس کے ساتھ ساتھ صہیونی گروہ بھی آکر مظاہرین پر حملہ آور ہو رہے ہیں حالانکہ سویلین کو اس کی قطعی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔ یہ ہماری غلط فہمی تھی کہ ان کا کوئی اخلاقی معیار ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ وہی چیز اب کھل کر سامنے آرہی ہے ۔
سوال:دنیا بھرمیں یونیورسٹیوں میں مظاہرے چل رہے ہیں لیکن پاکستان میں ایک طالب علم نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں جرمن سفیر سےغزہ کے حوالے سے سوال کر دیا جو انسانی حقوق کی بات کر رہا تھاتو جرمن سفیر نے اس کو ڈانٹ دیااور ہماری انتظامیہ نے بھی اس طالب علم کو باہر نکال دیا ۔ آپ کے خیال میں جرمن سفیر کا یہ رویہ کیا ظاہر کرتاہے ؟ 
رضاء الحق:عالمی سطح پر جو بیانیہ تشکیل دیا جاتاہے تو ہماری حکومت ، اسٹیبلشمنٹ یا انتظامیہ بھی اسی کو لے کر چلتی ہے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے ۔ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے ۔ قائداعظم نے آغاز سے ہی فلسطین کے حوالے سے ایک موقف اپنا یا ، 1940ء میں قرارداد لاہور سمیت 4 قراردادیں پاس ہوئی تھیں اور ان میں سے ایک فلسطین کے حوالے سے بھی تھی جس میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا تھا۔ 1947ء سے پہلے قائداعظم کے کم ازکم دو بیانات آن دی ریکارڈ ہیں جن میں انہوں نے فلسطین اور اہل عرب کے حق میں آواز اُٹھائی ، ایک بیان میں قائداعظم نے اسرائیل کو مغرب کا ناجائز بچہ قرار دیا ۔ یہی پاکستان کی آغاز سے پالیسی رہی ہے ۔ لیکن سابق نگران حکومت نے دو ریاستی فارمولا کی بات کرکے پاکستان کی پالیسی پرسوال اُٹھا دیا ۔ اس کے بعد آپ نے دیکھا کہ PSL کے دوران فلسطین کا جھنڈا سٹیڈیم میں لے جانے کی اجازت نہیں تھی ۔عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں بھی اسی پالیسی کا عکس نظر آتا ہے ۔ ہمارا عاصمہ جہانگیر سے بنیادی نظریاتی اختلاف تھا لیکن یہ بات اپنی جگہ ہے کہ عاصمہ جہانگیر خود اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھی اورمخصوص پیرائے میں حقوق کی بات کرتی تھی۔ اس کے علاوہ آپ دیکھیں بعض عرب ممالک میں لوگوں نے میکڈونلڈ کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے لیکن پاکستان میں ابھی بھی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ استعماری دور کے اثرات ابھی بھی باقی ہیں ۔ امریکی سفیر اگر کسی کو بلائے تو وہ پھولے نہیں سماتا۔ اسی طرح جرمن سفیر کے بارے میں بھی ہمارے ہاں یہی سوچ ہے ۔ اصل میں یہ المیہ ہے کہ فلسطین کے حوالے سے ہماری وہ سوچ جو قیام پاکستان کے وقت تھی شاید بدل رہی ہے۔
سوال:فلسطینیوں سے محبت مسلمانوں کے جینز میں شامل ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جب سے اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا اس وقت سے لے کر اب تک حکومتی سطح پر فلسطین کے حوالے سے کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا ۔ بلکہ حالات یہ ہیں کہ پنجاب حکومت نے تعلیمی اداروں میں  موسیقی کی تعلیم دینے کے لیے باقاعدہ ایک پلان ترتیب دیا ہے۔ کہیں ہماری ریاست مسئلہ فلسطین کو بھلا کر اپنی ترجیحات بدلتی ہوئی تو نظر نہیں آرہی ؟
قیصر احمد :ریاست تونہیں البتہ وائسرائز کا گروپ جسے ہم حکومت کہتے ہیں وہ پالیسی بدل رہا ہے ۔ فلسطین کے حوالے سے جتنا بھی یہاں کام ہورہا ہے وہ عوامی سطح پر ہورہا ہے اگرچہ وہ بھی اس طرح نہیں ہوا جتنا ہونا چاہیے تھا کیونکہ جب حکومت ذمہ داری ادا نہیں کرتی تو فرق پڑتا ہے ۔ جہاں تک حکومتی پالیسی کا تعلق ہے تو حبیب جالب نے کیا خوب کہا تھا ؎
تو کہ ناواقف آداب شہنشاہی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ مغلوب، محکوم اور مفتوح لوگ ہمارے حکمران ہیں، ان کی کیا اوقات ہے کہ یہ کسی سٹیج پر جا کر کہہ سکیں کہ ہم فلسطین کو سپورٹ کرتے ہیں۔باقی باتیں آپ چھوڑیں اسی شہر لاہور میں جہاں آپ ہر طرح کا جلسہ کر سکتے ہیں فلسطین کے حوالے سے جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ، اگرچہ جلسہ پھر بھی ہوگیا ۔ اس کے بعدSave Gaza مہم شروع کی گئی۔میں بھی اس کا حصہ ہوں۔ سابق نگران وزیراعظم سے ملاقاتیں ہوئیں۔ سارا کیس ان کے سامنے رکھاگیا ۔ زبانی کلامی تو بڑی حوصلہ افزائی ہوئی لیکن اس مہم کی جوقیادت کر رہی تھیں (سینیٹر مشتاق صاحب کی اہلیہ) ان کو گجرانوالہ سے گرفتار کرلیاگیا۔ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ فلسطین کے لیے بول رہی تھیں ، کوئی تشدد نہیںہورہا تھا ، کوئی ریاست مخالف بات نہیں تھی ، بالکل پُرامن اور قانونی دائرے کے اندر ہماری مہم تھی ،پُر امن مطالبہ کرنے والوں کو بھی آپ اُٹھا کر اگر جیل میں ڈال دیں گے تو ایسی پالیسیاں زیادہ عرصہ نہیں چلیں گی ۔ جہاں تک تعلیمی اداروں میں موسیقی سکھانے کا تعلق ہے تو یہ وہی پرانا رومن ماڈل ہے کہ موسیقی میں لگا کر لوگوں کا دھیان ہٹا دو ۔ لیکن آج سوشل میڈیا کا دور ہے ۔ جتنا آپ کسی چیز کو چھپائیں گے اتنا ہی وہ کھل کر سامنے آئے گی ۔ افواہ جنم ہی اس وقت لیتی ہے جب آپ خبر کو دباتے ہیں ۔ آج غزہ میں 40 ہزار کے قریب فلسطینی شہید ہو چکے ہیں ۔قائداعظم نے تو یہاں تک کہا تھا کہ اگر ہمیں فلسطینیوں کی مدد کے لیے جنگ کرنا پڑی تو بھی کریں گے۔ یہی ہماری ریاستی پالیسی ہے ، ریاست میری اور آپ کی ہے ، ہم ریاست ہیں ۔ یہ جو اوپر بیٹھا ہوا طبقہ ہے یہ تو ریورس انجینئرنگ ہے ۔ عالمی ایجنسی کے تحت پالیسیاں بناتاہے ۔ ٹرانسجینڈر ایکٹ اسی ایجنسی کے ذریعے پاس ہوا ۔ لہٰذا حکومت کو اتنا سیریس لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ البتہ حکومت جب ووٹ لینے آئے تو اس وقت سنجیدگی سے سوچنا چاہیے ۔ حکومت اگر کوشش کرے اور اسرائیل کے پڑوسی ممالک کو ایک پیج پر لے آئے کہ تمہاری سرزمین اور فضائیں اسرائیل کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہئیں ، تمام تجارتی راستے اسرائیل کے لیے بند ہونے چاہئیں تو اسرائیل ایک دن میں بیٹھ جائے گا ۔ صرف اتنی سی بات ہے ۔ ایران کے ایک حملے سے اسرائیل کا اتنا خرچہ ہو چکا ہے ۔ ہم حکومت سے یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ اپنی ذمہ داری پوری کریں، صرف اس بات پر ہی اگر آپ لوگوں کو اُٹھا کر جیلوں میں ڈال رہے ہیں تو یاد رکھیں ایک دن آئے گا جب آپ کو اس کا حساب بھی دینا پڑے گا ۔
سوال:پاکستان امت مسلمہ کی واحد ایٹمی قوت ہے ۔ اس کے باوجود ہم غزہ کے حوالے سے ایران اور ملائشیا جیسا موقف کیوں نہیں اپنا رہے ؟ 
رضاء الحق: ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ امت مسلمہ کوئی شے ہی نہیں لیکن عملی طور پر اس کی کوئی شکل اس وقت موجود نہیں ہے ۔ خلافت کے خاتمہ کے بعد اب تمام قومی ریاستیں ہیں ۔ صرف پاکستان واحد مسلم ریاست ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آئی تھی ۔ پھر قراداد مقاصد میں بھی یہ بات واضح ہوگئی تھی ۔ یہاں تک کہ 1973ء کے آئین میں بھی ایسی شقیں موجود ہیں جو آئین کو اسلامی آئین بناتی ہیں ، یہ اور بات ہے کہ ان شقوں کو غیر موثر کر دیا گیا ہے ۔ بنیادی طور پر پاکستان کی معیشت بھی کمزور ہے جس کی وجہ سے IMFکے پاس ہم جاتے ہیں تو پھر ہمیں ان کی ہدایات پر چلنا پڑتا ہے ۔ جو لوگ ریاست کو چلانے والے ہیں ان کے اپنے مفادات بھی ہیں جس کی وجہ سے بیرونی ایجنسیاں اپنی بات منوانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں ۔جیسے مشہور حدیث ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جب کفار مسلمانوں پر ٹوٹ پڑنے کے لیے ایسے دعوت دیں گے جیسے کھانے پر بلانے کے لیے دعوت دی جاتی ہے۔ حدیث میں اس کی وجہ وہن کی بیماری بتائی گئی یعنی دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔ آج پاکستان سمیت پورے عالم اسلام کی یہی کیفیت ہے۔ تمام ممالک کے اپنے اپنے معاشی ، سیاسی اور تجارتی مفادات ہیں جس کی وجہ سے وہ نظریہ سے سمجھوتہ کرلیتےہیں ۔ جبکہ دوسری طرف اسرائیل کے چیف ربی نے پاس اور کے بعدسپیشل جشن کو منسوخ کر دیا۔ اس نے کہا ہم حالت جنگ میں ہیں ۔ یعنی وہ امت مسلمہ کے خلاف حالت جنگ میں ہیں جبکہ امت مسلمہ کو احساس ہی نہیں ہے ۔ یہ ایک المیہ ہے ۔
سوال: علماء اور فقہاء کے نزدیک جب ریاست جہاد کا اعلان کرے گی تو اس وقت جہاد فرض ہو گا ۔ غزہ میں اس وقت تک 35 ہزار سے زائد مسلمان شہید ہو چکے ہیں ، ایک لاکھ سے زائد زخمی ہیں ،غزہ اور رفح دونوں کھنڈر بن چکے ہیں۔ان حالات میں ایک عام مسلمان کیا کرے ؟
قیصر احمد احمد: پاکستان میں شاید کچھ ایسے لوگ ہوں جو یہ نظریہ رکھتے ہوں کہ ہمیں فلسطین جانا چاہیے ۔ لیکن اسلام ذاتی آراء پر نہیں چلتا ۔جتنے بھی مشکل حالات کیوں نہ ہوں بہرحال جو شریعت کے مستحکم اصول ہیں ان کے تحت ہی ہم نے چلنا ہے ۔جب تک کوئی اجتماعی فیصلہ نہ ہو، انفرادی رائے پر نہیں چلنا چاہیے ، انفرادی سطح پر وہاں جاکر آپ ان کے لیے مسائل ہی کھڑے کریں گے۔ جہا د ضرور ہے لیکن اس کا طریقہ کا ر بھی اللہ نے دیا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : 
{وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ} (الانفال:72) ’’اور جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ ۔‘‘
جو موقع پر موجود ہیں انہوں نے بالنفس جہاد کرنا ہے ، جو وہاں موجود نہیں ہیں وہ اموال سے مدد کر سکتے ہیں۔ اموال میں صرف نقد رقم ہی شامل نہیں ہے بلکہ جتنے بھی وسائل ہیں وہ سب اس میں شامل ہیں ، مثال کے طور پر سوشل میڈیا بھی ایک بڑا ہتھیار ہے ، آپ اس کو فلسطینیوں کی مدد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں ۔ پاکستان میں کروڑوں لوگ جمعہ کے دن مساجد میں اکٹھے ہوتے ہیں ، وہ آدھے گھنٹے کے لیے سڑکوں پر نکلیں اور حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ حکومت کے جو کرنے کے کام ہیں وہ تو کم ازکم کرے ۔ جنوبی افریقہ نے جو کیس دائر کیا ہوا ہے اس میںہماری حکومت فریق بن سکتی ہے ۔ اس کے بعد ICCمیں بھی شاید کیس ہو اور نیتن یاہو پر چارجز لگ جائیں ۔ اس کے لیے ہماری حکومت ترکی کے ساتھ مل کرکوشش کر سکتی ہے ۔ ضروری نہیں کہ جنگ ہی کرے ، ہماری حکومت اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کر سکتی ہے ۔ تھوڑی سی جنگ کی بات ہی کرلی جائے تو وہ بھی مشکل نہیں ہے ۔ ایران نے حملہ کیا ہے تو امریکہ چائنا کے ذریعے منتیں کر رہا ہے کہ مزید حملے نہ کرنا ۔ چلیں اگر وہن کی بیماری ہے آپ جنگ کا خیال بھی نہیں لانا چاہتے تو کم زکم سفارتی سطح پر جو کوششیں ہو سکتی ہیں وہ تو کریں ۔
سوال: غزہ پر7 ماہ سے اسرائیلی بمباری جاری ہے ۔
اسرائیلی درندگی کو روکنے اور فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے آپ کیا تجویز کرتے ہیں کہ حکومت کیا لائحہ عمل اختیار کرے ؟ 
رضاء الحق:بنیادی بات یہ ہے کہ شریعت نے جو معاملات طے کر دیے ہیں اسی دائرے کے اندر رہ کر ہمیں ہر قدم اُٹھانا چاہیے۔ جب افغانستان میں امریکہ کے خلاف جہاد جاری تھا تو پاکستان سے لوگوں نے کہا کہ ہم بھی آپ کے پاس آتے ہیں ۔ لیکن افغان طالبان نے منع کر دیا کہ آپ یہاں نہ آئیں کیونکہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور آپ کو سنبھالنا ہمارے لیے اس وقت ممکن نہیں ہے۔ آپ وہیں رہ کر ہماری جو مدد کر سکتے ہیں وہ کریں ۔ اس تناظر میں ہم فلسطینیوں کی جو مدد کر سکتے ہیں اس میں پہلی چیز دعا ہے ۔ ایسے مواقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں جو دعائیں سکھائی ہیں ، ان دعاؤں کا اہتمام کیا جائے ، قنوت نازلہ کا اہتمام کیا جائے ۔اپنے بچوں کو دینی تعلیمات سکھائیں اور ان میں جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت پیدا کریں کیونکہ آنے والے وقت میں اس کی ضرورت پڑے گی ۔ احادیث میں ایسی جنگوں کی خبریں موجود ہیں ۔ ان کے لیے ہمارے پاس پہلے سے تیاری ہونی چاہیے ۔ بچوںکو فلسطین اور بنی اسرائیل کی پوری تاریخ بتائیں تاکہ ان کے اندر جذبہ پیدا ہو ۔ دین کا نفاذ پہلے اپنی ذات پر کریں ، پھر گھروالوں پر ، پھر معاشرے میں اس کی دعوت کو پھیلائیں ، اسی طرح امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہر مسلمان کا فریضہ ہے ۔ حدیث میں اس کے بھی مختلف درجات بیان ہوئے ہیں کہ اگر کوئی ہاتھ سے روک سکتا ہے تو ہاتھ سے روکے ، ہاتھ سے نہیں روک سکتا تو زبان سے روکے ، زبان سے بھی نہیں روک سکتا تو دل میں بُرا جانے۔ دل میں بھی اگر برائی کے خلاف نفرت نہیں ہے تو حدیث میں آتاہے کہ پھر رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے ۔ ہماری حکومتوں کے پاس اختیار اور طاقت ہے وہ ہاتھ سے روکنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔ OICکے چارٹر میں لکھا ہوا ہے کہ فلسطینیوں کی اخلاقی ، مالی اور عسکری مدد کی جائے گی ۔ انفرادی سطح پر ہم میں سے ہر شخص اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق مکلف ہے اس نے اللہ کے ہاں جواب دینا ہے ۔ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں ، دوسروں کو اس کی ترغیب دیں ۔ جہاں تک جہاد کا تعلق ہے تو جب تک اسلامی خطوط کےمطابق ریاست نہیں بنے گی تب تک جہاد کا اعلان کوئی بھی مسلم ملک نہیں کرسکے گا ۔ ایسی ریاست اور ایسی اجتماعیت صرف خلافت کے ذریعے ہی قائم ہو سکتی ہےاس کے لیے ہمیں  جدوجہد اور کوشش کرنی چاہیے ۔