(نقدو نظر) مَن تُرا حاجی بَگویَم - ایوب بیگ مرزا

10 /

مَن تُرا حاجی بَگویَم

ایوب بیگ مرزا

تاریخ میں ہندوستان کا ذکر اگر سونے کی چڑیا کے طور پر آیا ہے تو اُس کی وجہ اِس سر زمین کی لہلہاتی فصلیں یعنی زراعت تھی اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اِس حوالے سے دنیا میں کوئی اُس کا ثانی نہ تھا۔ ہندو دانشور ششی تھروڈ اپنی کتاب In Gracious Empire میں رقم طراز ہے کہ مغلوں کے دور کے اختتام پر بھی ہندوستان  کا G.D.P دنیا کے کل G.D.P کا 25فیصد تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے اگرچہ ناقابلِ یقین دکھائی دیتی ہے۔ انگریزوں نے اِس انتہائی امیر ملک کے ساتھ کیا سلوک کیا یہ اِس وقت ہمارا موضوع نہیں، لیکن ایک مثال پیش کر دیتے ہیں تاکہ قارئین کو اصل صورتِ حال کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہو جائے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ کسی انتہائی تندرست صحت مند اور توانا نوجوان کے جسم سے اتنا زیادہ خون  نکال لیا جائے کہ اب اُس کے لیے بغیر سہارے کھڑا   ہونا بھی ممکن نہ رہے۔ یقین جانیے کہ نوے سال (1857تا1947ء ) کے دوان ہندوستان کی دولت برطانیہ منتقل ہوتی رہی۔ بہرحال اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے کہ ہندوستان ایک زبردست زرعی ملک تھا۔ 1947ء میں ہندوستان تقسیم ہوگیا تو سونا اُگلنے والا پنجاب بھی تقسیم ہوگیا۔ بڑا حصہ پاکستان کے حصہ میں آیا جو مغربی پنجاب کہلایا اور نسبتاً چھوٹا حصہ بھارت کے حصہ میں آیا جو مشرقی پنجاب کہلایا۔ بھارت نے بہتر اور مؤثر کارکردگی کے لیے اپنے چھوٹے حصہ کو مزید تین صوبوں میں تقسیم کر دیا جبکہ پاکستان میں آنے والے پنجاب ،جس کی زمین اب 12 کروڑ سے زائد آبادی کا بوجھ اُٹھائے اورہوئے ہے جس کی وجہ سے اُس کی گورننس کے مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سیاسی مفادات نے صوبوں کی تقسیم کو ناممکن بنا دیا ہے۔ ہماری نااہلی اور بدانتظامی کا معاملہ یہ ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے پاکستان کے حصہ میں آنے والے پنجاب کی زرعی پیداوار اُس پنجاب سے جو بھارت کے حصہ میں آیا کئی گُنّا زیادہ تھی اور آج یہ حالت ہے کہ بھارت کے حصہ میں آنے والا چھوٹا پنجاب تین حصوں میں تقسیم ہونے کے باوجود پاکستان کے بڑے پنجاب سے زیادہ پیداوار دے رہا ہے اور وہاں کا کسان خوشحال ہے۔ اِس کی سیدھی اور سادہ وجہ قومی سطح پر ہماری نااہلی اور کرپشن ہے۔
آج پاکستان گندم کے بدترین بحران سے دو چار ہے اور خاص طور پر پنجاب کا کسان ناگفتہ بہ صورتِ حال سے دو چار ہے۔ ایک طرف وہ سرکار کے گندم نہ خریدنے پر مالی طور پر پریشان ہے تو دوسری طرف اُنہیں پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج اور گرفتاریوں کا سامنا ہے یعنی حکومت مارتی بھی ہے اور رونے بھی نہیں دیتی۔ اس سب کچھ کی وجہ بھی نااہلی اور کرپشن تو ہے ہی لیکن ایک اور وجہ بھی ہے جس کی تفصیل آگے جاکر تحریر میں آجائے گی۔
آئیے پہلے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ بحران ہے کیا اور پیدا کیوں ہوا ہے۔ پاکستان کی تاریخ یہ رہی ہے کہ جب گندم کی پیداوار اور کھپت کا اندازہ لگایا جاتا ہے تو افغانستان کی ضروریات کو بھی شمار کیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال کچھ یوں ہوا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مسلسل بگڑنے کی وجہ سے پنجاب میں بڑی سختی سے   ضلع بندی کر دی گئی۔ دفعہ 144 نافذ ہوگئی اور وہ تمام اقدامات اُٹھائے گئے کہ گندم سمگل نہ ہو یہ اچھی بات تھی۔ دوسری طرف افغانستان نے بھی پاکستان کی بجائے دوسرے ممالک سے گندم خرید لی۔ لہٰذا فصل ہدف سے  کم ہونے کے باوجود پنجاب کے گودام گندم سے بھرے ہوئے تھے لیکن 22 اکتوبر 2023ء کو اچانک حکومت نے یوکرین سے گندم درآمد کرنے کا پروانہ جاری کر دیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یکم نومبر 2023ء کو یعنی نوٹیفیکیشن کے صرف ایک ہفتہ بعد پہلا جہاز یوکرائن سے گندم لے کر پاکستان کے ساحل پر موجود تھا جبکہ روٹین میں اجازت ملنے کے بعد جہاز کو پہنچنے میں تین ہفتے سے ایک ماہ تک کا وقت لگتا ہے۔ گویا کسی کمپنی کو اکتوبر کے آغاز میں یقین تھا کہ اکتوبر کے تیسرے ہفتہ میں گندم درآمد کرنے کی اجازت مل جائے گی لہٰذا وہ پہلے ہی درآمد کرنے کے تمام انتظامات مکمل کر چکی تھی۔ المیہ یہ ہے کہ اُس وقت ملک میں چھیالیس (46) لاکھ ٹن گندم موجود تھی جو اگلی فصل تک کفایت کر سکتی تھی لیکن 34 لاکھ ٹن گندم درآمد کر لی گئی۔ یوکرائن سے درآمد شدہ گندم کی لینڈنگ پرائس 3100 روپے فی من تھی اس میں 400 روپے فی من اخراجات شمار کر لیں تو اِس کی قیمت 3500 روپے بنتی ہے جو نگران حکومت کے لاڈلوں نے 4500 روپے فی من ملوں کو سپلائی کی جبکہ ملکی گندم کی قیمت 4600 روپے فی من تھی اور جس میں خریدار کو کئی دوسری رکاوٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا کسی نے ملکی گندم کی طرف توجہ نہ دی۔ ایک اندازے کے مطابق حکومتی لاڈلوں نے 85 ارب روپیہ کمایا۔ کِسان کے مطابق اُسے ایک ایکڑ کی بوائی ایک لاکھ چالیس ہزار روپے میں پڑتی ہے۔ اِس وقت اگر وہ آڑھیتوں اور کمیشن ایجنٹوں کو گندم بیچے تو اُسے پچاس ہزار روپیہ فی ایکڑ نقصان ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کے بدترین نتائج آنے والے چند سالوں پر مرتب ہوں گے جب ہمارا کسان گندم نہیں بوئے گا۔ البتہ اگلے لاڈلوں کے لیے پھر سنہری موقع ہوگا کہ وہ گندم کی امپورٹ سے خوب نفع کمائیں۔ ایک اندازے کے مطابق اِس بددیانتی سے سرکاری خزانے  کو1 ارب 10 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا ہے یہ اتنی ہی رقم بنتی ہے جو ہم نے IMF کے بوٹ چاٹ کر آخری قسط قرضہ کے طور پر حاصل کی ہے۔ اب عوام کو تحقیقات کے زور دار نعرے لگا کر بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ یہ درآمدی گندم اب تک آرہی ہے اگرچہ اِس کا فیصلہ نگران دور میں ہی ہوا تھا اور وہی اصل مجرم ہیں۔ لیکن کیا موجودہ حکومتی سیٹ اپ اِن ہی نگران حکمرانوں کی عطا اور بخششیں نہیں ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے، ہم کہتے تھے تو اسے الزام کہا جاتا تھا۔ اب تو گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھا دی ہے۔ ایک مجرم نے دوسرے مجرم کی نشان دہی کر دی ہے۔ مسلم لیگ کے حنیف عباسی نے جب نگران وزیراعظم کاکڑ پر چور ہونے کی پھبتی کسی تو اُس نے جواباً کہا کہ خاموش رہو اگر میں فارم 47 کی حقیقت بتا دوں تو مسلم لیگ (ن) کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔ کون نہیں جانتا کہ مسلم لیگ (ن) اور نگران یک جان دو قالب تھے اور ہیں۔ شہباز شریف دن رات اُن کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ اُنہوں نے محسن نقوی کو پنجاب میں اپنے سے بہتر کارکردگی دکھانے والا وزیر اعلیٰ قرار دیا تھا۔من تُرا حاجی بگویم تو مَرا ملا بگو کی دن رات گردان جا ری رہتی ہے۔ ہم نے تو یہ تفصیل اس لیے بتائی ہے کہ کون کس کی تحقیق کرے گا اور اپنوں کی کی گئی تحقیق کس حد تک سود مند ہوگی۔ دونوں ایک دوسرے کی شیلڈ ہیں، دونوں کا دشمن سانجھا ہے۔ البتہ آنے والے وقت میں مفادات کا اختلاف ہو جائے تو بات دوسری ہے۔ بہرحال صورت یہی نظر آتی ہے کہ کسان بیچارہ روتا، رُلتا اور بِلکتا رہے گا اور کسی فائیو سٹار ہوٹل کے سرد کمروں میں تحقیقات بھی جاری رہے گی۔ البتہ اس دوران حسب معمول کبھی خوشنما اعلانات کیے جائیں گے اور کبھی کبھی سڑکوں پر پولیس کسانوں کی تواضع بھی کرتی رہے گی۔
ہم نے آغاز میں جو عرض کیا تھا کہ ہم اس بحران کی ایک خاص وجہ بتائیں گے تو اُس کا تعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی سے ہے۔ پاکستان آغاز سے ہی خاص طور سیٹو سنٹو معاہدوں میں بندھے جانے کے بعد اِس خطے میں امریکہ کے ایک سپاہی کا رول ادا کر رہا تھا۔ ہم امریکی غلامی کا پٹہ گلے میں باندھ چکے تھے البتہ کبھی اِس پٹہ کو ڈھیلا کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ ایوب خان جیسا ڈکٹیٹر اگرچہ پاکستان میں امریکی احکامات کی تعمیل کرواتا تھا لیکن پھر غلامی سے تنگ آ کر  بہرحالـ"Friends not Masters"  جیسی کتاب لکھنے کی جرأت بھی کر لیتا تھا۔ پھر 15-2014ء سے پاکستان نے بڑی آہستگی سے امریکہ سے دور کھسکنےاور چین کے قریب ہونے کی کوششیں شروع کر دیں اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ 2021ء میں پاکستان میں  Absolutely not  کی گرجدار آواز گونجی جس نے امریکہ کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا۔ امریکہ نے انتہائی کامیاب جوابی وار کیا اور اندرونی مفاد پرستوں سے مل کر اُس آواز کو زنجیروں سے جکڑ دیا اور پاکستان مکمل طور پر امریکہ کے کنٹرول میں چلا گیا، جیسا پہلے بھی کبھی نہ تھا۔ اِسی دوران روس، یوکرائن جنگ شروع ہوئی امریکہ نے روس کو اپنا دشمن اور یوکرائن کو اپنا اتحادی قرار دیا۔ امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اِسی یوکرائن سے ہم نے گندم خرید کر اپنے کسان کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا۔ امریکہ نے تو یقیناً تھپکی دی ہوگی لیکن ہمارا کسان بیچارہ رُل گیا اور غریب اور مقروض ملک کا ایک ارب دس کروڑ ڈالر بھی ضائع ہوگیا۔ افواہ یہ بھی ہے کہ امریکی خوشنودی کے لیے گندم کے بدلے یوکرائن کو اسلحہ دیا گیا۔ دروغ برگردن راوی۔ بہرحال ہماری انتہائی کمزور معاشی کمر پر ایک اور لات ماری گئی ہے۔ بندوں سے کیا توقع بچانے والی اللہ کی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ پاکستان کو امریکہ اور اُس کے دوستوں سے بچائے۔آمین!