(کارِ ترقیاتی) تابخاکِ امریکا - عامرہ احسان

10 /
تابخاکِ امریکاعامرہ احسان
 
حسبِ سابق سرزمین ِقبلۂ اول پر سارے مظالم، ہتھکنڈے جاری وساری ہیں۔ وہی مرحبی وہی عنتری وہی خوئے اسد اللہی۔ بد سے بدترین آزمایا جا چکا۔ جنگی جرائم کی کوئی نئی فہرست ایجاد کرنی پڑے گی۔ کیونکہ موجودہ ہولناک فہرست تو عدالتِ انصاف سے اسرائیل کو جنگی مجرم قرار نہیں دلوا سکی! شرمسار کیا گیا تو نیتن یاہو، وزیر دفاع، آرمی چیف کے وارنٹ جاری کرنے کی کھوکھلی دھمکی جاری کر دی گئی۔ غزہ میں ایک عمومی لطیفہ یہ چلتا ہے کہ اسرائیل میں انسانی ہمدردی کا سب سے بڑا چیمپئن وہ وزیر تھا، جس نے جنگ کی ابتدا میں ایٹم بم پھینک کر غزہ کو ختم کرنے کو کہا تھا۔ اسرائیل 7ماہ ہر آن ہولناک اذیت میں، کئی ایٹم بموں  کے برابر بمباری کرکے کھنڈر بنا چکا! وحشت انگیز مظالم خصوصاً ہسپتالوں میں جو ہوئے اس پر عالمی مگرمچھوں نے چند آنسو بہاکر تحقیق تفتیش کا بیان جاری کردیا! غزہ حسبِ سابق آئے دن چرکے اٹھاتا ڈاکٹر، صحافی، پروفیسر، عورتیں، بچے قربان کر رہا ہے۔ الشفاء ہسپتال کے آرتھوپیڈک شعبے کے سربراہ کی، قید میں شہادت تازہ زخم ہے۔ مگر یہ خون رائیگاں نہیں۔ 
اب تو، پہلے امریکی صدر جارج واشنگٹن(کے مجسمے) کو بھی فلسطینی سکارف ’کفیہ‘ اوڑھا دیا ، فلسطینی پرچم سے ڈھانپ دیا! ہارورڈ یونیورسٹی کے ہارورڈ جان (مجسمے) کو فلسطینی پرچم تلے چپ بیٹھے سب نے دیکھ لیا۔ اس وقت دنیا نہایت اہم موڑ پر کھڑی ہے۔ پورے امریکا میں سرکردہ ترین یونیورسٹیوں میں نوجوان طلبہ نے شدید جذباتی آگ بھڑکا دی ہے جس سے پورا گلوب تھرّا اٹھا ہے۔ اسرائیل اپنی عالمی حمایت کھو بیٹھا ہے۔ عالمی رائے عامہ اس کے خلاف ہو چکی ہے۔ امریکا کے سر پر انتخابات آئے کھڑے ہیں۔ فضا میں شدید تناؤ ہے، ہر اس سیاست دان، لیڈر، اداروں کے سربراہوں کے لیے (تمام مغربی ممالک میں) جو غزہ میں قتل عام کی مخالفت نہ کرے، منہ موڑ لے! برطانیہ میں وہ آزاد امیدوار جیت رہے ہیں جو غزہ جنگ پر گونگے نہ بنے۔ قتل وغارت گری پر بے حسی نے ہر جا ووٹرز میں   غم وغصہ پیدا کردیا ہے۔ بالخصوص مسلمان کہہ رہے ہیں کہ ہم ایسے کسی امیدوار کو ووٹ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے جو اخلاقی گراوٹ کی اس انتہا پر ہو کہ غزہ پر ظلم کے خلاف آواز تک نہ اٹھائے۔ امریکا بھر میں 80سے زائد یونیورسٹیاں شدید مظاہروں، احتجاجوں کی لپیٹ میں ہیں۔ گھبراکر یو این میں اسرائیلی سفیر گیلاڈاردن بول اٹھا: ’ہمیں ہمیشہ پتہ تھا کہ حماس اسکولوں میں چھپتی ہے۔ مگر ہمیں اندازہ نہ تھا کہ یہ صرف غزہ کے اسکول نہیں یہ تو ہارورڈ، کولمبیا اور بہت سی  اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں بھی ہیں۔‘ اس پر ایک امریکی کھلکھلا اٹھا، کہنے لگا: ’ہاں ہاں! بالکل ہارورڈ، کولمبیا، تمام ایلیٹ یونیورسٹیاں ’حماس‘ ہیں۔ گیلاڈ درست کہہ رہا ہے کہ دنیا میں اعلیٰ ترین تعلیم کے حامل طالبِ علم مزاحمت کی تائید، حمایت کر رہے ہیں۔ گیلاڈ! جو بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، اس مسئلے اور تاریخ پر عبور رکھتا ہے وہ (غزہ کی) حمایت کرتا ہے۔ اور جو نہیں کرتا وہ نہایت غبی، احمق، ذہانت سے عاری ہے یا برین واش ہو چکا ہے!‘ (یا مسلمان حکمرانوں کی طرح مفادات کا اسیر ہے یا ان کے عوام کی مانند گونگے، بھیڑ بکریوں کے ریوڑ ہیں!)
امریکی طلبہ نے یونیورسٹیوں میں غزہ کی مانند ایک مزاحمت کی لہر اٹھا کھڑی کی ہے۔ ان کے ذریعے یونیورسٹیوں کے حیرت انگیز راز فاش ہوگئے۔ پتہ یہ چلا کہ امریکا بھر بلکہ سبھی مغرب کی یونیورسٹیاں اسرائیل کی جنگی مشینری میں سرمایہ کاری کرتی ہیں۔ صرف 30بڑی امریکی یونیورسٹیوں کی سرمایہ کاری 500ارب ڈالر کی ہے۔ طلبہ چیخ اٹھے ہیں کہ ان کے ڈالر غزہ کے بچوں کے قتل میں استعمال ہو رہے ہیں۔ مشی گن یونیورسٹی میں گریجویشن کی تقریب میں شریک ہزاروں طلبہ کی موجودگی میں اٹھا یا ہنگامہ دیدنی تھا۔ گریجویشن کے گاؤن پہنے، اپنی تعلیم کی تکمیل کی خوشی بھلاکر، ڈگری کے حصول کے سحر سے بے نیاز نعرہ زن تھے: ’اسرائیل بمباری کرتا ہے اور مشی گن یونیورسٹی اس کی ادائیگی کرتی ہے‘، ’بتاؤ! آج تم نے کتنے بچے قتل کیے‘ سے فضا تھرّا اٹھی۔ ’راز کھولو‘ (کتنی سرمایہ کاری کی ہے؟) ’سرمایہ نکالو‘۔ ’ہم چین سے ہرگز نہیں بیٹھیں گے‘، کے نعرے لگ رہے تھے۔ باربار الزامی انداز میں ’یو ایس اے، یو ایس اے، پکار رہے تھے۔ تمام یونیورسٹیوں میں لگے کیمپ، دھرنے یہی مطالبے دہرا رہے ہیں۔ امریکہ  کی ہوائیں، Divest۔ سرمایہ واپس لو (اسرائیل سے) کی گونج دہراتی اب پورے گلوب میں رواں دواں ہیں، ہربراعظم میں! یونیورسٹیوں کے سبھی شیڈول درہم برہم ہوگئے۔ طلبہ پر بے محابا پولیس جابجا ٹوٹ پڑی۔ لاس اینجلس میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور نیویارک میں بالخصوص کولمبیا یونیورسٹی کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل نواز جتھے بھی ان مظاہرین پر وحشیانہ انداز میں حملہ آور ہوئے۔ مرچوں کا تاک کر آنکھوں میں سپرے۔ ربڑ کی گولیاں جن میں اندر دھات تھی جس سے شدید زخم چہرے پر آئے۔ اس سب کے باوجود تحریک مدہم نہیں پڑی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تماشا نہیں ہے۔ ہم یہاں قتلِ عام میں سرمایہ کاری ختم کروانے آئے ہیں۔ یہ کروڑوں ڈالر ہماری تعلیم، اساتذہ ہمارے اداروں پر خرچ کریں۔ ’ہم فلسطین کی آزادی تک لڑنے کے لیے تیار ہیں‘ کے نعرے پر سب ہم آواز تھے۔
فرانس کی اعلیٰ ترین سوبورن یونیورسٹی کے طلبہ کا  کہنا تھا کہ ’جس طرح یہ تحریک پورے امریکا میں پھیلی ہے، ہم فرانس میں بھی یہی چاہتے ہیں۔ ہم اپنی حکومت کا اسرائیلی مظالم میں حصہ دار بننا رد کرتے ہیں۔ امریکی، مغربی حکومتیں اور کچھ عرب حکومتیں جو سرگرم رہ کر یا خاموشی سے قتل ِعام میں حصہ دار اور مؤید ہیں ہم اس کے خلاف اٹھے ہیں‘۔ طلبہ میں یکجہتی کا عالم یہ ہے کہ اوہائیو میں مسلمان نوجوان نماز باجماعت ادا کر رہے ہیں۔ پولیس انہیں گرفتار کرنے کے درپے ہے۔ غیرمسلم امریکی طلبہ نمازیوں کے گرد حصار باندھے کھڑے نعرے لگا رہی ہے: انہیں نماز پڑھنے دو! پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے! ادھر سے غزہ میں اجڑے فلسطینیوں نے اپنے ٹینٹوں پر لکھ رکھا ہے۔ ’شکریہ! 
کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ!‘ سڈنی یونیورسٹی (آسٹریلیا) میں روشنیوں سے یونیورسٹی کے لان میں رات کے وقت غزہ (GAZA ) لکھا جگمگا رہا ہے! پس منظر میں یونیورسٹی کی عمارت، احتجاجی طلبہ اور بینر ہیں! یعنی غزہ ہر صاحبِ دل، زندہ وبیدار قالب میں بستا اور دھڑکتا ہے۔ تمام زندہ آبادیوں میں یہ نام روشنی بکھیرتا ہے ایمان سے منور۔ یہی چیز مغرب میں اشاعتِ اسلام کا ذریعہ بن گئی۔ ایک گورا نوجوان کہہ رہا ہے: ’اب دنیا میں کوئی مسلمانوں سے خوفزدہ نہیں۔ دہشت گردی نامی جنگ کا پروپیگنڈا اب کام نہیں کر رہا۔ میں مظاہروں میںبہت سے مسلمانوں سے ملا ہوں۔ وہ سبھی بے انتہا مہربان تھے۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ ’برے لوگ‘ ہیں اور ہمارے ٹیکسوں کی کمائی انہیں بم مارنے پر خرچ ہونی چاہیے۔ (2001 سے چھیڑی امریکی جنگوں کا تناظر!) صہیونیوں کی بداخلاقی، تکبر، بدلحاظی بارے بات کرتا ہے کہ اسی سے لوگ ان سے متنفر ہو رہے ہیں۔ مسلمان اپنی نرم خوئی، دوستانہ رویے سے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنا رہے ہیں۔ حال ہی میں فلسطین کے لیے مظاہرے میں کچھ طلبہ شریک تھے جو ابھی مسلمان ہوئے ہیں۔ مسلمان یقینا زبردست، کشادہ رو، بہترین اخلاق کے حامل ہیں۔ میں ان کی طرفداری کروں گا بہ نسبت سیکولر، قتل ِعام کرنے والی بلاؤں کے جو ان کے مخالف ہیں!‘
یونیورسٹیاں طلبہ تحریک محدود کرنے پر کئی جگہ مذاکرات طلبہ سے کر رہی ہیں۔ طلبہ اسرائیل سے سرمائے اور علمی، تحقیقی تعلق ختم کروانے پر مصر ہیں جس میں اسرائیل کی معاشی موت مضمر ہے۔ یونیورسٹیاں ہوں یا مغربی حکومتیں۔ سبھی اس جنونی قاتل کے ساتھ شریکِ جرم ہیں۔ اب تک واشنگٹن کے ایور گرین سٹیٹ کالج اور پورٹ لینڈ یونیورسٹی نے اسرائیل سے سرمایہ مکمل نکال لیا ہے۔ یاد رہے کہ 2005ء میں اسی کالج کی طالبہ راشیل کوری رفح میں اسرائیلی بلڈوزر نے مار ڈالی تھی۔ یہ طالبہ رفح کے ایک فلسطینی خاندان کا گھر بچانے کے لیے بلڈوزر روکنے کی کوشش میں تھی۔ اسرائیلی نے بے دردی سے اسے کچل ڈالا تھا۔ اس کی قربانی 19سال بعد رنگ لائی! مسجد اقصیٰ میں عید پر دو لاکھ کی تکبیرات اور پورے گلوب پر فلسطین آزاد کرو، امریکا اسرائیل کی لعن طعن! کیا عجب منظر ہے! 
ایک ہو دنیا حرم (قبلۂ اول) کی پاسبانی کے لیے
ساحلِ غزہ (بحرِ ابیض) سے لے کر تابخاکِ امریکا!
مسلمان؟ امریکی روبوٹ/ غلام بنے منہ تک رہے ہیں! رب اغفر وارحم!