الہدیٰ
حضرت موسیٰ ؑ کا معاہدہ نکاح
آیت 28{قَالَ ذٰلِکَ بَیْنِیْ وَبَیْنَکَط}’’موسیٰ ؑنے کہا: (ٹھیک ہے) یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہو گئی۔‘‘
{اَیَّمَا الْاَجَلَیْنِ قَضَیْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَیَّط}’’ ان دونوں میں سے جو مدّت بھی میں پوری کردوںتو مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو۔‘‘
یعنی آپ کا مطالبہ مجھ سے آٹھ سال کا ہی ہو گا۔ اگر میں دس سال پورے کر دوں تو یہ میرا اختیار ہو گا‘آپ مجھے اس پر مجبور نہیں کریں گے۔
{وَاللہُ عَلٰی مَا نَقُوْلُ وَکِیْلٌ(28)}’’اور جو کچھ(اس وقت) ہم کہہ رہے ہیں ‘اللہ اس پر وکیل ہے۔‘‘
یعنی ہمارے اس قول و قرار اور معاہدے کا گواہ اور ضامن اللہ تعالیٰ ہے ۔
درس حدیث
نکاح کرنا انبیاء کرام ؑ کی سنت ہے
عَنْ اَبِی اَیُّوْبَ اَلْاَنَصَارِیْ ؓ قَالَ قَالَ: رَسُولُ اللہِ ﷺ :((اَرْبَعٌ مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِیْنَ : اَلْحَیَاءُ، وَالتَّعَطُّرُ، وَالسِّوَاکُ وَالنِّکَاحُ))(سنن ترمذی)
حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’چار باتیں انبیاء و رسل کی سنت میں سے ہیں: حیا کرنا،عطر لگانا، مسواک کرنا اور نکاح کرنا۔‘‘
تشریح: سورۃ الرعد میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’ اے میرے محبوبﷺ ! ہم نے آپ (ﷺ) سے پہلےکتنے ہی انبیائے( ؑ ) کو بھیجا اور ہم نے ان کے لیے بیویاں اور اولادیں بنائیں ۔‘‘
اسی طرح ایک مرتبہ جب بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عبادت و ریاضت میں یکسوئی و دلچسپی کے پیشِ نظر آنحضرت ﷺ کے سامنے اپنی قوت شہوت کو ختم کردینے کی خواہش کا اظہار کیا تو آنحضرت ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا اور شادی نہ کرنے کو زندگی سے فرار اختیار کرنا قرار دیا۔ اس لیے کہ اسلام زندگی سے فرار کی راہ کو بالکل ناپسند کرتاہے۔ چنانچہ حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ’ بخدا میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ اس کی ناراضگی سے بچنے والا ہوں، میں کبھی نفل روزے رکھتا ہوں اور کبھی بغیر روزوں کے رہتا ہوں، کبھی راتوں میں نماز پڑھتا ہوں اور کبھی سوتا ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں (یہ میرا طریقہ ہے) اور جو میرے طریقے سے منہ موڑے ،اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ نےنکاح میں انسان کےلیےبہت سےدینی ودنیاوی فائدےرکھےہیں،مثلاً معاشرتی فائدے ، خاندانی فائدے،اخلاقی فائدے ، سماجی فائدے، نفسیاتی فائدے الغرض فائدوں اور خوبیوں کا دوسرا نام نکاح ہے۔
انسان کو نکاح کے ذریعہ صرف جنسی سکون ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ قلبی سکون ،ذہنی اطمینان غرض کہ ہر طرح کا سکون میسر ہوتا ہے۔ شوہر اور بیوی کے مابین الفت و محبت کا رشتہ ہے اورایک دوسرے کے لیے راحت و آرام،سکون و اطمینان کا ذریعہ ہوتے ہیں۔جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ’’ وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی بنائی تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے۔‘‘ (سورۃ الاعراف :189)