اداریہ
خورشید انجم
غزہ میں اسرائیلی درندگی اور امت ِ مسلمہ کی ذمہ داری
انسانی تاریخ جنگ و جدل اور خونریزی سے بھری پڑی ہے۔ کئی بار مختلف اقوام اور مذاہب سے تعلق رکھنے والی افواج ایک دوسرے کے مقابل آئیں اور خون کی ندیاں نہیں دریا بہا دیئے گئے۔ اِس عالمی سطح پر وسیع قتل و غارت گری میں اگرچہ مخالف عام شہری بھی مارے گئے لیکن اِن جنگوں میں اصلاً مدِمقابل فوجی ہی جان سے جاتے رہے۔ لیکن فلسطین میں لڑی جانے والی حالیہ جنگ جسے غزہ کی جنگ کہا جا رہا ہے اور جس میں اصلاً اسرائیل اور فلسطینی مسلمانوں کی ایک جماعت حماس مدِ مقابل ہیں، یہ جنگ آج تک ہونے والی تمام جنگوں سے اس لیے مختلف ہے کہ اس میں اسرائیل غزہ کے عام شہریوں، سکولوں اور ہسپتالوں پر بمباری کرکے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ وہ فلسطینیوں کی نسل کُشی پر اتر آیا ہے اور عورتوں اور بچوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنا رہا ہے۔ وہ معصوم بچوں کو یہ کہہ کر ٹارگٹ کر رہا ہے کہ یہ ٹائم بم ہیں جو کسی وقت اُس کے خلاف پھٹ جائیں گے۔ اسرائیل کے فوجی غزہ کے ہسپتالوں سے زخمیوں اور مریضوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر باہر سڑک پر پھینک دیتے ہیں اور وہ تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں۔ ایک شریف النفس انسان اور اچھا معاشرہ یہ سلوک جانوروں اور حیوانوں سےبھی نہیں کرتا۔ اسرائیل نے دنیا کو ایک جنگل بنا دیا ہے جس میںوہ بلا لحاظ وتمیز درندے کی طرح چیر پھاڑ کر رہا ہے۔ جو انسان یہ کام پتھر کے دور میں بھی اس بے دردی سے نہیں کرتا تھا۔ اس بات کو خاص طور پر ذہن میں رہنا چاہیے کہ اسرائیل اس وحشیانہ پن کا مظاہرہ ایک محدود جگہ پرچند ماہ کے قلیل عرصہ میں کر چکا ہے۔ جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ عالمی جنگوں میں ایسی خونریزی بڑے وسیع علاقوں میں اور کئی سالوں میں ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہودی مسلمانوں کےبدترین دشمن ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے کلامِ پاک میں ہمیں آگاہ کر چکا ہے: ’’تم لازماً پاؤ گے اہل ایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور ان کو جو مشرک ہیں‘‘ ( المائدہ: 82) ۔ اللہ تعالیٰ اس حوالے سے ہماری ذمہ داری اور ہمارے کرنے کا کام بھی ہم پر واضح کر چکا ہے:’’اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم قتال نہیں کرتے اللہ کی راہ میں اور ان بےبس مردوں ،عورتوں اور بچوں کی خاطر جو مغلوب بنا دیے گئے ہیں اور جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں نکال اس بستی سے جس کے رہنے والے لوگ ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنا دے اور ہمارے لیے خاص اپنے فضل سے کوئی مددگار بھیج دے۔‘‘ ( النساء: 75)
7 اکتوبر 2023ء کو حماس کے حملے سے پہلے اسرائیل ، عرب ممالک اور بعض دوسرے مسلمان ممالک بھی باہم مفاہمت اور محبت کی باتیں کر رہے تھےاور سب اسرائیل کو تسلیم کرنے پرتقریباً آمادہ ہو چکے تھے۔ اسرائیل اُس کہاوت پر عمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ دشمن اگر گُڑ دے کر مارا جا سکتا ہے تو زہر دینے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ گریٹر اسرائیل کے لیے ایک جال بچھا رہا تھا جس کا نقشہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ستمبر 2023ء میں اقوامِ متحدہ میں ساری دنیا کو دکھا دیا تھا۔لیکن 7 اکتوبر 2023ء کو حماس کےحملہ نےاس سازشی منصوبہ کو ملیامیٹ کر دیا۔قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اُنہوں نے بھی چالیں چلیں اور اللہ نے بھی اپنی تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘ ( آل عمران: 54) اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ تو فی الحال کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ لیکن اسرائیل اِس کا بدلہ اہلِ غزہ اور دوسرے فلسطینیوں کو خون کے دریا میں غرق کر کے لینا چاہتا ہے۔پھر یہ کہ امریکہ اور یورپ بھی اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل کے فلسطینیوں پر بے تحاشا ظلم کو امریکہ اور یورپ کے عوام نے بُری طرح مسترد کر دیا ہے اور وہاں لاکھوں لوگ اسرائیل کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں، گویا اِس حوالے سے امریکہ اور یورپ کی ریاستوں اور عوام میں نقطۂ نظر کا بڑا فرق واقع ہوگیا ہے۔
بہرحال، نبی اکرم ﷺ نے پوری امتِ مسلمہ کو جسدِ واحد قرار دیا تھا جس کےایک حصہ کی تکلیف سے دوسرا حصہ بھی متاثر ہوتا ہے۔ لہٰذا مسلمان ممالک کو چاہیے کہ متحد ہو کر ارضِ فلسطین کو صہیونیوں سے پاک کرنے کے لیے عملی اقدمات کریں ۔ان عملی اقدامات میں کچھ انفرادی نوعیت کے ہیں اور کچھ مسلمان ممالک کے ریاستی سطح پر کرنے کے ہیں۔ حدیث نبوی ﷺکے مطابق دعا مؤمن کا ہتھیار ہے۔ ہمیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور صدقِ دل سے فلسطین کے مسلمانوں کی مدد اور ظالموں کے جبر کو روکنے کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ سورۃ البقرہ کی آیت 153 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: {اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط}’’ صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔‘‘ ہمیں اللہ تعالیٰ کی مدد کو متوجہ کرنے کے لئے کثرتِ سجود اور سجدوں کو طویل کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے یعنی ہم فرض نمازوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ نفل نمازوں کی طرف توجہ اور سجدوں کی کثرت کا اہتمام کریں ۔اسی طرح مساجد میں قنوت نازلہ کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اللہ کے سرکشوں، باغیوں اور نافرمانوں کے لیے ہرگز نہیں آ تی۔ سورۃ النحل کی آ خری آ یت میں ارشاد ہوا ہے:{اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا }’’بے شک اللہ تعالیٰ کی معیت (مدد) ان لوگوں کے لیے ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔‘‘لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر خاص وعام اپنی زندگی سے گناہوں، منافقت اور سرکشی کے رویہ کو ختم کرے۔ ہمیں چاہیے کہ اس وقت یہود و اسرائیل اور فلسطین کی تاریخ کا تفصیلی مطالعہ کریں اور اپنے قریبی لوگوں کو بھی یہ معلومات فراہم کریں۔ اس حوالہ سے بانی ٔتنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کےخطابات کی سماعت بھی فائدہ مند ہوگی۔اپنے بچوں کی ذہن سازی کی جائے تاکہ ان میں بھی امت کاد رد پیدا ہواور خدمت ِدین کے لئے مجاہدانہ تربیت کے ذریعہ افرادِ کار میسر ہوں۔ بچوں میں جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت پیدا کیا جائے۔انفرادی سطح پر ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اس موقع پر اپنے اخراجات کو کم کر کے ایثار کرتے ہوئے فلسطینی مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ مالی مدد کرے۔ حکومتی سطح پر تمام مسلمان ممالک غزہ کے مسلمانوں تک بھرپور مالی مدد پہنچانے کا اہتمام کریں۔ سوشل اور ڈیجیٹل میڈیاپر نیزقومی و علاقائی ٹی وی چینلز ،اخبارات اور پریس کلبز وغیرہ میں تقریر و تحریر کے ذریعے اسرائیلی ظلم کے خلاف اور مظلوموں کی داد رسی کے لئےبھرپور آواز بلند کی جائے۔اسی طرح فلسطین کے مسلمانوں پر بے انتہا ظلم وستم کے خلاف اجتماعی سطح پر بڑے پیمانہ پر مظاہرے کیے جائیںتاکہ پوری دنیا کو معلوم ہو سکے کہ مسلمان متحد ہیں اور ایک دوسرے کے درد کو محسوس کرتے ہیں نیز یہ مسلمانانِ فلسطین کی بھی دلجوئی اور ہمت بڑھانے کا باعث ہوگا۔
مسلمان ممالک کے حکمرانوں، مقتدر طبقات اور افواج کو محض امدادی سامان، مالی تعاون یا مذمتی بیانات پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کی طرف سے ظلم کے خاتمہ کے لئے بھرپور جواب سامنے آ نا چاہیے۔یاد رہے کہ ارضِ فلسطین کی حفاظت کے لیے ہر طرح کی مالی اور سفارتی سمیت عسکری مدد کرنا بھی او آئی سی کے چارٹر میں شامل ہے۔عوام کو چاہیے کہ طاقت و قوت رکھنے والے افراد پر اس حوالہ سے دباؤ ڈالنے کی حتی الامکان کوشش کریں۔ عالم ِاسلام کی افواج، ان کی عسکری قوت خصوصاً پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی اور ایٹمی طاقت تمام امتِ مسلمہ کی امانت ہیں۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر پاکستان اسرائیل کو دھمکی دے تو وہ غزہ میں خون کی ہولی کھیلنے سے رک جائے گا۔ اِس بیان نے ہم سب پر بڑی ذمہ داری ڈال دی ہے۔ لہٰذا اس طاقت کا حوالہ دے کر اسرائیل سے بات کی جائے۔اسرائیل کا ہر شہری فوجی تربیت یافتہ ہےلہٰذا مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ نفاذِ عدل اور فریضۂ جہاد کی ادائیگی کی نیت سے اس طرح کی تربیت حاصل کریں جس کا اہتمام مسلم حکومتوں کو کرنا چاہئے۔جن عرب و دیگر مسلم ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرکے اپنے ملک میں ان کا سفارت خانہ کھولا ہوا ہے، انہیں چاہیے کہ فی الفور اسرائیلی سفیر کو واپس بھیجیں، ان کے سفارت خانہ کو بند کریں اور اپنے سفیر کو اسرائیل سے واپس بلائیں۔ مسلم ممالک کو اسرائیل سے ہر قسم کے تجارتی تعلقات ختم کر دینے چاہئیں۔ اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے تاکہ اسرائیل کو شدید معاشی جھٹکا پہنچے۔ اسرائیل کو امداد پہنچنے کے تمام راستے مسدود کیے جائیں۔ مسلمان ممالک اپنی بری، بحری اور فضائی حدود اسرائیل کو ہر قسم کے تعاون پہنچانے کے لیے بند کریں۔اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت میں جاری مقدمات کا فریق بنا جائے اور عالمی فوجداری عدالت میں صہیونی ریاست کے خلاف کارروائی کے آغاز کے لیے کوشش کی جائے۔
یاد رہے کہ اسرائیل کی نظر ِبد اسلامی ایٹمی پاکستان پر مرکوز ہے۔ 1967ء میں اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان نے پاکستان کو اپنا اصل دشمن قرار دیا تھا۔ موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ماضی قریب میں پاکستان کے ایٹمی دانت توڑنے کی خواہش کا کھلم کھلا اظہار کر چکا ہے۔چونکہ وہ جانتا ہے کہ اہلِ فلسطین کے ساتھ بے پناہ الفت ومحبت پاکستان کے ڈی این اے میں شامل ہے۔ کون بھول سکتا ہے کہ 23 مارچ 1940ء کو جب برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی تقدیر بدل دینے والی قرار دادِ لاہور پاس کی گئی تھی تو اُسی اجلاس کے دوران آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے فلسطینی مسلمانوں کے حق میں بھی ایک قرار داد منظور کی تھی ۔ گویا ارضِ فلسطین سے اہلِ پاکستان کا خصوصی تعلق ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ قرار دادِلاہور کے منظور کیے جانے کےصرف7 سال بعد 14 اگست 1947ء کو رمضان المبارک کی ستائیسویں (27ویں) شب میں مملکت ِخدا داد پاکستان معرضِ وجود میں آگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ حضور ﷺ کے دور میں پہلی اسلامی ریاست قائم ہونے کے بعد امت ِمسلمہ میں صرف پاکستان ہی ایسا ملک ہے جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہوا ۔ اسلام ہی اس کی شناخت ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث مبارک کے مطابق اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری نہیں اتاری جس کا علاج نہ اتارا ہو۔ کون نہیں جانتا کہ اس دنیا کو جب اسرائیل کی بیماری لاحق ہوئی تو اُس کے علاج یعنی پاکستان کو قائم ہوئے 9 ماہ ہو چکے تھے۔ پھر اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان ایک ایٹمی قوت بن گیا۔ لہٰذا فطری طور پر امتِ مسلمہ میں اسلامی ایٹمی پاکستان ہی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آگے بڑھے اور فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے اسرائیل کا ہاتھ روکے۔ ہم یہ نہ بھولیں کہ احادیث میں یہ خوش خبری موجود ہے کہ ’’ کچھ لوگ مشرق کی جانب سے نکلیں گے جو مہدی کی حکومت کے لیے راستہ ہموار کریں گے۔‘‘ (ابن ماجہ) اور ’’خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے۔ اُنہیں کوئی نہیں روک سکے گا یہاں تک کہ اُنہیں ایلیاء (بیت المقدس) میں نصب کیا جائے گا۔‘‘ (سنن ترمذی)۔ آ ج امت ِ مسلمہ کا سب سے بڑا جرم دین اسلام سے بے وفائی کرتے ہوئے اس کو نافذ و غالب کرنے کی جدو جہد کو پس ِپشت ڈالنا ہے ۔ دنیا میں 57 مسلم ممالک اور دو ارب سے زائد مسلمانوں کی تعداد ہونے کے باوجود آ ج امت اس فریضہ کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے ذلت و رسوائی کا شکار ہے۔ سچ پوچھیں تو جہاں اس وقت اہل غزہ سخت امتحان سے گزر رہے ہیں تو اُس سے بڑا امتحان باقی امتِ مسلمہ کابھی ہے۔ اگراُمتِ مسلمہ اسرائیل کو روکنے کے لیے اپنی قوت اور صلاحیت کو بروئے کار نہیں لاتی تو سمجھ لیں کہ فلسطینیوں کی خونریزی روکنے میں ہم نے بھی کوئی کردار ادا نہیں کیا اور روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت پکڑ کا خدشہ ہے۔
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کواپنا دینی فریضہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین! ظظظ