(امیر سے ملاقات ) امیرسے ملاقات قسط 27 - محمد رفیق چودھری

8 /

یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ غیر مسلم یونیورسٹیز میں مظلوم فلسطینیوں 

کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں جبکہ پاکستان کی یونیورسٹیز میں میوزک اور

ڈانس کےپروگرامز ہورہے ہیں ، وہ تمام مصنوعات جن کا براہ راست نفع اسرائیل کو

جاتا ہے ان کے مکمل اور مستقل بائیکاٹ کی مہم ملک گیر سطح پر ہونی چاہیے ،

فلسطینیوں کے ساتھ محبت ہماری گھٹی میں شامل ہے۔

اکیلے آدمی کے لیےدجالی حملوں کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتا ہے جبکہ نفاذ اسلام

کی جدوجہد کرنے والی کسی اجتماعیت میں شامل ہوکر دجالی فتنوں کا مقابلہ

کرنا نسبتاًآسان ہو جاتاہے ۔

اسلام پر عمل پیرا ہونا استقامت کا تقاضا کرتا ہے۔

امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات

میز بان :آصف حمید

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:امریکی یونیورسٹیوںمیں اسرائیل کے خلاف مظاہرے اور پاکستانی یونیورسٹیوں میں ناچ گانے ۔ ایسا کیوں ہے؟
امیر تنظیم اسلامی: اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم اور اہلِ فلسطین کی استقامت کے نتیجے میں اب یہ معاملہ پوری انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے جس کے نتیجہ میں اب یہ مسئلہ صرف صیہونیوں اور مسلمانوں کے درمیان نہیں رہا بلکہ یہ عالمی سطح کا مسئلہ بن گیا ہے۔چنانچہ جہاں کہیں انسانیت کسی درجے میں باقی ہے اس کا اظہار ہوتے ہوئےاب ہم دیکھ رہے ہیں ۔ جیسے کہ آپ نے امریکہ کی یونیورسٹیز کا ذکر کیا ۔ نہ صرف طلبہ بلکہ ان کے پروفیسرز بھی عوامی سطح پر اسرائیلی مظالم کے خلاف بات کرر ہے ہیں ۔ وہ تو صرف انسانیت کی بنیاد پر ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں ۔ جبکہ ہم انسان بھی ہیں اور محمد مصطفیٰ ﷺ کے امتی بھی ہیں ، اہلِ فلسطین کے ساتھ ہمارا قلبی رشتہ بھی ہے لیکن یہ کہتے ہوئے دل دکھتا ہےکہ دوارب مسلمان پوری دنیا میں ہیں لیکن جس قدر بڑے مظاہرے غیر مسلم معاشروں میں ہورہے ہیں مسلمانوں کے ہاں ان کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آرہا ۔اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہاںجامعات میں میوزک کی کلاسز ہو رہی ہیں ، وفاقی وزارت تعلیم نے یونیورسٹیز میں ڈانس سکھانے کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا(اگرچہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ بعد میں واپس لے لیا گیا )، لیکن سندھ میں توپہلے ہی میوزک سکھانے کے لیے اساتذہ کی بھرتیوں کا نوٹیفیکیشن جاری ہو چکا تھا اب پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں بھی موسیقی کے مقابلے کروانے کا اعلان ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب اور سندھ کی یونیورسٹیز میں یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ تعلیمی سیشن مکمل ہونے پر طلبہ و طالبات ایک دوسرے پر رنگ پھینکتے ہیں ، پیپرز پھاڑ کرسڑکوں پر پھینکتے ہیں۔ یہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے کہ کہاں ہمارے مظلوم فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے حق میں غیر مسلم انسانیت کی بنیاد پر آواز بلند کر رہے ہیں اور کہاں ہماری جامعات میں سرکاری سرپرستی میں اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے سارے کام ہورہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقا م ہے ۔ شاید ہماری غیرت مر چکی ہے لیکن بہرحال یہ زندگی ایک امتحان ہے ۔ اہلِ فلسطین تو اپنی جانیں قربان کرکے اور استقامت کا مظاہرہ کرکے اس امتحان میں کامیاب ہورہے ہیں لیکن ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ ہم اس امتحان میں کہاں کھڑے ہیں ۔
سوال:تنظیم اسلامی نے اسرائیل کے خلاف اور اہل ِ فلسطین کے حق میں آواز بلند کی ہے اوراسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا ۔ کیا تنظیم اسلامی کے رفقاء کو باقاعدہ ہدایات بھی ہیں کہ وہ اس بائیکاٹ کوپوری طرح اختیار کرنے کی کوشش کریں اور مزید ان کے لیے کیا رہنمائی ہے کہ وہ کس طرح اس آواز کو مزید بلند کر سکتے ہیں ؟
امیر تنظیم اسلامی:ہم نے بھی اپنے پلیٹ فارم سے کوشش کی اوردوسری دینی جماعتوں نے بھی جہاں جہاں آواز بلند کی ہم سب کے لیے جزائے خیر کے کلمات کہیں گے اور دعا کریں گے اللہ یہ جذبہ مزید بڑھائے ۔ تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سےمظاہروں کا بھی پورے پاکستان میں اہتمام کیا گیا،مختلف شہروں میں سیمینارز کاانعقاد کیا گیا ، ہر خطاب جمعہ میں بھی کلام ہوتا ہے ۔ تنظیم کے پلیٹ فارم سے’’زمانہ گواہ ہے‘‘پروگرام میں بھی مسئلہ فلسطین پر مستقل بات ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے حکمرانوں ، ممبران پارلیمنٹ ، سینٹ کے ممبران ، مسلم ممالک کے سفارتخانوں کو باقاعدہ خطوط بھی لکھے گئے اور غیر مسلم ممالک کے سفیروں کو بھی خطوط لکھ کر انسانیت کی بنیاد پر اہل ِ فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ اسی طرح ہم نے ملک کے بڑے اور معروف اخبارات میں اشتہارات شائع کروا کر بھی حکمرانوں کا ضمیر جھنجوڑنے کی کوشش کی ہے اور پاکستانی قوم سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز اُٹھائیں ۔ فلسطینیوں سے محبت ہماری گھٹی میں شامل ہے۔ بانی ٔپاکستان قائداعظم نے فرمایا تھا کہ اگر فلسطینیوں پر ظلم ہو گا تو ہم یہاں سے اس کا جواب دیں گے ۔ 1940ء میں جب قرارداد لاہور پاس ہوئی تھی تو اس کے ساتھ ہی ایک قرارداد فلسطینیوں کی حمایت میں بھی پاس ہوئی تھی ۔ یعنی فلسطینیوں کی حمایت ہماری قومی پالیسی رہی ہے۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں فتح کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بن گوریان نے کہا تھا کہ ہمارا اصل نظریاتی دشمن پاکستان ہے ۔ نیتن یاہو نے بھی بیان دیا تھا کہ ہمیں بڑی خوشی ہوگی اگر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ختم ہو جائے۔ فلسطینیوں نے بھی پاکستان سے ہمیشہ توقعات رکھی ہیں ۔ چند سال قبل جب عید الفطر کے دن اسرائیل نے فلسطینیوں پر بمباری کی تھی اور نہتے فلسطینی بوڑھے ، بچے اور عورتیں شہید ہوئی تھیں تو اس وقت فلسطینی مسلمان پکارتا تھا اے افواج پاکستان ! تم کہاں ہو ؟اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت دی اور بہترین فوج دی ۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستانی پائیلٹس نے اسرائیلی جہازوں کو گرایا ۔یہ ساری صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو دی ہیں لہٰذا کم سے کم آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات تو کریں ۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے بھی خط لکھا تو پاکستانی حکومت کو ہی لکھا اور تقاضا کیا کہ اسرائیل کو جواب دیا جائے ۔ اگر پاکستان اسرائیل کو روکے گا تو وہ ظلم سے رُک جائے گا ۔ پاکستان کا فلسطینیوں کے ساتھ گہرا رشتہ ہے لہٰذا پاکستانی عوام کو بھی چاہیے کہ وہ فلسطینی بھائیوں کے لیے دعا کریں ، قنوت نازلہ کا اہتمام کریں ، مالی طور پر بھی جو مدد ہو سکتی ہے وہ کریں ۔ جہاں جہاں ہم ان کے لیے آواز بلند کر سکتے ہیں وہاں لازماً کرنی چاہیے۔ مظاہروں کا بڑے پیمانے پر اہتمام کرنا چاہیے ۔ اسی طرح وہ تمام مصنوعات جن کا براہ راست نفع اسرائیل کو جاتا ہے ان کے مکمل اور مستقل بائیکاٹ کی مہم ملک گیر سطح پر ہونی چاہیے ۔ اپنے حکمرانوں پر بھی ہمیں پریشر ڈالنا چاہیے کہ وہ فلسطین کے حق میں اقدام کریں ۔ او آئی سی کے چارٹر میں لکھا ہوا ہے کہ فلسطینیوں کی اخلاقی ، مالی ، سفارتی کے ساتھ ساتھ عسکری مدد کرنا ہر مسلمان ملک کی ذمہ داری ہے ۔ جہاں تک رفقاء تنظیم کو ہدایت کا معاملہ ہے تویہ ہماری غیرت دینی کا تقاضا بھی ہے کہ وہ مصنوعات جن کا نفع اسرائیل کو جاتا ہے اور اس سے استفادہ کرکے وہ ہمارے فلسطینی بہنوں اور بھائیوں کی نسل کشی کر رہا ہے اُن کا بائیکاٹ کریں ۔ یقیناً ہم نے رفقاء کو ہدایات جاری کی ہیں اور رفقاء نے اپنے تجربات بھی شیئر کیے ہیں۔ یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ فلاں فلاں مصنوعات اسرائیلی ہیں وہ ہمارے گھر میں استعمال نہیں ہوں گی ۔ اس میں پاکستانی قوم کے پاس موقع بھی ہے کہ وہ پاکستانی مصنوعات کا استعمال کریں تاکہ پاکستان کی اکانومی کو بھی فائدہ ہو ۔صرف مسلمان ممالک ہی نہیں غیر مسلم ممالک میں بھی بڑی تعداد میں اسرائیل کو نفع پہنچانے والی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا گیا ہے ۔ کچھ مسلم ممالک میں بھی عوام نے بائیکاٹ کیا ہے اور اس کااثر بھی ہوا ہے کہ بعض بڑے برینڈز کو سوچنا پڑ گیا ۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس کام کو بڑھانے کی ضرورت ہے ۔
سوال: کراچی سے ہماری ایک بہن کا کہنا ہے کہ جب سے میں نے پردہ شروع کیا ہے بڑی مشکل میں ہوں  کیونکہ سب ساتھ چھوڑ گئے ہیں ، حتیٰ کہ والدین بھی کہتے ہیں کہ پردہ کرنا ترک کروگی تو تمہاری شادی ہوگی ورنہ نہیں ہوگی ، اس صورتحال میں آپ کیا رہنمائی دیں گے ؟ 
امیر تنظیم اسلامی:اللہ تعالیٰ ہماری اس بہن کو استقامت عطا فرمائے ۔ یہ ان کا اکیلی کا مسئلہ نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرےکی اکثریت کلمہ گو مسلمان ہے لیکن عملی مسلمان اور بے عمل مسلمان میں فرق رہتا ہے۔ مولانا مودودیؒ سے کسی نے تین صفحات پر مشتمل خط لکھ کر ایک سوال پوچھا کہ میری بہن نے پردہ کرنا شروع کر دیا تھا ، مخلوط مجالس کوبھی چھوڑ دیا تھا، فلمیں ڈرامے وغیرہ دیکھنا چھوڑ دیے تھے اور حتیٰ الامکان دین پر عمل کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی وغیرہ ، اب میں کیا کروں تو مولانا نے ایک لائن کا جواب دیا (پھبتی چست کی)کہ بھئی میں اس کے سوا کیا کہہ سکتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی بہن کو اسلام سے توبہ کرنے کی توفیق دے دے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اسلام پر عمل پیرا ہونا استقامت کا تقاضا کرتاہے۔ یہ بہت سارے گھرانوں کا معاملہ ہے جہاں گھر والے ہی رکاوٹ بن رہے ہوتے ہیں ۔ میں ان بہن سے یہ کہوں گا کہ پہلے تو آپ اللہ کا شکر ادا کریں کہ اللہ نے آپ کو توفیق دی کہ آپ نے بی بی فاطمۃ الزہرا اور اماں عائشہ lکا لباس اختیار کیا ہے ، آپ نے رسول اللہ ﷺ کی حیا پر مبنی تعلیمات پر عمل کرنا شروع کیا ہے ، اس وجہ سے اگر آپ کو کچھ سننا پڑ رہا ہے تو اسے سعادت سمجھنا چاہیے کہ اس صورت میں نسبت اللہ کے پیغمبر ﷺ سے ہو رہی ہے۔ اللہ کے پیغمبرﷺ40 سال تک ان لوگوں کے درمیان موجود رہےجنہوں نے آپ ﷺ کو صادق اور امین کہا لیکن جب آپ ﷺ نے اسلام کی دعوت دینا شروع کی تو لوگوں نے کیا کچھ اذیتیں نہیں دیں ۔ ایسی صورت میں  اللہ تعالیٰسے صبر اور استقامت کی التجا کرنی چاہیے ۔ دعا اللہ کے نبی ﷺ نے سکھائی ہے : {رَبَّـنَـآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَـبِّتْ اَقْدَامَنَا}(البقرۃ:250) ’’ اے اللہ! ہم پر صبر کے دہانوں کو کھول دے اور اے اللہ! مجھے دین پر استقامت عطا فرما دے ۔‘‘
حدیث میں آتا ہے کہ بندوں کے دل اللہ تعالیٰ کے دو انگلیوں کے درمیان ہیں، جب چاہے کسی کا دل پھیر دے ۔ اپنے گھر والوں کے لیے بھی اور ان لوگوں کے لیے بھی ہدایت کی دعا کریں جن سے آپ کو مخالفت کا سامنا ہے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ اپنے کردار ، عمل ، اخلاقی رویہ ، حسن سلوک اور خدمت کے ذریعے ان کے دلوں کو جیتنے کی کوشش کریں ۔ قران پاک میں ہے: {وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ (24)} (حم السجدۃ) ’’اور (دیکھو!) اچھائی اور بُرائی برابر نہیں ہوتے۔ تم مدافعت کرو بہترین طریقے سے‘تو (تم دیکھو گے کہ) وہی شخص جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے وہ گویاگرم جوش دوست بن جائے گا۔‘‘
ممکن ہے ان کے اپنے گھر میں یا قریبی محرم رشتہ داروں میں کوئی ہو جو دین کی طرف مائل ہو تو ایسے لوگوں کی معاونت بھی فائدہ مند ہو سکتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے :
{اتَّقُوا اللہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(119)} (التوبۃ) ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سچے لوگوں کی معیت اختیار کرو۔‘‘
اکیلے آدمی کے لیے مزاحمت کرنا مشکل ہوتاہے ،مگر جب وہ ایسی اجتماعیت سے جڑتا ہےجو دین پر عمل پیرا ہو تو اس کے لیے حالات کا سامنا کرنا آسان ہو جاتاہے ۔ اس کا دوسرا پہلو بھی ذہن میں رہے کہ عبادت ، علم اور نیکی پر تکبر سب سے پہلے شیطان نے کیا تھا کہ میں آدم سے بڑھ کر ہوں ۔ جتنا کسی کےعلم میں اللہ نے اضافہ کیا ہے تو وہ اللہ سے حلم کی توفیق بھی مانگے ۔ اگلی بات جو ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے بھی ہمیں سمجھائی اور دیگر علماء بھی سمجھاتے ہیں کہ اپنے لیے عزیمت کا معاملہ ہوگا اور دوسرے کے لیے رخصت کا معاملہ ہوگا۔ آج مجھے اللہ نے دین پر عمل کرنے کی توفیق دی ہے تو ذرا اپنے ماضی میں جھانک کر دیکھ لوں۔ اگر دوسروں میں عمل کی کمی دیکھوں یا گناہ میں مبتلا دیکھوں تو اللہ کا شکر ادا کروں کہ اس نے مجھے بچایا، البتہ ان کے لیے دل میں ہمدردی کے جذبات ہونے چاہئیں ، اور ان کے لیے دعا کریں کہ اللہ انہیں بھی بدل دے ۔ حدیث میں آتاہے کہ دین تو نصیحت اور خیرخواہی کا نام ہے۔ خیرخواہی کے جذبے کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کی کوشش کریں ۔ یعنی جتنا ہمارے علم ، دین پر عمل میں اضافہ ہو اتنا حلم اور انکساری میں بھی اضافہ ہو اور ہمارے اندر یہ جذبہ پیدا ہو جیسا کہ فرمایا : 
{ہَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ(60)} (الرحمٰن) ’’کیا بھلائی کا بدلہ بھلائی کے سوا کچھ اور بھی ہوسکتا ہے؟‘‘
یعنی اگر میں دوسروں کے ساتھ بھلائی کر رہا ہوں تو یہ اللہ کا مجھ پر احسان ہے۔ اسی بھلائی کے جذبے کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کی کوشش ہونی چاہیے نہ کہ ان پر فتوے جاری کرنا چاہیے ۔
سوال: سود کا پیسہ اگر بینک میں ہو تو کیا اس کو بینک ہی میں چھوڑ دیا جائے ،میں نے سنا ہے کہ یہ پیسہ کسی ایسے شخص کو دیا جائے جو حالت ِاضطرار پر پہنچ چکا ہو، ایسا کوئی شخص اپنے ارد گرد نہ ملے تو پھر اس کا بہتر مصرف کیا ہے ،کیا یہ پیسہ جنگ سے متاثرہ لوگوں کے لیے بغیر ثواب کی نیت سے بھیجا جا سکتا ہے جیسے فلسطین وغیرہ یاکسی دوسرے رفاعی کام (جیسے کسی پاگل خانے) کے لیے دیا جا سکتا ہے۔ یعنی سود کا پیسہ بینک میں چھوڑنے کی بجائے اس سے بہتر کام میں لگایا جا سکتاہے ؟( عدیل خلیق)
امیر تنظیم اسلامی: بعض لوگوں کا تصور ہے کہ PLS اکاؤنٹ کھولیںگے،اس سے سود آئے گا اور وہ غریبوں میں تقسیم کر دیں گے توثواب ملے گا لیکن یہ خیال درست نہیںکیونکہ رسول اللہ ﷺنے لعنت فرمائی ہے سود لینے والے، دینے والے، لکھنے والے ، گواہ بننے والے پر۔ لہٰذا سب سے پہلے PLSاکاؤنٹ بند کریں اور اگر بہت مجبوری ہے تو کرنٹ اکاؤنٹ کھلوائیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ کھول کر بھی ہم سودی نظام کا حصہ رہتے ہیں ۔ ایسی صورت میں ہمیں اس نظام کو بدلنے کی جدوجہد کرنی چاہیے تاکہ روز قیامت اللہ تعالیٰ کے سامنے معذرت پیش کر سکیں ۔ تیسری بات یہ ہے کہ اگر کسی کا پرانا اکاؤنٹ ہے اور اس میں سود کی رقم رہ گئی ہے تو علماء نے کہا ہے کہ جان چھڑانے کے لیے ، ثواب کی نیت کے بغیر کسی ایسے شخص کو دی جاسکتی ہے جو مجبور ہے ، سودی قرض میں پھنسا ہوا ہے یا پاگل ہے کہ بے چارا کچھ کر ہی نہیں سکتا اور اسے علاج کی ضرورت ہے ۔جہاں تک اہلِ فلسطین کی مدد کے لیے بھیجنے کا سوال ہے تو صحیح بات یہ ہے کہ اگر اقصیٰ کے پاس رہنے والے لوگوں کے لیے بھیجنا ہے تو کوشش کریں کہ صاف ستھرامالی بھیجیں ، حلال کی کمائی سے بھیجیں ۔ زکوٰۃ میں سے بھی بھیج سکتے ہیں لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ زکوٰۃ سے آگے بڑھ کر بھی دینا چاہیے
سوال: دین کو غالب کرنا تو ہم سب مسلمانوں پر فرض ہے تواس کے لیے ایک انسان کو کم سے کم کیا کرنا چاہیے ؟ کیا ایسا ہو سکتاہے کہ ہم اسلامی ویڈیوز کے ذریعے اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی کوشش کریں ، صحابہ کرامj نے تو غلبہ دین کے لیے اپنی جانوں تک کے نذرانے پیش کیے ہیں ، آج کے دور میں کیا تقاضے ہو سکتے ہیں ؟ (محمد شاہین کاظم)
امیر تنظیم اسلامی:پہلی بات یہ ہے کہ دین کو قائم کرنے کی جدوجہد کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ، اس کی اپنی زندگی میں قائم ہو نہ ہو ، اگر اس نے خلوص نیت سے جدوجہد کی تو ان شاء اللہ وہ مقصد حیات میں کامیاب ہو جائے گا ۔ اُحد کے میدان میں 70 صحابہ کرام ؓ شہید ہو گئے، دین ابھی غالب نہیں ہوا مگر شہداء کامیاب ہو گئے ، 8 ہجری میں مکہ فتح ہو گیا ، دین غالب ہو گیا لیکن عبداللہ بن ابی کلمہ پڑھنےوالا مسلمان تھا لیکن منافق تھا اور منافق ہی مرالہٰذا وہ ناکام ہو گیا ۔ ہم سوال پوچھنے والے بھائی کی قدر کرتے ہیں کہ ہر ایک کو اس فریضہ کی فکر ہونی چاہیے ۔ غلبہ دین کی جدوجہد کے دو گوشے ہیں ۔ پہلے اپنی ذات پر دین کو غالب کریں اور پھر معاشرے میں دین کو قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔ اللہ کے نبی ﷺنے جماعت تشکیل دے کر یہ پورا کام کیا ہے ۔ بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ و ہارونe دو پیغمبر ایک وقت میں تھے لیکن قوم نے ساتھ دینے اور قتال کرنے سے انکار کر دیااور کہا :
{فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ہٰہُنَا قٰـعِدُوْنَ (24)} (المائدہ) ’’بس تم اور تمہارا رب دونوں جائو اور جا کر قتال کرو‘ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘
یعنی جماعت میسر نہیں آئی تو دین قائم نہیں ہوسکا ۔ دین کو قائم کرنے کے لیے دینی جماعت میںشامل ہونا ضروری ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :{وَلْـتَـکُنْ مِّنکُمْ اُمَّـۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَـاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط} (آل عمران:104)’’اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دے‘ نیکی کا حکم دیتی رہے اور بدی سے روکتی رہے۔‘‘
یعنی امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ جماعتی سطح پرادا ہوگا۔ قتال کا میدان کبھی سجے گا تو وہ بھی جماعت ہی کی سطح پر ہوگا ۔ارشاد ہوتا ہے :
{اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ(4)} ’’اللہ کو تو محبوب ہیں وہ بندے جو اُس کی راہ میں صفیں باندھ کر قتال کرتے ہیں ‘ جیسے کہ وہ سیسہ پلائی دیوار ہوں۔‘‘
قرآن کریم اللہ کی بندگی کے لیے، اللہ کی بندگی کی دعوت کے لیے اور اللہ کی بندگی کے نظام کے قیام کی جدوجہد کے لیے جماعتی زندگی کا تقاضا کرتا ہے۔ جماعتی زندگی اختیار کریں گے تو انفرادی ذمہ داری ادا کرنے میں بھی آسانی ہوگی اور اجتماعی ذمہ داری تو اکیلے اکیلے ادا ہو ہی نہیں سکتی یہی سورۃ العصر میں آتا ہے:
{وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ۵ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(3)}’’ اور انہوں نے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور انہوں نے باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔‘‘
اگلی بات ویڈیو ز کے حوالے سے ہے ۔ یہ بھی ایک ذریعہ ہیں ، ہم خود اس کا استعمال کر رہے ہیں۔البتہ دین کے کچھ اور تقاضے بھی ہیں جیسا کہ خطاب جمعہ ہے۔ ظاہر ہے میں گھر بیٹھ کر تو نہیں سنوں گا ، مسجد میں جاکر جماعت کے ساتھ سنوں گااور نماز ادا کروں گا ۔میں کسی اجتماعیت میں شامل ہوں گا تو اس کی تربیتی نشستوں میںبھی جانا پڑے گا۔ اجتماعیت اختیار کرکے ہم دعوت دین کے لیے مزید مدد اور وسائل حاصل کر سکتے ہیں۔ جہاں تک غلبہ دین کے لیے جان قربان کرنے کا معاملہ ہے تو صحابہ کرامؓ  کے سامنے کفار تھے اور وہاں قتال کا حکم تھا لیکن ہم جس معاشرے میں غلبہ دین کی جدوجہد کررہے ہیں یہاں سامنے کلمہ گو مسلمان ہیں لہٰذا یہاں ہم دین کے لیے جان دینے کی بات کریں گے جان لینے کی بات نہیں کریں گے ۔ البتہ جان کا نذرانہ پیش کرنا باکل آخری معاملہ ہے اس سے پہلے اس جان کو دین کے قیام کی جدوجہد میں کھپانا مقصود ہے ،اس کے مواقع 24 گھنٹے، ہفتے کے ساتوں دن اور سال کے 365 دن میسر ہیں ۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہم جماعتی زندگی اختیار کریں ۔ جب ہم ایسا کریں گے تو ہماری زندگی اس مقصد کے لیےصَرف ہوگی اورہماری کی زندگی میں اگر دین قائم نہ بھی ہوا تو بھی زندگی کا مقصد پورا ہو جائے گا۔
سوال: میں ایک نابینا شخص ہوں تاہم اپنے دل میں اقامت دین کے لیے کام کرنے کی شدید تڑپ رکھتا ہوں، 2019 تک اسلامی جمعیت طلبہ کے رفیق کی حیثیت سے میں نے اس سلسلے میں کچھ کوشش بھی کی تھی لیکن جب سے مقبوضہ کشمیرمیں جماعت اسلامی پر پابندی لگی ہے تب سے صرف ذاتی استطاعت کے مطابق لوگوں کا شعور بیدار کرنے کی مسلسل کوشش جاری رکھے ہوئے ہوں لیکن ایسے گھٹن زدہ ماحول میں جہاں آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی اقامت دین کا کام کرنے کی اجازت نہیں ہے میں کیسے اقامت دین کے لیے منظم انداز میں کام کرسکتا ہوں جبکہ میرا بصارت کا مسئلہ بھی ہے ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ میں تنظیم اسلامی کے اس موقف سے سوفیصد اتفاق کرتا ہوں کہ اسلامی نظام انتخابی راستے کےذریعے نہیں آسکتا بلکہ انقلابی راستے سے آئے گا لیکن تنظیم اسلامی سے ایک اختلاف ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے نفاذ اسلام کا مطالبہ کرتی ہے جو خود چور اور ڈاکو ہیں اور جانتے ہیں کہ اگر اسلام نافذ ہو گیا تو سب سے پہلے ہاتھ انہی کے کٹیں گے ، پھانسیاں انہی کو ہوں گی اور وہی لوگ سنگسار ہوں گے ۔ لہٰذا وہ لوگ کبھی اسلام نافذ نہیں ہونے دیں گے ۔ لہٰذا کیابہتر نہیں ہے کہ تنظیم اسلامی خود اقتدار اپنے ہاتھ میں لے اور پھر نفاذ اسلام کی طرف پیش قدمی کرے ، جس طرح ایران میں علماء نے حکومت اپنے ہاتھوں میں لی؟ ( عارف نبی صاحب ، مقبوضہ کشمیر)
امیر تنظیم اسلامی:شریعت میں ایک اصول بڑا پیارا ہے :
{لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا ط} (البقرۃ:286) ’’اللہ تعالیٰ نہیںذمہ دار ٹھہرائے گا کسی جان کو مگر اس کی وسعت کے مطابق۔‘‘
ہم قران حکیم کے الفاظ غزوئہ تبوک کے ذیل میں سورہ توبہ میں بھی پڑھتے ہیں کہ جن کو کوئی عذر لاحق ہو ان کو اللہ تعالیٰ مارجن دیتا ہے، ہمارے بہت سارے بھائیوں کے سوالات ہندوستان سے آتے ہیں، مقبوضہ کشمیر سے آتے ہیں۔ ہم ان کو ایک اصولی جواب دیتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ’’تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے، وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل (روک) دے۔ اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا، تو پھر اپنی زبان سے بدل دے۔ اگر وہ اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا، تو پھر اسے اپنے دل میں برا جانے اوریہ ایمان کا کم ترین درجہ ہے۔‘‘انڈیا یا مقبوضہ کشمیر میں اہلِ ایمان کے پاس برائی کو ہاتھ سے بدلنے کا اختیار نہیں ہے البتہ جہاں تک زبان سے بدلنے کا اختیار ہے اسے استعمال میں لایا جا سکتا ہے ۔ خود بھی قرآن سے جڑیں اور دوسروں کو بھی قرآن سے جوڑنے کی کوشش کریں ، مسلمانوں کو متحد اور منظم کرنے کی کوشش کریں اور انفرادی سطح پر جس حد تک اسلام پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں اس کی کوشش کریں ۔ یعنی وہاں کے حالات کے مطابق جس قدر آپ مکلف ہیں اس کے مطابق کوشش کریں ۔ بصارت کا نہ ہونا بھی ایک آزمائش ہے اور آزمائش جتنی سخت ہوتی ہے اتنا ہی اللہ کے ہاں نرمی کا معاملہ بھی ہو سکتاہے ۔ جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے تو اس حوالے سے دو باتیں  ہیں ۔ایک یہ کہ جو مدمقابل حکمران یا مقتدر طبقات ہیں وہ کرپٹ ضرور ہیں مگر ہیں تو مسلمان ۔ لہٰذا ن کا بھی حق ہے کہ ان کو دعوت پہنچائی جائے ان سے مطالبہ بھی کریں ۔ ہو سکتا ہے اللہ ان کے دل بدل دے اور ان کے ذریعے ہی اسلام کا نفاذ ہو جائے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب انقلابی جدوجہد برپا ہوتی ہے تو پھر ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے الفاظ میں اُس کے آخری مرحلہ میں تخت یا تختہ دونوں میں سے کوئی بھی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے ۔ عین ممکن ہے کبھی کوئی تحریک اُٹھے اور وہ فرسودہ باطل نظام کو گرادے اور پورے نظام کو اپنے ہاتھ میں لے کر نفاذ اسلام کا عمل شروع کر دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ انقلابی جماعت کے لوگوں کو شہید کر دیا جائے ، دونوں صورتوں میں غلبہ دین کی جدوجہد کرنے والے کامیاب و کامران ہوں گے۔
سوال:گزشتہ ایک پروگرام میں امیر تنظیم اسلامی نے میرے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ ہم یہاں ہی رہ کر اقامت دین کی دعوت اپنے قریبی لوگوں کو دیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم انڈیا میں رہ رہے ہیں ،یہاں اگر ہم ایسی کوشش کریں گے تو حکومت ہمیں نقصان پہنچا سکتی ہے ۔ دوسری طرف کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ کے دین کے غلبے کے لیے اپنی جان اور اپنے مال کی قربانی تک دینے کو تیار ہیں ۔ میں کافی تشویش میں ہوں کہ کیا کروں۔ آپ میری رہنمائی فرمائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟( محمد طائف،یوپی انڈیا)
امیر تنظیم اسلامی:دیکھیے بہرحال مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہندوستان میں رہتی ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ابھی ان کوصبر کے بڑے مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ جیسا کہ مکی دور سے مسلمان گزرے تھے جہاں  ہاتھوں کو باندھ رکھنے کا حکم تھا لیکن اسی دوران جہاد بالقرآن کا عمل جاری رہا ، تذکیر بالقرآن کا عمل جاری رہا یہاں تک کہ باعمل اور باکردار مسلمانوں کی ایک جماعت تیا رہوگئی ۔ اس وقت تک ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انڈیا اورمقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو بھی قرآن سے جڑنے اور جوڑنے کا عمل جاری رکھنا چاہیے اور جس قدر اسلام پر عمل انفرادی سطح پر ممکن ہے اس کی کوشش کرنا چاہیے ،بالخصوص مسلمانوں کو متحد اور منظم کرنے کا عمل جاری رکھنا چاہیے ۔
سوال: امیر تنظیم اسلامی کا موقف جلدی نکاح کے بارے میں جاننا چاہوں گا اور یہ کہ ہم اپنے نکاح کے لیے زوجہ کیسے ڈھونڈیں؟ نبی کریمﷺ نےاس حوالے سے کیاتعلیم دی ہے ؟ (فرحان صاحب، کلکتہ انڈیا)
امیر تنظیم اسلامی:تنظیم اسلامی سو فیصد اس بات کی قائل ہے کہ نکاح میں جلدی کرنی چاہیے کیونکہ اس وقت دجالی تہذیب کا شدید ترین حملہ ہے اور جو طلبہ و طالبات سکول، کالجز ، یونیورسٹیز میں پڑھ رہے ہیں ان کا دجالی حملوں کی زد میں آنے کا شدید خطرہ ہے ۔ مثال کے طور پر آپ کو معلوم ہے کہ ایک آگ کا گڑھا ہے تو آپ کبھی نہیں چاہیں گے کہ اپنے بچوں کو اس میں ڈال دیں ۔ بالکل اسی طرح ان دجالی حملوں کی زد میں ہوتے ہوئے جوان بچوں اور بچیوں کے نکاح میں تاخیر کرنا بڑی حماقت ہو سکتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے بھی یہی ہدایت ہے کہ جب بچے بالغ ہو جائیں تو ان کا نکاح کر دیا کرو ورنہ اگر بچے کسی برائی میں مبتلا ہوں گے تو اس کا وبال والدین پر بھی آئے گا ۔ پورا معاشرہ اگر شیطانی کاموں کی طرف کھینچ رہا ہے اور ہم نکاح میں تاخیر کریں گے تو خود اپنے بچوں اور بچیوں کی زندگیوں کو مشکلات میں ڈالیں گے ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ رشتہ کیسے ڈھونڈیں تو اس حوالے سے اللہ کے رسول ﷺ کی بہت معروف حدیث بخاری شریف میں ہے کہ رشتہ کرتے وقت چار چیزیں دیکھی جاتی ہیں ۔ 1: خوبصورتی ، 2:خاندان ، 3:مال ، 4: تقویٰ ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ تم تقویٰ کو ترجیح دو ۔ یعنی باقی باتوں کو بھی مدنظر رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اصل ترجیح تقویٰ ہونا چاہیے کیونکہ باقی ساری چیزیں دنیا میں ہی رہ جائیں گی صرف تقویٰ ہی کام آئے گا جس کی بنیاد پر جنت مل سکتی ہے ۔ سورہ زخرف میں آتاہے قیامت کے دن گہرے سے گہرے دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے متقین کے ۔ لہٰذا تقویٰ کا رشتہ پائیدار ہوتاہے ۔ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ نوجوان چاہتے بھی ہیں کہ ان کی شادیاں ہو جائیں لیکن والدین تیار نہیں ہوتے ، کہیں جہیز رکاوٹ بن جاتا ہے، کہیں مال و دولت اوردکھاوے کی خواہش رکاوٹ بن جاتی ہے ۔ حالانکہ نکاح  سادگی کے ساتھ بھی کیا جاسکتاہے اور گھر بسایا جا سکتا ہے ۔ اس اعتبار سے عوام کی ذہن سازی کی اشد ضرورت ہے ۔