25کروڑ عوام اپنے حکمرانوں اور مقتدر طبقات پر پریشر ڈالیں کہ ایمان میں
ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا جائے، کہاں امریکی یونیورسٹیوںکے طلبہ عالمی ضمیر
کو جھنجھوڑ رہے ہیں اورکہاں ہماری یونیورسٹیز میں ناچ گانا اور بے حمیتی
دیکھنے میں آرہی ہے۔ 34 مسلم ممالک کی مشترکہ فوج کہاں ہے جس کے
سربراہ پاکستان کے ایک سابق آرمی چیف کو بنایا گیا تھا ؟
اس دور میں باطل کو نقصان پہنچانے کا ایک بڑا ذریعہ اس کی مصنوعات کا
بائیکاٹ ہے، اتحاد تنظیمات مدارس کے علماء غزہ میں قتال کی فرضیت کے
حوالے سے مشترکہ فتویٰ جاری کریں۔
ایوان اقبال لاہور میں ’’سیو فلسطین یوتھ کانفرنس‘‘ سے امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کا خطاب
ایوانِ اقبال لاہور میں متحدہ طلبہ محاذ کے زیراہتمام ’’سیوفلسطین یوتھ کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ صاحب نے اپنے خطاب میں فرمایا:
ہر مسلمان کی خواہش ہے کہ اُس کا ایمان اُسے ارضِ فلسطین میں لے جائے، جنت الفردوس میں لے جائے۔ لیکن ہمیں یہ بھی جائزہ لینا چاہیے کہ کیا ہمارا ایمان ہمیں عشاء کی نماز میں مصلے پر کھڑا کررہا ہے، فجر کی نماز کے لیے کھڑا کررہا ہے یا نہیں ۔ جبکہ اہل فلسطین کے ایمان کی کیفیت یہ ہے کہ زخمی فلسطینی بچوں کے آپریشنز ہونے تھے لیکن سہولیات دستیاب نہیں تھیں ، بچوں نے کہا ہم قرآن کی تلاوت کریں گے اس دوران ہمارے ناکارہ اعضاء کاٹ دو۔ دوسری طرف ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا یہی قرآن ہمارے ایمان میں اضافے کا باعث بن رہا ہے ؟ قرآن کی تلاوت ہم پر اثر انداز ہوتی ہے ؟ اہل فلسطین کی مدد کے حوالے سے فاضل مقررین نے توجہ دلائی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس دور میں باطل کو نقصان پہنچانے کا ایک بڑا ذریعہ ایسی مصنوعات کا بائیکاٹ ہے جن کا نفع براہ راست اسرائیل کو جاتاہے ۔ ہمارے نوجوان اس دور کا سرمایہ ہیں لیکن یہ بل گیٹس، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کوServe کررہے ہیں ،یہ دین کی خدمت کر سکتے ہیں ، باطل کے خلاف کاز کو Serveکرسکتے ہیں ۔ یہ مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلا کر باطل دنیا کو ہلا سکتے ہیں ۔میں چاہوں گاکہ ہماری بزنس کمیونٹی تک یہ بات پہنچے اور حکومتی سطح پر اس کام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ایک فاضل مقرر نے سورۃ النسا ء کی آیت 75 کاحوالہ دیاجس میں قتال کا ذکر آیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے مفتی تقی عثمانی صاحب نے کنونشن سنٹر میں اور پھر عالم عرب کے کچھ علماء نےبھی قتال کی فرضیت کا ذکر فرمایا۔کچھ عرصہ پہلے اسی ایوانِ اقبال میں ، میں نے تجویز دی تھی کہ اتحاد تنظیمات مدارس کے علماء بھی قتال کی فرضیت کے حوالے سے مشترکہ فتویٰ جاری کریں تاکہ ا س ادارے کی طرف سے بھی اہل فلسطین کے حق میں بھرپور آواز اُبھر کر سامنے آئے ۔ بنیادی بات یہ ہے کہ یہ دنیا کی زندگی ایک امتحان ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط}(الملک:2)’’اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے کون اچھے کام کرتا ہے۔‘‘
یہ امتحان اہل فلسطین کا بھی ہے اور ہمارا بھی ہے ۔ اہل فلسطین تو ایمان اور استقامت کے ساتھ اس امتحان میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ وہاں ایک ماں اپنے پانچ بیٹے اللہ کی راہ میں قربان کرکے کامیاب دکھائی دیتی ہے ۔ اسی طرح وہاں اسماعیل ہنیہ کی بہو امتحان میں کامیاب دکھائی دیتی ہیں جب وہ اپنے شوہر کی شہادت پر اللہ کے فیصلے پر راضی ہونے کااعلان کرتی ہیں ۔ ایک خاتون کا شوہر شہید ہوا توبیوی نے بھی شہید ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ کہیں بیوی شہید ہوگئی توشوہر نے کہا اللہ مجھے بھی شہید ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ وہاں کی خواتین کے اس جذبے کو دیکھ کر آسٹریلیا کی پچاس خواتین نے اسلام قبول کرلیا۔یعنی وہ تو امتحان میں کامیاب ہیں ۔ البتہ ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم اس امتحان میں کہاں کھڑے ہیں ؟ کیا ہماری غیرت ایمانی اور حمیت ایمانی ہمیں مجبور کر رہی ہے کہ ہم فلسطینی بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کی مدد کے لیے وہ سب کریں جو ہمیں کرنا چاہیے ؟ چاہے انفرادی سطح پر دعاؤں کا اہتمام ہو، ان کی مالی مدد ہو ، اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا معاملہ ہو۔ کنونشن سنٹر اور ایوان اقبال سے باہر نکل کر اب ہمیں اپنے حکمرانوں اور مقتدر طبقات کوغیرت دلانے کی ضرورت ہے ۔امریکہ کی یونیورسٹیوں کے طلبہ اور پروفیسرز فلسطینیوں کی خاطر ماریں کھار ہے ہیں ،مگر وہ عالمی ضمیر کو جھنجوڑ رہے ہیں اور ہمارے حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ حکومت پنجاب کہتی ہے کہ ہم موسیقی کے مقابلے کرائیں گے ،ہم جنس پرستوں کا بینڈامریکہ کے تعاون سے یہاں کی یونیورسٹیز میں آکر پروگرام کرنا چاہتا ہے اور اب تو جرأت کا یہ عالم ہے کہ ایبٹ آباد میں ہم جنس پرستوں کا کلب کھولنے کی کوشش کی جارہی ہے۔کہاں امریکہ کی یونیورسٹیز کے طلبہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں اورکہاں ہماری یونیورسٹیز میں بے حمیتی کی انتہا دیکھنے میں آرہی ہے۔ او آئی سی جو خاص طور پر فلسطینی کاز کے لیے بنائی گئی تھی اوراس کے چارٹر میں یہ باتیں بھی موجود ہیں کہ فلسطینیوں کی نہ صرف اخلاقی اور مالی مدد کی جائے گی بلکہ فلسطین کے مسلمانوں اور اقصیٰ کی حفاظت کے لیے اگر عسکری مدد کی ضرورت پڑی تو وہ بھی مسلم ممالک کریں گے۔ لیکن آج بدقسمتی سے عرب ممالک خاموش بیٹھے ہوئے ہیں اور 34 ممالک کی مشترکہ فوج نجانے کہاں چلی گئی جس کے سربراہ ہمارے سابق آرمی چیف کو بنایا گیا تھا ۔ اقبال نے کہا تھا:فلسطین کے مسئلہ پر عربوں سے کوئی امید نہ رکھنا۔
ہم اس پاکستان کے بار ے میں فکرمند ہیں جہاں کے رہنے والوں کے جینزمیں اقصیٰ اور فلسطین کی محبت موجود ہے ۔23 مارچ 1940ء کو جب قرارداد لاہور پاس ہوئی جو بعد میں قرارداد پاکستان بنی تو اس کے ساتھ ہی ایک قرارداد فلسطینی مسلمانوں کی حمایت میں بھی پاس ہوئی تھی ۔ پھر قائدا عظم نے فرمایا تھا کہ اگر فلسطینی مسلمانوں پر ظلم ہو ا تو ہم پاکستان سے اس کا جواب دیں گے ۔1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم بن گوریان نے کہا تھا کہ ہمیں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہمارا اصل اور نظریاتی دشمن پاکستان ہے ۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل نیتن یاہو نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم کر دیا جائے ۔اللہ تعالیٰ نے چھپر پھاڑ کر پاکستان کو ایٹمی صلاحیت دی ۔ میرا مقتدر طبقات سے سوال ہے کہ کیا یہ شوکیس میں سجانے کے لیے ہے ؟یہ ہمارے پاس امت کی امانت ہے ۔ فلسطینی آج بھی پاکستان سے توقع رکھتے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ اگر پاکستان اسرائیل کو جواب (دھمکی) دے تواسرائیل سوچنے پر مجبور ہوگا۔ میں دل کی بات آپ سے عرض کرتا ہوں کہ ساری دنیا میں امریکہ ،برطانیہ کامکروہ چہر ہ کھل کر سامنے آگیا ہے اور فلسطین کے مسلمانوں کی استقامت بھی سامنے آگئی ہے ۔ ایسی کانفرنسز اپنی جگہ بہت اہم ہیں۔ کبھی کبھی ہم ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں ،اللہ ہمارے لہو کو گرم رکھے ۔ یہ25کروڑ عوام اپنے حکمرانوں اور مقتدر طبقات پر پریشر ڈالیں کہ تم ایمان کی ثابت قدمی کا ثبوت پیش کرو۔ اس خطے کی خاص اہمیت ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے کہ جناب مہدی کی نصرت کے لیے خراسان سے فوجیں چلیں گی۔ ظاہرہے یہاں دین قائم ہوگا توفوجیں چلیں گی ۔ضرورت اس امر کی ہے ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر دین کے نفاذ کی جدوجہد میںشامل ہوں ۔ آخری بات یہ ہے کہ فلسطینی تو اللہ کی راہ میں شہید ہوکر کامیاب ہورہے ہیں ، مرنا ہم نے بھی ہے ، ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقات نے بھی مرنا ہے ، اس پر غور کرنا چاہیے کہ اللہ کے سامنے ہم کیا جواب دیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فلسطینی مسلمانوں کی مدد اور نصرت فرمائے اور امتِ مسلمہ کو غیرتِ ایمانی عطاء فرمائے۔ آمین!