آج کا پاکستانی معاشرہ بدترین معاشرہ بن چکا ہے جہاں شیطان کا ایجنڈا ہر لحاظ
سے کامیاب ہورہا ہے ۔اس صورتحال سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم اللہ
کے کلام اور نبی اکرم ﷺ کی سیرت سے رجوع کریں : آصف حمید
سیکولرازم اور لبرل ازم جیسے نعرے انسان کو شیطنت کی طرف لے جاتے ہیں
اور دجالیت کا شکار بناتے ہیں : رضاء الحق
سوشل انجینئرنگ کے ذریعے نوجوان نسل کے ذہنوں پر قبضہ کرکے قوم کا
مستقبل تباہ کیا جارہا ہے : ڈاکٹر انوار علی
پاکستان میں اشرافیہ کی لوٹ مار اور سوشل انجینئرنگ کا انٹرنیشنل ایجنڈا کے موضوعات پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال:آزاد کشمیر میں جو مظاہرے ہوئے کیا ان کی وجہ اشرافیہ کی لوٹ مار تھی یا کوئی اور وجہ تھی ، یہ بھی بتائیے کہ اشرافیہ اصل میں ہے کیا معاشرتی بگاڑ میں اس کا رول کس قدر ہوتا ہے ؟
رضاء الحق:اشرافیہ کی اصطلاح بنیادی طور پر یونان سے آئی ہے ۔ جیسے ڈیموکریسی ایک یونانی اصطلاح ہے جس کے اصل معنی ہیں مجمع کی حکومت ۔ اسی طرح یونانیوں نے بغیر لگی لپٹی رکھے اشرافیہ کے لیے کلپٹو کریسی (Kleptocracy) کی اصطلاح استعمال کی جس کے معنی ہیں چوروں کی حکمرانی ۔ اسی چوروں کی حکمرانی کو ہمارے ہاں اشرافیہ کہہ کر معزز بنا لیا گیا ۔ پاکستان کی بات کریں تو یہاں شروع سے ہی جاگیرداروں کا ایک رول تھا ۔ وہی جاگیردار سیاست میں بھی آگئے ، پھر ان کے ساتھ سرمایہ دار بھی شامل ہوگئے اور رفتہ رفتہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا بھی ایک رول آگیا ۔ اب یہ سب مل کر نظام کے اوپر حاوی ہو چکے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر قومی مفاد کا سودا کرتے ہیں ، عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں ، قومی اور ملکی خزانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ اب کشمیر کی جو سرزمین ہے اس کو تو آپ نے شہ رگ قرار دے دیا کیونکہ دریا سارے وہاں سے آتے ہیں ، کشمیر پاکستان کے لیے ایک بڑا ٹورسٹ ایریا بھی ہے ، پھر چائنہ تک رسائی کشمیر کے راستے سے ہی ہوتی ہے ، اس لیے کشمیر کی اہمیت ہے اور اس کو شہ رگ قراردے دیا گیا لیکن کشمیر کے جو ہمارے مسلمان بھائی ہیں، جنہوں نے اتنی قربانیاں دے کر آزاد کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ کیا تھا ،ان کی بہتری کے لیے جو ہمیں کرنا چاہیے تھا ، جو ان کو سپورٹ ملنی چاہیے تھی وہ نہیں مل سکی بلکہ ایک اشرافیہ راستے میں حائل ہو گئی جیسا کہ بلوچستان ، کے پی کے اور جنوبی پنجاب میں ایک اشرافیہ ہے جو عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتی ہے اور عوام کو فائدہ نہیں پہنچنے دیتی۔ پاکستانی اشرافیہ کی کچھ کارستانیاں تازہ دوبئی لیکس میں سامنے آئی ہیں ۔ 11 ارب ڈالرز کی جائیدادیں وہاں نکلی ہیں ، سب کو پتا ہے اس میں کون کون شامل ہے ۔جبکہ دوسری طرف آئی ایم ایف سے قرضے لینے کے لیے یہی اشرافیہ سخت ترین شرائط مانتی ہے اور ملک میں بحران آتے ہیں ۔ آزاد کشمیر میں بھی اسی وجہ سے ایک بحران آیا ، جس میں آٹے کا بحران تھا ، سستی بجلی دینے کا جو کشمیریوں سے وعدہ کیا ہوا تھا وہ پورا نہیں ہورہا تھا ، بجائے اس کے اشرافیہ کو ساری مراعات دی جارہی تھیںاور اشرافیہ تو کشمیریوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے صرف اپنے مفادات پورے کر رہی تھی اس وجہ سے وہاں مظاہرے شروع ہوئے اور آزاد کشمیر کے عوام نے اپنے مطالبات سامنے رکھے ۔
سوال: قرآن پاک میں جا بجا جہاں بھی مجرم قوموں کا ذکر آتا ہے تو وہاں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے: مترفین۔ کیا مترفین دور حاضر کی اشرافیہ ہی ہے؟
آصف حمید:اس سے پہلے کہ میں آپ کے سوال کا جواب دوں جوآزاد کشمیر میں معاملہ ہوا اس میں پورے ملک کے عوام کے لیے ایک سبق ہے کہ اگر آپ نے اپنے مطالبات منوانے ہیں تو پھر سڑکوں پر نکلنا ہوگا تاکہ اوپر جو انتظامیہ بیٹھی ہوئی ہے وہ گھٹنے ٹیک دے ۔ ابھی جو آزاد کشمیر کے عوام کو سبسڈیز دی جارہی ہیں اس کا سارا بوجھ ملک کے باقی عوام پر آئے گا ۔ ساری کمی ان سے پوری کی جائے گی اور ہر چیز کے نرخ بڑھائے گے ، اس کے نتیجہ میں یہاں بھی عوام سڑکوں پر نکلیں گے اور ماردھاڑ کریں گے ۔ حیرانی اس بات پر ہو رہی ہے کہ انتظامیہ میں کیا ایک بھی صاحب شعور نہیں ہے جو دیکھ سکے کہ حالات کس طرف جارہے ہیں ۔ میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ جب قوموں پر عذاب آتے ہیں تو کسی کو بھی عقل کیوں نہیں آتی کہ ہم پکڑ میں آنے والے ہیں لہٰذا پہلے ہی سدھر جائیں ؟ یہی حال ہماری اشرافیہ کا بھی ہے کہ جو بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں ان میں سے کوئی دھونس دھمکی سے کام لے رہا ہے ، کوئی دھاندلی کر رہا ہے ، ہر ایک اپنا اپنا ایجنڈا لے کر چل رہا ہے ۔ ہر کوئی ذاتی مفاد کی دوڑ میں ہے ، پیسہ ملک سے باہر جارہا ہے ، باہر جائیدادیں اور جزیرے خریدے جارہے ہیں ۔ان لوگوں میں اتنی عقل نہیں ہے کہ وہ حالات کا رُخ دیکھ سکیں لہٰذا عوام کو خود سڑکوں پر نکلنا پڑے گا اور اپنے مطالبات منوانے پڑیں گے۔ جہاں تک مترفین کا تعلق ہے تو یہ اصطلاح معاشرے کے دولت مند اور استحصالی طبقے کے لیے استعمال ہوئی ہے ۔ قرآن مجید میںفرمایا گیا : {وَاِذَآاَرَدْنَآ اَنْ نُّہْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا فَفَسَقُوْا فِیْہَافَحَقَّ عَلَیْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰہَا تَدْمِیْرًا(16)}(بنی اسرائیل:16) ’’اور جب ہم ارادہ کرتے کہ تباہ کر دیں کسی بستی کوتو ہم اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے اوروہ اس میں خوب نافرمانیاں کرتے‘پس ثابت ہو جاتی اُس پر (عذاب کی) بات‘پھر ہم اُس کو بالکل نیست و نابود کر دیتے۔‘‘
آج پاکستان کے جو حالات ہیں وہ بالکل اسی صورتحال کی عکاسی کر رہے ہیں ۔ جو بھی کرپشن ، لوٹ مار اور ملک کا بیڑا غرق ہو رہا ہے اس کی اصل وجہ وہ ایک ٹولہ ہے جس کو ہم مترفین کہہ سکتے ہیں ۔ سارے فساد کی جڑ وہی ہے ۔ اس کے حوالے سے قرآن مجیدمیں ایک اور آیت ہے :{وَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْہَآلا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْنَ (34)} (سبا:34) ’’اور ہم نے نہیںبھیجا کسی بھی بستی میں کوئی خبردار کرنے والا مگر (ہمیشہ ایسا ہواکہ) اُس کے آسودہ حال لوگوں نے کہا کہ جو چیز آپ دے کر بھیجے گئے ہیں ہم اُ س کے منکر ہیں۔‘‘
یعنی مترفین کی نشانی یہ ہے کہ وہ حق اور انصاف کی بات نہ سنتے ہیں اور نہ ہی کرنے دیتے ہیں بلکہ وہ ناحق ، ظلم اور ناانصافی کے ساتھ دوسروں کو زبردستی اپنا غلام رکھنا چاہتے ہیں ۔ جب بھی کوئی معاشرہ بگاڑ کا شکار ہوتاہے یا کسی قوم پر عذاب آتا ہے تو اس کا سبب یہی لوگ ہوتے ہیں ۔کیونکہ ان کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی بگاڑ میں پڑتے ہیں اور پھر پورا معاشرہ تباہ ہو جاتاہے ۔ اس وقت پاکستان پر جو اشرافیہ مسلط ہے اس کے پاس بھی کوئی عدل و انصاف، خداخوفی ، رحم والی بات نہیں ہے بلکہ سب کچھ اپنی نمودو نمائش اور ذاتی مفادات کے لیے ہورہا ہے ۔ رشوت ، کرپشن ، ظلم و انصافی اسی طبقے کی وجہ سے عام ہو رہی ہے ۔ یہ بالکل وہی صورتحال ہے جو عذاب الٰہی کو دعوت دیتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے ۔
سوال:پاکستان میں معاشی بدحالی اور معاشرے میں ظالمانہ طبقاتی تقسیم کوپیدا کرنے میں اشرافیہ کا کتنا ہاتھ ہے ؟
ڈاکٹر انوار علی:قدیم زمانے میں اشرافیہ کسی نسلی امتیاز یا کسی قبائلی تفاخر کی وجہ سے اپنے آپ کو کرتا دھرتی سمجھتی تھی اور اپنے معاشرے کو کنٹرول بھی کرتی تھی ۔ لیکن جدیددور کا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں جو لوگ مسلط ہو جاتے ہیں ان کو ریاستی اشرافیہ کہنا چاہیے کیونکہ یہ ریاست سے اپنے اختیارات حاصل کرتے ہیں ،ریاست ان کو سپورٹ کر تی ہے ،ریاست ان کی پشت پناہ ہوتی ہے ، لہٰذا ان کا قبضہ ریاست پر ہے ، ریاست کے وسائل پر ہے ، ریاستی اداروں پر ہے ، تمام اختیارات پر ان کا کنٹرول ہے اور اپنے مقاصد ،اپنے مفادات کے لیے یہ ان تمام اختیارات کو استعمال کرتے ہیں، آئین و قانون کو دسترس میں رکھتے ہیں، اپنی مرضی کے قوانین بناتے ہیں اور ان قوانین کو جب چاہیں وہ تبدیل بھی کرتے ہیں ۔ان قوانین کی تنفیذ ان کے مفادات کے مطابق کی جاتی ہے۔ جہاں تک طبقاتی تقسیم کا تعلق ہے تو یہ باطل نظام کی اصل قوت اور طاقت ہے ۔ کیونکہ VIPبلکہ VVIPکلچر عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے، عوام کو بدترین اضطراب میں مبتلا کرنے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے تاکہ عوام بھی اس سٹیٹس کو پانے کے لیے ایک دوڑ میں لگ جائیں اور اشرافیہ کے غلام بنے رہیں ۔ یہ طبقاتی تقسیم صرف مال و دولت کے لحاظ سے ہی نہیں ہے بلکہ ہر شعبہ میں موجود ہے ۔ آپ دیکھئے کہ صحافت کے شعبے میں بھی اشرافیہ موجود ہے، تعلیم کے شعبے میں بھی، عدلیہ ، حکومتی اداروں ، غرض ہرفیلڈ میں موجود ہے۔ کچھ ’خصوصیات‘ کی بنیاد پران کو اپنے مقاصد کے لیے چنا جاتاہے ، پھر ان کو بے تحاشا وسائل دیے جاتے ہیں اور کھربوں ڈالرز کا مالک ان کو بنایا جاتاہے ، ان کو تحفظ دیا جاتاہے ، قرضے معاف کیے جاتے ہیں ،ان کو زمینیں الاٹ کی جاتی ہیں، اس کے بعد پھر سودی نظام کے ذریعے یہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جاتے ہیں ، پھر ان کو پروٹوکول دیا جاتاہےاور عوام کو ان کے سامنے لائنوں میں کھڑا کر دیا جاتا ہے ۔ اس طرح یہ طبقاتی تقسیم جان بوجھ کر پیدا کی جاتی ہے ۔ یعنی اشرافیہ وہ سلیکٹڈ لوگ ہیں کہ جن کو عوام پر کنٹرول کرنے کے لیے پالا پوسا گیا ۔ حقیقت میں یہی وہ سازش ہے جس کے ذریعے استعماری طاقتیں ہمارے معاشروں کو کنٹرول کرکے باطل نظام کو مسلط کیے ہوئے ہیں ۔ اس نظام میں مال و دولت کی ہوس پیدا کی جاتی ہے اور عوام کو اپنے پیچھے لگایا جاتاہے ۔ یہ مال و دولت اور آسائشوں کی ہوس عوام کو اضطراب میں مبتلا کرتی ہے ۔ آپ دیکھئے کوئی شخص اس لیے خودکشی نہیں کرتا کہ اس نے ایک وقت کا کھانا نہیں کھایا بلکہ اس لیے کرتا ہے کہ اس کے گھر میں لگژری گاڑی نہیں ہے ، اے سی نہیں ہے ۔ بنیادی وجہ اپنے دین سے دوری ہے جس کی وجہ سے اللہ کا عذاب ہم پر مسلط ہے اورقوم کے بدترین لوگ ہم پر حکمران بن کر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ عزت کا معیار سٹیٹس کو اور پروٹوکول کوبنایا ہوا ہے اور نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس طبقاتی نظام کی مصیبتوں سے جان چھوٹے تو عوام کو جاگنا پڑے گا،خواب وخیال سے نکلنا پڑے گا، حقیقت کی دنیامیں آنا پڑے گا۔دین کے تقاضوں کو اپنانا پڑے گا۔
سوال:مغرب کاسوشل انجینئرنگ پروگرام جس کو وہ سوشلزم،لبرل ازم کے خوشنمانعروں کے ذریعے سے مسلمان ممالک میں رائج کرنا چاہتے ہیں ۔اس پروگرام اور ان نعروں کی حقیقت کیا ہے ؟
رضاء الحق:بنیادی طور پر یہ سارے کے سارے ازم ملحدانہ سوچ کے نمائندہ ہیںاور لبرل ازم سب کے آغاز میں آپ کو دکھائی دیتا ہے جو کہ ایک سیاسی اور اخلاقی سوچ کا لبادہ اوڑھ کر سامنے آیا لیکن خدا، وحی ، آخرت اور روح کے تصور سے جان چھڑا لی ۔ اس سے اگلے سٹیج پر آپ کو سیکولرازم دکھائی دیتاہے ریاست کی سطح پر مذہب کا عمل دخل بالکل ختم کر دیا گیا ۔ انفرادی طور پر کوئی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہے تو وہ اس کاذاتی مسئلہ ہے ، اس پر کوئی قدغن نہیں لیکن اجتماعی سطح پر مذہب کا پرچار نہیں ہوگا ۔ پھر اس کی اگلی شاخ فیمنزم ہے کیونکہ جو دجالیت کا حملہ ہے، اس میں عورت کی ابجیکٹیفیکیشن (Objectification) کو خاص طور پر بطور سیکس سمبل استعمال کیا گیا ۔ اس سے اگلے سٹیج پر مزید بگاڑ کی شکلیں ٹرانسجینڈز قوانین کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔ فیمنزم میں عورتوں کے حقوق کا نام لیا جاتاہے لیکن عورتوں کی مادرپدر آزادی مطلوب و مقصود ہوتی ہے ۔ ان سب نعروں میں یہ چیز واضح طور پر دکھائی دیتی ہے ۔ جیسا کہ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ ہے جو اس بات کا اعلان ہے کہ ہم خدا کی شریعت کو نہیں مانتے ۔ یہی چیز آپ کو ان کے دوسرے نعروں میں دکھائی دیتی ہے۔ پدر شاہی نامنظور کا نعرہ ہے۔ جیسا کہ عورت کو مرد کی برابری پر کھڑا کرنا ۔ جبکہ اللہ کا قانون کہتا ہے : {اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ} (النساء:34) ’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔‘‘
یعنی گھر کا سربراہ مرد ہو گا ، وہ کفیل ہوگا ، عورت کو معاش کے لیے مارے مارے نہیں پھرنا پڑے گا ۔ جبکہ دجالی تہذیب عورت کو گھر سے باہر نکال کر ان خوشنما نعروں کی آڑ میں اس کا استحصال کرنا چاہتی ہے۔ مقصود دنیا کی لذتیں اور آسائشیں ہیں اور آخرت کا تصور بالکل ذہنوں سے نکال دیا گیا ہے ۔بنیادی طور پر یہ سارے ازم اور یہ سارے نعرے انسان کو شیطنت کی طرف لے جاتے ہیں اور دجالیت کا شکار بناتے ہیں ۔
آصف حمید:میرے ذہن میں پھر وہی لفظ مترفین آرہا ہے ۔ جو لوگ اس طرح کے ازم اور نعرے پھیلا رہے ہیں وہ سارے مترفین ہیں ۔ یعنی یہ وہی استحصالی اور فسادی طبقہ ہے ۔ قرآن میں ان کی ایک خصلت یہ بھی بیان ہوئی ہے : { اِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْنَ(34)}
(حٰم السجدہ) یعنی یہ حق کے مخالف اور باطل کے طرفدار ہوتے ہیں ۔ اسی طرح قرآن مجید میں اصحاب الشمال کا ذکر مترفین کے طور پر آیا ہے جو کہ جہنم والے لوگ ہیں ۔ فرمایا: {وَکَانُوْا یُصِرُّوْنَ عَلَی الْحِنْثِ الْعَظِیْمِ(46)} (الواقعہ) ’’اور یہ اصرار کرتے تھے بہت بڑے گناہ پر۔‘‘
یہ بڑے بڑے گناہوں کی ترغیب دیا کرتے تھے ،اسی لیے کہ اصرار کیا کرتے تھے اور وہ کہتے تھے:{وَکَانُوْا یَقُوْلُوْنَ ۵ اَئِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا }(الواقعہ:47) ’’اور وہ یہ کہا کرتے تھے کہ کیا جب ہم مر جائیں گے اور ہو جائیں گے مٹّی؟‘‘
یہ وہ تصور ہے جو سیکولرازم اور لبرل ازم بنیادی طور پر دے رہا ہے ۔ این جی اوز ایسے لوگوں کو سپورٹ کرتی ہیں ، میڈیا سپورٹ کرتاہے ۔یہ چاہتے ہیں کہ لوگ خدا سے دور ہو جائیںتاکہ ان کے قابو میں رہیں ۔ ظاہر ہے اگر لوگ اللہ کے قریب ہوں گے تو ان کے قابو میں نہیں آئیں گے ۔ سوشل انجینئرنگ کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ انسان کے ذہن سے اشرف المخلوقات والا تصور نکل جائے اور وہ جانوروں کی طرح صرف کھانے پینے اور جسمانی خواہشات کو پورا کرنے میں لگے رہیں ، انہی چیزوں کی ترغیب سب سے بڑھ کر دی جاتی ہے اور یہ سارے کام مترفین کے ہیں۔
سوال: گزشتہ دنوں پاکستان میں ایک میوزیکل بینڈ امریکہ کی طرف سے بھیجا گیاجس میں ہم جنس پرست خواتین شامل تھیں اور پاکستان میں کئی جگہوں پر کنسرٹ ہوئے ، خاص طور پر یونیورسٹیز میں ان کی کوشش رہی کہ خواتین اور بچیاں لازمی ان کنسٹرٹس میں شامل ہوں ۔ کئی جگہوں پر احتجاج کی وجہ سے پروگرام کینسل بھی ہوئے ۔ امریکی سفارتخانہ اس سارے پروگرام کی نگرانی کرتا رہا ۔ آپ کے خیال میں ان کا ایجنڈا کیا تھا ،کیا یہ واقعی سوشل انجینئرنگ کی ایکسٹینشن ہے اوراس میں وہ کس حد تک کامیاب ہوئے ؟
آصف حمید:گلوبل ایجنڈا تو یہی ہے کہ ابلیس نےجو کہا تھا کہ میں ان سب کو جہنم میں لے جاؤں گا ۔ اللہ سے دوری ، دین سے دور ی ، حق سے دوری ،یہی اس ایجنڈے کی اصل ہے ، اسی کے لیے مختلف لیولز پر کام ہورہا ہے ۔ عالمی مترف امریکہ اسی لیے ہمیں پیسے دیتا ہے ،ثواب کے لیے تو نہیں دیتا لہٰذا اس نے میوزیکل بینڈ بھیجنے ہیں اور ہم بھکاری قوم ہیں ، قرضے بھی ان سے مانگتے ہیں وہ اور اپنی شرائط پر ہمیں قرضے دیتے ہیں ۔ ان شرائط کے ذریعے وہ اپنا ایجنڈا نافذ کرواتے ہیں اور ہم پر مسلط اشرافیہ اگلی قسطوں کی لالچ میں دجالی ایجنڈے کو نافذ کرتی ہے ۔ اسی اشرافیہ کی یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اُن کی نظرکرم ہم پر پڑ جائے ، کسی طرح ہم ان کے منظور نظر بن جائیںاور ہمیں اپنے ملک کی شہریت عنایت کردیں، اس لیے زیادہ سے زیادہ وفاداری دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اسی وجہ سے جب مغرب کے سفیر یہاں آتے ہیں ان کے سامنے یہ لوگ بچھے ہوئے ہوتے ہیں جیسے وہ ان کے معبود ہوں ۔ اسی وجہ سے ایبٹ آباد میں Gay کلب کھولنے کی درخواست دی گئی اور انتظامیہ کے افسران اس کو منظور کے لیے آگے فارورڈ کر رہے تھے ، عوام نے احتجاج کیا تو شاید معاملہ رُک گیا لیکن آپ اندازہ کریں کہ یہ لوگ معاشرے کو کس طرف لے کر جارہے ہیں ؟ کیا ان کو اللہ کا خوف نہیں ہے ؟ کیا ان کو نظر نہیں آرہا ہے کہ مغربی معاشرہ اسی سوشل انجینئرنگ کی وجہ سے کس قدر تباہی کی طرف جارہا ہے ۔ وہ عورت، جس کی حیا ، عزت اور عصمت تھی، گھر سے نکال کر غیرمحرم مردوں کے حوالے کر دیا گیا ، ان کو بے سہارا و سروپا چھوڑ دیا گیا، مغرب میں عورت جس بچے کو پال رہی ہے اس کو پتا ہی نہیں اس کا باپ کون ہے ، وہ اکیلی اس کو سنبھالتی ہے ، جاب بھی کرتی ہے ، گھر کا خرچہ بھی اٹھاتی ہے اور جاب میں غیر محرموں کے ہاتھوں استحصال بھی ہوتا ہے ۔ کیا ہمارے دانشوروں کو ، انتظامیہ کو ، حکومت یہ سب نظر نہیں آرہا ہے کہ اس سوشل انجینئرنگ کا نتیجہ کیا ہوگا ۔ اس شیطانی ایجنڈے کے خلاف پہلی دیوار تو انتظامیہ اور سرکاری آفیسران کو بننا چاہیے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے قوم کے اندر شعور اُجاگر کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔ قوم کو بتانے کی ضرورت ہے کہ اشرافیہ ان مغربی ایجنڈوں کے ذریعے آپ کو آگ میں دھکیل رہی ہے ۔ اس سے نہ صرف ہماری دنیا ، ہمارا معاشرہ تباہ ہو گا بلکہ آخرت بھی تباہ ہو جائے گی ۔ ہمیں قوم کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ اللہ نے ہمیں جو دین عطا کیا ہے اس میں کتنی حکمت اور انسانیت کی کتنی بھلائی ہے ۔
سوال: مغربی ممالک کی حکومتیں، آئی ایم ایف جیسے ادارے اور ہمارے ملک کی سیکولر لبرل اشرافیہ پاکستان کی نوجوان نسل کو ہی آخر کیوں ٹارگٹ بنا رہی ہے ؟
ڈاکٹر انوار علی: انتہائی اہم سوال ہے کہ نوجوان نسل کو ہی کیوں ٹارگٹ کیا جارہا ہے ؟ بنیادی بات یہ ہے کہ نوجوان ہی کسی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں ۔ مستقبل تباہ ہوگا تو وہ قوم خود تباہ ہو جائے گی اسی مقصد کے لیے یہ ساری جنگ ہے ۔کسی زمانے میں تیروں اور تلواروں سے جنگ ہوتی تھی ، یہ فرسٹ جنریشن وار تھی ۔ سیکنڈجنریشن وار میں بندوق اور میزائل وغیرہ کا دور آیا، تھرڈ جنریشن وار توپوں اور بموں سے لڑی گئی ، پھر فورتھ جنریشن وار میں ایک تصور آیا کہ جنگوںکی بجائے کسی قوم کو معاشی سطح پر کھوکھلا کرکے فتح کیا جائے ۔ ایسے پروٹوکولز بنائے جائیں کہ کوئی قوم اپنے معاشی تقاضے پورے نہ کر سکے اور ہم جانتے ہیں کہ امریکہ بہادر وغیرہ اسی بنیاد پر آج پاکستان جیسے ملکوں کو فتح کر چکے ہیں ۔ اس کے بعد ففتھ جنریشن وار کا دور آیا جس میں جنگ ذہنوں میں لڑی جارہی ہے ۔ یعنی لوگوں کی ذہن سازی کرکے انہیں اپنا غلام بنایا جارہا ہے ۔ اس ذہن سازی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا نوجوان اپنی تاریخ پر شرمندہ ہے، اپناروایتی لباس اسے بُرا لگ رہا ہے ، اپنا کلچر اسے بُرا لگ رہا ہے ، اپنی تہذیب اس کو بُری لگتی ہے جبکہ مغرب کے دیے ہوئے شیطانی کلچر کو وہ بڑی خوشی سے قبول کر رہا ہے ۔ مغرب کو اپنے شیطانی ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے نوجوانوں کی سپورٹ چاہیے اور نوجوان ففتھ جنریشن وار کے ذریعے آسانی سے مغرب کا غلام بننے پر تیار ہورہے ہیں، مغرب انہیں جس طرح چاہیے استعمال کرے ۔ لہٰذا آج ہم دیکھتے ہیں کہ ملینز آف ڈالرز نوجوانوں کی ذہن سازی پر خرچ ہو رہے ہیں ۔ آج زمین سے اُگنے والی سبزی مہنگی ہورہی ہے جبکہ موبائل ، انٹرنیٹ اور ایسی چیزیں سستی ہورہی ہیں ، اس لیے کہ مغرب ان چیزوں پر انوسٹ کر رہا ہے تاکہ نوجوانوں کو ان کے ذریعے اپنے مکمل کنٹرول میں لے کر ان کی اپنی ملت اور قوم کے خلاف استعمال کیا جاسکے ۔ لہٰذا آج ہم دیکھتے ہیں کہ جو اصطلاحات ہمارا فخر ہوا کرتی تھیں ان پر آج نوجوانوں کو شرمندگی ہے ۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ نوجوانوں کے ذہنوںمیں شکوک و شبہات ڈالے جارہے ہیں ، میڈیا وار کے ذریعے نوجوانوں کے ذہنوں میں سوالات انڈیلے جارہے ہیں ، جب ہر چیز پر سوالات اُٹھیں گے کہ تو انسان کنفیوز ہو جائے گا اور کنفیوز شخصیت ہی مغربی ایجنڈے کو مطلوب ہے جس کو وہ جس طرح چاہیں استعمال کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا پورا تعلیمی نظام کرپٹ مافیاز کے ذریعے بوگس کر دیا گیا ہے ۔ ہم باصلاحیت نوجوان نسل پیدا نہیں کر پارہے بلکہ جوکوئی صلاحیت لے کر آتاہے اُسے بھی ہم ڈگری کے نام پر تباہ کرکے واپس بھیج رہے ہیں ۔ اسی وجہ سے سب ناہل اور کرپٹ لوگ ہم پر مسلط ہو رہے ہیں اور جو کوئی باصلاحیت ہوتا ہے اس کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بیرونی ملک چلا ئے اور وہاں سیٹل ہو جائے کیونکہ یہاں ایسے لوگوں کو چلنے نہیں دیا جاتا ۔ چنانچہ نوجوانوں کو خاص طور پر ٹارگٹ اس لیے کیا جارہا ہے تاکہ مستقبل میں باطل قوتیں پوری طرح ہم پر قابض ہو سکیں ۔
سوال: ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی اور بے حیائی کے اس پورے کلچر کو فروغ دینے میں سوشل میڈیا، روایتی میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کا کتنا کردار ہے ؟
رضاء الحق:قرآن میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ شیطان محتاجی سے ڈراتا ہے اور فحاشی کا حکم دیتا ہے اور قرآن میں وارننگ کے طور پر یوں بھی تذکرہ ہے کہ کیا تم نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا؟ ظاہر ہے ایسے شخص کا آخرت میں کیا حصہ ہوگا ؟ میڈیا خواہش نفس کو ابھارتاہے ۔ آج نوجوان پورنو گرافی کی وجہ سے تباہ ہورہے ہیں تو اس تک رسائی بھی میڈیا نے دی ہے ۔ اسی طرح نوجوانوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے میں بھی میڈیا کا کردار ہے ۔ نوجوانوں کی اخلاقیات کو تباہ کرنے میں اس کا بڑا کردار ہے ۔ شکوک و شبہات سے ہی بات پھر الحاد اور بے دینی کی طرف جاتی ہے ۔ بے حیائی اور فحاشی کو عام کرنے میں میڈیا کاجتنا کردار ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ مقصد وہی ہے کہ عورت کو سیکسول ابجیکٹ (Sexual Object) کے طور پر پیش کیا جائے ۔ آہستہ آہستہ یہی چیزیں نصاب اور نظام تعلیم کے اندر بھی آرہی ہیں ۔ یعنی اجتماعی طور پر ہم خودکشی کی طرف جارہے ہیں جس طرح مغرب میں اس وقت نوجوان نسل خودکشیاں کر رہی ہے ، ذہنی مریض بن چکی ہے اور جب اس کیفیت سے نکلنے کے لیے وہ روحانی تسکین کی تلاش میں نکلتے ہیں تو آگے روحانیت کے نام پر ہی دجالی فتنے ان کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں ۔ یعنی چومکھی لڑائی اس وقت انسانیت کے خلاف لڑی جارہی ہے اور چاروں طرف سے شیطان نے گھیرا ڈالا ہوا ہے ۔
سوال:بدقسمتی سے پاکستان میں ایک مخصوص سیکولر اور لبرل طبقہ پورے نظام پر حاوی ہو چکا ہے اور ہر سطح پر اس کا کنٹرول ہے ۔ اس مصیبت سے نجات کیسے ممکن ہے اور اس حوالے سے دین ہمیں کیا رہنمائی دیتا ہے ؟
آصف حمید: میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لیے ہمیں اللہ کے کلام اور نبی اکرم ﷺ کی سیرت سے رجوع کرنا پڑے گا اور دوسروں کو بھی قرآن و سنت سے جڑنے کی ترغیب دینی ہوگی ۔ دوسرا یہ کہ اس طریق کار پر کام کیا جائے جو طریقہ نبی کریمﷺ نے اختیار کیا کیونکہ صورتحال یہ بن چکی ہے کہ لوگوں کو پتا ہی نہیں کہ اللہ کا دین کیا چاہتا ہے ۔اس سے آگے بڑھ کر وہ لوگ ہیں جو مترفین کا کردار ادا کر رہے ہیں یعنی دین کے راستے میں رکاوٹ بن رہے ہیں ۔ لہٰذا ہمیں دین کی دعوت اسی طریق کار کے مطابق دینی ہوگی جس طرح نبی اکرم ﷺ نے دی ۔ پھر جو لوگ سیدھے راستے پر آجائیں انہیں کسی نظم سے جوڑکر قرآن کے ذریعے ان کی تربیت کرنا ہوگی ۔ پھر قرآن کے نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کرنا ہوگی ۔ یہ ہمارا مشن ہو نا چاہیے ۔ اس کے مقابلے میں شیطان کا بھی ایک مشن ہےجس کے تحت وہ پوری دنیا پر شیطانی نظام کو غالب کرنا چاہتا ہے اور اس کے ذریعے دنیا کے تمام انسانوں کو جہنم میں لے جانا چاہتا ہے۔ اسی کی اس نے قسم کھائی ہے ۔ آج کل ہم دیکھیں تو اس کا مشن پورے عروج پر ہے ۔ ’’الکفر ملہ واحدہ‘‘ کے مصداق پوری دنیا اسلام کے خلاف متحد ہو چکی ہے ۔باطل قوتیں ایک دوسرے کو ہر طرح سے سپورٹ کر رہی ہیں اور ان کی پوری کوشش ہے کہ اللہ کے دین کو ماننے والے کبھی اکٹھے نہ ہو پائیں ۔ اس کے لیے وہ تفرقہ بازی ، سوشل میڈیا کے ذریعے ذہن سازی اور شکوک و شبہات پیدا کرنا ، آپس میں لڑانا ، نفرتوں کے بیج بونا جیسے سب ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں ۔ اس لحاظ سے آج کا پاکستانی معاشرہ بدترین معاشرہ بن چکا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ شیطان کا ایجنڈا کامیاب ہورہا ہے ۔ اس صورتحال میں نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنی ذات پر دین کو نافذ کریں ، اپنے آپ کو شیطان کے چنگل سے نکالیں ۔ قرآن مجید میںد و گروہوں کا ذکر ہے ۔ ایک حزب اللہ اور دوسرا حزب الشیطان ۔ آج ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم نے کس گروہ میں شامل ہونا ہے ۔ میں سمجھتا ہوںکہ ہر مسلمان کا ضمیر گواہی دے گا کہ مجھے اللہ کی پارٹی میں شامل ہوناچاہیے تو پھر اس کا راستہ یہی ہے کہ آپ اللہ کے دین کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے والی کسی جماعت میں شامل ہو جائیں ۔ الحمدللہ تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے بھی اسی مقصد کے لیے جدوجہد ہو رہی ہے ۔ لوگوں کو شعور دلارہی ہے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ بھی ادا کر رہی ہے ۔