(دین و دانش) عشر ۂ ذُو الحجہ کے فضائل - ڈاکٹر مفتی احمد خان

10 /

عشر ۂ ذُو الحجہ کے فضائل

ڈاکٹر مفتی احمد خان

ماہ ذوالحجہ کاپہلا عشرہ خصوصی فضیلت کا حامل ہے۔ اللہ رب العزت نے سورہ الفجر میں کئی چیزوں کی قسم اٹھائی جن میں سے ایک فجر ہے ،حضرت ابن عباس، مجاہد اور عکرمہ jفرماتے ہیں اس فجر سے مراد دس ذوالحجہ کی فجر ہے، دوسری چیز جس کی قسم اٹھائی گئی وہ ولیالٍ عشرہے   جس کے بارے میں خود رسول اللہ ﷺنے فرمایا:ان دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کا پہلا عشرہ ہے۔
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں، یہ دس راتیں وہی ہیں جن کا حضرت موسیٰ ؑ کے قصے میں ذکرہے ،کیوں کہ یہی دس راتیں سال کے ایام میں افضل ہیں۔
امام قرطبیؒ نے فرمایا کہ مذکورہ بالاحدیث سے ذُوالحجہ کے پہلے عشرہ کا تمام دنوں میں افضل ہونامعلوم ہوا اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے لیے بھی یہی دس راتیں ذُو الحجہ کی مقرر کی گئی تھیں۔
      حضرت جابرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:دنیا کے دنوں میں سب سے افضل ذی الحجہ کے پہلے عشرے کے دن ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں اِن(ذُو الحجہ کے) دس دنوں کے نیک عمل سے زیادہ محبوب ہو اور پسندیدہ ہو۔‘‘ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا:یارسول اللہﷺ!کیا یہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:’’اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے مگر وہ شخص جو جان اور مال لے کراللہ کے راستے میں نکلے،پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آئے(سب اللہ کے راستے میں قربان کردے، اور شہید ہو جائے یہ ان دنوں کے نیک عمل سے بھی بڑھ کر ہے)۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ کے یہاں (ذو الحجہ کے)دس دنوں کی عبادت سے بڑھ کرعظیم اور محبوب ترکوئی عبادت نہیں ۔‘‘
لہٰذا ان مبارک دنوں میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت بہت لگن اور توجہ کے ساتھ کرنی چاہیے اور ہمہ تن اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہنا اور ذکر و فکر ،تسبیح وتلاوت، صدقہ وخیرات اور نیک عمل میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرنا اور گناہوں سے بچنا چاہیے اور جہاں تک ہو سکے روزوں کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔
9ذو الحجہ اور اس کے روزہ کے فضائل ومسائل
9ذو الحجہ کا دن مبارک دن ہے، اس دن حج کا سب سے بڑا رکن وقوفِ عرفہ ادا ہوتا ہے، اور اس دن   بے شمار لوگوں کی بخشش اور مغفرت کی جاتی ہے۔مگر اللہ تعالیٰ نے اس دن کی برکات سے غیر حاجیوں کو بھی محروم نہیں فرمایا: اس دن روزے کی عظیم الشان فضیلت مقرر کر کے سب کو اس دن کی فضیلت سے اپنی شان کے مطابق مستفید ہونے کا موقع عنایت فرمایا۔اللہ رب العزت نے قرآن میںمشھود کا لفظ بیان فرماکر عرفہ کے دن کی قسم اٹھائی۔
حضرت ابوہریرہ ؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’تمام دنوں میں سب سے افضل دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک جمعہ کا دن ہے، اور یہ دن شاہد ہے اور مشہود عرفہ کا دن ہے اور یوم موعود قیامت کا دن ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ بندوں کو جہنم سے نجات دیتے ہوں، اللہ تعالیٰ (اس دن اپنے بندوں کے) قریب ہوتا ہے اور فرشتوں کے سامنے ان لوگوں کی بناء پر فخر کرتا ہے اور پوچھتا ہے:یہ بندے کیا چاہتے ہیں؟‘‘
حضرت مسروق ؓ  سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ آپﷺ نے فرمایا:’’سال بھر میں مجھے کوئی روزہ عرفہ کے دن سے زیادہ محبوب نہیں۔‘‘
اس حدیث میں نو ذو الحجہ کے دن کے روزے کی بیش بہا فضیلت بیان کی گئی ہے۔ایک روایت میں حضرت ابوقتادہ ؓ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عرفہ (یعنی 9ذلحجہ ) کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’(ذوالحجہ کا روزہ رکھنا) ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ ‘‘
9 ذوُالحجہ کے مسائل
٭ عرفہ کے دن کی فضیلت ہر شخص کو اس ملک کی تاریخ کے اعتبار سے حاصل ہوگی جس ملک میں وہ شخص موجود ہے۔جیسا کہ عیدالاضحی ہر شخص اپنے ملک کی تاریخ کے اعتبار سے کرے گا اسی طرح عرفہ بھی عیدالاضحی سے ایک دن پہلے شمار ہوگا۔
٭ بعض لوگ عرفہ کے دن کسی ایک مقام پر اکٹھے اور جمع ہونے کو ثواب سمجھتے ہیں اور عرفات میں حاجیوں کے اجتماع کی مشابہت کرتے ہیں۔ اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں بلکہ بے بنیاد اور من گھڑت بات ہے، لہٰذا اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔
٭ عشرئہ ذو الحجہ اور نوذوالحجہ کے روزوں کے مسائل دوسرے نفل روزوں کی طرح ہیں۔
عشرہ ذو ا لحجہ میں بال اور ناخن کا حکم
حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم ذو الحجہ کا چاند دیکھ لو ، اور تم میں سے کسی کا قربانی کا ارادہ ہو تو وہ جسم کے کسی حصہ کے بال اور ناخن نہ کاٹے۔
٭  بال اور ناخن نہ کاٹنے کا حکم قربانی والے کے لیے ہے۔
٭  یہ مستحب ہے فرض یا واجب نہیں، لہٰذااگر کوئی اس کی رعایت نہ کر سکا تو گنہگار نہ ہوگا۔
٭  عورتوں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔
٭  اگر زیرناف بالوں اور ناخنوں کو چالیس دن یا زیادہ ہورہے ہوں تو یہ حکم نہیں، صفائی ضروری ہے۔
تکبیر تشریق
تکبیرات تشریق یہ ہیں: 
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُلَااِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُوَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ 
٭ 9ذوالحجہ کی فجر سے لے کر 13 ذوالحجہ کی عصر تک پانچ دنوں میں تکبیر تشریق کی خاص تاکید اور فضیلت ہے۔ ارشادربانی ہے:’’ اور یاد کرو اللہ کو گنتی کے دنوں میں۔‘‘
٭ ابن شہاب زہری ؒ فرماتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ تمام ایام تشریق کے دنوں میں تکبیر پڑھتے تھے۔
٭ حضرت عبیدبن عمیرؒ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: حضرت عمرؓ عرفہ 9ذوالحجہ کی فجر سے ایام تشریق کے آخری دن عصر کی نماز تک تکبیر تشریق پڑھتے تھے۔
٭ امام محمدؒسے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: ہمارے شیخ امام ابوحنیفہؒ سے ہم نے اور وہ حمادؒ سے اور وہ  ابراہیم نخعیؒ سے وہ حضرت علی ؓ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی ؓ عرفہ 9ذوالحجہ) کی فجر سے ایام تشریق کے آخری دن عصر کی نماز تک تکبیر تشریق پڑھتے تھے۔
اسی وجہ سے ہمارے فقہاء کے نزدیک تکبیر تشریق 9ذوالحجہ کی فجر سے لے کر 13 ذوالحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے۔
تکبیر تشریق کے مسائل 
٭ یہ تکبیر ہر فرض اورجمعہ کی نمازکے بعد مرد و عورت، مقیم ومسافر،حاجی وغیرحاجی، تنہا اور جماعت سے نماز  ایک پرواجب ہے، اور مسبوق ولاحق مقتدی پر بقیہ نماز سے فراغت پر تکبیر کہنا واجب ہے۔
٭ یہ تکبیر مرد درمیانی آواز سے اور عورت آہستہ پڑھے۔ بہت سی خواتین اور مرد حضرات یہ تکبیر نہیں پڑھتے، حالانکہ اس کا پڑھناواجب ہے۔ اسی طرح بعض مرد حضرات آہستہ یا بہت بلند آواز سے پڑھتے ہیں، یہ دونوں باتیں قابل اصلاح ہیں۔
٭ فرض نماز کے سلام پھیر نے کے فوراً بعد یہ تکبیر پڑھنی چاہیے۔
٭ سلام کے فوراً بعد اگر کوئی یہ تکبیر پڑھنا بھول جائے تو اگر نماز کے خلاف کوئی کام مثلا ًبات چیت نہیں کی اور یاد آگیا تو تکبیر کہہ دینی چاہئے۔
٭ ایام تشریق کی کوئی فوت شدہ نماز اسی سال ایام تشریق کے اندرہی قضا کرے تو اس نماز کے بعد بھی یہ تکبیر کہنا واجب ہے، البتہ اگر ایام تشریق سے پہلے کی کوئی نماز ان دنوں میں ادا کرے یا ایام تشریق کی فوت شدہ نماز ان دنوں کے گزر جانے بعد قضا کرے تو پھر تکبیر نہ کہے۔
٭ اگر کسی نماز کے بعد امام یہ تکبیر کہنا بھول جائے تو مقتدیوں کو چاہیے کہ فوراً خود تکبیر کہہ دیں امام کے تکبیر کہنے کا انتظار نہ کریں۔
٭ ہر فرض نماز کے بعد صرف ایک مرتبہ کہنے کا حکم ہے اور صحیح قول کے مطابق ایک سے زیادہ مرتبہ کہنا سنت کے خلاف ہے۔
٭ عید الاضحی کی نماز کے بعد بھی یہ تکبیر پڑھنی چاہیے۔