امیر محترم کےحلقہ کراچی جنوبی کے دعوتی دورہ کی روداد
امیر محترم نے24 مئی2024ء کو حلقہ کراچی جنوبی کا دعوتی دورہ کیا ۔دورہ کے دوران امیر محترم نے درجہ ذیل پروگراموں میں شرکت کی۔
1- سندھ بار کراچی ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام پروگرام سے امیر محترم کا خطاب:
24 مئی بروز جمعہ صبح10:00تا 11:00 بجے مذکورہ نشست رکھی گئی تھی ۔ اس کے انعقاد کے لیے مقامی امیر کورنگی غربی ایڈوکیٹ سعید الرحمٰن صاحب نے انتہائی کوشش فرمائی ۔ کراچی بار میں بینرز ، ہینڈبلز اور سوشل میڈیا کے ذریعہ بھرپور تشہیر کا اہتمام کیا گیا۔ امیر محترم کے ہمراہ نائب ناظم اعلیٰ جنوبی پاکستان نعمان اختر صاحب ، قائم مقام امیر حلقہ کراچی جنوبی محمد عابد خان صاحب اور ناظم نشر و اشاعت حلقہ کمانڈر سرفرا ز احمد صاحب موجود تھے۔
بار کے اراکین نے امیر محترم کا پرتپاک استقبال کیا اور سندھی روایت کے مطابق امیر محترم اور نائب ناظم اعلیٰ جنوبی زون کو اجرک پہنائی۔ بعد ازاں بارکے اراکین سے تعارف کرایا گیا۔ اس کے بعد امیر محتر م کو جناح آڈیٹوریم میں کثیر تعداد میں موجود وکلاء سے’’ قرآن کا پیغام ‘‘ کے موضوع پر خطاب فرمایا۔آپ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں (علیہم السلام) کو’’کتاب‘‘اور’’ میزان‘‘دے کر بھیجا تاکہ لوگوں میں نظامِ عدل و قسط قائم کیا جائے۔عدل اسلام کا کیچ ورڈ ہے، پاکستانی معاشرے کی اساس عدل و قسط پر قائم کی جائے۔ وکلاء برادری نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کے لیے احتجاج شروع کیا جو بعد ازاں تحریک کی شکل اختیا رکرگیا ۔ اس تحریک کے ذریعہ وہ اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوئے۔ وکلاء پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اللہ کے دین کے نفاذ کے لیے بھی تحریک چلائیں۔ علاوہ ازیں دستور میں جو شقیں اسلامی نظام سے متعلق ہیں ان کی دیگر شقوں پر بالادستی کے لیے دلائل فراہم کریں۔ اس پروگرام میں 100سے زائد وکلاء شریک ہوئے۔ امیر محترم کی جانب سے کراچی بار کے صدر عامر نواز وڑائچ صاحب اور ان کے نائبین کو چار سیٹ تحفتا ً پیش کیے گئے جس میں بانی محترم ؒ کی دو کتب ’’قرآن حکیم اور ہم اور رسول اکرمﷺ اور ہم ‘‘ موجود تھیں۔دعا پر اس پروگرام کا اختتام ہوا۔
2-خطاب جمعہ مسجد جامع القرآن ، قرآن اکیڈمی ڈیفنس :
ہر ماہ کے دوسرے اور چوتھے جمعہ کو امیر محترم مسجد جامع القرآن ، قرآن اکیڈمی ڈیفنس میں خطاب جمعہ ارشاد فرماتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں آپ نے سورۃ آل عمران کی آیات 14 تا 18 کے ذیل میں ’’مرغوبات دنیا اور طالب ِآخرت‘‘ کے موضوع پر خطاب فرمایا۔
خطاب جمعہ کے آخیر میں حالات حاضرہ پر گفتگو کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ وہ شخص کون تھا جس نے ڈی چوک میں مظاہرین پر کئی مرتبہ گاڑی چڑھائی اور دو افراد کو کچل کر شہید جبکہ کئی کو زخمی کر دیا۔ پولیس وقوعہ پر خاموش تماشائی کیوں بنی رہی۔ ڈی چوک کے گرد و نواح کی سٹریٹ لائٹس اور سی سی ٹی وی کیمرے کس کے کہنے پر بند کیے گئے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب فلسطینی مسلمانوں کے لیے دردِ دل رکھنے والے ہر پاکستانی کو مطلوب ہے۔
3-علماء کرام کے ساتھ نشست:
امیر محترم کی آئمہ مساجد اور علماء کرام سے بعد نماز عصر تا مغرب غیر رسمی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں ڈیفنس ، کلفٹن ، سوسائٹی اور کورنگی سے تعلق رکھنے والے15 علماء و آئمہ مساجد موجود تھے۔ علاوہ ازیں اہل الحدیث اور حنفی (بریلوی) مسلک کے علماء بھی شامل تھے۔ اولاً علماء نے باہم تعارف پیش کیا۔ بعد ازاں امیر محترم نے علماء کرام کے سامنے امت کی زبوں حالی ، نوجوان نسل میں بڑھتا ہوا الحاد، مقتدر طبقات کی دین دشمنی اور علما ءکی ذمہ داری پر اپنا درد دل رکھا اور علماء کرام سے قابل توجہ امور کے حوالے سے اصلاح و راہنمائی فرماتے رہنے کی استدعا فرمائی ۔ علماء کرام نے اس قسم کی ملاقات پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور آ ئندہ بھی روابط جاری رکھنے کا اظہار فرمایا۔ آئمہ کرام کو بانی محترم ؒ کی کتابوں کا ہدیہ بھی پیش کیا گیا ۔
4-خطاب عام راج محل بینکوئیٹ:
کورنگی نمبر ڈھائی میں واقع راج محل بینکوئیٹ میں بعد نماز عشاء امیر محترم کا خطاب عام بعنوان ’’پاکستان کا اصل مسئلہ اور راہ نجات‘‘ رکھا گیا تھا۔ ناظم پروگرام مقامی امیر کورنگی وسطی ڈاکٹر اسرار علی اور ان کی ٹیم نے اس پروگرام کے انعقاد میں انتہائی محنت کی۔ بینرز ، ہینڈبل، سوشل میڈیا ، پیڈسٹرین بریج پر بینرز کے ذریعہ بھرپور تشہیر کی گئی۔مجلس کا آغاز حافظ ریان بن نعمان صاحب کی سورۃ الانفال آیات 24 تا 28 کی خوبصورت تلاوت سے ہوا ۔ حافظ ثوبان بن نعمان صاحب نے کلام ’’ اے خاصا خاصان رسل وقت دعا ہے‘‘ سے بھی شرکاء کے دلوں کو گرمایا۔ بعد از اں امیر محترم نے’’ پاکستان کا اصل مسئلہ اور راہ نجات ‘‘ کے عنوان پر مفصل خطاب فرمایا ۔ آپ نے کہا کہ ہم کتاب اللہ کے ماننے والے ہیں اپنے مسائل اور مصائب کا حل تلاش کرنے کے لیے مادی علم کو روحانی علم (وحی) کے تابع رکھ کر غور کرنا چاہیے۔ ازروئے قرآن بہت سی قوموں کا زوال اخلاقی اور دینی اعتبار سے بگاڑ کی وجہ سے ہوا ہے۔
ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم صرف دنیا وی ترقی اور خوشحالی کے طلب گار ہیں یا آخرت میں بھی کامیاب ہونا چاہتےہیں۔ یقیناً آپ کا اور میر ااصل مسئلہ آخرت کا ہے۔ اصل زندگی آخرت کی ہے ۔ اور آخرت میں کامیابی اسی کو ملے گی جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ وفاداری کریں گے۔ اس وقت پورا ملک بے چینی وبے قراری کا شکار ہے، اخلاقی گراؤٹ کی انتہا ہے، خیر وبرکت اُٹھ چکی ہے۔ یہی خطۂ زمین جو دوسرے علاقوں کو غلہ فراہم کر تا تھا خود دانے دانے کے لیے ترس رہا ہے۔ جھوٹ ، وعدہ خلافی ، امانت میں خیانت ، گالم گلوچ عام ہے۔ چوری اور ڈاکے کی وار داتیں روز مرہ کا معمول بن چکی ہیں۔شادی بیاہ اور گھروں میں عریانی بے حیائی کے دردناک مناظرہیں۔گھروں میں دفاتر میں باہمی اُلفت و محبت اور اتحاد دکھائی نہیں دے رہا ۔ اربوں روپے کی کرپشن کی جارہی ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ لوگوں کی نجی زندگی کو منظر عام پر لایا جا رہا ہے۔ عوام الناس خود کشیاں کر رہے ہیں۔ بچے والدین کے نافرمان ہیں۔آئین کی سطح پر منافقت کا یہ عالم ہے کہ مقدس عبارت لکھی ہے حاکمیت اللہ تعالیٰ کے لیے ہے ، قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی اس ملک میں نہیں کی جائے گی۔ ساتھ میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ بھی ایک شق ہے جیسے دوسری شقیں ہیں اس کی دیگر دفعات پر کوئی بالادستی نہیں ہے۔ہمارے ایمان کا یہ حال ہے کہ بستر سے اُٹھا مصلیٰ پر کھڑا نہیں کر رہا اور تمنا ہے کہ فلسطین میں شہید ہو جائیں۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ اس میں مزید پیش قدمی کر رہے ہیں۔ کیا یہ سب عذابِ الٰہی کی شکلیں نہیں؟ اللہ کی کتاب بتاتی ہے کہ جو تم پر مصیبتیں آئی ہیں تمہارے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے بھی آتی ہیں۔
ہمارے نزدیک ان تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے سچی توبہ ۔ یعنی ہم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں ، اس کی طرف پلٹیں ، نافرمانی سے اطاعت کی طرف پلٹیں، گناہوں سے نیکیوں کی طرف آئیں۔ جس سطح پر دین پر عمل ممکن ہے فوراً عمل شروع کر دیں ، جہاں عمل نہیں کر سکتے وہاں مل جل کر منظم جدوجہد کریں۔ انقلاب کے لیے تحریک کے راستے کو اپنائیں ۔ چہروں کو بدلنے کی بجائے نظام کو بدلنے کی فکر کریں۔ اس تحریک کے راستے کو اپنا کر ہم پہلے اپنے عقیدہ کا دفاع کر چکے ہیں ۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ شریعت کے نفاذ کے لیے بھی اس طریقہ کار کو اپنا ئیں۔ قیام پاکستان کے وقت اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے وفا کریں۔ پاکستان کا قیام ایک نظریہ کی بنیاد پر ہوا تھا۔ پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الٰہ الا اللہ ! کا نعرہ لگایا تھا۔ ہماری زبان، لباس، رہن سہن ، کلچر کتنے مختلف تھے ہمیں جوڑنےوالی شے صرف ایک نظریہ تھا۔ اگر ہم اس مبارک جدوجہد کا حصہ بنتے ہیں تو اسی میں ہمارے ملک و وطن کی بہتری ہو گی دنیا میں بھی خوشحالی آئے گی اور سب سے بڑھ کر اسی جدوجہد کو کرنے کے نتیجہ میں ہم آخرت میں سرخرو ہو سکیں گے۔
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
تنظیم اسلامی کی دعوت بھی یہی ہے۔ تنظیم اسلامی کا پیغام خلافت راشدہ کا نظام۔ہم نہ ووٹ مانگتے ہیں نہ نوٹ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اولاً پاکستان اور بالآخر ساری دنیا میں اسلام کو حقیقی معنوں میں اسلام کے طور پر پیش کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ آپ سب کو اس مبارک جدوجہد میں ہمارا ممدو معاون بننے کی دعوت دیتے ہیں۔قرآن و حدیث میں واضح خبریں موجود ہیں کہ قیامت سے قبل کل روئے ارضی پر اللہ کا دین قائم و نافذ ہو کر رہے گا ۔ ان شاء اللہ!ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس اہم ترین ذمہ داری یعنی اقامت دین کی جدوجہد کو ادا کرنے میں ہم کیا کردار ادا کرتے ہیں اور اسی سے متعلق قیامت کے دن ہم سے سوال کیا جائے گا۔اللہ ہمیں اس کی تیاری کی توفیق نصیب فرمائے۔
پروگرام میں تقریباً 1200 حضرات و 400 خواتین نے شرکت کی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں مزید آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(رپورٹ : ناظم نشر و اشاعت ،حلقہ کراچی جنوبی)
انفرادی دعوت/حلقہ قرآنی کے تجربات
راقم کا ایک حبیب محترم تسلیم الرحمٰن صاحب جو کہ اب رفیق تنظیم بھی بن چکا ہے، مطالعے کا بہت شائق تھا، راقم کا تقریباً 8،10سال تک حبیب رہا۔ راقم نے ہر طرح سے کوشش کی لیکن تنظیم میں آنے سے کتراتا رہا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ کچھ علماء سے اورکچھ تبلیغی جماعت سے متاثر تھا۔ راقم اسے تنظیم کی دعوت دیتا رہا اور تنظیمی لیٹریچر پڑھواتا رہا۔ اس سلسلے میں بہت کوشش کی لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا تھا۔ تاہم راقم نے اپنی کوشش جاری رکھی، کیونکہ وہ راقم کا دوست بھی تھا اور ہے۔ لہٰذا راقم کوشش کرتا رہا کہ اسے تنظیمی اجتماعات میںمدعو کرے۔ حتیٰ کہ اسے سالانہ اجتماع میں بھی ساتھ لے گیا۔ اس دوران وہ اللہ کے امتحان سے بھی دوچار ہوا کہ شاید پہلی رات بارش اور طوفان نے آگھیرا۔ لیکن راقم اسے یہ بات سمجھاتا رہا کہ یہ امتحان آتے رہتے ہیں۔ ہم نے تو چونکہ اللہ کے راستے میں جان دینی ہے یہ تو تھوڑی تکلیف کی بات ہے۔ اس طرح بھی اس پر کچھ اثر نہ ہوا، پھر راقم اس کے کچھ گھریلو مسائل جانتا رہا اور اس میں انہیں مشوروں اور کچھ امداد کے ذریعے مدد کرتا رہا۔ یعنی کچھ عرصہ میں تنظیم کی بات کے ساتھ ساتھ اس کے مزاج کی باتیں کرتا رہا اور کچھ اپنا کردار بھی پیش کرتا رہا۔ اسی طرح جب راقم سمجھا کہ اب وہ کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل سےموم ہو گیا ہے تو پھر اسے دعوت تنظیم دی تو اس نے کہا کہ لگتا ہے کہ آپ مجھے چھوڑ نہیں رہے۔ جس پر راقم نے کہا وہ تو مومن نہیں ہو سکتا کہ جو اپنے لیے پسند کرتا ہو وہ اپنے دوست اور بھائی کے لیے نہ پسند کرے۔ تو اللہ کے فضل سے کوئی8،10سال کے عرصے کے بعد اس نے خود کہا کہ اب میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ لہٰذا اب وہ ہمارا رفیق ہے۔ بیعت کرنے کے بعد وہ ضلع خیبر(لنڈی کوتل) معاش کے سلسلے منتقل ہو گیا۔ جس کی وجہ سے وہ فی الحال اتنا فعال تو نہیں لیکن اللہ کے فضل سے رفیق ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں استقامت نصیب فرمائے۔ تجربہ کے لحاظ سے شیطان نے کئی دفعہ راقم کو مایوس کیا کہ اب اسے چھوڑ دینا چاہیے۔ لیکن راقم جو اللہ کے فضل سے تنظیمی تربیت سے گزرا تھا اور مایوسی کو نزدیک نہیں لایا اور کامیابی بس اپنی مسلسل کوشش کو سمجھتا رہا اور اللہ سے دعائیں کرتا رہا۔
لہٰذا راقم کے خیال میں ہمیں ذمہ داری صرف اپنی پُر خلوص کوششوں کو ہی تصور کرنا چاہیے پھر مایوسی نہیں ہو گی۔ باقی نتائج اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت پر استقامت عطا فرمائے اور ہمارا حامی وناصر ہو۔ (رپورٹ رفیق تنظیم)