57 مسلم ممالک اور ان کی تنظیم OICکو توفیق نہیں ہوئی جبکہ ایک
غیر مسلم ملک جنوبی افریقہ نے فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے
لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا : فرید احمد پراچہ
اس وقت مسلم ممالک کا اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ غزہ کے
معاملے پر متحد ہو کر عملی کردار ادا کریں کیونکہ اگر آج خدانخواستہ
غزہ پر قبضہ ہو جاتا ہےتو کل ان کی باری آئے گی: رضاء الحق
ایرانی صدر کا حادثہ اور نیتن یاہو کے خلاف وارنٹ کے موضوعات پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: غزہ کے حوالے سے تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے پراسیکیوٹرنے عالمی فوجداری عدالت میں نیتن یاہوسمیت5 افراد کی گرفتاری کے لیے اپیل فائل کی ہے۔ یہ کتنی بڑی ڈیویلپمنٹ ہے ؟
فرید احمد پراچہ: یہ ایک بڑی اہم پیش رفت ہے۔غزہ پر اسرائیلی حملے کو 227 دن ہو گئے ہیں اور کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ جب اسرائیل نے وہاں پر بمباری نہ کی ہو یا زمینی حملے نہ کیے ہوں، نسل کشی کا مرتکب نہ ہوا ہو ۔ اس کو روکنے کے لیے جنوبی افریقہ نے عدالتی کارروائی کی تھی۔ 57 مسلم ممالک اور ان کی تنظیم OICکو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں ۔ حالانکہ جس طرح کی صورتحال پیدا ہو چکی تھی انہیں اقوام متحدہ ، سلامتی کونسل سمیت ہر فورم پر اقدام کرنا چاہیےتھا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ تو قرآن میں یہاں تک حکم دیتا ہے کہ :
’’اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم قتال نہیں کرتے اللہ کی راہ میں‘اور ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خاطر جو مغلوب بنا دیے گئے ہیں‘جو دُعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار‘ ہمیں نکال اس بستی سے جس کے رہنے والے لوگ ظالم ہیںاور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنا دے‘ اور ہمارے لیے خاص اپنے فضل سے کوئی مددگار بھیج دے۔‘‘ (النساء:75)
بہرحال جنوبی افریقہ کا اسرائیل کے خلاف عدالت میں جانا اہم پیش رفت ہے ۔ وہاں سے جو فیصلے آئے ہیں وہ بڑے واضح ہیں کہ اسرائیل کو مجرم ٹھہرایا گیا اور اب اسرائیلی وزیراعظم اور وزیر دفاع سمیت پانچ افراد کے وارنٹ گرفتاری کے لیے انہوں نے اپیل کی ہے۔ شاید عدالت نے بیلنس کرنے کے لیے حماس کے تین رہنماؤں اسماعیل ہنیہ ، ابراہیم مصری اور یحیٰ سنوار کے نام بھی شامل کر دیے ہیں۔ حالانکہ حماس کا نسل کشی میں کوئی کردار نہیں ہے ، ان کا 7 اکتوبر کا اقدام بھی عالمی قوانین کی مخالفت میں نہیں تھا۔ ان کو اپنی آزادی کی جدوجہد کا حق اقوام متحدہ کا چارٹر بھی دیتا ہے ۔ آج کے جدید دور میں کسی سے کوئی بھی چیز چھپی ہوئی نہیں رہ سکتی۔ اسرائیل اپنے خلاف ثبوت روزانہ فراہم کر رہا ہے۔ اب تک 36 ہزار افراد شہید کر چکا ہے جن میں 17 ہزار سے زائد خواتین اور بچے شامل ہیں ۔ ان خواتین اور بچوں کا کیا قصور تھا ؟ پھر ایمبولنس گاڑیوں ، ہسپتالوں سکولوں ، ڈاکٹروں اور نرسوں تک کو نہیں بخشا گیا ۔ نسل کشی اور کیا ہوتی ہے ؟اگر اسرائیلی وزیراعظم کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوتے ہیں تو دنیا کا ہر ملک پابند ہے کہ وہ گرفتاری میں معاونت کرے ۔ ایسی صورت میں یہ افراد اپنے ملک سے باہر سفر بھی نہیں کر سکیں گے اور اخلاقی پریشر بھی ان پر آئے گا ۔ اس عدالتی کارروائی کی اپنی جگہ اہمیت ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ جمہوریت کا نام لینے والوں نے جمہوریت کی دھجیاں اڑا دی ہیں ۔ آپ دیکھیں کہ ساری دنیا سلامتی کونسل میں ایک طرف ہوتی ہے لیکن واحد امریکہ اسرائیل کے حق میں ویٹو کا استعمال کرکے اسے بچا لیتا ہے ۔ فلسطین کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بھی یہی کھیل جاری ہے۔ جبکہ مشرقی تیمور کا مسئلہ ہو ، جنوبی سوڈان کی بات ہو تو فوراً قرارداد پاس ہو جاتی ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کیس میں پاکستان کو بھی پارٹی بننا چاہیے ، ترکی اور سعودی عرب کو بھی فریق بننا چاہیے ۔ یہ مسلمان ممالک OIC کی سطح پربھی کیس میں فریق بن سکتے ہیں ۔ پاکستان اپنا ایک پینل بنا کر وہاں بھیجے تاکہ کم ازکم ایک اخلاقی ویلیو بن جائے اور جنوبی افریقہ تنہا اس کیس میں کھڑا نہ رہے بلکہ مسلمان ممالک بھی اس کے ساتھ ہوں ۔
سوال:امریکہ کے 12 ریپبلیکن سینیٹرز نےآئی سی سی اور اس کے پراسیکیوٹر کریم خان کو دھمکی آمیز خط لکھا ہے کہ اگر نتین یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تو آپ کو بہت سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ آپ کے خیال میں ان کا یہ خط کتنی اہمیت کا حامل ہے ؟
رضاء الحق:کریم خان ایک قادیانی ہےجو 2015ء میں عالمی فوجداری عدالت کاپراسیکیوٹر مقرر ہوا اس سے پہلے فاتو بن سودا نام کی ایک خاتون پراسیکیوٹر تھیں ۔ ان کے دور میں بھی اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا بڑا تفصیلی اور جاندار کیس بنایا گیا تھا ۔ اس کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کو ممبر شپ دی گئی تھی۔ پھر اس خاتون کو بھی ہٹا دیا گیا تھا ۔ موجودہ پراسیکیوٹر کریم خان قادیانی نے 7 اکتوبر کے بعد اسرائیل کا دورہ کیا اور حماس کے حملے میں ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں کے خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار کیا ۔ اس وقت اس نے کہا تھا کہ حماس کے ان تمام لوگوں کے خلاف کریمنل کیس چلاؤں گا ۔ اب جن افراد کے خلاف وارنٹ گرفتاری کی اپیل دائر کی ہے تو ان میں حماس کے تین اعلیٰ عہدیدار بھی اسی وجہ سے شامل ہیں۔ اس سے سوال پوچھا گیا کہ جب اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے تو تم ان کی فیملیز سے اظہار یکجہتی کے لیے اسرائیل گئے تھے اب جو لوگ غزہ میں شہید ہورہے ہیں ان کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کے لیے کیوں نہیں جارہے ؟ ان کی نسل کشی کرنے والے نتین یاہو اور دوسرے اسرائیلی عہدیداروں کے خلاف کیس کیوں دائر نہیں کرتے تو اس نے جواب دیا کہ غزہ میں خطرہ ہے اس لیے وہاں نہیں جاسکتا۔ 12 امریکی سینیٹرز کی جانب سے کریم خان اور عدالت کو جو خط لکھا گیا ہے اس کے مندرجات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ایک چیزواضح ہو جاتی ہے کہ ڈیموکریٹس ہوں یا ری پبلکنز ، ہو اسرائیل کے معاملے میں ان کی پالیسی ایک ہے کہ ہر صورت میں اسرائیل کو بچانا ہے چاہے وہ نسل کشی کرتا رہے یا جو بھی کرے۔ اب تو معصوم بچوں کی اجتماعی قبریں بھی سامنے آرہی ہیں ۔ رفح بارڈر پر بھی اسرائیل قبضہ کر چکا ہے تاکہ جو تھوڑی بہت غذائی امداد یا میڈیکل ایڈ اہل غزہ تک پہنچ رہی ہے وہ بھی بند ہو جائے ۔ امدادی ٹرکوں سے راشن اور پانی لینے والوں کو سنائپرز سے فائر کرکے شہید کیا جارہا ہے ۔ یہاں تک کہ اہل غزہ کے لیے قحط سالی جیسا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ یہ ساری وہ چیزیںہیںجو 1950ء کے جینوسائڈ کنونشن کے مطابق نسل کشی کے زمرے میں آتی ہیں اور اسرائیل کھلم کھلا ان کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اسی بنیاد پر جنوبی افریقہ عالمی عدالت انصاف میں گیا ہے۔لیکن12 سینیٹرز نے خط میں لکھا ہے کہ اسرائیل کو دفاع کا مکمل حق حاصل ہے ، یعنی وہ اپنے دفاع میں جو مرضی کرتا رہے ، اس کو آپ نسل کشی نہیں کہہ سکتے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تم حماس والوں کو کچھ کیوں نہیں کہتے ،اسی طرح چینی صدر ، بشار الاسد ، ایرانی صدر اور ایرنی سپریم لیڈر کے نام لیے گئے کہ ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے؟ اس کے بعد پھر کھلم کھلا دھمکی دی گئی ہے کہ :You have been warned میرے خیال میں کریم خان جیسے لوگ تو جان بچا لیتے ہیں لیکن کورٹ کے دیگر لوگوں کو اور ان کی فیملیز کو ٹارگٹ کیا جائے گا۔ اس خط پر بڑا واویلا مچا ہے لیکن اسرائیل سمجھتا ہے کہ اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس نے اپنے اہداف پورے کرنے ہیں کیونکہ امریکہ اور دوسری طاقتیں اس کی پشت پر ہیں اور اگر انٹرنیشنل کریمینل کورٹ رکاوٹ بنے گی تو اس کو بھی راستے سے ہٹا دیا جائے گا ۔
سوال:اسرائیل نے پوری عالمی برادری کی مخالفت کے باوجود رفح پہ حملہ کیا اور تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ رفح کراسنگ پر آپریشنل کنٹرول حاصل کر کے اہل غزہ کو آنے والی غذائی اور میڈیکل امداد روک دی ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 7 مئی سے لےکر اب تک وہاں سے کوئی ٹرک نہیں گزر سکا ۔ اس کا مطلب ہے کہ عالمی برادری کی طرف سے اہل غزہ کے لیے جو امدادی سامان بھیجا جارہا تھا وہ رُکا ہوا ہے اور یقیناً کچھ خراب بھی ہوگیا ہوگا۔ یہ جنگ اب کیا رخ اختیار کرتی ہوئی نظر آتی ہے؟
فرید احمد پراچہ:یہ جنگ امریکہ کے منہ پر ایک طمانچہ ہےکیونکہ اس نے کہا تھا کہ ہم رفح پر حملے کی مخالفت کریں گے لیکن امریکہ کے اس بیان کی دھجیاں اُڑ گئیں۔ رفح میں کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوئے 15 لاکھ فلسطینی مہاجرین پر اسرائیل کارپٹ بمباری کر رہاہے جن کے پاس نہ کھانا ہے ، نہ ادویات ہیں ، نہ پانی ہے اور نہ ہی زندگی بچانے کا کوئی اور سامان ہے ۔ اُن کے لیے خوراک اور ادویات لے کر آنے والے ٹرکوں کو رفح کراسنگ پر اسرائیل نے روکا ہوا ہے۔ یعنی انسانیت دشمنی ، دہشت گردی اور سفاکی کی تمام حدود کو اسرائیل پھلانگ رہا ہے ۔ اقوام متحدہ کا چارٹر کہاں گیا ؟ عالمی قوانین کہاں ہیں ؟انسانی حقوق کی دعوے دار تنظیمیں کہاں گئیں۔ انسانی تاریخ کی اس سب سے بڑی نسل کشی پر کوئی آواز اُٹھانے والا نہیں ہے ۔ یہ کونسی جنگ ہے کہ ایک طرف نہتےاور بھوکے پیاسے خواتین اور بچے ہیں اور دوسری طرف اسرائیلی فوج ان پر بمباری کر رہی ہے۔ یہ بڑا ہی درد ناک سانحہ ہے اور اس میں سب سے افسوسناک کردار عالم اسلام کا ہے ۔ 57 مسلم ممالک ہیں اور وہ اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ رفح کراسنگ کھلوا کر امدادی سامان ہی فلسطینیوں تک پہنچا دیں۔ یہ تمام مسلم ممالک اسرائیل کے ظلم میں اعانتِ مجرمانہ کا ذریعہ بن رہے ہیں۔اس نازک صورتحال میں جبکہ وقت گھنٹوں کے اعتبار سے گزر رہا ہے جس نے بھی جو کردار ادا کرنا ہے اس کو فوری اقدامات کرنے چاہئیں ، OICکو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور اقوام متحدہ پر دباؤ بڑھانا چاہیے ۔ مغرب کی یونیورسٹیز بھی اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے کر رہی ہیں۔ اسی طرح کے مظاہروں نے ویت نام کی جنگ بند کروا دی تھی ۔ اسرائیل تو بے شرمی اور ڈھٹائی کی حدکراس کر چکا ہے ، اس نے تہیہ کر لیا ہے کہ چاہے اسے انسانیت کا قاتل اور دشمن ہی کیوں نہ سمجھا جائے اس نے ہر صورت میں اپنا ٹارگٹ حاصل کرنا ہے اور وہ ٹارگٹ یہ ہے کہ غزہ کو مٹا کر وہاں بفر زون بنانا ہے ۔ اس ٹارگٹ میں اگر کوئی رکاوٹ بن سکتے ہیں تو وہ مسلم ممالک بن سکتے ہیں جنہوں نے اپنا کردار اب تک ادا نہیں کیا جو اب بھی اگر طے کرلیں تو کم زکم 15 لاکھ فلسطینیوں کی جان بچ سکتی ہے ۔
سوال:سات اکتوبر 2023 ءسے لے کر آج تک اسرائیلی مظالم کے خلاف پوری دنیا میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔پوری دنیا کی یونیورسٹیوں میںاس کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں لیڈنگ دینی جماعتوں (جماعت اسلامی ، تنظیم اسلامی اوربعض دیگر) نے بھی ملک گیر سطح پر آواز اُٹھائی ہے، اپنی بساط کے مطابق امداد بھی اہل غزہ تک پہنچائی ہے ۔ تنظیم اسلامی نے ایک آگاہی مہم بھی لانچ کی ۔ اسی طرح کی ایک مہم جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سابق سنیٹر مشتاق احمد خان اور ان کی اہلیہ نے بھی اسلام آباد میں سیو غزہ (Save Gaza) کے نام سے شروع کی اور اس کے تحت ایک دھرنا دیا ۔ اسی دھرنے میں شریک دو افراد کو نہایت مشکوک انداز میں شہید کر دیا گیا ۔ کہا یہ جارہا ہے کہ اصل ٹارگٹ مشتاق احمد خان تھے۔ آپ یہ بتائیے کہ پاکستان میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز اُٹھاناکیا بلا جوازہے اور آواز اُٹھانے والوں کے خلاف اس طرح کا ایکشن کرنا کیا کوئی جواز رکھتا ہے ؟ کیا حکومت پاکستان ان مجرموں تک کبھی پہنچ پائے گی ، پاکستان میں یہ کیا چل رہا ہے ؟
رضاء الحق:انتہائی افسوسناک اور اندوہناک خبریں ہیں جو سامنے آرہی ہیں ۔ بے شک اس وقت فلسطین کے مسلمان انتہائی آزمائش میں ہیں لیکن یہ آزمائش باقی مسلم ممالک اور بالخصوص پاکستان کے مسلمانوں کی بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط}’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔‘‘(الملک :2)
فلسطین کے مسلمان تو اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر اور استقامت کا پہاڑ بن کر اس آزمائش میں کامیابی حاصل کر رہے ہیںاور ان کو اس کا اجر ان شاء اللہ مل جائے گا لیکن اس امتحان میں اُمت مسلمہ کہاں کھڑی ہے؟ بعض مسلم ممالک نے تو اسرائیل کے حق میں بھی بیانات دیے۔ اگرچہ چند مسلم ممالک نے اسرائیل کے خلاف بیانات دیے لیکن عملی طور پر وہ بھی مظلوم فلسطینیوں کے حق میں کچھ نہیں کر سکے ۔ حدیث میں وہن کی جس بیماری کا ذکر ہے بالکل وہی صورتحال ہے کہ دنیا سے محبت اور موت سے نفرت مسلمانوں میںپیدا ہو چکی ہے ۔ دنیا کی محبت ہے کہ سعودی عرب نیوم سٹی بنا رہا ہے جس پر کئی سو بلین ڈالرز خرچ ہوں گے۔ اس کے لیے ان کے پاس وقت بھی ہے ، سرمایہ بھی ہے ، وسائل اور صلاحیت بھی ہے لیکن غزہ کے مسلمانوں کی مدد کے لیے سوائے خاموشی کے ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔ یہی حال ترکی اور مصر کا بھی ہے ۔ مصر کے ساتھ رفح کا بارڈر ہے جہاں اہل غزہ کے لیے امدادی سامان لانے والے ٹرکوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں لیکن ان کو آگے نہیں آنے دیا جارہا ۔ مسلم ممالک کے عوام نے کسی حد تک اسرائیل کے خلاف احتجاج کیا ہے لیکن حکومتیں اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہیں ، وہ اسرائیل کو اپنی بحری اور فضائی حدود فراہم کر رہی ہیں ، فیول فراہم کر رہی ہیں ۔ مغرب کی یونیورسٹیاں اسرائیلی مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں لیکن پاکستانی یونیورسٹیز میں امریکہ سے ٹرانسجینڈرز کے میوزیکل بینڈ بلائے جارہے ہیں ، ڈانس اور میوزک کے شو ہو رہے ہیں ، مقابلے ہو رہے ہیں ، ہولی کا تہوار منایا جارہا ہے ۔ سب سے افسوسناک وہ حادثہ ہے جو اسلام آباد میںSave Gazaکے نام سے جاری دھرنے کے دوران پیش آیا کہ دھرنے میں شریک دو افراد کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا ۔ اس واقعہ پر بہت سے سوالات اُٹھتے ہیں کہ وہ کون تھا جس نے پولیس کی موجودگی میں دھرنے میں شریک دو افراد کوگاڑی سے کچل کر شہید کر دیا ۔ حالانکہ وہ ریڈ زون ایریا ہے ۔ پھر موقع پر سی سی ٹی وی کیمرے کیسے بند ہوگئے۔ وہ شخص جو گاڑی میں موجود تھا اس کے خلاف پولیس نے ایکشن کیوں نہ لیا حالانکہ اس نے تین مرتبہ مظاہرین کو کچلنے کی کوشش کی اورجہاں پر سینیٹر مشتاق احمد خان تھوڑی دیر پہلے موجود تھے اسی جگہ اس نے گاڑی چڑھا دی اور دو لوگوں کو شہید کر دیا ۔ اس کے بعد وہ شخص گاڑی سے اُتر کر پولیس والوں کے پاس کھڑا رہا ہے ۔ یہ ساری صورتحال یہ ظاہر کرتی ہے کہ ریاست کے اندر ریاست بن چکی ہے ۔ آئینی تقاضا تو یہ ہے کہ ہر ادارہ اپنی آئینی حدود و قیود کے اندر کام کرے اور جزا و سزا کا معاملہ صاف و شفاف ہو کہ جو بھی اس میں ملوث ہے اس کے خلاف کیس چلے، تحقیقات ہوں اور پھر اس کو قرارواقعی سزا دی جائے چاہے اس کا تعلق کسی بھی ادارے سے کیوں نہ ہو ۔ مگر جہاں عدلیہ کے ججز بھی انصاف مانگ رہے ہوں تو وہاں انصاف کیسے قائم ہو گا ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تک اسلام کا نظام عدل اجتماعی قائم نہیں ہوتا یہاں پر کسی کو انصاف نہیں مل سکتا ۔
سوال:ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں شہادت ہوئی ۔ یہ بتائیے کہ یہ ایران اور امت مسلمہ کے لیے کتنا بڑا سانحہ اور نقصان ہے ؟ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جس طرح جنرل ضیاء الحق کو شہید کیا گیا تھا یہ بھی اسی طرح کی ٹارگٹ کلنگ تھی۔اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے ؟
فرید احمد پراچہ:یہ واقعی ایک بڑا الم ناک سانحہ ہے،یہ واقعی ایک بڑا نقصان ہے کیونکہ ابراہیم رئیسی عالمی لیڈر کے طور پر اُبھر رہے تھے ۔ چین کے ساتھ بھی ان کے تعلقات بڑھ رہے تھے اور سعودی عرب سے بھی ان کے دور میں تعلقات معمول پر آئے۔ جس طرح ان کی شہادت ہوئی اس کو حادثہ نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ وہاں دو ہیلی کاپٹر اور بھی تھے اور کہا جارہا ہے کہ جب انہوں نے سفر شروع کیا تو موسم ٹھیک تھا ۔ پھر اچانک ایک ہیلی کاپٹر غائب کیسے ہوگیا ۔ اس معاملے پر کئی سوالات اُٹھ رہے ہیں ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عام طور پر پائلٹ پاسداران انقلاب کا ہوتا تھا لیکن اس وقت پائلٹ کوئی اور تھا ۔ عین موقع پر مسافروں کی ترتیب بھی بدلی گئی تھی ۔ یہ بالکل اس طرح کا حادثہ ہے جو جنرل ضیاء الحق کو پیش آیا ۔ امریکہ کی اس حوالے سے ایک پوری تاریخ ہے اور ایسے ثبوت سامنے آچکے ہیں کہ 32 سربراہان مملکت کو امریکہ نے قتل کروایا ۔ آج کے دور میں ٹیکنالوجی کے ذریعے بڑی آسانی سے ایسے حادثے کروائے جا سکتے ہیں ۔ اسرائیل پر ایرانی حملے کو بھی ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اور بظاہر نظر آرہا تھا کہ کوئی جوابی کارروائی کی جائے گی ۔ اب وہاں 8 جولائی کو الیکشن کا اعلان کر دیا گیا ہے ۔ تاہم یہ ایران کا اندرونی معاملہ ہے ۔ عالمی سطح پر ابراہیم رئیسی کی شہادت سے جو خلاء پیدا ہوا ہے اس کو سعودی عرب اور پاکستان کو مل کر پورا کرنا چاہیے تاکہ سعودی عرب ، ایران اور پاکستان کے درمیان خلیج نہ بڑھے اور نہ ہی بات عالمی ایجنڈے کی طرف نہ جائے ۔ اس سے روکنے کے لیے امت کے اکابرین کو خود اپنے فیصلے کرنے چاہئیں ۔
رضاء الحق:ایرانی صدر کی رحلت ایران کے لیے بھی اور امت مسلمہ کے لیے بھی بہت بڑا نقصان ہے جس ہیلی کاپٹر میں ابراہیم رئیسی سوار تھے، اس ہیلی کاپٹر میں یہ خاصیت بھی ہوتی ہے کہ اگر دونوں انجن بھی فیل ہو جائیں تو تب بھی وہ بآسانی لینڈ کر سکتا ہے ۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ دوسرے دو ہیلی کاپٹرز کو حادثہ کیوں پیش نہ آیا ۔ اگرچہ امریکی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ ہمارا اس میں کوئی ہاتھ نہیں ہے لیکن یہ چور کی داڑھی میں تنکے والے بات ہے۔ پھر یہ کہ ایسے حادثے اندرونی ملی بھگت کے بغیر نہیں ہوتے ۔ ابراہیم رئیسی کی خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے کبھی قومی مفاد پر سمجھوتہ نہ کیا ۔ پھر یہ کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانے میں بھی ان کا اہم کردار تھا ۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے ۔ بہرحال ہماری دعا بھی ہے جو بھی اگلا ایرانی صدر آئے وہ امت مسلمہ کے لیے بہتری کا باعث بنے ۔
سوال:ایرانی صدر کی شہادت کے بعدجو رجیم چینج ایران میں ہونے والی ہےاس سے خطے میں ہماری یا عالمی سیاست پر کیا اثرات پڑنے والے ہیں ؟
فرید احمد پراچہ: ایران میں انقلاب کے بعد سے کمانڈ اینڈ کنٹرول کا ایک پورا نظام ہے جو بہرحال ایک مضبوط طریقے سے چل رہا ہے ۔اس کے خلاف کئی لہریں پیدا بھی ہوئیں مگر وہ اس طرح کامیاب نہیں ہو سکیں کیونکہ ابھی انقلاب کی بڑی شخصیت خامنہ ای صاحب موجود ہیں ۔ لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ ایران میں رجیم چینج سے کوئی بڑی تبدیلی آئے گی ۔ ایران کی جو پالیسی ہے وہ اسی پر قائم رہے گا ۔
رضاء الحق:اگر خدا نخواستہ ایرانی صدر کی شہادت ایک ٹارگٹ کلنگ ہے تو یہ باقی مسلم حکمرانوں کے لیے ایک میسج بھی ہو سکتا ہے کہ عالمی سامراج سے بغاوت نہ کی جائے ۔ اصل بات یہ ہے کہ امریکہ ، اسرائیل اور انڈیا کی صورت میں ابلیسی اتحاد ثلاثہ اپنی جگہ قائم ہے۔ یہ تینوں ممالک کوشش کرتے رہیں گے کہ ہر صورت میں اپنی اجارہ داری قائم رکھیں ۔ اس کے مظاہر پوری دنیا میں نظر بھی آرہے ہیں ۔ ہمارا کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ مسلمان ممالک کم ازکم غزہ کے معاملے میں متحد ہو کر ایک عملی کردار ادا کریں ۔ زبانی کلامی باتوں سے کچھ نہیں ہوگا ۔ آج غزہ پر قبضہ کیا جارہا ہے تو کل کسی پڑوسی مسلمان ملک کی باری بھی آسکتی ہے ۔ ظاہر ہے اسرائیل اپنے مذموم مقاصد سے رُک تو نہیں جائے گا ۔ گریٹر اسرائیل کا پلان بہت واضح ہے اور بن گوریان 1967ء میں کہہ چکا ہے کہ پاکستان ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ جب ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے معاملات چل رہے تھے تو اس وقت نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ہماری خواہش ہے کہ ان دونوں ممالک یعنی ایران اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام رول بیک ہو جائیں ۔ لہٰذا ہمیں بھی خوابِ خرگوش سے باہر آنا چاہیے اور اپنا نظریاتی اور عملی دفاع مضبوط کرنا چاہیے ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025