(منبرو محراب) مرغوباتِ دنیااور طلبِ آخرت - ابو ابراہیم

10 /

مرغوباتِ دنیااور طلبِ آخرت

(سورۃ آل عمران کی آیات 14 تا 17 کی روشنی میں)

 

جامع مسجدقرآن اکیڈمی، کراچی میںامیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے 24مئی2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ، یہاں ہمارے لیے وسائل بھی رکھے اور ان کے استعمال کی ترغیب بھی دلائی ۔ گھر اور خاندان کا نظام دیا اور کچھ چیزوں کی محبت بھی بندوں کے دل میں رکھ دی ، ان محبتوں کی حکمت بھی ہے اور ضرورت بھی ہے تاکہ دنیا کا نظام چلتا رہے البتہ یہ عارضی معاملہ ہے ، دنیا بھی عارضی ہے اور اس کی محبتیں اور ضرورتیں بھی عارضی ہیں ۔ مستقل اور بہتر معاملہ آخرت کا ہے ۔ اصل حکمت یہ ہے کہ انسان آخرت کی زیادہ فکر کرے ۔ اسی حوالے سے سورہ آل عمران کی آیات 14 تا 17 میں توجہ دلائی گئی ہے ۔ فرمایا :
{زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ}’’مزین کر دی گئی ہے لوگوںکے لیے مرغوباتِ دنیا کی محبت جیسے عورتیں اور بیٹے‘‘ ۔(آل عمران :14)
زوجین میں اللہ نے مودّت اور رحمت رکھی ہے اور اسے اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی ( من آیات اللہ) قرار دیا ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے عورتوں کی محبت کا ذکر کیا ۔ کوئی شک نہیں ہے کہ مردکے لیے عورت میں کشش رکھی گئی ہے ۔ اللہ تعالی نے انسان میں ایک جذبہ بھی رکھا ہے جس کو ہم خواہشِ نفس کہتے ہیں جس کی تکمیل کے لیے نکاح کا پاکیزہ راستہ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا اور زنا کو حرام قرار دیا کیونکہ زنا کا راستہ تو بیماریوں کی طرف بھی لے جاتا ہے، گندگیوں کی طرف بھی لے جاتا ہے،انسانی زندگیوں کی تباہی، گھروں کی تباہی اور معاشرے کی تباہی کا باعث بنتا ہے ۔یعنی یہ کشش اور محبت اگر صحیح رخ پر نہ رہے تو گناہ اور اللہ کے عذاب کا باعث بنتا ہے ۔ اس لحاظ سے اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ : ((مَا تَرَکْتُ بَعْدِیْ فِتْنَۃً اَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ)) ’’میںنے اپنے بعد مَردوں کے لیے عورتوں کے فتنے سے زیادہ ضرر رساں فتنہ اور کوئی نہیں چھوڑا۔‘‘
اس فتنہ سے بچنے کے لیے اللہ کے نبی علیہ السلام نے دعا بھی سکھائی ہے :
((اللھم انی اعوذبک من فتنۃ النساء)) ’’اے اللہ! میں تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں عورتوں کے فتنے سے۔ ‘‘
مردو زن کے مابین جو جذبہ ، کشش اور محبت اللہ نے رکھی ہے اس کے لیے اللہ نے نکاح کا پاکیزہ راستہ عطا کیا ۔ اس راستے پر چلیں گے تو یہ محبت صحیح رُخ پر رہے گی اور گھر بنیں، خاندان کا نظام چلے گا ۔ اسی طرح اولاد کی محبت بھی رکھ دی گئی ۔ اسی محبت کی وجہ سے بندہ گھر کا نظام چلانے کے لیے محنت مزدوری کرے گا ، کاروبار کرے گا ، کوئی انجینئر بنے گا، کوئی ڈاکٹر بنے گا اور اس کے نتیجہ میں معاشرے کا نظام چلتا ہے ۔ یعنی نکاح کی صورت میں گھر بنتے ہیں ، معاشرے تعمیر ہوتے ہیں۔ معاشرےکو چلانے کے لیے ڈاکٹرز بھی چاہئیں ، انجینئرز بھی چاہئیں ، ہر فیلڈ کے لوگ چاہئیں تو یہ سب کہاں سے آئیں گے ؟ ظاہر ہے یہ ثمرات نکاح سے ہی حاصل ہوں گے ۔ پھر اولاد جوان ہوتی ہے تو بڑھاپے میں والدین کا سہارا بنتی ہے ۔لہٰذا یہ جو محبتیں گنوائی گئی ہیں ان کی اپنی ایک حکمت ہے۔ آگے فرمایا :
{وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَـرَۃِ مِـنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ط} ’’اور جمع کیے ہوئے خزانے سونے کے اور چاندی کے‘اور نشان زدہ گھوڑے‘اور مال مویشی اور کھیتی۔‘‘ (آل عمران :14)
سونا چاندی ، مویشی ، فصل ، اناج ، جائیداد یہ سب چیزیں مال کی حیثیت رکھتی ہیںاور ان میں اب کرنسی کا بھی اضافہ ہوگیا ہے ۔ اس مال کی محبت بھی انسان کے اندر رکھ دی گئی ہے اور اس کی ضرورت بھی انسان کو ہوتی ہے تاکہ زندگی کا نظام ،معاشرے کا نظام چلتا رہے ۔ دنیا کے معاملات کو چلانے کے لیے اس مال کو اللہ نے سبب بنایا ہے ۔ ظاہر ہے مارکیٹس بنیں گی ، تجارت ہوگی ، محنت مزدوری ہوگی تو انسان کچھ کمائے گا اور اس کی ذاتی ضروریات بھی پوری ہوں گی ، گھر کا نظام بھی چلے گا ، معاشرے کا نظام بھی چلے گا۔ یہ ساری محبتیں ، یہ ضرورتیں ، یہ گھر کے معاملات ،یہ بیوی بچوں کے معاملات ،یہ کاروبار ،نوکری ، یہ سب چیزیں ضروری ہیں ، ان میں حکمت بھی ہے کیونکہ اس دنیا کے معاملات کو اللہ تعالی اسباب کے تحت چلا رہا ہے البتہ فرمایا:
{ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج } ’’یہ سب دُنیوی زندگی کا سروسامان ہے۔‘‘ (آل عمران :14)
متاع کیا ہے ؟ دنیا کا ایک حقیر سا سامان ۔ اس بات کو کئی اعتبارات سے سمجھایا گیا ۔ عرب کی ایک مثال دی گئی کہ ایک کپڑا جو کہ ناپاک ہو گیا تھا ، ایک خاتون نے دھو کر سوکھنے کے لیے لٹکایا۔ اب آپ غور کریں وہ کپڑا جو ناپاک ہے ، اس کو جب دھویا جائے تو اس وقت بدبو آتی ہے پھر سوکھتا ہے تو وہ بدبو ختم ہو جاتی ہے ۔ اس خاتون نے وہ کپڑا دھو کر سوکھنے کے لیے لٹکایا ، ایک کوا آیا اور وہ کپڑا لے کر چلا گیا ، وہ عورت چلائی میری متاع لے کر چلا گیا ۔ یعنی حقیر سی چیز لے کر چلا گیا۔ یہاں سے بھی متاع کی حقیقت کو سمجھیں ۔ یہ سارا دنیا کا معاملہ، یہ مال واسباب ،یہ دولت، خزانے، اور جائیدادیں بجا طور پر ایک حقیقت ہیں مگر اصل حقیقت نہیں ہیں ۔ یہ اثاثہ ہیں مگر اصل اثاثہ نہیں ہیں ۔ یہ دنیا کی زندگی کا حقیر سا سامان ہے ۔ اصل اثاثہ کیا ہے ؟ فرمایا :
{وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ(14)} ’’لیکن اللہ کے پاس ہے اچھا لوٹنا۔‘‘ (آل عمران :14)
ہم نے کتنے لوگوں کے جنازے پڑھے، کتنے لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کیا ؟کیا کفن میں کوئی جیب ہوتی ہے ، کوئی سونا چاندی ، روپیہ پیسہ ، مال جائیداد ساتھ لے کر گئے ؟ ہمارے سامنے کی بات ہے ۔ البتہ ہمارا دین بڑا پیارا ہے ۔ اس دین کے تابع ہو کر زندگی گزاریں گے تو ہمارا ہرعمل ہمارے لیے اثاثہ بن جائے گا ، ہر مال و متاع ہمارے لیے بخشش کا ذریعہ بن جائے گا ۔ شرط یہ ہے کہ ہم مکمل اسلام کے پیروکار بن جائیں ، صرف نماز یا جمعہ کی دو رکعت ، رمضان کے تیس روزے اور حج کے چند ایام نہیں بلکہ پورے دین میں داخل ہو کر ، ہر معاملے میں اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جھکا کر چلیں ۔ حدیث میں آیا کہ ایمان کے بعد سب سے بڑی دولت، سب سے بڑی نعمت نیک بیوی ہے ۔اب بعض لوگ حسرت کرتے ہیں جی ہماری بیوی تو نیک نہیں ہے ۔اللہ کے بندو ! خود نیک بنو گے تو بیوی بھی نیک بنے گی ۔ خود دین پر چلو گے ، دین کو ترجیح دو گے تو وہ بھی دین کو ترجیح بنائے گی ۔ اسی طرح اولاد کے بارے میں حدیث میں ذکر ہے کہ جب بندہ مر جاتا ہے تو اس کا نامہ اعمال بند ہو جاتاہے لیکن تین چیزیں ایسی ہیں جن کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے ۔ ایک صدقہ جاریہ ، دوسرا نافع علم اور تیسرا نیک اولاد جو والدین کے لیے دعا کرنے والی ہو ۔ اولاد کی جائز طریقے پر کفالت کریں ،اس کو اللہ کی بندگی کی طرف لائیں، محمد مصطفیٰ ﷺ کاسچا اُمتی بنائیں تو یہی اولاد ہمارا لیے ایک بڑا اثاثہ ہوگی ، ہمارے مرنے کے بعد بھی ہمارے لیے دعا کرے گی ،اجر کا باعث بنے گی۔ بصورت دیگر قرآن نے بتادیا :{وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌلا} ’’اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد فتنہ ہیں‘‘ (الانفال:28)
بیوی بچوں ، گھر والوں کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری ہورہی ہو ، ان کی خواہشات کی تکمیل کے لیے ذرائع آمدن میں جائز و ناجائز بھی نہ دیکھا جائے ، اللہ کے احکامات توڑے جارہے ہوں اور ہمارے چہرے کا رنگ بھی تبدیل نہ ہوتو اس کا مطلب ہے کہ دین ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہے ۔ ایسی صورت میں جو کمایا وہ بھی فتنہ اور جن کو کھلایا وہ بھی فتنہ ہیں۔ البتہ اگر دین ترجیحات میں ہو ، دین کے مطابق گھر والوں کی کفالت کریں ، ان کی جائز حاجات کو جائز طریقے پر پورا کریں ، ان کو دین کا پیروکار بنائیں تو وہی گھر والے ہمارے لیے صدقہ جاریہ اور آخرت کا اثاثہ بن جائیں گے ۔ اسی طرح مال کے بارے میں بھی آخرت میں سوال ہوگا : کہاں سے کمایا ، کہاں خرچ کیا ؟حرام ذرائع سے کمایا تو وہی مال جہنم کا انگارہ بن جائے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ حرام سے پلا ہوا جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا ۔ لیکن حلال ذرائع سے کمائیں گے تو وہی کمائی آخرت کا خزانہ بن جائے گی ۔ حلال رزق کمانے والے کے بارے میں حدیث میں فرمایا :
((الکاسب حبیب اللہ))’’رزق حلال کمانے والا اللہ کا دوست ہے۔ ‘‘
بہرحال یہ دنیا کی محبتیں دنیا کی ضرورت ہیں ، ان میں حکمت بھی ہے مگر یہ انسان کا اصل اثاثہ نہیں ہیں ۔ اصل اثاثہ کچھ اور ہے جس کی فکرسب سے بڑھ کر کرنی چاہیے ۔ اگلی آیت میں فرمایا:
{قُلْ اَؤُنَــبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ ط} ’’ان سے کہیے کہ کیا میں تمہیں بتائوں ان تمام چیزوں سے بہتر شے کون سی ہے؟‘‘ (آل عمران :15)
اللہ کے نبی علیہ السلام کے ذریعے ہمیں سمجھا یا جارہا ہےکہ جس دنیا میں تم نے دل لگا رکھا ہے ،جس دنیا کو تم نے مطلوب بنالیاہے اورجس کے پیچھے تم دوڑے چلے جا رہے ہو اس کے مقابلے میں وہ بہتر ہے جو اللہ کے پاس ہے ۔وہ کیا ہے ؟ آگے فرمایا :
{ لِلَّذِیْنَ اتَّـقَوْا عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُخٰلِدِیْنَ فِیْہَا}’’جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں ان کے لیے ان کے ربّ کے پاس ایسے باغات ہیں جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی‘ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘ (آل عمران :15)
خوفِ خدا دل میں ہو، اللہ کی نافرمانی سے بچتے بچتے زندگی گزارے اور دنیوی رویے ، تعلقات ، معاملات ، محبتیں اور محنتیں اللہ کے دین کے تابع ہوں۔ پورے کے پورے دین پر عمل ہو ، درمیان والا ، منافقت والا رویہ بھی نہیں چلے گا کہ جتنا دین اچھا لگا اس پر عمل کرلیا باقی چھوڑ دیا ۔ اللہ کے نزدیک اطاعت کرنے والا اور نافرمانی کرنے والا برابر نہیں ہوسکتے ۔ انسان کا عمل ، کردار ، اس کا طرززندگی بتا دیتا ہے کہ وہ کتنا دین پر عمل پیرا ہے ۔ اللہ کی جنت اتنی سستی نہیں ہے ،جان لگائے بغیر ، محنت کیے بغیر مہینے کی تنخواہ نہیں ملتی تو بغیر عمل کے جنت کیسے مل جائے گی۔ تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ ہر لمحہ انسان اللہ سے ڈرتا رہے ، اللہ کی نافرمانی سے بچتا رہے تو ایسے لوگوں کے لیے جنت کی خوشخبری ہے جس کے دامن میں نہریں بہتی ہوں گی ۔ سورہ محمد میں چار قسم کی نہروں کا ذکر ہے ۔ صاف و شفاف پانی کی نہریں جن کا رنگ اور ذائقہ کبھی تبدیل نہیں ہوگا ۔ اسی طرح صاف شفاف دودھ کی نہریں ،شہد کی نہریں اور پاکیزہ شراب کی نہریں ۔ پھر نہر کوثر کا ذکر بھی حدیث میں آیا ۔ اللہ کے پیغمبرﷺ فرماتے ہیں کہ اس کا مشروب برف سے زیادہ ٹھنڈا ، دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہو گا۔ حضرت عمر؄ سے مخاطب ہو کر فرمایا : ’’اے عمر !اس نہر سے بڑے بڑے پرندے پی رہے ہوں گے جن کی گردنیں اونٹوں کی گردنوں کی طرح ہوں گی اور ایمان والوں کو بھی پلایا جائے گا ۔‘‘ حضرت عمر؄ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ! وہ پرندے کتنے مزے میں ہوں گے ۔ فرمایا :’’ اے عمر ! سوچو ان پرندوں کا گوشت جو اہل ایمان کھائیں گے تو وہ کتنے مزے کریں گے ۔‘‘ زیر مطالعہ آیات میں آگے فرمایا :
{وَاَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ} ’’اور ان کے لیے بڑی ہی پاک عورتیں ہوں گی۔‘‘ (آل عمران :15)
مفسرین نے فرمایا کہ اگر دنیا میں بیوی نیک تھی لیکن شوہر بدکار تھا تو اللہ تعالیٰ بیوی کو جنت میں نیک مرد عطا فرمائے گا، اگر مرد نیک تھا اور بیوی نافرمان تھی تو اس مرد کو نیک بیوی عطا فرمائے گا ۔ اگر دنیا میں شوہر اور بیوی دونوں نیک ہوں تو اللہ تعالیٰ جنت میں دونوں کو ملا دے گا ۔ جنت میں کوئی شر نہیں ہوگا ، کوئی منفی بات ، بری بات نہیں ہوگی ۔ دنیا میں تو نماز پڑھ کر باہر نکلو تو طرح طرح برائیاں کی سامنے آجاتی ہیں لیکن جنت پاکیزہ مقام ہے ، وہاں سب کچھ پاکیزہ ہوگا ۔ ہم میں سے کتنے لوگ فکر مند ہیں کہ ہم اور ہمارے گھر والے جنت میں ساتھ ہوں، ہم میں سے کتنے لوگ فکر مند ہیںکہ کل قیامت کے دن ہمیں ذلت نہ اٹھانی پڑے ،ہم میں سے کتنے لوگوں کو یقین ہے کہ دنیا عارضی اور فانی ہے جبکہ آخرت دائمی ہے ۔کیا ہمارا طرز عمل یہ ثبوت پیش کر رہا ہے کہ ہم آخرت کے طلبگار ہیں ؟ میں کن لوگوں کو اولاد کے سامنے رول ماڈل بنا کر پیش کرتا ہوں ، دنیا پرستوں کو یا آخرت کے طلب گاروں کو ؟ وہی میں اپنی اولاد کی تربیت کر رہا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت کا طلب گار بنائے ۔قرآن میں جنتی گھرانوں کا ذکر بھی آیا ہے ۔ فرمایا:
{وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّـتَہُمْ}’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ان کی پیروی کی ایمان کے ساتھ‘ ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ان کی اس اولاد کو‘‘( طور: 21 )
آج بچے کی انگلش کمزور ہے تو ٹینشن ہے ، بچے کا ایمان کمزور ہے ، نماز کمزور ہے تو اس پر بھی کوئی ٹینشن ہے؟گھر میں ڈاکہ پڑ گیا ، کوئی چیز غائب ہوگئی تو پریشانی ہے ، اولاد کا ایمان لٹ گیا ، دین گھر سے چلا گیا اس کی بھی کوئی فکر ہے؟ جبکہ جنتی گھرانوں کی نشانی یہ بتائی کہ ان کے ہاں  اوّلین ترجیح ایمان ہوگا ۔ آگے فرمایا :
{وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ ط} ’’اور(سب سے بڑھ کر) اللہ کی خوشنودی ہو گی۔‘‘ (آل عمران :15)
اول تو جنت ہی اتنی بڑی نعمت ہے کہ انسان اس کا تصور نہیں کر سکتا ۔ حدیث میں آتا ہےکہ اللہ عزوجل نے ارشادفرمایا: میں نے اپنے نیک بندوں کےلیے وہ کچھ تیار کررکھا ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے ،نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال تک گزرا ہے۔اس دنیا میں تو انسان جہاں نہیں جا سکتا وہاں کا تصور کرلیتا ہے ، امریکہ ، چائنا ، سوئٹرز لینڈ کے پہاڑ کیسے ہوں گے ، گوگل میں سرچ کرکے دیکھ سکتا ہے مگر اللہ کی جنت ایسی چیز نہیں ہے کہ انسان اس کا تصور بھی کرسکے ۔ پھر جنت میں انسان کو جو نعمتیں ملیں گی ان کا بھی انسان شمار نہیں کر سکتا۔ لیکن اس سب سے بڑھ کر اللہ کی رضا بھی حاصل ہو گی ۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں سے پوچھے گا: اے میرے بندو ! تمہیں کیا چاہیے ؟ اہل جنت کہیں گے ۔ اےہمارے رب ! تو نے جہنم سے بچا کر جنت عطا کردی، اس قدر نعمتیں جنت میں موجود ہیں اور ہمیں کیا چاہیے ۔اللہ فرمائے گا : میں تم سب سے ہمیشہ کے لیے راضی ہوا ،یعنی کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔ انسان کے لیے سب سے بڑی دولت ، سب سے بڑا اثاثہ رب کی رضا ہے ۔ وہ اسے حاصل ہو جائے گی ۔ لیکن اس سے بھی آگے بڑھ کر اللہ جو سب سے بڑی نعمت عطا فرمائے گا وہ اللہ کا دیدار ہوگا ۔ اللہ پردے کو ہٹائے گا اور اپنا دیدار اپنے بندوں کو کرائے گا ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے چودھویں کے چاند کی طرف اشارہ کرکے فرمایا : اے میرے صحابہ ! کیا تم اسے دیکھتے ہو ، کیا کوئی شک و شبہ یا رکاوٹ ہے ؟ صحابہ؇ نے کہا یا رسول اللہ ﷺکوئی شک نہیں، کوئی رکاوٹ نہیں۔ فرمایا : اسی طرح تم اپنے رب کا دیدار جنت میں کرو گے ۔ جنت کا ایک غوطہ جس بندے نے لے لیا وہ دنیا کی ساری مشقتیں اور تکالیف بھول جائے گا۔ جب جنت میں ہوگا تو اس کی راحتوں کا عالم کیا ہوگا لیکن اس سے بھی بڑھ کر جب بندہ اپنے رب کا دیدار کرے گا تو عالم کیا ہو گا۔ آگے فرمایا:
{وَاللہُ بَصِیْرٌ م بِالْعِبَادِ(15)} ’’اور اللہ اپنے بندوں کو دیکھ رہاہے۔‘‘ (آل عمران :15)
اللہ دیکھ رہا ہے کہ کون اس دنیا کا طالب ہے اور کون آخرت کا طالب ہے ۔ یہ اللہ کا دیکھنا دونوں اعتبارات سے ہے ۔فرمانبرداروں کے لیے تسلی اور نافرمانوں کے لیے اللہ کی طرف سے تنبیہ اور وارننگ کا معاملہ ہے۔جو جنت کے طالب ہیں ان کی نشانیاں اللہ بتا رہا ہے ۔ فرمایا:
{اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّـنَـآ اِنَّــنَــآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَـنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(16)} ’’جو یہ کہتے رہتے ہیں پروردگار! ہم ایمان لے آئے‘پس ہمارے گناہوں کو بخش دے‘ اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔‘‘ (آل عمران :16)
ایمان کتنی بڑی نعمت ہے ان نو مسلموں سے پوچھئے جو ہم مسلمانوں کو کہتے ہیں : تم بڑے خوش قسمت ہو کہ تمہارے ماں باپ کلمہ پڑھ کے دنیا سے گئے ،تم کم از کم ان کے لیے دعا تو کر سکتے ہو، ہمیں پریشانی ہے کہ اگر ہمارے والدین ایمان لائے بغیر دنیا سے چلے گئے ہم ان کے لیے دعا بھی نہیں کر سکیں گے ۔اللہ کے ہاں کامیاب ہونے کے لیے ایمان شرط ہے ۔ ایمان کے بغیر نجات نہیں ہے ۔فرعون کے پاس سب کچھ تھا ، ایمان نہیں تھا ، غرق ہوا اور اللہ نے نشان عبرت بنایا۔ ابو جہل کے پاس بھی سرداری تھی ، مال تھا سب کچھ تھا مگر ایمان نہیں تھا لہٰذا جہنم میں جائے گا ۔ یہاں جنتیوں کی پہلی علامت یہ بتائی کہ وہ دنیا میں رہتے ہوئے اللہ سے التجا کرتے رہتے تھے کہ اے اللہ ! ہم ایمان لے آئے ، ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف گناہ پر ہی معافی مانگی جاتی ہے حالانکہ یہاں متقین کا ذکر ہورہا ہے جو گناہوں سے بچتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ اللہ سے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ امام الانبیاءﷺسے بڑھ کر کون متقی ہوگا لیکن آپ ﷺ ہر فرض نماز کے بعد جب سلام پھیرتے تھے تو یہ دعا مانگتے تھے :((اللہ اکبر، استغفراللہ ، استغفراللہ ،استغفراللہ ))۔ آپﷺ معصوم ہوکراللہ کے سامنے جھکنے کے بعد استغفار کررہے ہیں تواُمت کو کتنا استغفار کرنا چاہیے ؟یہ نکتہ اگر ذہن میں ہوتو بڑے سے بڑا نمازی ، حاجی ،روزہ دار،مال خرچ کرنے والاکبھی اکڑ دکھائے گا؟ اس کو تو فکر لگی ہوگی کہ پتا نہیں قبول ہو گا یا نہیں ہوگا ۔ قرآن انسان کی اس طرح تربیت کرتاہے ۔ تیسری علامت جنتی کی یہ بتائی کہ وہ اللہ سے التجا کرتا ہے کہ جہنم کے عذاب سے بچا لے ۔ حالانکہ متقی ہے ، ایمان والا ہے ، نیک عمل والا ہے لیکن پھر بھی یہ دعا کر رہا ہے ۔ اس لیے کہ جہنم کی آگ کوئی معمولی آگ نہیں ہے ۔ سورۃ  النساء میں آتا ہے :
{کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنٰہُمْ جُلُوْدًا غَیْرَہَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ ط}’’اور جب بھی ان کی کھالیں جل جائیں گی ہم ان کو دوسری کھالوں سے بدل دیں گےتاکہ وہ عذاب کا مزا چکھتے رہیں۔‘‘ (آیت :56)
وہاں بندے کو موت نہیں آئے گی لہٰذا جہنمی کے لیے مسلسل عذاب ہوگا اور عذاب بھی ایسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے 69 گنا شدید ہوگی ۔ آج ذرا گرمی پڑ جائے تو ہم روم کولر ، اے سی اور کیا کیا جتن کرتے ہیں ، کیا جہنم کی اس شدید آگ کا خوف بھی ہمیں پریشان کرتا ہے ؟امام الانبیاءﷺ صبح و شام سات مرتبہ یہ پڑھتے تھے : ((اللھم اجرنی من النار))’’ اے میرے رب ! مجھے جہنم کی آگ سے بچا لے۔‘‘ اُمت کی ماں اماں عائشہ ؆ایک روزرورہی تھیں ۔ اللہ کے رسولﷺنے پوچھا : عائشہ ! کس چیز نے تمہیں رُلا یا ۔ عرض کی: مجھے جہنم کی آگ کا خوف رُلاتا ہے ۔ ذرا سوچئے پیغمبر ﷺ اور اُن کے گھرانے کو کتنا خوف تھا تو ہماری کیا اوقات ہے ، ہمیں کتنا خوف ہونا چاہیے ؟ قرآن جنتیوں کی ایک یہ علامت بھی بتا رہا ہے کہ وہ جہنم سے بچنے کی دعا مانگتے ہیں۔ مزید علامات کیا ہیں ؟ آگے فرمایا:
{اَلصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْمُنْفِقِیْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ(17)} ’’صبر کرنے والے اور راست باز‘اور فرماں برداراور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے‘ اور اوقاتِ سحر میں مغفرت چاہنے والے۔‘‘(آل عمران :17)
یہ علامات ہیں جنتیوں کی جو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان فرمائی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان علامات کا حامل بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین!