اداریہ
خورشید انجم
سیکولر یا اسلامی پاکستان؟
مملکت خداداد پاکستان کو قائم ہوئے ستتر (77) برس ہوا چاہتے ہیں۔ ایک ایسا ملک، جس کا قیام ہی خالص نظریاتی بنیاد پر کیا گیا تھا، اُس کے لیے اِس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے کہ پون صدی گزرجانے کے بعد بھی فکری اور نظریاتی سطح پر انتہائی پُر اثر طبقات کی جانب سے اس خطۂ زمین کو حاصل کرنے کی وجۂ جواز پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ آئے دن بھیس بدل بدل کر دانشور، تجزیہ نگار اور کچھ جدت پسند مذہبی سکالرز دعویٰ کر دیتے ہیں کہ بانیانِ پاکستان درحقیقت ایک سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔ یہ تو کچھ مولویوں کی ’’بددیانتی‘‘ تھی کہ اسلام کو زبردستی ریاست کے ساتھ نتھی کر نے کی کوشش کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان اسلام بے ز ار اور مغرب زدہ لوگوں کے سامنے جب قرآن وسنت اور دین کے دلائل رکھیں تو یہ انھیں ماضی کے قصہ کہانیاں کہہ کر سننے کو ہی تیار نہیں ہوتے۔ پھر یہ کہ تاریخی حقائق اور عدل پر مبنی تجزیہ پیش کیا جائے تو آگ بگولا ہو جاتے ہیں۔ ان کے منہ سے جھاگ اڑنے لگتا ہے اور اپنے نظریاتی حریف کو جاہل قرار دیتے ہوئے طعنہ دیتے ہیں کہ ملک آج بربادی کی جس نہج پر پہنچ چکا ہے اس کی وجہ تم مذہبی لوگ (مولوی) ہی ہو۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ پون صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا۔ ملک پر مستقل سیکولر حکمران ہی براجمان رہے ہیں۔ کبھی سویلین، کبھی فوجی اور کچھ عرصہ سے ہائبرڈ نظام کے تحت ملک کو چلانے والوں کے قول و فعل سے ظاہر و باہر ہے کہ پرکھنے کے تمام مُسَلَّمہ معیارات کے مطابق وہ سیکولر لبرل نظریہ اور طرز حکومت کے حامی رہے ہیں۔ پھر مذہبی طبقہ پر طعن وتشنیع کرنا چہ معنی دارد؟ بہرحال ریکارڈ کی درستی کے لیے واجب ہے کہ ہم اصل حقائق کو قارئین کے سامنے رکھ دیں۔ عدل کا تقاضا ہے کہ تاریخ کے دریچوں میں جھانک کر فیصلہ کیا جائے کہ اقبال اور قائد اعظم کا تصور پاکستان کیا تھا۔ مفکر ومبشر پاکستان علامہ محمد اقبال کے ذہن میں پاکستان کا دھندلا سا تصور بہت پہلے آگیا تھا اور اس کے بنیادی خدوخال ان کی انقلابی شاعری میں جا بجانظر آتے ہیں لیکن اس تصور کا شاید پہلا اور واضح اظہار انھوں نے 29 دسمبر 1930ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہ آباد کے صدارتی خطبہ میں ان الفاظ میں کیا تھا: ’’میں پنجاب ، سرحد، سندھ اور بلوچستان کو متحد ہو کر ایک واحد ریاست کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہوں جس کی اپنی حکومت ہو خواہ سلطنت برطانیہ کے تحت یا اس سے الگ اور مجھے نظر آرہا ہے کہ یہ متحدہ شمال مغربی مسلم ریاست کم از کم شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے تقدیر مبرم ہے۔‘‘
اس ضمن میں یہ اعتراض، کہ علامہ اقبال نے تو ہندوستان کے اندر برطانیہ کی حکومت کے تحت ایک ریاست کی تجویز دی تھی، غلط ہے۔ اوّل تو 1930 ءتک اس بات کا امکان ہی نظر نہیں آتا تھا کہ انگریز ہندوستان چھوڑ جائے گا۔ پھر اس وقت تجویز ہندوستان میں ہی مسلمانوں کے ایک صوبے یا سٹیٹ کی تھی جس میں مسلمان ہندوؤں سے الگ اپنے عقائد اور شناخت کو قومیت، کلچر اور زبانوں کے تھوڑے بہت فرق کے باوجود مل جل کر رہنے کے لیے قائم کریں۔ گویا دو قومی نظریہ کی توثیق کی گئی تھی۔ اسی لیے اقبال نے یہ کہا کہ ’’لہٰذا میں ہندوستان اور اسلام کے بہترین مفاد میں ایک الگ مسلم ریاست کے بنانے کا مطالبہ کرتا ہوں۔‘‘ مزید یہ بھی فرمایا کہ ’’اسلام کے لیے یہ ایک موقع ہو گا کہ عرب ملوکیت کے تحت اس پر جو پردے پڑ گئے تھے ان سے چھٹکارا حاصل کر سکے اور اپنے قوانین، تعلیمات اور ثقافت کو اپنی اصل روح کے ساتھ عصر حاضر سے ہم آہنگ کر سکے۔‘‘ اقبال کے ان دوٹوک کلمات کے باوجود بھی اگر کوئی ’’سیکولر، سیکولر‘‘ کی رَٹ لگانے پر بضد رہے تو پھر اس کا کیا علاج ہے۔ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بات کریں تو اُن کی قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں کم وبیش ایک سو ایسی واضح تقاریر اور اقوال ہیں جن کے مطابق مملکت پاکستان کے قیام کی واحد وجہ جواز ’’اسلام‘‘ ہے۔ 11 اکتوبر 1947ء کو یعنی قیام پاکستان کے چند ماہ بعد قائد اعظم نے سول، ملٹری اور ائیرفورس کے افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک نئی قوم (مملکت) کے معماروں کی حیثیت سے اپنی اہلیت و صلاحیت کے اظہار کا سنہری موقع عطا فرمایاہے اور دیکھنا ایسا ہرگز نہ ہو کہ دنیا یہ کہے کہ ہم اس عظیم کام کے اہل ثابت نہیں ہو سکے۔‘‘ پاکستان کے ٹھیٹھ اسلامی تشخص کے حوالے سے قائد اعظم محمد علی جناح کے چند دیگر اقوال کی شہ سرخیاں تبرکاً قارئین کی خدمت میں پیش ہیں:
6 جون 1938ء : ’’مسلم لیگ کا جھنڈا نبی اکرم ﷺ کا جھنڈا ہے۔‘‘
26 نومبر 1938ء: ’’اسلام کا قانون دنیا کا بہترین قانون ہے۔‘‘
8 اپریل 1938ء : ’’ملت اسلامیہ عالمی ہے۔‘‘
7 اگست 1938ء: ’’میں اول وآخر مسلمان ہوں۔‘‘
9 نومبر 1939ء: ’’مغربی جمہوریت کے نقائص۔‘‘
14 نومبر 1939ء: ’’ انسان خلیفۃ اللہ ہے۔ ‘‘
9مارچ 1940ء: ’’ہندو اور مسلمان دو جداگانہ قومیں ہیں۔‘‘
26 مارچ 1940ء: ’’ میرا پیغام قرآن ہے۔‘‘
ایک اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کا واویلا مچانے والوں کے لیے قائداعظم نے اپنے کئی خطابات میں یقین دہانی کرائی کہ اقلیتوں کو خوف نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اسلام ان کے حقوق کو مکمل تحفظ دیتا ہے اور ان کے ساتھ پاکستان میں فراخدلانہ سلوک کیا جائے گا۔ اس ضمن میں 29 مارچ 1944ءکی ایک تقریر جو سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور میں شائع ہوئی اس کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے: ’’مسٹر جناح نے غیر مسلم اقلیتوں کو یقین دلایا کہ اگر پاکستان قائم ہو گیا تو ان کے ساتھ رواداری، انصاف اور فیاضی کا سلوک کیا جائے گا۔ اقلیتوں کو یہ حقوق قرآن نے دیے ہیں اور مسلمانوں کی تاریخ ان کو یہی سبق سکھاتی ہے۔ البتہ بعض استثنائی صورتوں میں ممکن ہے کہ بعض افراد نے بدسلوکی کی ہو۔‘‘ جس ملک کا بانی اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے بھی معیار مغربی جمہوریت، سیکولرازم یا لبرل ازم کی بجائے قرآن اور مسلمانوں کی تاریخ کی روشن مثالوں کو قرار دیتا ہو (جن میں دور نبویﷺ اور خلافت راشدہ شامل ہیں) اس ملک کی بنیاد کو سیکولرازم قرار دینا صریحاً ظلم وزیادتی ہے۔ 11 اگست 1947 ء کی تقریر کے حوالے سے تو ہم اتنا ہی کہیں گے کہ جس تقریر کے واحد راوی جسٹس منیر ہوں اور اس کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ نہ ریڈیو پاکستان کے پاس موجود ہو، نہ آل انڈیا ریڈیو کے پاس، اس پر کلام لاحاصل ہے۔ یاد رہے کہ جسٹس منیر کی غلط بیانیوں پر برطانوی نژاد محقق سلینہ کریم نے دو کتابیں تحریر کیں اور سچی بات یہ ہے کہ تحقیق کا حق ادا کر دیا۔
بہرحال حقیقت یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد کےدو سال کے علاوہ پاکستان کی پون صدی کی تاریخ انتہائی تاریک ہے۔ سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطح پر ظلم کا نظام نافذ رہا۔ اشرافیہ نے لوٹ مار میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تمام اداروں خصوصاً سول اور ملٹری بیوروکریسی نے ذاتی اور گروہی مفادات کی خاطر ملکی مفاد داؤ پر لگا دیا۔ چھوٹے صوبوں اور مخصوص علاقوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کا معاملہ رہا۔ عوامی مینڈیٹ کو بار بار پامال کیا گیا اور نتیجتاً ملک کو 1971ء کا حادثہ پیش آگیا۔ سود جیسے گناہِ اکبر، جسے قرآن اللہ اور رسولﷺ سے جنگ قرار دیتا ہے ،اس میں ہم پون صدی سے ملوث ہیں اور آج حالت یہ ہو چکی ہے کہ آئی ایم ایف کا آہنی پٹہ ہماری گردن میں ہے جس کا شکنجہ روز بروز تنگ سے تنگ تر کیا جا رہا ہے اور ملک کی نظریاتی اساس اور سلامتی شدید ترین خطرے میں ہے۔ کشمیر جسے بانیٔ پاکستان نے ملکِ عزیز کی شہ رگ قرار دیا تھا اسے بھارت دبوچے ہوئے ہے اور ہماری حکومتیں متواتر اس معاملہ پر پسپائی اختیار کر تی جارہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اندر خانے اس کا بھی سودا کیا جا چکا ہے۔ قضیۂ فلسطین پاکستان کے ڈی این اے میں شامل تھا۔ 1940ءکو جب منٹو پارک میں قرارداد لاہور منظور کی گئی تو اسی دن اہلِ فلسطین کے حق میں بھی ایک قرارداد منظور ہوئی۔ پھر یہ کہ قائد اعظم نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے،فلسطینی مسلمانوں کی عسکری مدد بھی کی جائے گی۔ آج شاید اس پالیسی پر بھی سیکولر اشرافیہ نے یوٹرن لے لیا ہے اور غزہ کے مسلمانوں کے خلاف آٹھ ماہ سے جاری مسلسل اسرائیلی درندگی اور نسل کشی کے خلاف کوئی عملی قدم اٹھانا تو ایک طرف، پاکستان میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں پر بھی سخت ترین کریک ڈاؤن ہے۔ گویا پہیہ الٹا چل رہا ہے اور گاڑی کے ڈبے انجن کے آگے لگا دیے گئے ہیں۔ 28 مئی کو ’یومِ تکبیر‘ تو منایا گیا اور ملک بھر میں سرکاری چھٹی کا بھی اعلان کر دیا گیا لیکن وہ ’اسلامی بم‘ جو اللہ تعالیٰ کے خصوصی کرم سے ایک معجزہ کی صورت میںعطا ہوا تھا، آج شاید ایک چلے ہوئے کارتوس کی مانند ہے۔ ان حالات میں ملت اسلامیہ پاکستان کا ہر فرد اپنی اصل ذمہ داریوں کو محسوس کر کے ان کو ادا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو جائے ۔یہ اب ناگزیر ہو چکا ہےکہ ہم پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی ایٹمی پاکستان کے سانچے میں ڈھالیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیکولرازم اور لبرل ازم کے دھوکے سے باہر نکلا جائے اورہم سب اپنی ماضی کی کمزوریوں، کمیوں اور کوتاہیوں کی تلافی کرتے ہوئے پاکستان کوصحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے تن من دھن لگا دیں۔
اُٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا