حضرت موسیٰ ؑ کو عطا کیے گئے معجزات
آیت 31 {وَاَنْ اَلْقِ عَصَاکَ ط} ’’اور یہ کہ تم اپنی لاٹھی ڈال دو!‘‘
قرآن میں اس واقعہ سے متعلق مختلف مقامات پر مختلف تفصیلات ملتی ہیں۔
{فَلَمَّا رَاٰہَا تَہْتَزُّ کَاَنَّہَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ ط} ’’تو جب اُس نے دیکھا کہ وہ حرکت کر رہی ہے جیسے کہ سانپ ہوتووہ پیٹھ پھیر کر بھاگا اور اُس نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔‘‘
اس واقعہ کے حوالے سے سورۃ النمل میں بھی ان سے ملتے جلتے الفاظ آئے ہیں۔
{یٰمُوْسٰٓی اَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ قف اِنَّکَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ(31)} ’’(اللہ نے فرمایا:) اے موسیٰ! آگے آئو اور ڈرو نہیں‘تم بالکل ما ٔمون ہو۔‘‘
تم بالکل امن وامان میں رہو گے اور تمہیں کوئی گزند نہیں پہنچے گا۔
آیت 32 {اُسْلُکْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآئَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ ز} ’’اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو‘وہ نکلے گا سفید ہو کر بغیر کسی بیماری کے‘‘
{وَّاضْمُمْ اِلَیْکَ جَنَاحَکَ مِنَ الرَّہْبِ} ’’اور اپنا بازو اپنے ساتھ چپکا لو خوف سے (بچنے کے لیے)‘‘
خوف کی کیفیت کا سامنا کرنے کے لیے یہ ایک خاص ترکیب بتائی گئی کہ جب کبھی آپ ؑ کو کوئی خوف لاحق ہو تو اپنے بازو کو اپنی بغل کے ساتھ چمٹا لیجئے ‘اس طرح خوف کے اثرات زائل ہو جائیں گے۔
{فَذٰنِکَ بُرْہَانٰنِ مِنْ رَّبِّکَ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَائِہٖ ط} ’’تو یہ دو نشانیاں ہیں تمہارے ربّ کی طرف سے‘فرعون اور اُس کے سرداروں کی طرف۔‘‘
{اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ(32)} ’’یقیناً وہ بڑے نا فرمان لوگ ہیں۔‘‘
فرعون اور اس کے اَعیانِ سلطنت ایک فاسق ‘ فاجر اور سرکش قوم بن گئے ہیں۔ لہٰذا ان نشانیوں کے ساتھ ان کے پاس جائو اور انہیں
اللہ ربّ العالمین کی اطاعت و بندگی کی دعوت دو۔
درس حدیث
عالم دین اور داعی الی اللہ کا مقام
عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَالْبَاھِلِیّ ؓ قَالَ ذُ کِرَلِرَسُوْلِ اللہِ ﷺ رَجُلَانِ: اَحَدُھُمَاعَابِدٌ وَالْاٰخَرُ عَالِمٌ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ :((فَضْلُ الْعَالِمِ عَلٰی الْعَابِدِ کَفَضْلِی ْ عَلٰی اَدنَاکُمْ )) ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ:(( اِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہُ وَاَھْلَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ حَتّٰی النَّمْلَۃَ فِیْ جُحْرِھَا وَحَتّٰی الحُوْتَ لَیُصَلَّوْنَ عَلٰی مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَیْرَ ))(رواہ الترمذی )
حضرت ابوامامہ باہلی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے پاس دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا جن میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم (تو آپ ﷺ سے پوچھا گیا ان دونوں میں سے افضل کون ہے؟)تو آپ ﷺنے فرمایا :’’ عالم کو عابد پر ایسی فضیلت ہے جیسی کہ میری فضیلت اس شخص پر ہے جو تم میں سے سب سے ادنیٰ درجہ کا ہے۔‘‘ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا: ’’ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونیٹیاں اپنے بلوں میں اور پانی میں مچھلیاں اس کے لیے دعائے خیر کرتی ہیں جو لوگوں کو بھلائی کا درس دیتا ہے۔‘‘