(اداریہ) ہماری قربانیاں … - خورشید انجم

8 /
اداریہ
خورشید انجم
ہماری قربانیاں …
 
ندائےخلافت کا یہ شمارہ جب آپ کے ہاتھوں میں ہوگا تو عید الاضحی قریب ہی ہوگی۔سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپﷺ نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ نیروز اور مہرجان کے نام سے خوشی کے دو تہوار مناتے ہیں ۔تو آپ ﷺ نے انصار صحابہ کرام ؓ سے ان کے بارے میں پوچھا ، صحابہ کرامؓ  نے جواب دیا کہ جاہلیت میں ہم ان دونوں دنوں میں کھیلتے کودتے تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں کے عوض ان سے بہتر دو دن عطا فرمائےہیں ایک عید الاضحی کا دن، دوسرا عید الفطر کا دن۔ عید الاضحی بلا شبہ حج ہی کی توسیع کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے کہ حج کے تمام مناسک ایک متعین علاقے یعنی مکہ مکرمہ اور اس کے نواح میں ادا کیے جاتے ہیں۔ لیکن اس کے ایک رکن یعنی قربانی کو وسعت دے دی گئی تاکہ اس میں روئے ارضی پر بسنے والا ہر مسلمان شریک ہو جائے اور یہی عید الاضحی کی حکمت ہے۔اللہ کے نبی ﷺ سے جب پوچھا گیا کہ عید الاضحی کیا ہے؟ تو آپ ﷺنے جواب دیا:’’ تمہارے باپ حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے۔‘‘ حضرت ابراہیم ؑ جو کہ اللہ تعالیٰ کی ہر ہر آزمائش میں پورے اُترے۔ یہاں تک کہ جب ستاسی سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیل ؑ کی صورت میں بیٹا عطا فرمایا تو سو سال کی عمر میں حکم ہوا کہ اسے ہماری راہ میں قربان کر دو۔ اس اللہ کے بندے نے جب اپنے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے زمین پر لٹا دیا اور چھری گلے پر رکھ دی تو ان کا یہ عمل، یہ کارنامہ اتنا محیرالعقول تھا کہ ممتحن نے فیصلہ فرما دیا کہ بس تم کامیاب ہو گئے۔ تم نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ چنانچہ عید الاضحی حضرت ابراہیم ؑ کی اُس قربانی کی یاد ہے جو ہر سال منائی جاتی ہے۔ ہمیں یہاں قربانی کے مسائل اور فضائل بیان کرنا مقصود نہیں ۔ وہ تو علماء ِکرام بیان کرتے اور تحریر کرتے رہتے ہیں اور ہمارے قارئین بھی ان سے بخوبی واقف ہوں گے۔ لیکن اصل سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم ؑ کی اس سنت کو امت مسلمہ میں کیوں جاری و ساری فرمایا؟اللہ تعالیٰ نے سورۃ آلِ عمران میں فرمایا :{لَــنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْ ئٍ  فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِیْمٌ(92)} ’’تم ہرگز بھلائی کو نہیں پا سکو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز خرچ نہ کرو اور تم جو کچھ خرچ کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ نے اس طرح ہم پر واضح کر دیا ہے کہ انسان کو اپنی عزیز ترین متاع بھی، جب اللہ کا حکم آ جائے، تو اس کے راستے میں قربان کر دینی چاہیے۔ہر سال عید الاضحی ہمیں اس بات کی تربیت دیتی ہے کہ انسان کا مقصد ِپیدائش اللہ تعالیٰ کی بے چون و چرا اطاعت ہے۔ اس کی فرمانبرداری میں جب بھی حالات کا تقاضا ہو تو اپنی ہر شے قربان کر دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ پھر جبکہ حال یہ ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، اسی کا فضل اور اسی کا عطا کردہ ہے اور قرآن مجید میں مزید فرمایا :{اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَط یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ قف} (التوبہ:111)’’ بلاشبہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں بھی خرید لیں اور ان کا مال بھی، اور اس قیمت پر خرید لیں کہ ان کے لیے بہشت (کی جاودانی زندگی) ہو، وہ (کسی دنیوی مقصد کی راہ میں نہیں بلکہ) اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں، پس مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں۔‘‘جب ہم اپنی جانیں اور اموال اللہ کو فروخت کر چکے ہیں تو بیچے ہوئے مال کو ہی دوبارہ فروخت کر رہے ہیں۔لہٰذاہم تو اسی کا دیا ہوا اسی کے راستے میں قربان کرتے ہیں۔ اس میں ہمارا تو کوئی کمال نہ ہوا۔ لیکن وہ ارحم الراحمین اپنی رحمت کے صدقے سے اسےہماری طرف سے قربانی قرار دیتا ہے اور ہمیں آخرت میں اجر عظیم سے بھی نوازے گا۔ان شاء اللہ! قربانی کے حوالے سے  ہمارے رویے کیا ہیں؟ہمارے ہاں جو منکرین حدیث ہیں ان کا موقف ہے کہ قربانی کا ذکر حج کے بیان میں ہے لہٰذا یہ صرف حجاج کے لیے ہے اور ویسے بھی یہاں پر قربانی کا گوشت ضائع ہو جاتا ہے۔ اگرچہ قربانی کا ذکر حج کے بیان میں ہوا ہے لیکن دوسرے مقامات بھی ہیں جہاں قربانی کا تو ذکر ہے لیکن مناسک حج کا ذکر نہیں جیسا کہ سورۃ الکوثر میں فرمایا:
{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ(2)}’’پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔‘‘
اسی طرح آپ ﷺنے فرمایا : ’’تم میں سے کوئی بھی نماز عید سے پہلے قربانی نہ کرے۔‘‘علاوہ ازیں نبی اکرم ﷺکم وبیش 10 سال مدینہ منورہ میں رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے اور جہاں تک قربانی کے گوشت کا ضائع ہونے کا تعلق ہے عقلی لحاظ سے بھی یہ بات غلط ہے۔ یہاں گوشت کی ایک بوٹی بھی ضائع نہیں ہوتی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کھا لیں ،بال، ہڈیاں، آنتیں ،یہاں تک کہ خون بھی استعمال ہوتا ہے۔اسی طرح ذوالحجہ کا مہینہ شروع ہوتے ہی کچھ لوگ جو سارا سال تو گل چھرے اُڑاتے ہیں لیکن قربانی کے دنوں کی آمد کے ساتھ ہی اُن کے دلوں میں غریبوں کا درد اٹھ کھڑا ہوتا ہے جس میں ایک طرف تو قربانی کا مذاق بلکہ اس سے بڑھ کر تحقیر اور دوسری طرف قربانی کے پیسوں سے پانی کا کولر لگانے ،یتیم بچیوں کی شادی، کسی غریب کے لیے پنکھے کی خریدداری کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ کسی نیکی کے لیے دوسری نیکی کو ترک کرنا ضروری نہیں۔ اور یہ ترغیب دینے والے حضرات و خواتین اپنے ڈنر، لنچ فنکشنز پر اس سے کہیں زیادہ خرچ کر دیتے ہیں۔ اس وقت انہیں غریب یاد ہوتا ہے نہ یتیم بچیاں۔پھر یہ کہ سارا سال بیف اورمٹن کی رنگارنگ ڈشوں اور برگروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن عید قربان کے موقع پر ’جانوروں کے حقوق‘ یاد آجاتے ہیں۔ سپین میں تو ’bull fighting‘کے نام پر سینکڑوں جانوروں کا خون بہایاجاتا ہے لیکن اُس لغو کھیل تماشا پر خاموش رہنے والے عید قربان پر واویلا مچا دیتے ہیں۔پھر یہ کہ اپنے لائف سٹینڈرڈ ، موبائل، گاڑیاں، یہاں تک کہ برانڈڈ کپڑوں تک کہیں بھی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے البتہ برق گرتی ہے تو بیچاری قربانی پر۔لہٰذا رفاہی کام ضرور ہونے چاہئیں لیکن قربانی نہ کر کے نہیں بلکہ آئی فون ،رولیکس ،بی ایم ڈبلیو کی مصنوعات نہ خرید کر۔پھر اسی طرح قربانی سے ملک کا معاشی پہیہ چلتا ہے۔ لوگ سارا سال جانوروں کی پرورش کر کے عید کے لیے تیار کرتے ہیں۔ جانوروں کے لانے جانے میں ٹرانسپورٹ کا استعمال ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں کھالوں کی فروخت جس سے ہماری لیدر انڈسٹری چلتی ہے۔ قصہ مختصر بے شمار معاشی فوائد بھی ہیں جو قربانی سے حاصل ہوتے ہیں۔ پھر جو لوگ قربانی کرنے والے ہیں انہوں نے قربانی کو کیا بنا دیا ہے؟ہم نے حلال روزی کے شرعی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ ہر طرح کی حرام خوریاں کر رہے ہیں۔ دوسروں کے حقوق پر ڈاکے ڈالتے ہیں۔ کرپشن، لوٹ مار، رشوت ستانی اور سود کا لین دین کھلم کھلا کرتے ہیں۔ بے حیائی اور فحاشی کا برسرِ عام مظاہرہ کرتے ہیں۔پھر عید کے دنوں میں لاکھوں روپے کےجانوراللہ کے نام پر قربان کر دیتے ہیں لیکن اس سارے معاملے میں اطاعت اور تقویٰ غائب ہو تا ہے۔  جبکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ:’’اللہ تک قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اس تک تو تمہارے دلوں کا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ہم نے تو اس قربانی کو بھی دوسری عبادات کی طرح ایک رسم بنا کر رکھ دیا ہے بقول علامہ اقبال؎
رہ گئی رسم اذاں، روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی
افسوس کا مقام ہے کہ اس مادہ پرستی کے دور میں ہر عبادت اور ہر سنت رسم بن کر رہ گئی ہے۔ قربانی کو بھی امت کے سوا دِاعظم نے ایک رسم بنا کر رکھ دیا ہے۔موبائل فون میں اپنے قربانی کے جانور کی تصویر لے کر تمام رشتہ داروں اور دوستوں کو بھیجی جاتی ہے۔یوٹیوب اور فیس بک پر عام کی جاتی ہے تاکہ ساری دنیا دیکھے۔اخلاص، خدا ترسی اور حصول تقویٰ کی جگہ ریاکاری، تصنّع اور نام و نمود ہمارا مطمح نظر بن کر رہ گیاہے؎
 
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل، وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہے تو باقی نہیں ہے
 
ہم نے انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر کبھی قربانی کے فلسفے کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ امیر غریب کے حقوق غصب کر کے اس پر ظلم و ستم  ڈھا رہا ہے۔ غریب اپنے تئیں کوشش کرتا ہے کہ وہ بھی جائز و ناجائز طریقے سے راتوں رات امیر ہو جائے اور جو کچھ ظلم اس پر ہوتا رہا ہے وہ اس سے بڑھ کر بدلہ لے ۔اجتماعی طور پر حکمران حکومت حاصل ہی اس لیے کرتے ہیں تاکہ ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے ذریعے اپنی عیش و عشرت کا سامان کریں۔ انہیں نہ تو عوام کی تعلیم و تربیت کی کوئی فکر ہے اور نہ ہی ان کی صحت کی۔ ان کی بلا سے چا ہے ڈاکو لوٹ مار میں مصروف رہیں، یا قتل و غارت میں۔ عوام خواہ گرمی میں بجلی کے بغیر بلکتے سسکتے رہیں، ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس معاملے میں حکمرانوں اور اپوزیشن کی کوئی تخصیص نہیں۔ یہی حال ہمارے ریاستی اداروں کا ہے۔ خواہ عدلیہ ہو یا پولیس، فوج ہو یا بیوروکریسی۔ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔عالمی سطح پر دیکھیں توامت مسلمہ کی عظیم اکثریت مادیت پرستی کے فتنہ کا شکار نظر آتی ہے ۔بڑی بڑی عمارتیں بنانےمیں مگن ہے ۔فقط معاشی ترقی کی بھیڑ چال ہے چاہے سود اور کرپشن کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو۔دجالیت کے فتنے نے اپنی لپیٹ میں پوری طرح لے رکھا ہے ۔ الاماشاء اللہ!غزہ میں مسلمان جانوں کی قربانی پیش کررہے ہیں لیکن مسلمان ممالک کی حکومتوں اور مقتدر طبقات کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔گویا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔ایسے میں کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ حرام کی کمائی سےتوبہ کر کے حلال کی کمائی سے قربانی کرنے کی کوشش کریں۔ پھر قربانی کے جانور پرچھری پھیرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ناجائز خواہشات پر بھی چھری چلائی جائے۔ اپنے نفس پر بھی قابو پائیں۔ ذاتی طور پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی فرمانبرداری اختیار کریں۔ اجتماعی سطح پر اللہ کے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد میں حصہ لیں اور اس راستے میں اپنی ہر من پسند شے کو قربان کرنے کے لیے تیار رہیں۔آج لبرل ،سیکولر میڈیا کی گز گز بھر لمبی زبانیں بے خدائی اور بے حیائی کے تیر چلا رہی ہیں۔ ہمیں بھی کم از کم زبان سے برائی کے خلاف جہاد کرنا ہوگا۔ ان کی باتوں کا جواب دینا ہوگا مگر شائستگی کے ساتھ، حکمت کے ساتھ اور ادب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے۔قارئین سے بالخصوص اور مسلمانانِ پاکستان سے بھی بالعموم ہماری درخواست ہے کہ قربانی ضرور کریں جہاں تک ممکن ہو سکے اس لیے کہ یہ حضرت ابراہیم ؑ کی عظیم سنت ہے۔ لیکن یہ یاد رکھا جائےکہ اس قربانی کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ صراط مستقیم کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے۔ ہماری قربانیاں قبول فرمائے اور ہماری عبادات میں تقویٰ پیدا کر دے۔ آمین یا رب العالمین!