(منبرو محراب) یوم تکبیر اورتکبیر کے تقاضے - ابو ابراہیم

8 /

یوم تکبیر اورتکبیر کے تقاضے

(سورۃ الانفال کی آیت 60کی روشنی میں)

 

جامع مسجدقرآن اکیڈمی، کراچی میں امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے 31مئی 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
28 مئی کو پاکستان میں یوم تکبیر منایا گیا اور اس دن عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ۔ یہ دن منانے کا اچانک فیصلہ حکومت نے 28مئی 1998ء کی یاد میں کیا جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے ۔ اچھی بات ہے ، ایسے دنوں کو یاد رکھنا چاہیے لیکن ایٹمی قوت ہونے کے تقاضے کیاہیں ؟ کیا ہم نے بحیثیت اسلامی ایٹمی ملک ان تقاضوں کو پورا کیا ؟ یوم تکبیر کو اچانک چھٹی منانے کا اعلان کرکے ہم نے معاشی سرگرمیوں میں ایک دن کے تعطل کے باعث ملک اور قوم کا اربوں روپے کا نقصان تو کرلیا لیکن کیا ہم نے تکبیر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بارے میں بھی کبھی سوچا ؟ اسی بات کا جائزہ ہم سورۃ الانفال کی آیت60 کی روشنی میں لیں گے ۔ جہاںاللہ تعالیٰ نے  فرمایا : 
{وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ }   ’’اور تیار رکھو اُن کے (مقابلے کے ) لیے اپنی استطاعت کی حد تک طاقت۔‘‘
آیت کا یہ حصہ اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے اُمتِ مسلمہ کو دفاعی ،عسکری ، فوجی اور جنگی صلاحیت کے حصول کا حکم دیا ۔ اس کے مطابق جس قدر استطاعت ہو اس کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنی دفاعی اور جنگی صلاحیت کو بڑھانا ہم سے اللہ کے دین کا تقاضا ہے۔سورۃ الانفال مدنی سورت ہے اور اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے غزوۂ بدر کے حالات کا ذکر کیا۔   سیرت النبی ﷺ میں غزوۂ بدر حق و باطل کے درمیان پہلا باقاعدہ معرکہ ہے۔ یہاں سے نبی علیہ السلام کی جدوجہد کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے جس کو ہم قتال فی سبیل اللہ کہتے ہیں۔ اس کے بعد حضور علیہ السلام کے دور میں 80 سے زیادہ غزوات اور سرایہ پیش آئے۔ یہ سبق آج مسلمان تو بھول گئے ہیں لیکن یہود کو یاد ہے ۔ عرب حکمران دولت کے نشے میں مست رہے لیکن اسرائیل اسلحہ بناتا رہا اور عربوں پر فتح حاصل کرتا رہا ۔ اسرائیل کی ایک سابق وزیراعظم نے کہا تھا کہ یہ طریقہ ہم نے تمہارے پیغمبر (ﷺ)سے سیکھا ہے ۔ پیغمبر علیہ السلام کا جب وصال ہوا تو کھانے کے لیے گھر میں راشن کی تو کمی تھی جبکہ جنگ کے لیے 9 تلواریں گھر کی دیواروں سے لٹکی ہوئی تھیں ۔ اس کے علاوہ ایک زرہ کسی یہودی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی ۔ حضورﷺ نے اپنا طرززندگی انتہائی سادہ رکھا ۔ یہاں تک کہ کبھی آپ ﷺ کے پاس اتنی دولت جمع ہی نہیں ہوئی کہ زکوٰۃ دینے کی نوبت آتی ۔ لیکن اسلحے کے معاملے میں حضورﷺ نے کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔ بہترین تلواریں ، بہترین تیر کمان اور دیگر اسلحہ ہر وقت موجود رہتا تھا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانفال میں قتال فی سبیل اللہ کےلیے جنگی، دفاعی اور عسکری صلاحیت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے کہ جس قدر ممکن ہو دشمن کے مقابلے میں اپنی تیاری کرو ۔ آگے فرمایا : 
{وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ}’’اور(تیار رکھو اُن کے (مقابلے کے لیے )بندھے ہوئے گھوڑے۔‘‘
اُس دور میں جنگی صلاحیت کے حوالے سے گھوڑوں کی بھی بہت اہمیت تھی۔ حضورﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ گھوڑے کی پیشانی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نےقیامت تک کے لیے برکت رکھ دی ہے ۔ گھوڑے سفر کے لیے بھی اور جنگ کے لیےبھی بہت اہمیت رکھتے تھے ۔ آج کے دور میں بھی  فوج دشوار گزار راستوں پر سفر کرنے کے لیے گھوڑے استعمال کرتی ہے ۔حکم ہوا کہ استطاعت کے مطابق جنگی تیاری رکھو ۔14 صدیاں پہلے استطاعت کے مطابق تیر ، تلوار ، نیزے ، گھوڑے ، زرہ وغیرہ لوگ تیار کرتے تھے ۔ آج کے دور میں میزائل ٹیکنالوجی اور ایٹمی صلاحیت سے بھی آگے معاملہ چلا گیا ہے ۔ مسلمانوں کے لیے حکم ہے کہ تم نے یہ سب تیاری کرنی ہے ۔ آگے فرمایا اس لیے کرنی ہے کہ :
{تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللہِ وَعَدُوَّکُمْ }’’(تا کہ )تم اس سے اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرا سکو۔‘‘
اگر تمہارے پاس دشمن سے مقابلے کے لیے جنگی صلاحیت ہوگی تو وہ تمہارے خلاف اقدام کرنے سے پہلے 10 مرتبہ سوچے گا ۔ 14 مئی 1998ء کو بھارت نے ایٹمی دھماکوں کا اعلان کیا ۔ 15 مئی کو بھارتی وزیر اعظم واجپائی نے بیان دیا کہ ہم پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں  گے ۔ 14 دن کے بعد 28 مئی کوجب پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کیے تو اگلی صبح ( 29 مئی )ہی واجپائی کا بیان آگیا کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں ۔ 
یہ ہے وہ حکمت جو جنگی صلاحیت بڑھانے کے حوالےسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان فرمائی۔ پاکستان پر یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا ورنہ ہم نے تو اس مملکت خداداد کا ستیاناس کر دیا ۔ نسلی ، لسانی ، علاقائی تعصبات کو پھیلا کر 1971ء میں ہی ملک کے دو ٹکڑکے کر دیے ۔ اب  ان تعصبات کو مزید ہوادے کر ملک کا بیڑا غرق کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ اگر یہ اللہ کا فضل نہ ہوتا اور ایٹمی صلاحیت اللہ نے عطا نہ کی ہوتی تو دشمن کب کا ہمارے ٹکڑے کر چکا ہوتا ۔اہم بات قرآن یہ بیان کر رہا ہے کہ جنگی صلاحیت تمہارے دشمنوں کو باز رکھے گی ۔ اس کے ذریعے تم اللہ کے دشمنوں کو ، اپنے دشمنوں کو مرعوب رکھو گے ۔ اس کے علاوہ کچھ تمہارے خفیہ دشمن بھی ہیں وہ بھی باز رہیں گے ۔ فرمایا : 
{وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ ج لَا تَعْلَمُوْنَہُمْ ج اَللہُ یَعْلَمُہُمْ ط} ’’اور کچھ دوسروں کو (بھی)جو ان کے علاوہ ہیں ‘ تم انہیں نہیں جانتے ‘ اللہ انہیں جانتا ہے۔‘‘
یعنی کوئی بھی ظاہری یا خفیہ دشمن تمہاری طرف  میلی آنکھ سے دیکھ نہ سکے ، یہ مقصد ہے ۔ یہ جنگی صلاحیت ہوگی تو تم دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکو گے ۔ جنرل ضیاء الحق کی کرکٹ ڈپلو میسی بڑی مشہور ہے ۔ کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے جنرل ضیاء الحق بھارت گئے اور راجیو گاندھی کے کان میں کہہ دیا کہ اگر پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھا تو بھارت صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا ۔  اس کے بعد بھارت اپنےمذموم عزائم سے باز آگیا ۔
آج انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ غزہ میں ہمارے مسلمان بھائی ، بہنیں ، بچے قتل ہورہے ہیں ، انہیں صفحہ ہستی سے مٹایا جارہا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں میں سے کوئی کھڑا ہو کر اسرائیل کو دھمکی تک نہیں دے سکتا ۔ آج ہم اتنے بے حس اور بے حمیت ہو چکے ہیں ۔ معیشت کا بیڑا غرق ہے ، امریکہ کی غلامی ہے ، کیسے آواز اُٹھا سکتے ہیں ؟ پھر یہ ایٹمی صلاحیت کس کام کی؟  روزانہ یہ مسلمان بچوں ، ماؤں ، بہنوں کی لاشیں اُٹھتی دیکھ  رہے ہیں ، اسلام اور مسلمانوں کے دشمن سرعام نسل کشی کر رہے ہیں لیکن ہم کچھ بھی نہیں کر پارہے ۔ حالانکہ یہ   ایٹمی صلاحیت اُمت کی امانت ہے ، اس پر اُمت کا پیسہ لگا ہے ۔ اس پر اُمت کی صلاحیتیں لگی ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک لائیو پروگرام میں کہا تھا کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اُمت کی امانت ہے ۔ ڈاکٹر اسرارا حمدؒ نے بھی کہا تھا کہ یہ اُمت کی امانت ہے ، اگر ہم نے اس کا سودا کر دیا تو یہ پوری اُمت سے غداری ہوگی۔ آج اگر ایٹمی صلاحیت کے باوجود ہم اُمت کے دشمنوں کو آنکھیں دکھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو پھر ہم بے حمیت ہیں ۔ سات ماہ سے اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے ، ہمارے حکمرانوں کو شرم بھی نہیں آتی ، اُلٹا اس کے ساتھ پینگیں بڑھا رہے ہیں، ابھی بھی امریکہ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں ، کئی مسلم ممالک نے ابھی تک اسرائیل سے تعلقات ختم نہیں کیے ۔ کئی اندرخانے اسرائیل کو اسلحہ اور فیول بھی پہنچا رہے ہیں ۔ہم اللہ کو کیا جواب دیں گے ؟ کس لیے اللہ نے یہ ایٹمی صلاحیت دی تھی ؟ 
28 مئی 1998ء کو جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے تو اس وقت سنا ہے کہ نعرہ تکبیر لگایا گیا تھا۔ اسی نسبت سے اس دن کو یوم تکبیر قرار دیا گیا تھا ۔ اچھی بات ہےکہ کاؤنٹ ڈاؤن کے رواج سے ہٹ کر نعرہ تکبیر لگایا گیا لیکن تکبیر فقط نعرہ تکبیر لگانے کا نام نہیں ہے یا صرف اذان میں ، اقامت میں ، دوران نماز اللہ اکبر کہہ دینے کا نام تکبیر نہیں ہے ۔ بقول شاعر؎
یا وُسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل
یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات
وہ مذہبِ مردانِ خود آگاہ و خدا مست
یہ مذہبِ مُلّا و جمادات و نباتات
 اللہ اکبر تو پودے بھی کہہ رہے ہیں ،یہ جمادات، نباتات، یہ پتھر بھی اللہ اکبر کی تسبیح پڑھ رہے ہیں ، انسان کو صرف زبان سے اللہ اکبر کہنے کے لیے تھوڑا ہی پیدا کیا گیا ہے ؟ ہم نے اللہ اکبر کہہ کر بٹن دبا دیا تو کیا تکبیر کے تقاضے پورے ہوگئے ؟ 
تکبیر کا اصل تقاضا یہ ہے کہ اللہ کی بڑائی کو نافذ کرو ،  اللہ کی بڑائی کو منواؤ۔ ہم تو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ ختم کرنے کو تیار نہیں ،سود کا دھندا،      بے حیائی کا طوفان،جوئے سٹے کی اجازت ، یہ سب کرکے ہم اللہ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں۔ شریعت کے احکامات توڑ کر ہم اللہ کے ساتھ بے وفائی کا ثبوت دے رہے ہیں تو خالی اللہ اکبر کہہ دینے سے کیا ہوگا ؟ تکبیر کا تقاضا تو یہ ہے کہ میرےوجود پر اللہ کا حکم نافذ ہو، گھر میں بھی اللہ کا حکم نافذ ہو ، میرے کاروبار میں بھی اللہ کو بڑا مانا جائے ، پھر اجتماعی سطح پر عدالت ،حکومت ، سیاست ، معیشت ، معاشرت ، ریاست اور ریاستی اداروں میں ،   ہر سطح پر اللہ کو بڑا مانا جائے ، یعنی ہر سطح پر اللہ کا دین نافذ ہو ۔ 
پاکستان جب وجود میںآیا تھا تو اس وقت نعرہ تھا پاکستان کا مطلب کیا:’’ لاالٰہ الا اللہ‘‘ ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ امریکہ کی غلامی ہوگی ، IMFکا حکم چلےگا ، یہاں اللہ نہیں بلکہ امریکہ بڑا ہوگا۔ ہرگز نہیں ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہاں اللہ کا حکم چلے گا ، فرد کی سطح پر بھی ، معاشرے کی سطح پر بھی ۔ اسی لیے ہمارے نبی ﷺ کو حکم دیا گیا :  
{یٰٓـــاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ(1) قُمْ فَاَنْذِرْ(2) وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ(3)}(المزمل) ’’اے کمبل میں لپٹ کر لیٹنے والے (ﷺ)! آپؐ اُٹھئے اور (لوگوں کو) خبردار کیجیے اور اپنے رب کو بڑا کیجئے!‘‘
اس کے بعد اللہ کے رسول ﷺمسلسل 23 برس اللہ کے دین کے نفاذ کے لیے کھڑے رہے ۔ ہر ایک کے دروازے پر جاکر دعوت دی ، اس دوران آپ ﷺ نے کیا کیا مصیبتیں اور تکالیف نہیں جھیلیں ، طائف اور اُحد جیسے سانحات برداشت کیے ،کم و بیش 259  صحابہ کرامj نے شہادت پیش کی ، آخر 8 ہجری کو مکہ فتح ہوا اور اللہ کا دین غالب ہوگیا ۔ تب جاکر یہ بشارت آئی : {وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ ط}(بنی اسرائیل:81)’’اور آپ ؐ کہہ دیجیے کہ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا۔‘‘
ہم نے سمجھا کہ بس اللہ اکبر کہہ دیا، 28 مئی کی چھٹی منالی تو تکبیر کے تقاضے پورے ہو گئے ۔ اللہ کے احکامات کی پاسداری کی طرف کوئی توجہ نہیں ۔ تمام مقتدر طبقات نے بھی اللہ کو جواب دینا ہے ۔ جتنا کسی کو اختیار دیا گیا ہے اُسی تناسب سے وہ جواب دہ ہے ۔ سورہ نوح میں الفاظ ہیں : 
{مَا لَکُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلہِ وَقَارًا(13)}’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی عظمت کے امیدوار نہیںہو؟‘‘
یعنی کیوں تمہیں اللہ کی بڑائی کا احساس نہیں ہے ،اللہ کی اطاعت کے لیے تم کیوں تیار نہیں ہو۔ اللہ کی نافرمانی کے کاموں میں تمہیں حیا نہیں آتی ،اللہ کے لیے کھڑے ہونے کو تم تیار نہیں ہو۔ تکبیر تو اللہ کے کلمے کی سربلندی کا نام ہے ۔ اللہ کے نبی ﷺ نے اس کے لیے 23 برس کھڑے ہو کر دکھایا ۔ اس کے نتیجے میں اُمت کو دنیا میں فتح حاصل ہوئی ۔ 
آج ہم ذلیل کیوں ہیں ؟ اس لیے کہ پوری دنیا میں کوئی ایک خطہ بھی ایسا نہیں ہے جہاں اللہ کا دین کامل صورت میں قائم ہواور اب ہم امارت اسلامیہ افغانسان جو اس راستے پر چل رہا ہے، کے خلاف بھی استعمال ہونے کے لیے جاکر امریکہ کی گود میں بیٹھ رہے ہیں ۔ حالانکہ ہمیں اپنے اختلافات آپس میں مل بیٹھ کر حل کر نے چاہئیں۔ جس اُمت کے سامنے کشمیر کا مسئلہ کھڑا ہے ، فلسطین کا مسئلہ کھڑا ہے وہ اُمت آپس میں لڑے گی تو اس کا انجام کیا ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ حکمرانوں کو بھی ہدایت دے اور ہم سب کو بھی ہدایت دے ۔ اصل تقاضا یہ ہے کہ کلمہ کی سربلندی کے لیے کھڑے ہوں گے ، اللہ کے دین کو تھامیں  گے تو اللہ ہماری مدد کرے گا اور اللہ ہمارے قدموں کو مضبوطی سے جما دے گا۔ آگے فرمایا : 
{وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْ ئٍ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ(60)}(الانفال ) ’’اور جو کچھ بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اس کا ثواب پورا پورا تمہیں دے دیا جائے گا اور تم پر کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔‘‘
ظاہر ہے کسی بھی قسم کی جنگی و دفاعی صلاحیت کا حصول ہو، اس میں مال خرچ ہوتاہے ۔ اس مال خرچ کرنے پر بھی اللہ تعالیٰ اجر عظیم عطافرمائے گا بشرطیکہ نیت اللہ کے کلمہ کی سربلندی ہو ۔ 
آخر میں سورۃ القصص کی آیات 57 تا 60 کی روشنی میں پاکستان کی معیشت کے حوالے سے کچھ عرض کرنا مقصود ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : 
{وَقَالُوْٓا اِنْ نَّتَّبِعِ الْہُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَاط}(القصص:57) ’’اور وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم آپؐ کے ساتھ اِس ہدایت کی پیروی کریں تو ہم اپنی زمین سے اُچک لیے جائیں گے۔‘‘
ان آیات کا پس منظر یہ ہے کہ مکہ میں قریش نے کفر کا ایک نظام قائم کر رکھا تھا ، خانہ کعبہ میں 360بت رکھے ہوئے تھے اور پورے عرب سے لوگ جب حج و عمرہ کرنے آتے تھے تو ان بتوں کو نذرانے چڑھاتے تھے ، اس سے قریش کی معیشت چلتی تھی اور پھر اہل قریش جب تجارت کے لیے جاتے تھے تو پورے عرب میں ان کے قافلوں کو تحفظ ملتا تھا ۔ جب اللہ کے نبی ﷺ نے انہیں اللہ کے دین کی دعوت دی تو وہ کہنے لگے کہ اگر ہم ان بتوں کو چھوڑ کر ایک اللہ کو مان لیں گے تو  ہماری معیشت بیٹھ جائےگی کیونکہ ان بتوں کی وجہ سے ہی تو ہماری معیشت چلتی ہے۔ 
آج ہمارا مسئلہ بھی یہی ہے۔ امریکہ ہمیں ڈالر دے رہا ہے ، IMFہمیں قرض دیتا ہے اور ہم ان کی شرائط مانتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ قادیانیوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھو ، دجالی تہذیب کو ترقی دو، کالجز اور یونیورسٹیز میں میوزک اور ڈانس سکھانے کا اہتمام ہو ، موسیقی کے مقابلے ہوں ، ہم جنس پرستوں کے بینڈ امریکہ سے بلوائے جائیں ۔ یہ سارے تقاضے وہ کرتے ہیں اور ہم مانتے جاتے ہیں کیونکہ ہم معاشی غلام ہیں اور ہم ان کے چنگل میں پھنستے چلے جارہے ہیں ۔ان کا آخری تقاضا یہ ہو گا کہ اپنی ایٹمی صلاحیت ہمارے حوالے کرد و، تمہارے ملک میں خوشحالی آجائے گی ۔ یعنی ہمارا عقیدہ بھی جائے گا ، ہماری تہذیب ، معیشت ، ایٹمی صلاحیت سب کچھ جائے گا اور ہم برباد ہو جائیں گے ۔ ہم کہتے ہیں کہ سود کا نظام ختم کر دو تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا تو کہا جاتاہے کہ سود کا نظام ختم کر دیں گے تو ہماری معیشت بیٹھ جائے گی ۔IMFکو چھوڑ دیں گے تو ہمارا کیا بنے گا ۔ یہ سب اللہ کو چیلنج کرنے والی باتیں ہیں ، اللہ سے بغاوت اور سرکشی کی باتیں ہیں، یہی تو قریش کہتے تھے ، ان بتوں کو چھوڑ دیں گے تو ہماری معیشت کیسے چلے گی ۔ اللہ کا جواب یہ ہے : 
{اَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَّہُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰٓی  اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْ ئٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(57)}(القصص)’’کیا ہم نے انہیں امن والے حرم میں متمکن نہیں کیا؟کھنچے چلے آتے ہیں اس (حرم) کی طرف ہر قسم کے پھل‘یہ خاص رزق ہے ہماری طرف سے لیکن ان کی اکثریت علم نہیں رکھتی۔‘‘
انہیں امن والا حرم عطا کیا جہاں باپ کے قاتل کو بھی لوگ ہاتھ نہیں لگاتے ۔ اسی حرم کے متولی ہونے کی وجہ سے تمام اہل عرب ان کی عزت کرتے تھے ،ان کے قافلوں کی حفاظت کرتے تھے ۔ مکہ میں نہ فصلیں اُگتی ہیں اور نہ ہی پھل ، لیکن اس کے باوجوداللہ انہیں ہر چیز کھلا پلا رہا تھا۔اللہ فرما رہا ہے اس کے باوجود کہ تم کفر کے راستے پر ہو ، اللہ تمہیں سب نعمتیں دے رہا ہے جب اللہ کی توحید کو مان لو گے تو کیا تمہیں بھوکا مار دے گا ؟ 
ہم بھی 77 برس سے اللہ سے سرکشی اور بغاوت پر تلے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ ہمیں دشمنوں سے بچاتا رہا ، ہمیں ایٹمی صلاحیت بھی دی،جب اللہ کی فرمانبرداری کے راستے پر آجائیں گے تو کیا اللہ ہمیں بھوکا ماردے گا؟ایسی سوچ کا مطلب ہے کہ ہمارا اللہ پر یقین نہیں ہے ۔ آخر ت پر یقین نہیںہے ، ہم صرف دنیا کا مال و دولت چاہتے ہیں ، ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور IMFکی غلامی کریں گے تو خوشحالی آئے گی ۔ جبکہ اللہ فرماتا ہے:{وَکَمْ اَہْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ م بَطِرَتْ مَعِیْشَتَہَاج}(القصص:58)   ’’اور کتنی ہی بستیوں کو ہم نے ہلاک کر دیا جو کہ اتراتی تھیں اپنی معیشت پر۔‘‘
قوم عاد ، قوم ثمود ، قوم فرعون اور دیگر کئی قومیں بڑی خوشحال تھیں ،نمرود اور فرعون کے پاس بھی بڑا مال، دو لت اور بادشاہت تھی ، قارون کے پاس بڑی دولت تھی ۔ لیکن ان  سب کا انجام کیا ہوا ؟فرمایا :
{فَتِلْکَ مَسٰکِنُہُمْ لَمْ تُسْکَنْ مِّنْ م    بَعْدِہِمْ اِلَّا قَلِیْلًاط وَکُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ(58)} (القصص)  ’’تو(دیکھ لو!) یہ ہیں ان کے (کھنڈر بنے ہوئے) گھر‘نہیں ہوئے ان میں رہنے والے ان کے بعد مگر بہت تھوڑے۔ اور ہم ہی (ان کے ) وارث ہوکر رہے۔‘‘
سارے مٹی کے ساتھ مٹی ہو گئے ، فرعون کی لاش کو اللہ نے محفوظ کرکے نشان عبرت بنا دیا ۔ ان ساری قوموں کے انجام سے ہمیں بھی سبق حاصل کرنا چاہیے اور محض دنیا کے پیچھے اپنی آخرت برباد نہیں کرنی چاہیے ۔ آگے فرمایا:
{وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّہَا رَسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِنَاج وَمَا کُنَّا مُہْلِکِی الْقُرٰٓی اِلَّا وَاَہْلُہَا ظٰلِمُوْنَ (59)} ’’اور نہیں تھاآپ کا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا‘جب تک کہ وہ ان کی مرکزی بستی میں کوئی رسول نہ بھیج دیتا‘جو اُن کو پڑھ کر سناتا تھا ہماری آیات۔اور ہم ہرگز ان بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں تھے مگر اس بنا پر کہ ان کے باسی ظالم تھے۔‘‘
یعنی ان قوموں پر بھی اتمام حجت ہو چکا تھا ، ان تک اللہ کا پیغام پہنچ چکا تھا اس کے باوجود انہوںنے سرکشی کی تو پھراللہ کا عذاب اُن پر آکر رہا ۔ ہمیں بھی عبرت حاصل کرنی چاہیے ۔ آگے فرمایا : 
{وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْ ئٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَزِیْنَتُہَاج وَمَا عِنْدَ اللہِ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(60)} ’’اور جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے وہ بس دُنیوی زندگی کا سامان اور اس کی زیب و زینت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ہے اور باقی رہنے والا ہے۔تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے؟‘‘
  اربوں کھربوں کمانے والا بھی قبر میں جاتا ہے تو خالی ہاتھ ہی جاتاہے ۔ بے شک معاش بھی ہمارا مسئلہ ہے مگر اصل مسئلہ آخرت کا ہے ۔ لہٰذا آخرت کو ترجیح دینا چاہیے ۔ 
جون میں نیا بجٹ آنے والا ہے ۔ ہمیشہ کی طرح  حکمران بڑا دلفریب اور دلکش بنا کر پیش کریں گے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ بجٹ کا 64 فیصد صرف قرض کی ادائیگی پر خرچ ہوا اور اس میں بھی 80 فیصد سود کی ادائیگی تھی ۔ ذرا سوچئے کہ قوم کے پاس کیا بچے گا ؟ اس حوالے سےبھی چند باتیں عرض کرنا مقصود ہیں :
(1)۔جب تک اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ ختم نہیں کریں گے ۔ ہمارے حالات کبھی نہیں سنوریں گے۔خود حکومت کہتی ہے باہر کا سود کم ہے ، اندر کا زیادہ ہے ۔ اب اندر کا سود ختم کرنا تو حکومت کے اختیار میں ہے ، وہ کیوں ختم نہیں کر رہی ، کیوں قوم کو کنگال کیا جارہا ہے ؟ اس حوالے سے وفاقی شرعی عدالت کا اپریل 2022ء کا فیصلہ بھی موجود ہے۔ اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے ۔ 
 (2) نیچے سے لے کر اوپر تک سارا نظام کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے ۔ یہاں تک کہFBRکے چیئرمین کے مطابق   7 سو ارب روپے کی کرپشن خود FBRمیں رپورٹ ہوئی ہے۔ باقی کیا رہ گیا ۔ قوم کا جتنا بھی پیسہ لوٹ کر باہر لے جایا گیا ، آج تک اس کو واپس نہیں لایا گیا ۔ صرف کھوکھلے دعوے کیے گئے ۔ جب تک کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوگا تو ہماری معیشت ٹھیک نہیں ہوگی 
(3)۔ہمارا یہ غریب ملک، جو قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے یہاں سول اور فوجی بیوروکریٹس کے لیے اتنی مراعات ہیں جیسے سرکاری ملازم نہ ہوں بلکہ شہنشاہ ہوں ۔ ایک جج کے لیے 20  خدمت گاروں کی منظوری دی گئی ، باقی مراعات کا اندازہ نہیں ۔ غریب ملک میں سرکاری آفیسرز کی تنخواہیں بیس بیس لاکھ ہیں ۔قوم کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے اور بیوروکریٹس کی مراعات میں کوئی کمی نہیں آرہی ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ بیوروکریٹس کی مراعات میں کمی کی جائے ۔ 
(4) غریب آدمی پر ٹیکس لگا لگا کر اس کا خون نچوڑ لیا گیا ہے۔جبکہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے زکوٰۃ اور عشر وصول نہیں کیا جاتا ؟ حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ۔ اس پرعمل ہو تو ملکی معیشت کو بھی فائدہ ہوگا اور عام آدمی کو بھی ریلیف ملے گا ۔ 
(5) بھارت ہمارا گلابی نمک بیچ کر اربوں ڈالرز کما رہا ہے، اسے ہم خود کیوں نہیں بیچ سکتے ؟اس کی 14 ارب ڈالر سالانہ سے بھی بڑی مارکیٹ ہے اور ہم ایک ڈیڑھ ارب ڈالر کے لیے IMF کے جوتے چاٹتے ہیں۔ یہ نمک پاکستان ایکسپورٹ کرکے سالانہ اربوں ڈالر کما سکتاہے ۔ 
ابتدائی طور پر ان چند باتوں پر بھی اگر عمل کرلیا جائے تو ہماری معیشت درست سمت میں ترقی کرسکتی ہے۔ آخری بات یہ کہ یہ سب کرنے کے بعد بھی اس پر تکیہ نہیںکرنابلکہ اللہ کی فرمانبرداری کرنے میںہی اصل بقاء اور سلامتی ہے ۔ فرمایا :{وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ} (الاعراف:96) ’’اور اگر یہ بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر کھول دیتے آسمانوں اور زمین کی برکتیں۔‘‘
اللہ کو ناراض کرنا چھوڑدیں، اللہ اوراس کے رسول ﷺ
پر سچا ایمان لے آئیں ، اللہ کی فرمانبرداری کا راستہ اختیار کریں تو اللہ ہمارے حالات بدل دے گا ، ان شاء اللہ۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین !