(نقدو نظر) سیاست کریں لیکن تاریخ کو مسخ مت کریں! - ایوب بیگ مرزا

8 /

سیاست کریں لیکن تاریخ کو مسخ مت کریں!

ایوب بیگ مرزا

 
پاکستان کی حکمران اشرافیہ یعنی طاقت کے کوریڈور میں آمد و رفت رکھنے والوں نے جہاں اپنی بداعمالیوں سے ملکی خزانے کا صفایا کیا، سیاسی بدیانتی سے جمہوریت کا تیاپانچہ کیا، وہاں پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنے سے  گریز نہ کیا۔ ہم پہلے ایک تحریر میں کہہ چکے ہیں اورواضح بھی کر چکے ہیں کہ اقتدار کی ہوس میں اور پاکستان پر ہمیشہ مسلط رہنے کے لیےمذکورہ اشرافیہ نے کس طرح 23 مارچ یومِ جمہوریہ کو یومِ پاکستان کا لبادہ اوڑھا کر اپنے اقتدار کی طوالت کا جواز پیدا کیا ۔ اس مذموم حرکت کے بارے میں تحریر کئی بار شائع کی گئی لیکن کوئی اس کی نفی نہ کر سکا۔ یہاں تک کہ ملک کے ایک بڑے جرنلسٹ جو سیاست دانوں سے بھی بڑا میل جول رکھتے ہیں، اُنہیں ذاتی طور پر بھی یہ تحریر بھجوائی گئی لیکن جواب ندارد۔ شاید اِس لیے کہ موصوف خود بھی اِس وقت status quo کو برقرار رکھنے کی جدوجہد میں اپنے پسندیدہ سیاست دانوں کے ساتھ شامل ہیں۔
بہرحال اب ہمیں 28 مئی یومِ تکبیر کے حوالے سے کچھ گزارشات کرنی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 26 سال پہلے 28 مئی 1998ء کو پاکستان نے 6 ایٹمی دھماکے کیے اور ایٹمی ممالک کی عالمی برادری میں شامل ہوگیا لیکن پاکستان کے عوام کو اِس حوالے سے دو ایسے تاثرات دیئے جاتے ہیں جو تاریخ مسخ کرنے کے مترادف  ہیں۔ پہلا یہ کہ اِ س روز یعنی 28 مئی 1998ء کو ہی پاکستان ایٹمی قوت بنا تھا اور دوسرا یہ کہ ایٹمی دھماکے امریکہ  کی شدید ترین مخالفت اور اربوں ڈالر کی پیشکش کو رد کرکے کیے گئے تھے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پاکستان ایٹمی قوت تو ضیاء الحق کے دور میں غالباً 1984ء میں ہی بن گیا تھا۔ البتہ ایٹمی دھماکے 1998ء میں کیے گئے ۔ ایٹمی دھماکہ کو ایٹمی قوت ہونےکا اعلان کہا جا سکتا ہے۔ اِسے ایک ریہرسل  کہا جا سکتا ہے اِسے دشمن پر اپنی دھاک بٹھانے کا حربہ کہا جا سکتا ہے۔ وگرنہ کون نہیں جانتا کہ اسرائیل ایک بہت بڑی ایٹمی قوت ہے لیکن اُس نے عالمی حالات کے تناظر میں آج تک ایٹمی دھماکے نہیں کیے۔ ضیاء الحق کے دور میں دو ایسے مواقع آئے جب بھارت کو اعلیٰ درجہ کی سفارت کاری سے آگاہ کر دیا گیا کہ پاکستان ایٹمی قوت ہے۔ ایک مرتبہ جب بھارت کے چوٹی کے صحافی کلدیپ نیر پاکستان کے دورے پر آئے،یاد رہے کلدیپ نیر کو ہمیشہ بھارتی سیاست پر ایک اثر انداز ہونے والا بڑا صحافی سمجھا جاتا ہے۔ ضیاءالحق نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور اُس وقت کے مسلم اخبار کے چیف ایڈیٹر سید مشاہد حسین کو مہمان کا انٹرویو کرنے اور کسی اچھے انداز میں یہ Convey  کرنے کی ذمہ داری سونپی کہ پاکستان ایٹمی قوت بن چکا ہے لہٰذا بھارت اگر کوئی حماقت کرتا ہے تو اُسے یہ بڑی مہنگی پڑے گی۔ راقم نہیں جانتا کہ ضیاء الحق نے سید مشاہد حسین کو کن الفاظ میں یہ دھمکی پہنچانے کاکہا  تھا لیکن یقیناً یہ ایک بڑا‎ مہذب سفارتی انداز ہوگا اور مزید براں راقم یہ سمجھتا ہے کہ سید مشاہد حسین جتنے ذہین و فطین جرنلسٹ اور سفارت کار ہیں انہوں نے ضیاء الحق کا پورا میسج بہترین انداز میں Convey کیا ہوگا ۔ راقم کا مطلب ہے کہ پاکستان ضیاء الحق کے دور میںہی دشمن پر ایٹمی حملہ کرنے کی مکمل طور پر  پوزیشن میں تھا۔ دوسرا موقع تب آیا جب راجیو گاندھی  کے دور میں پاک بھارت سرحد پر کشیدگی اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ بھارت کسی وقت  بھی پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔ اتفاق سے اُس وقت پاکستان کی کرکٹ ٹیم بھارت کے دورے پرتھی ۔ ضیاءالحق نے بھارت میں پاکستانی سفیر کو ہدایت کی وہ اُن کے بھارت کے دورے کی بات کرے اور یہ کہا جائے کہ  صدر ِپاکستان ، بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والا کرکٹ میچ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ کہتے ہیں’’دروغ بر گردن را وی‘‘ کہ پاکستان کے سفیر کویہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ کیا صدرِ پاکستان کا دماغ خراب ہو گیا یہاں حالات اِس قدر بگڑے ہوئے ہیں اور وہ کرکٹ میچ دیکھنے بھارت آنا چاہتے ہیں۔ بہرحال وہ صدر ِپاکستان کے حکم پر بھارت کو صدر ِپاکستان کے دورے کے لیے راضی کرنے میں کامیاب ہو گئے اور صدر ضیاء الحق میچ دیکھنے بھارت چلے گئے۔ اِسے تاریخ نے کرکٹ ڈپلومیسی کا نام دیا۔
صدرِ پاکستان کے دورے کے اختتام پر بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی پاکستان کے صدر کو دہلی کے پالم ایئر پورٹ پر رخصت کرنے آئے تو صدر ضیاء الحق دوسرے سب میزبانوں سے الوداعی مصافحہ کرنے کے بعد راجیو گاندھی کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر اُنہیں دوسروں سے الگ لے گئے چند منٹ بات کی،دیکھنے والوں نے دیکھا کہ راجیو گاندھی کا بات سن کر رنگ پیلا پڑ گیا۔ صدر ضیاء الحق جہاز میں بیٹھے تو اُن کے ہمراہ جانے والے صحافی اُن سے پوچھنے لگے کہ آپ نے کون سی ایسی بات راجیوگاندھی سے کی ہے جس سے اُس کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا تھا پہلے تو محترم صدر صحافیوں کو ٹالتے رہے لیکن صحافیوں کے اصرار پر اُنہوں نے بتایا کہ میں نے راجیو سے کہا تھا کہ اگر بھارت اور پاکستان میں جنگ چھڑ گئی تو دونوں ملک مکمل طور پر تباہ ہو جائیں گے البتہ مسلمان اس لیے پھر بھی دنیا میں رہیں گے کیونکہ دنیا میں دوسرے بہت سے اسلامی ملک ہیں لیکن ہندوستان تباہ ہوگیا تو دنیا سے ہندوؤں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ راقم مکر رعرض کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان ضیاء الحق کے دور میں ہی ایک مکمل ایٹمی قوت بن چکا تھا۔ جبکہ عوام کو تاثر دیا جاتا ہے کہ 28مئی 1998ء کے دھماکوں سے پاکستان ناقابل تسخیر ہواتھا۔ لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ راقم ایٹمی دھماکوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا یقیناً اِس کے خطے پر سیاسی  اور نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے۔ دوسرا غلط تاثر یہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے دھماکے کرنے کی بڑی شدت سے مخالفت کی تھی۔ راقم اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ اِس حوالے سے اُس کا مؤقف منفرد اور اکثریت بلکہ تمام لوگوں سے مختلف ہے۔ راقم کی رائے میں بھارت کے دھماکے کرنے کے بعد پاکستان نے جو دھماکے کیے تھے اُس میں امریکہ کی برہمی، ناراضگی اور پابندیاں وغیرہ لگانا اُس کی منافقانہ عالمی سیاست کا حصہ ہے جس کا اظہار اکثر و بیشتر ہوتا رہتا ہے۔ امریکہ نے اعلانیہ زوردار مخالفت یقیناً کی تھی کیونکہ یہ اُس کی اُس پالیسی کا بنیادی حصہ تھا کہ وہ ایٹمی اسلحہ کے عدم پھیلاؤ کا علمبردار ہے۔ صدر امریکہ کلٹن اور وزیراعظم پاکستان کے درمیان ٹیلی فونک رابطے سے بھی ہرگز انکار نہیں البتہ یہ جو 5 بلین ڈالر کی پیشکش کی بات ہے جو یوں اچھالی جاتی ہے جیسے پاکستان کے وزیراعظم کو ذاتی طور پر پیشکش کی گئی تھی وائٹ ہاؤس اِس کی وضاحت کر چکا ہے کہ صدر کلنٹن نے صرف یہ کہا تھا کہ وہ کانگرس سے پاکستان کو 5 بلین ڈالر قرضہ کی سفارش کرے گا وہ امریکہ ہے پاکستان نہیں کہ حکمرانوں نے جسے چاہا جیسے چاہا نواز دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ جنگ عظیم کے بعددنیا واضح طور پر Bi-Polar ہو گئی تھی امریکہ اور سوویت یونین دو عالمی قوتیں تھیں۔ پاکستان نے امریکی کیمپ کو باقاعدہ جوائن کرلیا۔ بھارت کا سوویت یونین کی طرف رجحان واضح تھا بعد ازاں بھارت غیر جانبدار ممالک میں شامل ہو گیا لیکن تب بھی اُس کے سوویت یونین کے ساتھ انتہائی گہرے تعلقات تھے البتہ بعد کے حالات و واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت اور امریکہ بھی ایک دوسرے سے رابطہ میں تھے۔ سوویت یونین تو بھارت کا برادرِ بزرگ بن چکا تھا اور سلامتی کونسل میں کشمیر کے حوالے سے قرارداد کو ویٹو کر دیتا تھا۔پاکستان سیٹو سینٹو کارکن بن کر امریکہ کے ساتھ بندھ گیا تھا لیکن بھارت سوویت یونین کا حلیف ہونے کے باوجود امریکہ سے فوائد حاصل کرتا رہتا تھا۔ اگرچہ دونوں کے درمیان کوئی ایسا اعتماد کا رشتہ نہیں تھا۔ جنوبی ایشیا میں چین اور بھارت دو سب سے بڑے ممالک تھے ۔ جب بھارت نے 1974ء کے بعد مئی 1998ء میں ایٹمی دھماکہ کیا اور بھارت سے پاکستان کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع ہو ا تو امریکہ کو برصغیر میں طاقت کے عدم توازن کا اندیشہ ہوا۔ امریکہ بھارت کے سوویت یونین کا حلیف ہونے کے باوجود بھارت کے لیے اچھے احساسات رکھتا تھا لیکن باہمی اعتماد کا فقدان تھا لہٰذا امریکہ بھارت پر اندھا اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھا۔ بھارت میں کسی زمانے میں ہندی چینی بھائی بھائی کے نعرے لگتے تھے لیکن پھر بھارت نے یو ٹرن لیاا ور چین سے دشمنی  مول لے کر امریکہ سے بہت فوائد حاصل کیے۔ امریکہ سمجھتا تھا کہ بھارت جنوبی ایشیا کا بہت بڑا ملک ہے، ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے، وہ خطے میں اپنی اقتصادی اور عسکری قوت کی بنا پر امریکہ کے لیے کل کلاں مسئلہ پیدا کر سکتا ہے لہٰذا بھارت سےunder handتعلقات کے ساتھ ساتھ اُس کے حریف پاکستان کی بھی پشت پناہی جاری رکھنی چاہیے۔ لہٰذا پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی اعلانیہ اور قانونی مخالفت کے باوجود اِس حوالے سے مکمل طور پر پاکستان کے راستے کی رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ جب ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے کلنٹن اور نواز شریف کی ٹیلی فونک گفتگو کا سلسلہ جاری تھا تو خود نواز شریف کے منہ سے میڈیا کے سامنے یہ سچ نکل گیا تھا کہ کلنٹن سے میری جو آخری بات ہوئی تھی تو اُس نے مجھ سے کہا تھاکہ ٹھیک ہے اگر آپ کی اتنی مجبوری ہے تو آپ جو اپنے ملک کے لیے بہتر سمجھتے ہیں وہ کریں۔
آخری اور ہم ترین بات یہ کہ سعودی عرب اگرچہ امریکہ کا مشرق وسطیٰ میں قریبی اور انتہائی اہم ترین حلیف ہے لیکن وہ پاکستان کے ایٹمی تجربوں پر خوشی کا اظہار کرتا ہے اور ایسے وقت میں پاکستان کو مالی امداد فراہم کرتا ہے تاکہ ایٹمی تجربہ کی وجہ سے لگنے والی پابندیاں پاکستان پر زیادہ اثر انداز نہ ہوں۔ راقم کی رائے میں سعودی خاص طور پر اُس دور میں امریکہ کو ناراض کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاست دان اپنے سیاسی مفادات کے لیے قلا بازیاں لگاتے رہتے ہیں لیکن عوام کو تاریخی حقائق سے آگاہ رہنا چاہیے۔ راقم کی سیاست دانوں سے درخواست ہے کہ سیاست کریں لیکن تاریخ کو مسخ مت کریں۔
سیاست دانوں کا معاملہ یہ ہے کہ کبھی بے نظیر بھٹو سیکورٹی رسک تھیں اِس مرتبہ یعنی 2024ء میں پہلا موقع تھا کہ 28 مئی کے اخباری اشتہارات میں بے نظیر کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر بھی لگائی گئی لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان جن کے نام کے ساتھ محسنِ پاکستان کا سابقہ لگتا تھا  28 مئی کو غریب اور مقروض قوم کے حکمرانوں نے جو کروڑوں روپوں کی مالیت کے اشتہارات شائع کروائے اُ ن میں نہ اُن کا نام تھا نہ تصویر!!!