اگرچہ فلسطینیوں نے 38 ہزار شہادتیں پیش کرکے عالمی سطح پر سیاسی
اور اخلاقی کامیابی حاصل کی ہے ، لیکن جب تک نظام خلافت قائم نہیں
ہوتا اس وقت تک دنیا میں عدل قائم نہیں ہو سکتا : ڈاکٹر عطاء الرحمان عارف
اگر ہم اپنے نظریہ کی بنیاد پر آگے بڑھتے تو آج ہماری معیشت بھی مضبوط ہوتی،
دفاع بھی اور ہم کھل کر فلسطینی مسلمانوں کی مدد کر سکتے تھے : رضاء الحق
رفح میں خون کی ہولی اور یوم تکبیر کے تقاضےکے موضوعات پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
سوال: عالم ِاسلام کے مقابلے میں غیر مسلم اہل ِفلسطین کی حمایت میں زیادہ متحرک کردار ادا کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں کیس کرنے والا جنوبی افریقہ بھی غیر مسلم ملک ہے ۔ اسی طرح کچھ مغربی ممالک جنہوں نے فلسطین کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا تھا جیسا کہ آئرلینڈ ، سپین ، ناروےوغیرہ انہوں نے بھی فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ کیا یہ پیش رفت فلسطینی کاز کے لیے کامیابی کی علامت ہے ؟
رضاء الحق:جہاں تک مسلمان ممالک کا تعلق ہے تو ان کی طرف سے بظاہر کچھ ممالک نے مذمتی بیانات دیے اور کئی ایسے ممالک بھی ہیں جنہوں نے اسرائیل کی حمایت میں بیان دیے لیکن جہاں تک عملی اقدامات کی بات ہے تو کسی مسلم ملک کی طرف سے کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا گیا ۔ جبکہ غیر مسلم دنیا کو آپ فلسطینی کاز کے حوالے سے تین اقسام میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔ ایک وہ ہیں جو روایتی طور پر فلسطینی کاز کے حق میں ہیں اور اس کے لیے انسانی بنیادوں پر آواز اُٹھاتے ہیں ۔ ان میں جنوبی افریقہ بھی شامل ہے اور دنیا میں جو سٹریٹیجک تبدیلیاں آئی ہیں ان کی وجہ سے کسی حد تک روس اور چین بھی فلسطینی کاز کی حمایت کرتے ہیں ۔ دوسری قسم کے ملک وہ ہیں جو روایتی طور پر صہیونی نواز ہیںجن میں امریکہ سرفہرست ہے اور ایسے تمام ممالک کا سرخیل بھی ہے ۔ تیسری سطح پر عوام ہیں جن کی اکثریت کا رحجان فلسطینی عوام کے حق میں نظر آتاہے اور وہ اسرائیلی درندگی کے خلاف کھل کر آواز اُٹھا رہے ہیں ۔ آئر لینڈ ، سپین اور ناروے ان ممالک میں شامل ہیں جن کا روایتی موقف یہ رہا ہے کہ1990ء کے اوسلو معاہدے کے مطابق فلسطینیوں کے لیے ایک الگ ریاست پر غور کیا جائے کیونکہ اوسلومعاہدے کے تحت اسرائیل نے کہا تھا کہ دوریاستی حل کے متعلق سوچا جا سکتا ہے ۔7اکتوبر کے بعدکی اسرائیلی درندگی اور عالمی عدالت انصاف کے اسرائیل کے خلاف فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے آئرلینڈ ،ناروے اور سپین جیسے ملکوں نے بھی فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا ہے ۔ اب ان کا شمار دنیا کےان 143 ممالک میں ہوتاہے جنہوں نے فلسطین کو تسلیم کر لیا ہےاور یہ سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے فلسطینیوں کی فتح ہے۔ اس لیے کہ اب یہ ممالک بھی 1967ء سے پہلے کے بارڈرز کے مطابق فلسطینی ریاست کے قیام کے قائل ہو چکے ہیں جس کے مطابق یروشلم بھی فلسطینیوں کے پاس رہے اور مغربی کنارا بھی ان کے پاس ہو گا۔ ایک لحاظ سے دیکھیں تو یہ اچھی ڈویلپمنٹ ہے ۔ لیکن اسرائیل تو دوریاستی حل کو شروع دن سے قبول نہیں کرتا، اس کے مطابق یہ یہودیوں کا علاقہ ہے اور یہودیوں کے علاوہ اس پر کسی اور کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہودیوں کے علاوہ جو رہے گا وہ دوسرے درجے کے شہری کے طور پر رہے گا ۔ اسرائیل کی پشت پر امریکی حکومت بھی ہوتی ہے چاہے وہ کسی بھی پارٹی کی ہو ۔ چند دن پہلے ٹرمپ نے بھی ایک یہودی اجتماع میں کہا کہ مجھے منتخب کرواؤ تو میں امریکہ میں فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہروں کو کچل دوں گا ۔ یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ آئرلینڈ ، سپین اور ناروے جیسے بہت سے ممالک کا اب اتنا پریشر ہوگا کہ صہیونیوں کے لیے اخلاقی طور پر شاید ممکن نہ رہے کہ وہ فلسطینیوں کا صفایا کر سکیں ۔
عطاء الرحمان عارف:جمہوری ممالک میںداخلی سطح پر عوام کا پریشر بہت معنی رکھتا ہے ۔ خاص طور پر ناروے، آئرلینڈ اور سپین میں بڑے بڑے مظاہرے ہوئے تھے اور سوشل میڈیا بلکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی ان کو دکھا رہا تھا جس کا اثر ان کی حکومتوں نے لیا ہے ۔
سوال:یہ سب باتیں اپنی جگہ پر ہیں۔ یقیناً مظاہرے بھی ہورہے ہیں ، عالمی عدالت انصاف نے بھی اسرائیل کے خلاف فیصلہ دیا ہے لیکن ان سب چیزوں کا حاصل کیا ہے ؟ اسرائیل تو اپنی جگہ فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہا ہے ؟
عطاء الرحمان عارف:اصل میں یہ جہاد حریت ہے جس کا آغاز 7 اکتوبر کو ایک چھوٹے سے گروہ نے کیا تھا ۔ اس میں مثبت بات یہ ہے کہ38 ہزار عام شہریوں کی شہادتوں کے باوجود کہیں سےیہ آواز نہیں اٹھی کہ القسام بریگیڈ نے ہمارے ساتھ ظلم کیا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو عالمی میڈیا اس کو بہت اُچھالتا ۔ فلسطینی اپنی آزادی کے لیے شہادتیں پیش کر رہے ہیں ۔ دوسری طرف اسرائیل کا اپنا ایجنڈا ہے جس کی تکمیل کی طرف وہ بڑھ رہا ہے لیکن اس جنگ میں فلسطینیوں کو سیاسی اور اخلاقی طور پر کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔
سوال: عالمی عدالت انصاف کا جو فیصلہ ہے کیا اس پر عمل درآمد کے لیے اسرائیل کو مجبور کیا جا سکتا ہے؟
عطاء الرحمان عارف:بظاہر جو حالات ہیں ان میں تو ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صہیونی تنظیموں نے عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے اقوام عالم کی حکومتوں کو کنٹرول کیا ہوا ہے ۔ ان تنظیموں کو معاشی ، تجارتی ، ٹیکنالوجی کی سطح پر اور ہر لحاظ سے برتری حاصل ہے اور اس برتری کی وجہ سے یہ دنیا بھر کی حکومتوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔البتہ 7 اکتوبر کے بعد کی اسرائیلی درندگی اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی وجہ سےاتنا ضرور ہوا ہے کہ اسرائیل کو سیاسی اور اخلاقی سطح پر شکست ہوئی ہے کیونکہ پہلے اسرائیل یہ پروپیگنڈا کر رہا تھا کہ فلسطینی دہشت گرد ہیں لیکن اب دنیا یہ تسلیم کر رہی ہے کہ اسرائیل دہشت گرد اور ظالم ہے ۔ گویا تاریخ میں اب لکھا جا سکے گا اسرائیل ظالم ہے۔
رضاء الحق:احادیث میں آتا ہے کہ ایک وقت وہ بھی آئے گا جب پتھر بھی پکاریں گے کہ اے مسلم! یہودی میرے پیچھے چھپا ہے آؤ اس کو قتل کر دو ۔ میرے خیال سے یہ ساری فضا اُسی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے ۔جو کچھ اسرائیل اور اس کے سپورٹرز کر رہے ہیں اس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں اسرائیل کی نفرت بڑھتی جارہی ہے ۔ مغربی میڈیا میں عام طور پر اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کوئی بات انسانی اقدار کے خلاف نہ ہو لیکن امریکہ کا ایک معروف جریدہ اٹلانٹک ہے جو پوری دنیا میں پڑھا جاتاہے اس میں ایک آرٹیکل شائع ہوا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ رفح پر اسرائیلی حملے کے دوران اگر بچے شہید ہورہے ہیں تو وہ اسرائیل کا کوئی غیر قانونی کام نہیں ہے ۔ اُن بچوں کو’’Legally killed babies‘‘قرار دیا گیا۔اس طرح کی حرکتیں اسرائیل کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ کریں گی ۔
سوال:فلسطینیوںکی نسل کشی کا ڈراپ سین کیا ہوگا؟
رضاء الحق: میں سمجھتا ہوں کہ اس ساری جنگ کا اختتام اسی طرح ہو گا جس طرح احادیث میں بیان ہوا ہے۔ ان کا مسایاح (دجال ) آئے گا لیکن اس سے پہلے ان کے جو اہداف ہیں وہ پورا کرنے کی کوشش کریں گے ، اُن کی خواہش ہے کہ دجال یروشلم میں بیٹھ کر پوری دنیا پر حکومت کرے ۔اس کے علاوہ ثانوی درجہ میںمعدنیات، تیل، گیس اور دیگر معاشی وسائل پر بھی کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن پھر کایاپلٹے گی۔ پھر حضرت امام مہدی کا ظہور ہوگا ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا اور دجال کا خاتمہ کیا جائے گا ۔ آپ اندازہ کریں کہ یہود کی خود ساختہ مذہبی روایات میں لکھا ہے کہ یہود کے لیے جھوٹ بولنا نہ صرف جائز ہے بلکہ واجب ہے اور اسی طرح بچوں کا قتل بھی ان کے نزدیک جائز متصور ہے ۔
سوال:یہودی اپنے مذہب پر عمل پیرا ہو کر اپنے مقاصد کی طرف بڑھ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف مسلمان غفلت میں مبتلاہیں ۔ حالانکہ احادیث موجود ہیں کہ اسلام کا غلبہ بھی ہوگا لیکن اس حوالے سے کوئی پیش رفت پوری امت مسلمہ میں کہیں نظر نہیں آرہی۔اس کی کیا وجہ ہے ؟
عطاء الرحمان عارف:بانیٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے اس موضوع پر بہت تفصیل سے گفتگو کی ہے اور اس حوالے سے ان کی معرکۃ الآراء تصنیف ’’سابقہ اور موجودہ مسلمان امتوں کا ماضی ،حال اور مستقبل‘‘ کے عنوان سے بھی موجود ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہُ ط وَاللہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (54)} (آل عمران)’’اب انہوں نے بھی چالیں چلیں اور اللہ نے بھی چال چلی اور اللہ تعالیٰ بہترین چال چلنے والا ہے۔‘‘
صحیح احادیث میں خبریں موجود ہیں کہ آخری زمانے میں یہود کو جمع کرکے یہاں لایا جائے گا ، قرآن (سورہ بنی اسرائیل)میں بھی یہ خبر موجود ہے ۔ 1948ء کے بعد آہستہ آہستہ وہ یہاں جمع ہو رہے ہیں ۔ اب یہ اپنی آخری جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں، اپنے حساب سے تو وہ جہاد کر رہے ہیں ۔ جبکہ دوسری طرف مسلمان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوئے ہیں کہ سب کچھ اللہ کر دے گا ۔ حالانکہ ہمیں اللہ کے دین کے قیام کے لیے جدجہد کرنی چاہیے ۔
سوال: قران مجید میں کہا گیا کہ جب آخری وعدے کا وقت آئے گا تو ہم تمہیں لے آئیں گے اکٹھا کر کے۔ اس کو یہودی اپنے لیے بشارت سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ وہ اس کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں لیکن مسلمان تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کو بھول گئے ہیں۔ یہاں تک کہ علماءکاایک طبقہ بھی سمجھتا ہے کہ شاید اب یہ نہ ہونے والی بات ہے ۔آپ کیا کہیں گے اس پر ؟
رضاء الحق: کالونیل دورمیں امت مسلمہ کے اندر جو انحطاط آیا ہے اور خلافت کا خاتمہ ہوا ہے تو اس کے بعد تین بڑے گروہ امت میںپیدا ہوئے ہیں ۔ایک وہ جو بغیر تیاری کیے میدان میں کود پڑتے ہیں اور ناکام ہو جاتے ہیں ۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو وقت اور حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرکے اسلام کی جدید تشریح چاہتا ہے جومغربی افکار سے ہم آہنگ ہو ۔ اس گروہ میں آپ کو جدت پسند سکالرز اور دانشور بھی نظر آئیں گے ۔ جبکہ تیسرا گروہ وہ ہے جواسلام کی عظمت رفتہ سے متاثر ہوکر چاہتا ہے کہ اسی طرح کا عروج دوبارہ حاصل ہو ۔یہ گروہ دین کی اصل بنیادوں پر قائم رہتے ہوئے اس کے قیام کی جدوجہد کر رہا ہے ۔
سوال: پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے ۔ چند دن قبل اسی یاد میں ہم نے یوم تکبیر بھی منایا ۔ کیا ایٹمی پاکستان کا معاملہ باقی مسلم ممالک سے مختلف نہیں ہونا چاہیے تھا ؟ کیونکہ جب پاکستان ایٹمی قوت بنا تھا توپوری دنیا کے مسلمانوں نے اس پر خوشی منائی تھی ۔ خصوصاً عرب ممالک نے اسے اسلامی بم قرار دیا تھا ۔ کیا اس لحاظ سے پاکستان پر زیادہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ وہ فلسطینیوں کی مدد کرے ؟
رضاء الحق:پاکستان اسلامی نظریاتی ریاست کے طور پر ایک ایسے وقت میں قائم ہوا جب اللہ کی کبریائی کو خاص طور پر سیاسی سطح پر بلند کرنا ناپید ہو چکا تھا ۔ دنیا کی بقیہ تمام ریاستیں نیشن سٹیٹس کے طور پر وجود میں آئیں ۔ صرف پاکستان واحد ملک ہے جو کلمۃ اللہ لاالٰہ الا اللہ کی بنیاد پر وجود میں آیا ۔ پھر رمضان کی 27 ویں شب کو اللہ تعالیٰ نے یہ ملک عطا کیا ۔ 1949ء میں قرارداد مقاصد بھی پا س ہو گئی ۔ 31 علماء کے متفقہ 22 نکات بھی سامنے آگئےکہ جن کی بنیاد اسلامی نظام کو یہاں قائم کیا جا سکتا ہے ۔ پھر 1973ء کے آئین میں یہ بھی طے ہوگیا کہ یہاں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہوگی اور کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے منافی نہیں ہوگی۔ پھر 28 مئی 1998 ءکواللہ تعالیٰ نے اس مملکت کو ایٹمی قوت بھی بنا دیا۔ یہ بھی ایک معجزہ تھا کہ دشمنوںمیں گھرے ہونے کے باوجود پاکستان ایٹمی قوت بننے میں کامیاب ہوگیا ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی تائید و حمایت پاکستان کو حاصل تھی لیکن ہم نے خود اسلام سے منہ موڑ کر سودی معیشت اور سیکولر نظام کو اپنے اوپر مسلط کر لیا جس کی وجہ سے ہم کمزور ہوتے ہوتے IMFاور امریکہ کے چنگل میں پھنس گئے ۔ آج حالت یہ ہے کہ ہم امریکہ کی ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں اور امت کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر پارہے ۔ اگر ہم اپنے نظریہ کی بنیاد پر آگے بڑھتے تو آج ہماری معیشت بھی مضبوط ہوتی ، دفاع بھی مضبوط ہوتا ، اندرونی طور پر بھی متحد اور مستحکم ہوتے اور تب ہم کھل کر فلسطینیوں کا ساتھ بھی دے سکتے تھے ۔
عطاء الرحمان عارف:ہمارےلیےاصل راہنمائی قرآن وحدیث میں ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : {یٰٓـــاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ(1)قُمْ فَاَنْذِرْ(2)وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ(3)}(المدثر) ’’اے کمبل میں لپٹ کر لیٹنے والے (ﷺ)! آپؐ اٹھئے اور (لوگوں کو) خبردار کیجیےاور اپنے رب کو بڑا کیجئے!‘‘
نظریاتی طور پریہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اللہ کی بڑائی کو قائم کریں ۔ اللہ کی بڑائی ہم تب ہی قائم کر سکتے ہیں جب ہم نظریاتی طور پر اسلامی ہوں ، معاشی طور پر مضبوط ہوں اور سیاسی طور پر مستحکم ہوں ۔ ہم یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اسرائیل کا توڑ پہلے پیدا کیا ۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ آج پاکستان فلسطینیوں کی مدد نہیں کر پارہا ۔ حالانکہ پاکستان ایک ایٹمی قوت بھی ہے ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ پاکستان ایٹمی حملہ کردے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اپنی اس پوزیشن کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسرائیل کو دھمکی دے سکتا ہے کہ غزہ میں نسل کشی روک دو ورنہ یہ جنگ پھیل سکتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی اس دھمکی کے ساتھ بہت کچھ تبدیل ہو سکتا ہے لیکن چونکہ پاکستان کی معاشی مجبوریاں ہیں ، IMFسے اگلی قسط لینی ہے ۔ اس وجہ سے ہم کچھ نہیں کر پارہے ۔ اصل میں ہماری حکومتوں نے پلاننگ ہی نہیں کی۔ دنیا کی حکومتیں لانگ ٹرم منصوبہ بندی کرتی ہیں اور اس پر عمل درآمد ہوتا ہے لیکن یہاں حکومتیں بھی پانچ سال پورے نہیں کرتیں اور حکومت کے جاتے ہی پالیسیاں بھی بدل جاتی ہیں ۔ حکمران طبقہ ذاتی مفادات کی وجہ سے قومی مفاد کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ جب تک نظام خلافت قائم نہیں ہوتا اس وقت تک دنیا میں عدل قائم نہیں ہو سکتا ۔ جب نظام خلافت موجود تھا اس وقت خلافت کے دائرے میں موجود غیر مسلم بھی اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے تھے اور اگر کسی کمزور ملک کے ساتھ ناانصافی ہوتی تھی تو وہ بھی مسلمان خلیفہ کی طرف دیکھتا تھا ۔
رضاء الحق: ضیاء الحق کے دور میں جب پاکستان کو یہ خطرہ تھا کہ اسرائیل انڈیا کو استعمال کر کےایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنا چاہ رہا ہے تو کرکٹ ڈپلومیسی کے نام پر ضیاء الحق انڈیا گئے اور راجیو گاندھی کو سائیڈ پر لے جا کےیہ دھمکی دی کہ اگر اسرائیل نے پاکستان کے ایٹمی پلانٹ پر حملہ کی کوشش کی تو انڈیا کو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا ۔ اس کے بعد نہ تو بھارت نے کھلم کھلا حملہ کی کوشش کی اور نہ اسرائیل نے ۔ قومی مفاد میں اس طرح کے مضبوط فیصلے بھی لینے پڑتے ہیں ۔ مگر یہ اس صورت میں ممکن ہے جب ہم ملکی مفاد کے ساتھ مخلص ہوں ، کرپشن میں ملوث نہ ہوں ، سپر پاور بننے کےجو تقاضے ہیں ان کو پورا کریں ، خاص طور پر سودی نظام سے جان چھڑائیں ، یہ سود ہی کی لعنت تھی جس نے خلافت عثمانیہ کو کمزور کیا اور وہ شکست و ریخت کا شکار ہوگئی ۔ حالانکہ ایک وقت وہ بھی تھا جب ملکہ برطانیہ کسی جنگی مہم پر روانہ ہو رہی تھی تو پیچھے ملک کی حفاظت کے لیے خلافت عثمانیہ سے ہی درخواست کی تھی کہ میری غیر موجودگی میں میرے ملک کی حفاظت کریں ۔
سوال:پاکستان میںفلسطینیوں کے حق میں مظاہرے بھی ہوئے اور عوام کسی حد تک باہر نکلے لیکن اس میں سارا کردار دینی جماعتوں کا ہے ، حکومت نے کوئی کردار ادا نہیں کیا ، بلکہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ حکومت اور انتظامی ادارے خائف نظر آرہے ہیں ، اسلام آباد میں سینیٹر مشتاق احمد خان کے دھرنے میں جو کچھ ہوا اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے حکومت کیا چاہتی ہے ؟
عطاء الرحمان عارف: سینیٹر مشتاق احمد صاحب کا دھرنا اسلام آباد کے ریڈ زون ایریا میں تھا جہاں پارلیمنٹ ہے اور دیگر ممالک کے سفارتخانے بھی ہیں۔ عین موقع پرجب یہ حادثہ ہوا سی سی ٹی وی کیمروں کا بند ہو جانا ایک سوالیہ نشان ہے ۔ اصل بات یہ ہے جب حکومتوں کے ہاتھ میں کشکول ہو ، وہ اپنے بجٹ بنانے کے لیے عالمی اداروں اوراُن ممالک کی طرف دیکھ رہی ہوںجو اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں تو پھر اس طرح کے واقعات ہی پیش آتے ہیں ۔ اہل غزہ کے حق میں یہ دھرنا کافی عرصہ سے جاری تھا،اس کو سبوتاژکرنے کے لیے کئی ہتھکنڈے استعمال کیے گئے ۔ اللہ تعالیٰ دھرنے کے شرکاء اور خاص طور پر سینیٹر مشتاق احمد کو مزید ہمت اور حوصلہ عطافرمائے ۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرارا حمدؒفرماتے تھے کہ:{کُفُّوْٓا اَیْدِیَکُمْ} (النساء:77)’’اپنے ہاتھ روکے رکھو۔‘‘ کے مرحلے میں جب ظلم بڑھتا ہے تو جو خاموش اکثریت ہوتی ہے اس کی حمایت مظلوموں کے ساتھ ہو جاتی ہے ۔ آپ دیکھ لیں اہل غزہ کا صبر اور اسرائیل کا ظلم دیکھ کر دنیا بھر میں لوگ سراپا احتجاج ہو گئے ہیں ، یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ پاکستان میں بھی ڈی چوک کے دھرنے میں دو افراد کی شہادت کے بعد خاموش اکثریت دھرنا دینے والوں کے ساتھ ہو گئی لیکن حکومت چونکہ مجبور ہے اور بیرونی سہاروں پر چل رہی ہے اس لیے جو کچھ ہو رہا ہے یہ عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے ۔
سوال: تنظیم اسلامی نے فلسطین کی حمایت میں کیا کیا اقدامات کیے ہیں اور کس حد تک وہ موثر ثابت ہوئے ہیں ؟
عطاء الرحمان عارف:تنظیم اسلامی کے وسائل اگرچہ محدود ہیں لیکن اس کے باوجود جس طرح ہر باشعور فرد نے اہل غزہ کا درد محسوس کیا ، اسی طرح ہم نے بھی محسوس کیا اور اہل غزہ کے حق میں فوری طور پر ملک گیر مہم شروع کی ۔ اب تک اس حوالے سے ہم تین مہمات چلا چکے ہیں ۔ ان کے تحت ہم نے پورے پاکستان میں مظاہرے کیے ، ریلیاں نکالیں ، لوگوں کے اندر فلسطین کے حوالے سے آگاہی اور بیداری پیدا کرنے کے لیے تمام ذرائع استعمال کیے ۔ ملک کے بڑے شہروں میں سیمینارز منعقد کیے ۔ابھی ان شاء اللہ چوتھی مہم بھی شروع کرنے والے ہیں جو کہ رفح پر اسرائیلی حملے کے خلاف ہے ۔ اسی طرح ہم نے ندائے خلافت کا خصوصی شمارہ شائع کیا ۔وقتاً فوقتاً پریس ریلیززجاری کیں۔ مسجد اقصیٰ کی تاریخی اہمیت کے حوالے سے خصوصی کتابچہ تقسیم کیا ، تمام ممالک کے سفراء کو خطوط لکھے ۔ اسی طرح پاکستان کے سینیٹرز ، ایم این ایز ، وزراء، یونیورسٹیز کے پرنسپلز ،بارکونسلز کے نمائندوں، وزیراعظم ، دفتر خارجہ اور وزارت دفاع کو خطوط لکھے ۔ مسجد اقصیٰ کے حوالے سے ہم نے ایک معلوماتی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائی ۔ پھر ہم نے مظلوم فلسطینیوں کے لیے خصوصی اجتماعی دعاؤں کا اہتمام کیا، قنوت نازلہ کا اہتمام کیا گیاجو جاری ہے ۔ اسرائیل نواز کمپنیوں کی مصنوعات کی بائیکاٹ مہم کے حوالے سے اپنے رفقاء اور احباب کو خصوصی ہدایات دیں ۔ تنظیم اسلامی کی ویب سائٹ پر فلسطین کے حوالے سے خصوصی صفحہ شائع کیا ۔زمانہ گواہ ہے پروگرام میں دانشوروں کو اور حماس کے رہنما کو بلا کر عوام کو آگاہی دینے کی کوشش کی ہے کہ اس مسئلہ پر خاموشی اختیار نہ کریں ، تنظیم اسلامی کے تحت جہاں جہاں خطاب جمعہ ہو رہا ہے وہاں خطاب جمعہ میں قضیہ ٔ فلسطین مستقل موضوع ہے ۔ اس کے علاوہ ہم نے دیگر مذہبی اور دینی جماعتوں کو بھی اس ایشو پر متحد کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ان کو خطوط بھی لکھے ہیں ، ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پراس حوالے سے بات کی ہے ۔ دینی جماعتوں کے سربراہان سے براہ راست اس موضوع پر گفتگو کی ہے ۔یعنی ہمارے بس میں جو ہے وہ ہم کر رہے ہیں۔ حکومت کے پاس اختیار بھی ہے ، طاقت بھی ہے ، وہ اقدام کر سکتی ہے ہم حکومت سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرے ۔ عوام کو بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔ آئر لینڈ ، سپین اور ناروے میں عوام باہر نکلے ہیں تو ان کی حکومتیں فلسطین کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئی ہیں ۔ اسی طرح اگر پاکستان میں تمام دینی جماعتیں متحد ہو کر مظاہرہ کریں تو حکومت عملی اقدامات کرنے پر مجبور ہو سکتی ہے ۔
سوال:تنظیم اسلامی فلسطینیوں کی مالی مدد کے لیے جماعت اسلامی کی الخدمت فائونڈیشن کو ریفر کرتی ہے۔ تنظیم نے اپنافنڈ کیوں قائم نہیں کیا؟
عطاء الرحمان عارف:اس وقت سوشل میڈیا پر اور دیگر ذرائع سے بہت سارے لوگ غزہ کے لیے فنڈ کی اپیل کر رہے ہیں مگر ہم اس طرف رہنمائی دیں گے جہاں ہمیں مکمل یقین ہوگا کہ فنڈز اہل ِ غزہ تک پہنچ جائیں گے ۔ ہم نے تحقیق کی کہ کون کون سے ادارے ایسے ہیں کہ جن کے غزہ میں رابطے ہیں ۔ اس کے بعد ہم نے تین اداروں کے نام لیے ۔ ان میں ایک الخدمت فاؤنڈیشن ہے ، دوسرا خبیب فاؤنڈیشن ہے اور تیسرا ادارہ جامع دارالعلوم کراچی ہے۔ تنظیم اسلامی کا براہ راست اہل ِ غزہ سے کوئی رابطہ نہیں ہے اس لیے ہم نےان تین اداروںکو ریفر کیا جو اہل غزہ تک مالی امداد جلد ازجلد پہنچا سکتے ہیں ۔ تنظیم اسلامی نے اپنے طور پر بھی جو فنڈ اکٹھا کیا ہے وہ انہی اداروں کے ذریعے بھیجا ہے ۔