لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ
دین میں کوئی جبر نہیں
عبد الرؤف(معاون شعبہ تربیت)
وہ ملک جو آج سے 77برس قبل اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور جس کے حصول کی خاطر آگ اور خون کے بہت بڑے دریا کو عبور کرناپڑا، تاریخ انسانی کی بہت بڑی ہجرت ہوئی ، لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا، ہزاروں کی تعداد میں عصمتیں لُٹیں ، غرضیکہ ہر طرح کا نقصان صرف اس قیمت پر برداشت کیا گیا کہ اس کے نتیجے میں ایک ایسا گہوارہ میسر آنے والا ہے جس میں ہم اپنی بقیہ زندگی اسلام کے اصول ِ حریت، اخوت اور مساوات کے تحت گزار کر اس دنیا کی چند روزہ زندگی کو آخرت کی حیات جاوداں کے لیے بہترین تیاری کا ذریعہ بنائیں گے۔ لیکن ہوا یہ کہ ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ کے مصداق اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملکِ خداداد میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ آئین کے چند قوانین بھی اپنی اصل شکل میں جلوہ گر نہ ہو سکے ۔ اس کے برعکس اسلام کے خلاف جو آوازیں پہلے صرف نجی محافل اور ڈرائنگ رومز تک محدود رہتی تھیں ،گزشتہ دوعشروں سے میڈیا کی مادر پدر آزادی کے باعث نام نہاد دانشوروں اور سکالرز کی قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبانوں سے غراہٹ کے ساتھ اس انداز میں سامنے آرہی ہیں جیسے اسلام کسی عام انسان کی طرف سے پیش کیا گیا کوئی عام سا نظام ہے جس پر جو چاہے جیسے مرضی خامہ فرسائی کرتا پھرے لیکن اس کی زبان کوئی نہ روکے۔
بعدازاں ’’زنا بالجبر‘‘ اور’’ زنا بالرضا‘‘ کی غیر معروف اصطلاحات اسی نام نہاد میڈیا کے ذریعہ بچے بچے کی زبان پر آئیں جس کے نتیجہ میں’’حقوقِ تحفظ خواتین‘‘کے نام پر پرویزی دور حکومت میں کھلم کھلا فحاشی کے اجازت نامے پر مبنی قانون بنایاگیا۔ اس کے بعد قانون ناموس رسالت کے خلاف بھی اسی میڈیا کے ذریعہ مورچہ لگایا گیا آج بھی یہود و ہنود کے ایجنڈے کی تکمیل میں وقف رہنے والی قوّتوں نے اسلامی شریعت پر اپنی زبانی وعملی ناپاک گولہ باری جاری رکھی ہوئی ہے۔ جس کے نتیجے میں کبھی اسلام میں ایک سے زیادہ شادیوں پر کھلے عام تنقید کی جاتی ہے اور کبھی’’ کم عمری کی شادی‘‘ کو موضوعِ بحث بنایا جاتا ہے۔ کبھی سندھ میں اسلام قبول کرنے والی مسلمان بچیوں کے حوالےسے افواہ پھیلائی جاتی ہے کہ انہیں جبراً مسلمان بنایا جارہا ہے ، کبھی LGBTQ اور ٹرانسجینڈر کے لیےدھوکہ دہی سے قانون سازی کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس کی منطقی انتہا ایک طرف امریکی ہم جنس پرستوں کے میوزک بینڈ کی پاکستان آمد اور دوسری طرف ایبٹ آباد میں ایک ہم جنس پرست کا مقامی ڈپٹی کمشنر کو GAY CLUB کھولنے کی درخواست دینا ہے ۔مزید برآں سرکاری سرپرستی میں پنجاب حکومت کی طرف سے تعلیمی اداروں میں مقابلہ ہائے موسیقی کا انعقاد اور وہ بھی اس وقت کرنا جب فلسطین میں کم و بیش چالیس ہزار مسلمان مرد، عورتیں اور بچے صہیونی ظالموں کے ہاتھوں رتبہ شہادت پاچکے ہیں اور جو زندہ ہیں وہ ہماری مدد کے منتظر ہیں لیکن یہاں تو فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں پر نہ صرف مقدمات بنائے جارہے ہیں بلکہ ان پر تیز رفتار گاڑی چڑھا کر شہید بھی کیا جا رہا ہے۔کبھی آئین کی بے روح اسلامی شقوں کو ہدف ِ تنقید بنایا جاتا ہے۔ جب مقابلے میں کوئی اسلامی شریعت یا آئین کو مکمل اسلامی بنانے اور قوانین شریعت کی عملداری کی بات کرتا ہے تو اس موقع پر سورۃ البقرۃ کی آیت 256 کے پہلے جملہ { لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف} کا سہارا لے کر معنوی تحریف قرآن کا ایک نیا دروازہ کھولنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے۔
یہ وہی کوشش ہے جو بہت عرصہ سے مستشرقین کر رہے ہیں، چونکہ اسلام سے پہلے حضرت عیسیٰ ؑ کے پیروکار دین حق پر تھے لیکن جب حضرت عیسیٰ ؑ کے رفع سماوی اور قیصر روم کے عیسائیت قبول کر لینے کے بعد سلطنت روما کی اکثریت نے عیسائیت قبول کرلی تو انہوں نے باقی لوگوں کو بالجبر عیسائیت قبول کروانے کے لیے وہ تمام ہتھکنڈے آزمائے جو عام طور پر ایک حکومت آزماتی ہے۔ لیکن اسلام ایک ایسا دین ہے جس نے آتے ہی اعلان کردیا کہ { لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف} یعنی کسی بھی غیر مسلم سے جبراًاسلام قبول نہیں کروایا جائے گا۔
{ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف} کے سیاق و سباق پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے قبل آیۃ الکرسی میں توحید فی الصفات کا اس جامعیت سے تذکرہ ہے کہ انسان تھوڑے سے غور و فکر کے بعد ہی اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلالت ِ شان کا شعورحاصل کر لیتا ہے اور اس کے اندربندگی ٔ رب کی تڑپ پیدا ہوتی چلی جاتی ہے جبکہ اس کے بعد والے الفاظ یہ وضاحت کر رہے ہیں کہ’’ ہدایت گمراہی سے واضح ہوچکی ہے تو جو کوئی بھی طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘ یہاں پرسورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 256مکمل ہو رہی ہے۔ اگر عقل کے اندھے یہ نام نہاد دانشور، پروفیسر اور ڈاکٹر اس پوری آیت کو ہی پڑھ لیں تو انہیں پتہ چل جائے گا کہ ہدایت اور گمراہی دو علیحدہ چیزیں ہیں اور جو اپنی آزاد مرضی سے گمراہ رہنا چاہتا ہے اللہ اسے کھینچ کر زبردستی نہ خود ہدایت پر لاتا ہے اور نہ ہی اس کا اپنے مومن بندوں سے یہ مطالبہ ہے کہ انہیں زبردستی مسلمان بناؤ بلکہ واضح کیا جارہا ہے کہ اسلام ایک ایسا الٰہی نظریہ ہے جو جبرواِ کراہ سے نہیں پھیلایا جا سکتا بلکہ صرف تبلیغ اور دعوت کے ذریعہ ہی لوگوں کے ذہن میں اتارا جا سکتا ہے۔جو لوگ اپنی آزاد مرضی سے اسلام قبول کر لیتے ہیں اور مسلمان کہلوانا پسند کرتے ہیں ان کے لیے تو صرف ایک ہی راستہ ہے کہ جس ہدایت کو انہوں نے دل سے قبول کیا ہے اس کے تمام قوانین پر دل وجان سے عمل بھی کرنا ہوگا اور دین کی طرف سے عائد باقی تمام ذمہ داریاں بھی ادا کرنی ہوں گی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی واضح رہنی چاہئے کہ قرآن میں جہاں{ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف} والی آیت ہے وہاں اس سے پہلے اسی سورۃ البقرۃ کی آیت 193 میں فرمایا گیا کہ :{وَقٰـتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَـکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلہِطفَاِنِ انْتَہَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیْنَ(193)}’’اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور دین ( نظام زندگی) اللہ کا ہوجائے۔‘‘
ٍ فتنہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نظام زندگی سے بغاوت کا نام ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے باغیوں کے خلاف جنگ کا حکم دیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی زمین پر ظلم کا خاتمہ ہو ، جو اسلام کا اصل مطلوب ہے، لہٰذا ثابت ہوا کہ مسلمان کا اصل مقصد تو زمین سے فساد ختم کر کے عدل کے قیام کی جدوجہد ہے جسے سورۃ الحدید کی آیت 25 میں تمام رسولوں کا مقصد بعثت قرار دیا گیا ہے، لہٰذا آج اگر ہم مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ اغیار کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہوکر چند ٹکوں اور زندگی کی چند حقیر آسائشوں کی خاطر ان کے آلۂ کار بننے کے بجائے اس دین کے غلبے کے لیے اپنا جان ، مال، اوقات اور صلاحیتیں وقف کردیں جو تمام انسانیت کا نجات دہندہ ہے، جس کے لیے ہر سطح پر جہاد ضروری ہے اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نےاسلام کے کامل غلبہ تک مسلسل جہاد کا حکم دیا ہے ۔ آخر میں جہاد کی فرضیت کے حوالے سے سید قطب شہید کی تفسیر’’فی ظلال القرآن ‘‘ کے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں: ’’محض اسلام نے جہاد کو اس لیے فرض کیا ہے کہ دنیا میں مذکورہ بالا ارفع واکمل نظامِ زندگی قائم کرے اور اس کی حمایت اور بچاؤ کی تدابیر اختیار کرے، یہ اسلام کا حق تھا کہ وہ بذریعہ جہاد باطل اور فاسد نظام ہائے زندگی کا قلع قمع کردے جو اس اصول پر قائم تھے کہ بعض انسان دوسرے انسانوں کے غلام ہیں اور جن میں بعض انسان خدائی کے مقام کے مدعی ہوتے ہیں جو خدائی فرائض سنبھالتے ہیں، حالانکہ یہ ان کا حق نہیں ہوتا اور ظاہر ہے کہ جب اسلام اس نصب العین کو لے کر اُٹھتا ہے تو یہ باطل نظام ہائے زندگی بھی اس کے مقابلے میں اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور وہ اس کے دشمن ہوجاتے ہیں۔
لہٰذا اس کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہ تھا کہ اسلام ان طاغوتی نظاموں کا قلع قمع کر کے ان کی جگہ اس کرۂ ارض پر اپنے ارفع و اکمل نظام کا اعلان و قیام کردے، اور پھر اس نظام کے زیرسایہ انہیں اپنے مخصوص عقائد کےا ندر آزادی عطا کردے اور ان پر صرف اسلام کے اجتماعی سول کوڈ، اسلامی اخلاقیات اور مملکت کی اقتصادی پالیسی کی پابندی لازم ہو ۔ رہے دینی اور قلبی عقائد و رجحانات تو ان میں وہ مکمل طور پر آزاد ہیں ، ان کے شخصی قوانین و معاملات میں بھی وہ مکمل طور پر آزا د اپنے عقائدکے مطابق اپنے معاملات طے کریں لیکن اسلامی نظام زندگی ان پر قائم ہو جو ان کی حفاظت کرے، ان کی آزادی اس کے سایہ میں محفوظ ہو، ان کو مکمل آزادی رائے حاصل ہو، ان کی عزت محفوظ ہو اور ان کے مکمل اساسی حقوق انہیں حاصل ہوں لیکن ٹھیٹھ اسلامی نظام کے دائرے کے اندر اندر۔یہ جہاد ابھی باقی ہے اور مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اسلامی نظام زندگی کے قیام و نفاذ کے لیے اس جہاد کو قائم رکھیں۔‘‘