امیرتنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ کا مختصر دورہ، ڈی چوک اسلام آباد
’’غزہ کو بچاؤ‘‘ (Save Gaza) کے عنوان سے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان اور ان کی اہلیہ محترمہ نے مسلم دنیا اور اس کے حکمرانوں کی بے حسی اور خاص طور پر مسلم دنیا کے واحد ایٹمی ملک پاکستان کے حکمرانوں کی بے بسی کو دیکھتے ہوئے گزشتہ کئی ہفتوں سے اسلام آباد کے معروف ڈی چوک پر دھرنادیا ہوا ہے۔3 جون 2024 ءکو امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ نے سینیٹرمشتاق صاحب سے اظہار یکجہتی کے لیے ڈی چوک کا دورہ کیا۔ امیر تنظیم اسلامی ،حلقہ خیبر پختونخوا جنوبی کے ناظم دعوت ناصر صافی کے ہمراہ سہ پہر ڈی چوک پہنچے۔ نائب ناظم اعلیٰ شمالی زون ڈاکٹرامتیاز احمد، امیر حلقہ اسلام آباد راجہ محمد اصغر اور راقم پہلے سے ڈی چوک پر دھرنے کے مقام پر موجود تھے۔ سینیٹر مشتاق صاحب نے امیرتنظیم اسلامی کا استقبال کیا اور اُن کا شکریہ ادا کیا۔ سینیٹر صاحب کی دعوت پر امیر تنظیم نے دھرنے کے شرکاء سے مختصر خطاب کیا۔انہوں نے مسلم دنیا کے حکمرانوں کو بالعموم اور ایٹمی پاکستان کے حکمرانوں کو بالخصوص قرآن و حدیث کی روشنی میں متوجہ کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچنے سے پہلے اپنی باغیانہ روش کو ترک کر کے غزہ کے مظلو م مسلمانوں کی مدد کے لیے عملی اقدامات اُٹھائیں ۔ غزہ کے مسلمانوں کے خلاف آٹھ ماہ سے جاری صہیونی جارحیت کے فوری خاتمہ کے لیے حکومتی سطح پر آواز بلند کی جائے۔ انہوں نے حکومتِ پاکستان اور مقتدر حلقوں کو یاد دلایا کہ پاکستان کے قیام سے قبل ہی بانیانِ پاکستان نے فلسطین کے مسئلے پر اپنا موقف واضح کردیا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو مغرب کا ناجائز بچہ قرار دیا تھا۔ علامہ اقبال نے بھی فلسطینی مسلمانوں کی حمایت میں بھر پور آواز بلند کی تھی۔پھر یہ کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان شہید نے دورہ امریکہ کے دوران یہودیوں کی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی پیشکش کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھاکہ’’Our souls are not for sale ‘‘۔ انہوں نے حکومتِ پاکستان اور مقتدر حلقوں کو یاد دلایا کہ 1973ء میں پاکستانی ہوابازوں نے اسرائیلی فضائیہ کے خلاف بھرپور آپریشن کیا تھا۔آج بھی پاکستان اپنی ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی کو بنیاد بنا کر اسرائیل کو خبردار کرے کہ وہ نہتے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کُشی کوفی الفور بند کرے۔ انہوں نےعوام کو بھی متوجہ کیا کہ وہ فلسطینی مسلمانوں کے حق میں بھرپور آواز بلند کریں اور حکومت پر عملی اقدامات کے لیے دباؤ بڑھائیں ۔ امیر تنظیم نے ڈی چوک پر شہید ہونے والے نوجوانوں کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی اور حاضرین پر واضح کیا کہ مسلمانوں کے تمام مسائل کا اصل، مستقل اور دیرپا حل صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ مملکت ِخداداد پاکستان میں پُرامن جدوجہد کے ذریعے نبوی ﷺ طریق کار کے مطابق غلبہ واقامت دین کے لیے راہیں ہموار کی جائیں۔ باقی تمام معاملات وقتی ہیں اور اگرچہ ان کو بھی اجاگر کرنا ضروری ہے مگر ہمیں اپنی اصل توجہ غلبہ و اقامت دین کی جدوجہد پر مرتکز رکھنی ہو گی۔ آخر میں امیر تنظیم نے فلسطین کے مسلمانوں کی فتح اور نصرت کے لیے دعا کی۔ (رپورٹ: ضمیر اختر خان،معاون خصوصی مرکزی ناظم نشرواشاعت)
تنظیم اسلامی حلقہ لاہور شرقی و غربی کے زیر اہتمام
رفح پر اسرائیلی مظالم کے خلاف
احتجاجی ریلی کا انعقاد
اسرائیل کی جانب سے رفح پر تازہ وحشیانہ حملوں کے خلاف تنظیم اسلامی حلقہ لاہور شرقی و غربی نےیکم جون بروز ہفتہ بعد نماز عصر مشترکہ طور پرلاہور پریس کلب سے چیئرنگ کراس مال روڈتک ریلی کا انعقاد کیا۔ ریلی کے شرکاء نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے ہوئے تھے جن پر اسرائیل کے خلاف اور مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں سلوگنز درج تھے۔ ریلی کے ہمراہ مقامی پولیس کا مختصر دستہ بھی موجود رہا، طے شدہ شیڈیول کے مطابق چیئرنگ کراس پہنچ کر تلاوت قرآن مجیدسے مظاہرے کا آغاز کیا گیا۔ امیر حلقہ لاہور شرقی نورالوریٰ صاحب نے ابتدائی گفتگو کرتے ہوئے احتجاجی ریلی اور مظاہرے کا مقصد بیان کیا۔ اس کے بعد حلقہ لاہور شرقی کے ناظم دعوت شہباز شیخ صاحب نے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سمیت مسلم ممالک کے حکمران بیدار ہوں اور اسلامی دنیا کے مالی ، سفارتی اور عسکری وسائل کو مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کے لئے استعمال میں لائیں۔ ماضی میں عراق ،شام ،لیبیا ،برما اور افغانستان میں ظلم و زیادتی اور قتل وغارت گری کا بازار گرم رہا اور اب آ ٹھ ماہ سے غزہ اور رفح کے مسلمانوں پر نہ ختم ہونے والا ظلم وستم جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان جس کے پاس ایٹمی طاقت اور جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی موجود ہے، کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس حوالے سے محض مذمت سے آگے بڑھ کر کوئی ٹھوس عملی قدم اٹھائے۔ حلقہ لاہور غربی سے فاروق احمد گیلانی صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہودی قوم نے اپنے مکروہ اور شیطانی ایجنڈے یعنی گریٹر اسرائیل کی تکمیل کے لئے تمام بین الاقوامی قوانین اور ضابطوں کو پامال کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں نے اپنے مجاہدانہ اور ایمان افروز کردار سے دنیا کو حیرت زدہ کردیا ہے ،اس وقت پوری دنیا فلسطین کی آزادی کے نعروں سے گونج رہی ہے، اقوام متحدہ کا فورم ہو یا عالمی عدالت انصاف ہرجگہ اسرائیل کے ظلم کے خلاف آواز بلند کی جارہی ،ہمیں امید ہے کہ ان شاءاللہ جلد ہی فلسطینیوں کا خون رنگ لائے گا اور اسرائیل کا خاتمہ ہوگا۔راقم نے اپنی گفتگو میںکہا کہ دنیا میں دو فریق صف آرا ہیں ایک گروہ اہل کفر کا ہے جس میں عیسائی ،یہودی ،مشرکین اور ہندو شامل ہیں یہ گروہ ’’الکفر ملۃ واحدہ ‘‘ کی حیثیت سے پوری دنیا میں اپنی بالادستی اور حاکمیت قائم کئے ہوئے ہے جبکہ دوسرا فریق امت مسلمہ ہے ،اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اہل ایمان کا وصف بیان کرتے ہوئےیہ فیصلہ فرما دیا ہے اہل ایمان اللہ کے راستے میں قتال کرتے ہیں جبکہ کافر طاغوت کے راستے میں لڑتے ہیں۔پس مسلمان شیطان کے پیروکاروں سے جنگ کریں۔ ریلی کے اختتام پر حلقہ لاہور شرقی کے سینئر رفیق اور تنظیم اسلامی کے تاسیسی رکن عبد الرزاق صاحب نے دعا کروائی۔
(رپورٹ: نعیم اختر عدنان، ناظم نشر و اشاعت تنظیم اسلامی حلقہ لاہور شرقی)
دعوتی رودادیں(حلقہ کراچی شرقی)
ہمزہ علی: مجھے یاد ہے کہ جب میں بحریہ ٹائون منتقل ہوا تو یہاں منفرد اُسرہ قائم تھا۔ اُس وقت کے نقیب عمران حفیظ صاحب اکثر مغرب یا عشاء کی نماز میری رہائش کے قریب والی مسجد میں ادا کرتے تھے(بحریہ اپارٹمنٹ) ۔ تو وہ خود فرض نماز کے بعد فوراً مسجد کے دروازے کے باہر کھڑے ہوتے اور مجھے اپنے ساتھ رکھتے تھے اورہر باہر آنے والے شخص کو حلقہ ٔ قرآنی کی دعوت دیتے اور میرے پاس بھیجتے کہ اِن کا نمبر whatsapp groupمیں شامل کریں۔ یہی معمول ہفتے میں دو سے تین دن لازمی ہوتا اور دیکھتے ہی دیکھتے اِس درس کی گونج پورے بحریہ میں ہو گئی اور گویاہماری پہنچان بن گئی کہ یہ لوگ درس ِ قرآن کرواتے ہیں۔(الحمد للہ)
محمد کاشف: یہ میرے محلے کی مسجد کے ساتھی تھے اور مسجد میںمسلسل ملاقات رہتی تھی۔ اِن کو سب سے پہلے حلقہ قرآنی سے جوڑا جس میں یہ وقتاً فوقتاً آتے رہتے تھے۔ مسجد میں اِن کو یاد دہانی کرواتا رہتا تھا۔ پھر2023ء کے دورہ ترجمہ قرآن میں انہوں نے پورا دورہ بھی سنا، فہم دین کی نشست میں بھی شرکت کی اور پھر بیعت کر لی۔(الحمد للہ)
سہیل احمد: سہیل بھائی پچھلے3 سال سے میرے حبیب تھے۔ الحمد للہ حلقہ قرآنی کے مسلسل ساتھی تھی۔دین کے ہمہ گیر تصور اور دینی فرائض سے متعلق۔ مسجد میں اِن سے کافی بات چیت رہتی تھی۔ سود کے خلاف مہم میں یہbannerلے کر میرے ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔ اِن کو دعوتی نصاب بھی دیا اور اُس پر کافی مرتبہ مذاکرہ بھی ہوا۔ پھر پچھلے 3 سال سے دورہ ترجمہ قرآن بھی سن رہے ہیں۔ ہر بار اِن سے امید ہوتی کہ یہ بیعت کر لیں گے مگر یہ کہتے تھے کہ ابھی میں تیار نہیں ہوں، شاید میں وقت نہ دے پائوں۔ البتہ رمضان 2024ء میں الحمد للہ انہوں نے بیعت کر لی اور میرے ہی اُسرے میں شامل ہیں۔
محمد یاسر: یاسر بھائیIBA Universityکے پروفیسر ہیںاور ہمارے سابقہ ناظم اعلیٰ خلجی صاحب اِن کے ننیال کی طرف سے رشتہ دار ہیں۔ تو یہ تنظیم سے بخوبی واقف ہیں۔ اِن کا زیادہ وقت تبلیغی جماعت کے ساتھ لگا تھا۔ الحمد للہ اِن سے مسجد میں ملاقات ہوئی اور حلقہ قرآنی سے جوڑا۔ پھر انہوں نے اعلیٰ تعلیم فرانس سے حاصل کی تو یہ فرانس اور مغرب سے تھوڑا متاثر بھی تھے۔ البتہ اِن سے مغرب کے منافقانہ کردار اور اسلام دشمنی پربات چیت چلتی رہتی تھی، بالخصوص اسرائیل کے حالیہ حملے اور فرانس کی اسرائیل کی حمایت پر میں نے اِن سے بات بھی کی اور سمجھایا بھی۔ پچھلے دو سال سے یہ دورہ ترجمہ قرآن میں بھی شرکت کرتے رہے اور پابندی سے درسِ قرآن اور درسِ سیرت میں شریک ہوئے۔ رمضان سے پہلےانہوں نے فہم دین کورس کیا اور پھر رمضان2024ء میں انہوں نے بیعت کر لی۔(الحمد للہ)
کبیر مرزا: میں اور میرے اُسرے کے ساتھی ربیع الاوّل کے امیر محترم کے خصوصی لیکچر کی دعوت دے رہے تھے مسجد کے باہر جہاں کبیر صاحب سے پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی۔ کبیرصاحب نے بتایا کہ اُن کے والد مرحوم تنظیم اسلامی میں شامل تھے اور اِن کی پوری فیملی تنظیم کے پروگرام میں شرکت کرتی ہے۔ میں نے اُن سے نمبر لیا اور دوستی کی اور درسِ قرآن میں لے کر آیا۔ یہ اپنے گھر کے، ذاتی اور مالی معاملات میرے ساتھ Shareکرتے۔ پھر کئی مہینے ہم صبح دفتر جاتے ہوئے کبیر صاحب کو اپنے ساتھ لے کر جاتے، یہ ہمارے دفتر اُتر جاتے اوروہاں سے آگے اپنے دفتر رکشہ میں چلے جاتے اور پھر واپس بھی ہمارے ساتھ آتے۔کبھی کبھی کبیر صاحب کی وجہ سے صبح تاخیر بھی ہوتی لیکن صبر کے ساتھ اُن کو اپنے ساتھ رکھا۔ پھر مسجد کے امام اور ہم چند لوگوں نے اتوار کی فجر کے بعد فٹ بال کا سلسلہ شروع کیا جس میں اچھی تعداد میں لڑکے شریک ہوتے، کسی گالی اور لڑائی سے پاک فٹ بال کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور اُس میں بھی کبیر صاحب کو شریک کیا۔ بیچ میں کبیر صاحب غائب ہو گئے اور رابطے میں نہ رہے۔ اس کی وجہ رہائش کی دوسرے محلے میں منتقلی تھی۔ البتہ میں ہر درس کا اُن کو میسج بھیجتا اور سلام دعا رکھتا۔ پھر چندمہینوں بعد یہ واپس درس میں شامل ہوئے، اور رمضان2024ء میں انہوں نے بیعت کر لی۔ (الحمد للہ)
زکی امام صاحب: الحمد للہ مسجد کے ہر ساتھی سے سلام دعا تھی۔ ایک دن ایک نئے بزرگ صاحب مسجد میں نظر آئے۔ میں نے اُن سے آگے بڑھ کر بات کی اور دریافت کیا کہ آپ محلے میں نئے معلوم ہو رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں آج ہیshiftہوا ہوں اور پہلا دن ہے۔ میں نے اِن کو درسِ قرآن کی دعوت دی اور کہا کہ میں آپ کو لے کر جائوں گا۔ پھر الحمد للہ زکی صاحب پابندی سے درس میں آتے۔ پھر مجھے یاد ہے کہ2021ءکا دورہ ترجمہ قرآن بحریہ سے تھوڑا باہرKingston School میں ہوا جس کا رات کے وقت راستہ کافی سنسان ہوتا تھا۔ مگر زکی صاحب خود گاڑی چلا کر پورا دورہ سننے آئے اور پھر اُس رمضان کے بعد بیعت کر لی۔(الحمد للہ) بیعت کے بعد انہوں نے بتایا کہ قرآن اکیڈمی یاسین آباد کے اُسامہ بھائی اِن کے بھانجے ہیں اور اِن کی بہن کئی سالوں سے اِن کو تنظیم کی دعوت دیتی تھیں مگر یہ اُس دعوت پر کان نہیں دھرتے تھے۔
سید محمد عرفان: عرفان بھائی سے ملاقات دورہ ترجمہ قرآن2023ء میں ہوئی۔ میرا معمول ہوتا تھا کہ وقفے میں ایک حلقہ احباب لے کر بیٹھتا اور اُن سے دین کے ہمہ گیر تصور، بیعت کی اہمیت، نظامِ خلافت کا قیام اور اُس کے طریقہ کار پر گفتگو ہوتی۔ اِن موضوعات پر دعوتی کتابچے اِن احباب کو دئیے جاتے اور ان پر مذاکرہ کرتے۔ یہ حلقہ احباب 10 سے 15افراد تک پہنچ جاتا۔ عرفان بھائی کو اِس ہی حلقے میںشامل کیا اور پھر انفرادی ملاقات بھی اِن سے ہوتی رہی، جس میں انہوں نے بتایا کہ اِن کے والد صاحب 2010ء سے تنظیم اسلامی میں ہیں مگر یہ خود شامل نہیں ہوئے۔ پورے رمضان اِن سے بات ہوئی اور اِن کو سمجھایا تو اُس رمضان انہوں نے بیعت کر لی۔(الحمد للہ)
اسلام آباد میں فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کےلئے احتجاجی مظاہرہ
ڈاکٹر اشرف علی
حلقہ جات اسلام آباد اور پنجاب شمالی کے زیر ِاہتمام اسلام آباد میں فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے احتجاجی مظاہرہ کا اہتمام کیا گیا۔ مظاہرے میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے کثیر تعداد میں رفقائے تنظیم اسلامی اور احباب نے شرکت کی۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھارکھے تھے جن پر نہتے فلسطینی عوام پر اسرائیلی مظالم کے خلاف نعرے درج تھے۔ مظاہرین نہتے فلسطینی عوام پر وحشیانہ اسرائیل بمباری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مسجد شہداء سے آبپارہ چوک پہنچے جہاں پر احتجاجی ریلی نے جلسے کی شکل اختیا ر کرلی۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کےلیے گزشتہ آٹھ ماہ سے جاری بدترین اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھانا صرف سیاسی جماعتوں اور مذہبی تناظیم کی ہی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ پوری قوم کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کریں اور اپنا احتجاج رجسٹر کروائیں۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے حلقہ پنجاب شمالی کے امیر اشتیاق حسین صاحب نے کہا کہ حکمران عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کےلیے دینی تعلیمات اور بانیانِ پاکستان کے ارشادات کی روشنی میں ملی غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مسئلہ کے حل کےلیے عالمی سطح پر سفارتی کوششیں تیزکریں۔ اسلام آباد شمالی کے امیر اعجاز حسین صاحب نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے فلسطینی عوام پر ظلم ڈھانے والی صہیونی طاقت اور اس کے پشت پناہوں کے خلاف اس جنگ میں اپنا بھرپور حصہ ڈالیں۔ معاون خصوصی مرکزی ناظم نشرواشاعت امیر ڈاکٹر ضمیر اختر خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکمران ہوش کے ناخن لیں اور فلسطینی عوام کی مدد کے لیے عملی اقدام اُٹھائیں۔مسلم امہ کی مثال ایک جسم کی سی ہے۔ اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہوگی تو اسکا اثر پورے وجود میں محسوس کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم فلسطین کے معاملے سے لاتعلق نہیں رہ سکتے اور اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف آخری دم تک مقدور بھر اپنا کردار ادار کرتے رہیں گے۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں اپنے فلسطینی بھائیوں کی ہر ممکن مدد کریں اور ان کے ساتھ مالی اور اخلاقی تعاون جاری رکھیں۔ انہیں اپنی دعاوں میں بھی یاد رکھیں۔ اجتماعی دعا کے بعد سٹیج سیکرٹری ابرار احمد نے اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے جلسے کے اختتام کا اعلان کیا کہ فلسطین کی آزادی تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ان شاء اللہ!