عیدالاضحی منائیں لیکن یہ خیال بھی رکھیں کہ غزہ میں ہمارے مسلمان
بھائیوں،بہنوں اور بچوں کی میتیںاُٹھائی جارہی ہیں : خورشید انجم
ہمارے دین کا مطالبہ ہے کہ شریعت کی حدود پامال نہیں ہونی چاہئیں ،
ان کے اندر رہ کر آپ خوشی مناسکتے ہیں ، کھیل کود اور تفریح میں بھی
حصہ لے سکتے ہیں :ڈاکٹر حماد لکھوی
خوشی اور غم کے موقع پر بندہ مومن کا طرزعمل کے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :آصف حمید
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال:گزشتہ آٹھ ماہ سے فلسطینیوں پر مظالم ہورہے ہیں اور دیگر مسلمانوں کی حالت بھی آپ کے سامنے ہے۔ یعنی ایک پریشانی اورکرب کی حالت ہے۔ اس صورت حال میں ہم لوگ عیدالاضحی کیسے منائیں اوراس حوالے سے اللہ تعالیٰ ہمیں کیا ہدایت دیتا ہے ؟
ڈاکٹر حماد لکھوی:اللہ کریم نے انسانوں کوجس کیفیت کے ساتھ اس دنیا میں بھیجا ہے ، خوشی اور غم ا س کا لازمی حصہ ہے۔ اگرہم انفرادی یااجتماعی سطح پر جائزہ لیں تو اس دنیامیں خوشی بہت کم ہےاور غم زیادہ ہیں ۔ اس دنیا میں انسان کے لیے سہولتیں جن کو انسان آسائشیں کہتا ہے وہ بہت کم ہیں اور ہونی بھی کم چاہئیں کیونکہ یہ دنیا دارالامتحان ہے اور دارالامتحان میں انسان کو کوئی بھی چیز اپنی خواہش کے مطابق مل جائے یہ عام طور پر ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے جو جنت کا تصور دیا ہے اس میں انسان کے لیے کوئی غم اور کوئی تنگی تکلیف نہیںہوگی ، وہاں انسان کی ہر خواہش پوری ہوگی ۔ خوشی اصل میں اس کیفیت کا نام ہےجو کوئی کامیابی مل جانےپر انسان کو حاصل ہوتی ہے لیکن اس دنیا میں چونکہ انسان کو پے در پے امتحانات کا سامنا ہے لہٰذا یہاں حقیقی خوشی ملنا بالعموم ممکن نہیں ہے۔ یہ آج کے دور کی بات نہیں بلکہ نبی اکرمﷺ سے لے کر آج تک ہماری پوری تاریخ دکھوں سے بھری ہوئی ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ شریعت آپ کو منع کردے کہ آپ خوش نہ ہوں ۔ نبی اکرمﷺ کے دور میں جنگیں بھی لڑی جاتی تھیں ، مسلمانوںپر مشکلات بھی آتی تھیں ، دکھ بھی پہنچتے تھے لیکن ساتھ ہی عید بھی منائی جاتی تھی۔ آپ کہہ لیجیے کہ سارے دکھوں کے باوجود گنجائش بھی موجود ہے اور شریعت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جب عید آئے تو خوشی منائی جائے۔شاید اس امتحانِ زندگی میں انسان کو جو پریشانیاں لاحق ہیں ان کے دباؤ سے نکلنے کا یہ ایک ذریعہ ہے۔ اس سے امتحان کی تیاری میں انسان کو تقویت ملتی ہے اور وہ دنیوی کردار کے حوالے سے بھی اور اُخروی تیاری کے حوالے سے بھی بہتر کارکردگی دکھا سکتاہے ۔ اگر آپ کچھ وقت کے لیے ماضی اور مستقبل سے لا تعلق ہو کر صرف حال میں خوش رہیں تو آپ تھوڑے relax ہو جائیں گے اور تازہ دم ہو کر دوبارہ امتحان کی تیاری کریں گے ۔ عیدہمیں ایسا ہی ماحول فراہم کرتی ہے ۔ نبی پاکﷺ کے دور میں بچیاں بیٹھ کر دف بجا رہی تھیں اور کچھ گیت گا رہی تھیں ، حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے انہیں رُوکا تو نبی پاک ﷺنے فرمایا کہ یہ خوشی کا دن ہے انہیں مت روکو ۔ ایک مرتبہ کوئی کرتب ہو رہا تھا ، نبی اکرم ﷺ حضرت عائشہ کو دکھاتے رہے ، یہاں تک کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں تھک کر واپس آگئی ۔ یعنی حضور ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو کتنا وقت اور موقع دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ خوشی منانا ایک تھراپی(theropy) ہے جس کی شریعت نے عین معاشرتی تقاضوں اور انسانی نفسیات کے مطابق گنجائش رکھی ہے اور اس کے لیے عیدین کی صورت میںد و دن عطا کیے ہیں ۔
سوال: اگر ہم حال کی بات کریں تو اس وقت غزہ میں مسلمان بہنوں ، بیٹیوں اور بچوں کے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے جس کو ہم سوشل میڈیا پر دیکھ بھی رہے ہیں ۔ ایسے حالات میں عید کے موقع پر ہمارا طرز عمل کیسا ہونا چاہیے ؟
خورشید انجم: ویسے تو انسان چاہتا ہے کہ غم کبھی نہ آئے خوشی رہے لیکن زندگی کے اس امتحان میں خوشی اور غم ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔خود نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ ہم دیکھیں تووہاں مسلسل ایک ایمرجنسی والی کیفیت تھی۔ ادھرجنگ سے فارغ ہو کر آئے ہیں تو دوسری طرف ایک اور جنگ کی طرف روانگی شروع ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود وہاں نکاح بھی ہو رہے ہیں، خود نبی کریمﷺ ولیمے کی مبارکباد بھی دے رہے ہیں،بچوں کی پیدائش پر مبارکباد بھی دی جارہی ہے ۔ یہ ساری چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں لیکن یہ سب کچھ ایک حد کے اندر ہے ۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم خوشی منارہے ہوتے ہیں تو آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ اگر پڑوس میں میت ہو تو ہمیں پرواہ نہیں ہوتی ۔ اس وقت غزہ میں غم کی صورتحال ہے جبکہ دوسری طرف ہم خوشیوں کے شادیانے بجا رہے ہیں ۔ اسی طرح جب ہم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو ہم بالکل ہی مایوس اور قنوطیت زدہ ہو کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ اسلام انسان سے ایک متوازن رویہ چاہتاہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی شادی کو دیکھ لیجیے ۔ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور حضرت عمر نے جن چھ اصحاب پرمشتمل شوریٰ مقرر کی تھی ان میں سے ایک ہیں ۔ یعنی خلافت کے اہل امیدوار ہیں لیکن شادی کس طرح کر رہے ہیں؟ حضور ﷺنے بس اتنا کہا کہ کم ازکم ولیمہ تو کر لو ۔ ہمارےہاں خوشی منانے کا تصور بہت غلط ہوگیا ہے ۔ عید منائیں لیکن یہ خیال بھی رکھیں کہ غزہ میں ہمارے بھائیوں کی میتیں بھی اُٹھائی جارہی ہیں ۔ اس چیز کو مد نظر رکھ کر جو عید منائی جائے گی ظاہر ہے وہ مختلف ہو گی۔ ہمارے ہاں خوشی کے موقع پر بے تحاشا خرچ کیا جاتاہے ، یہ خرچ ہم اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے لیے کریں ۔
سوال:قران مجید میں اللہ فرماتاہے : ’’تاکہ تم افسوس نہ کیا کرو اُس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہے‘اور اس پر اِترایا نہ کرو جو وہ تمہیں دے دے‘ اور اللہ کو بالکل پسند نہیں ہیں اِترانے والے اور فخر کرنے والے۔‘‘(الحدید:23)
اس آیت میں مایوسی کو شیطانی عمل قرار دیا گیا ہے۔ کیا خوشی میں اترانے کو بھی شیطانی عمل کہا جائے گا ؟
ڈاکٹر حماد لکھوی:قران حکیم میں ’فرح‘ کے مادے سے کم و بیش 22 کلمات ہیں اور ان میں سے بیشتر کلمات منفی معنوں میں آئے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ (76)} ’’یقیناً اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘(القصص:76)
جب آپ خوشی میں آپے سےباہر ہوتے ہیں یا فخر کے طور پر دوسروں پر اپنی برتری جتاتے ہیں تو وہی اِترانا ہوتاہے اور اس کو قرآن میں پسند نہیں کیا گیا ۔ حقیقی معنوں میں خوشی وہ ہوتی ہے جو کسی دوسرے کےلیے غم نہ بنے ۔ اسی طرح شیخیبگھارنا اور دکھاوا کرنا بھی منفی معنوںمیں آتا ہے۔ البتہ بے حد خوشی اگر مثبت معنوںمیں ہو تو اس کی شدت ہر اعتبار سے قابل قبول ہو جاتی ہے ۔ جیسے حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر تم میں سے کسی ایسے شخص کی نسبت کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جو ایک بے آب و گیاہ صحرا میں اپنی سواری کے ساتھ( سفر کر رہا) تھا ، اس کا کھانا اور پانی اسی (اونٹ) پر تھا۔(دوران نیند اس کا اونٹ کھو گیا ) ۔ وہ اس (کے ملنے) سے مایوس ہو گیا تو ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے سائے میں لیٹ گیا۔ وہ اسی عالم میں ہے کہ اچانک وہ (سواری) اس کے پاس کھڑی ہے، اس نے اس کو نکیل کی رسی سے پکڑ لیا، پھر بے پناہ خوشی کی شدت میں کہہ بیٹھا، اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔یعنی خوشی کی شدت کی وجہ سے اتنی بڑی غلطی کر گیا۔ اس کا مطلب ہےکہ خوشی مثبت ہو تو اس کی حد جتنی بھی بڑھ جائے اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن منفی ہو تو پھر یہ دوسروں کے لیے غم کا باعث بن جاتی ہے۔ اسی طرح اسلام میں مایوسی ناپسندیدہ عمل ہے۔ شریعت نے مومن کو ایسے اوصاف عطا کیے ہیں جو بندے کو مایوسی سے بھی نکالتے ہیں اور خوشی میں اس کو محدود بھی رکھتے ہیں ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا:’’مومن کا بھی عجب حال ہے، اس کے ہر معاملے میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ اور یہ بات سوائے مومن کے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اگر اس کو خوشی حاصل ہوئی اور اس نے شکر ادا کیا تو اس میں بھی ثواب ہے اور جو اس کو نقصان پہنچا اور اس پر صبر کیا، تو اس میں بھی ثواب ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں صبر،شکر، توکل اور قناعت کے اوصاف اختیار کرنے کی تلقین کی ہے اور نبی پاک ﷺ نےبھی اس کی تاکید کی ہے ۔ یہ اصل میں انسان کو محدود رکھنے کے لیے ہے تاکہ خوشی شیخی نہ بن جائے اور مایوسی کفر نہ بن جائے ۔
سوال: ایک شکوہ آتا ہے کہ منبر و محراب سےغم یا سختی کی وعید زیادہ سنائی جاتی ہے جبکہ خوشی یا بشارت کی بات کم کی جاتی ہے ۔ یہ بات کس حد تک درست ہے؟
خورشید انجم:قران مجید کا اسلوب یہ ہے کہ جہاں جہنم کا ذکر ہے ساتھ ہی جنت کا ذکر بھی ہے۔ یہ دونوں بیان ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ انبیاء و رُسل کے بارے میں فرمایا :
{رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ}’’یہ رسول ؑ( بھیجے گئے) بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے بنا کر‘‘(النساء :165)
رسول تو بشارت بھی دیتے تھےاور ڈراتے بھی تھے۔ ڈاکٹراسرار احمدؒ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان کی طرف سے ڈر کی ہی بات آتی ہے۔ ایک شخص نے ڈاکٹر صاحب ؒ سے کہا : آپ کو ڈپریشن کیوں ہے، آپ تو قرآن و حدیث پڑھتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ میں عذاب اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہوںتومجھ پر ڈپریشن کیوں نہیںہوگا ؟ انسان جب دیکھتا ہے کہ حالات کس رُخ پر جارہے ہیں تو اس کا اظہا ر بھی کرتاہے اور لوگوں کو ڈراتا بھی ہے ۔ جیسے حضور ﷺ نے واصباحا کا نعرہ لگایا اور کہا کہ اگر میں یہ کہوں کہ ایک لشکر آ رہا ہے تو تم لوگ مانو گے ؟ لوگوں نے کہا بالکل مانیں گے کیونکہ آپ جھوٹؐ نہیں بول سکتے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسی طرح یقین کر لو کہ عذاب بس آیا ہی چاہتاہے لہٰذا اللہ کی نافرمانی چھوڑ دو ۔ عذاب انسان کے اعمال کے سبب بھی آتاہے جیسا کہ کہا جاتاہے : (اعمالکم عمالکم) جیسے تمہارے اعمال ہوں گے ویسے ہی حکمران ہوں گے ۔لہٰذا قوم جس راستے پر چل رہی ہے اس میں ظاہر ہے انذار تو کرنا پڑے گا ۔
ڈاکٹر حماد لکھوی:عموماً جب آپ کسی کو غلط راستے سے روکتے ہیں تو وہاں تبشیر کام نہیں آتی بلکہ انذار کام آتاہے ۔ نبی اکرم ﷺ کو جوابتدائی احکام دیے گئے تھے ان میں پہلے انذار تھا۔ جیسا کہ فرمایا :
{قُمْ فَاَنْذِرْ(2)}(المدثر )’’آپؐ اٹھئے اور (لوگوں کو) خبردار کیجیے۔‘‘
{وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ(214)}(الشعراء) ’’اور (اے نبیﷺ!) خبردار کیجیے اپنے قریبی رشتہ داروں کو۔‘‘
اس کی وجہ انسانی کیفیت ہے۔ خوف اور اُمید دونوں چیزیں انسان کے عمل پر اثر انداز ہوتی ہیں لیکن اُمید دلا کر آپ کسی کا راستہ تبدیل نہیں کر سکتے بلکہ عموماً یہ خوف ہی ہوتا ہے جو انسان کو راستہ تبدیل کرنے پر مجبور کرتاہے ۔ ایک ڈرائیور کو آپ جتنا مرضی سبز باغ دکھائیں کہ دوسری سڑک اتنی شاندار ہے ، فلاں ہے فلاں ہے لیکن وہ آپ کی بات نہیں مانے گا لیکن جب آپ کہہ دیں کہ آگے پل ٹوٹا ہوا ہے یا آگے ڈاکو ہیں تو وہ فوراً گاڑی روکے گا اور پوچھے گا کس راستے سے جانا چاہیے ۔ لہٰذا انذار پہلے قدم پر ضروری ہوتا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے بھی انذار فرمایا اور جب بھی آپ قوم کو غلط راستے پر چلتے ہوئے دیکھیں گے تو آپ یہی کریں گے۔
سوال:آج کل کی صورتحال میں انذار سے کام چلے گا یا تبشیرسے؟
ڈاکٹر حماد لکھوی:آج لوگوں کی ترجیح دین نہیں ہے لہٰذا انذار ہی کی ضرورت ہے۔تبشیر کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب کوئی سیدھے راستے پر چل پڑے۔ اس طرح اس میں مزید رغبت پیدا ہوگی اور وہ اس راستے پر چلتا جائے گا۔ پھر آپ اس کو توبہ کی فضیلت سمجھائیں گے اور اللہ کی رحمت کے 100 حصوں کی بشارت سنائیں گے ۔ جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ :(الایمان بین الخوف والرجا) ’’ایمان خوف و امید کے درمیان ہے۔‘‘ آپ یونیورسٹیز کا ماحول دیکھ لیں۔ جب تک آپ کوئی قدغن نہیں لگاتے تو طلبہ رولز کی پابندی نہیں کرتے ۔ اسی طرح اسلام نے سزاؤں کا تصور دیا ہے تاکہ لوگ سیدھے راستے پر چلیں ۔ اگر پاکستان کے معروضی حالات کی بات کریں تو یہ انذار ہی کا موقع ہے لیکن جیسا کہ ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے تو ساتھ امید کی بات بھی کی جائے گی ۔
سوال: ہمارے ہاں جب خوشی کا موقع آتاہے تو اس میں بھی اِترانا ، تکبر اور دکھاوا آجاتاہے اور جب غم کا موقع ہوتا ہے تو اس وقت بھی چیخنا، چلانا اور ماتم کی کیفیت آجاتی ہے ۔دونوں کیفیتوں میں اعتدال کی حد کیا ہے۔ اس بارے میں ذرا بتائیے ؟
خورشید انجم: بنیادی بات یہ ہے کہ میں بحیثیت انسان یہاں امتحان گاہ میں بھیجا گیا ہوں ۔ سورہ حدید میں فرمایاگیا : ’’تاکہ تم افسوس نہ کیا کرو اُس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہے‘اور اس پر اِترایا نہ کرو جو وہ تمہیں دے دے‘ اور اللہ کو بالکل پسند نہیں ہیں اِترانے والے اور فخر کرنے والے۔‘‘(آیت:23)
یہ آیت واضح کر رہی ہے کہ ہر حال میں حدود کے اندر رہنا چاہیے۔آپ کی خوشی کسی دوسرے کا غم بن جائے تووہ خوشی نہیں رہتی ۔ مثال کے طور پر شادیوں میں اندھا دھند فائرنگ کی جاتی ہے اور اکثر اس کے نتیجہ میں کوئی نہ کوئی ہلاکت ہو جاتی ہے اور شادی ماتم میں بدل جاتی ہے ۔ اسی طرح بعض اوقات شادیوں میں اندھا دھند پیسہ بہایا جاتا ہے اور بڑھ چڑھ کر دکھاوا کیا جاتاہے جبکہ اسی خاندان میں کوئی غریب بھی ہوگا جس کی بیٹی کے بال سفید ہورہے ہوں گے اور اس کے پاس اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ بیٹی کے ہاتھ پیلے کر سکے ۔ اس پر کیا بیتے گی ۔ لہٰذا خوشی ایک حد کے اندر رہے تو وہ صحیح خوشی ہوتی ہے جس طرح قرآن و حدیث میں تعلیم دی گئی ہے کہ نکاح مسجد میں ہو ، دوسرے دن ولیمہ ہو ۔ اب اس طریقہ سے ہٹ کر شادیوں پر جو اخراجات ہورہے ہیں اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اب روز بروز شادی کرنا مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے کیونکہ جہیز اکٹھا کرنا والدین کے لیے پہاڑ سر کرنے کے مترادف ہو گیا ہے ، اس کے لیے قرض لیا جارہا ہے ،ز کوٰۃ مانگی جارہی ہے ۔ جس قدر نکاح کو مشکل بنایا جارہا ہے اتنا ہی زنا عام ہورہا ہے اور اس کے نتیجے میں زندگیاں اور معاشرے برباد ہورہے ہیں۔ اسی طرح غم کے معاملے میں بھی ہم حد سے بڑھ جاتے ہیں اور قنوطیت زدہ ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ حالانکہ سیرت النبیﷺ میں ہم دیکھتے ہیں کہ جنگیں بھی ہوتی تھیں ، شہادتیں بھی ہوتی تھیں ، شادیاں بھی ہوتی تھیں ، بیواؤں کے نکاح بھی ہوتے تھے اور یہ سارا معاملہ ساتھ ساتھ چلتا رہتا تھا ۔ زندگی کہیں رُکتی نہیں ہے ۔ اللہ کے نبیﷺ نے غم میں چیخنے چلانے اور بال نوچنے سے منع کیا ، اسی طرح خوشی کے موقع پر ناچ گانا بھی حرام قرار دیا۔ کیونکہ جب انسان خوشی میں حد سے گزر جاتاہے تو پھر وہ نہیں دیکھتا کہ ارد گرد کوئی بیمار ہے ، کہیں فوتیدگی ہوئی ہے ، یاکوئی کسی اور غم اور تکلیف میں مبتلا ہے ۔
سوال:بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ملک پر بُرے حالات آئے ہوتے ہیں یا قوم غم کی کیفیت میں ہوتی ہے تو کوئی کرکٹ ٹورنامنٹ شروع کرواد دیا جاتاہے ۔ کیا یہ بات صحیح ہے کہ ایسی چیزیں اس لیے بھی کی جاتی ہیں کہ ہمارے ذہنوں پرسےحالات کا دباؤ کم کیا جائے ،جیسے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ؟
ڈاکٹر حماد لکھوی:ایک معاشرت کا دائرہ ہے اور ایک شریعت کا دائرہ ہے۔اگر معاشرت کی کوئی روایت شریعت کے منافی نہیں تو اسے روکا نہیں جانا چاہیے ۔ مثال کےطور پر ایک شخص اعتکاف سے فارغ ہوتا ہے اور اس کے عزیز اس خوشی میں مٹھائی بانٹتے ہیں ، اس کو ہار پہناتے ہیں تو یہ شریعت کا حکم نہیں ہے بلکہ یہ معاشرت کا ایک پہلو ہے ، معاشرتی دائرے میں اس کی اجازت ہونی چاہیے ۔ اسی طرح کھیل کود بھی معاشرت کا حصہ ہے اور اس کی بھی گنجائش نکلتی ہے ۔ قرآن میں ہے حضرت یوسفd کو ان کے بھائی آؤٹنگ کے لیے لے گئے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ شریعت کے دائرے کے اندر زندگی گزار رہے ہیں تو اس میں آؤٹنگ کا تصور بھی ہے ، کھیل کود بھی ہے ۔ لہٰذا اگر کوئی شخص شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے لوگوں کے لیے خوشی کا موقع مہیا کرتا ہے تو اس کے اس طرز عمل کو تحسین کی نظر سے دیکھا جانا چاہیے بجائے اس کے کہ تنقید کی جائے۔ ہم چار بھائی کرکٹ کھیلتے تھے اور ہمارا پنا لکھوی کرکٹ کلب تھا۔ والد صاحب نے کہا تھا کہ آپ کی نماز نہیں ضائع ہونی چاہیے ۔ ہم نے وہاں یہ رواج ڈالا کہ جب نماز کا وقت ہوتا تھا تو ہم وہاں گراؤنڈ میں ہی جماعت کرواتے تھے ۔ہمارا دین کہتا ہے کہ شریعت کی حدود پامال نہیں ہونی چاہئیں، ان کے اندر رہ کر آپ خوشی مناسکتے ہیں ، کھیل کود اور تفریح میں حصہ بھی لے سکتے ہیں ۔
سوال:کھیل کے ٹورمنٹ ہوں یا جشن بہاراں یا کوئی اور فنگشن ہو اسےہم شریعت کے دائرے میں رہ کر کیسے منائیں ؟
ڈاکٹر حماد لکھوی:ایک طرف تو یہ ہے کہ آپ لوگوں کو لہوو لعب میں لگا کر مقصد سے دور کریں اور دوسری طرف یہ ہے کہ آپ لوگوں کو عید والے دن بھی خوشی نہ منانے دیں ، میرے خیال سے یہ دونوں انتہائیں غلط ہیں۔شریعت کا اصول یہ ہےکہ جب آپ کسی چیز کی اجازت دیتے ہیں کہ ایک مخصوص وقت تفریح میں گزارا جا سکتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ مقصد بھلانے کے لیے ہے ۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ شریعت کا دائرہ کیا ہے تواس حوالے سے میں ایک مثال دیتا ہوں کہ بچپن میں ہم سنتے تھے کہ شادی میں لائٹنگ کرنا فضول خرچی ہے مگر آج ہمارے ہاں سیرت کانفرنس بھی لائٹنگ کے بغیر نہیں ہوتی ۔ ڈرون کیمروں سے کوریج ہو رہی ہوتی ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ چیزیں بڑھتی جاتی ہیں ۔ لہٰذا ایک معاشرتی دائرے کے اندر لوگوں کو خوشیاں منانے کی اجازت ہونی چاہیے ۔ میرا خیال ہے کہ خرچ جب اسراف اور تبذیر کی حد تک بڑھ جائے تو اس پر قد غن لگنی چاہیے اور قرآن نے بھی اس کو حرام قرار دیا ہے لیکن اس دائرے کے اندر اندر انسان خوشی منا سکتا ہے ۔
خورشید انجم:اصل میں خوشی کا کوئی بھی موقع ہو اس کو اگر شریعت کے دائرے کے اندر اندر منایا جائے تو وہ ٹھیک ہے ۔ بجائے اس کے ہمارے ہاں ٹی ٹونٹی ہو ، جشن بہاراں ہو ، پھر کبھی جشن مہران ہے ، کبھی جشن بولان ہے ، کبھی جشن خیبر ہے ، ان میں جو کچھ ہوتا ہے وہ شریعت سے میل نہیں کھاتا ۔ پھر اس سے آگے بڑھ کر موسیقی کے مقابلے اور ناچ گانا ، یہ سب چیزیں جو ہم کررہے ہیں تو یہ نہ صرف شریعت کے خلاف ہیں بلکہ بعض اوقات ان کو اسلامی معاشرت کے خلاف بھی استعمال کیا جاتاہے ۔ جیسا کہ نضر بن حارث نے جب دیکھا کہ لوگ قرآن کو سن کر اسلام میں داخل ہورہے ہیں تو اس نے ایک سکیم بنائی جس کو قرآن میں بے نقاب کیا گیا :
’’اور کہا اُن لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا کہ مت سنو اس قرآن کو اور اس (کی تلاوت کے دوران) میں شور مچایا کرو تا کہ تم ہی غالب رہو۔‘‘(حٰمٰ السجدہ : 26)
نضر بن حارث شام اور عراق سے لونڈیاں لےکر آیا جو گاتی تھیں تاکہ لوگوں کو اس لہو ولعب میں مشغول رکھا جائے اور وہ قرآن کو نہ سنیں ۔ اب یہی ہتھکنڈے انڈسٹری کی صورت اختیار کر چکے ہیں ۔ اس انڈسٹری کا مقصد یہی ہے کہ لوگ اسی میں گم رہیں اور سوچنے سمجھنے اور غوروفکر کرنے سے باز رہیں ۔ اسی طرح جب کرکٹ کا سیزن آتا ہے تو گویا لوگ ایک بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس میں مگن ہو جاتے ہیں ۔کھیل کو د منع نہیں ہے بلکہ صحت کے لیے اچھا ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہوناچاہیے کہ دفتری کام بھی چھوڑ دیے جائیں ، نماز یں چھوٹ جائیں ، باقی حقوق اور فرائض کا بھی خیال نہ رہے۔ پھر کرکٹ میں جؤااور سٹہ بھی ہوتا ہے ، اس صورت میں یہ کھیل نہ رہا بلکہ ایک گناہ کا کام بن گیا۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024