(دین و دانش) اسلام :پاکیزگی کا مذہب - مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ

9 /

اسلام :پاکیزگی کا مذہب

مولانامحمد اسلم شیخوپوری رحمۃ اللہ

اسلام نے ہر شعبے میں پاکیزگی کا حکم دیا ہے، عقائد و اعمال کے علاوہ ذریعہ معاش کے بھی پاک ہونے پر بڑا زور دیا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پراللہ تعالیٰ نے ’’اکل طیب‘‘ (کھانا پاک ہونے) کا ذکر فرمایا ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت 172میں ہے:
’’اے ایمان والو! پاکیزہ چیزوں میں سے کھائو جو ہم نے تمہیں دی ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔‘‘
سورۃ المؤمنون کی آیت 51 میں ہے: ’’اے پیغمبرو! پاکیزہ چیزوں میں سے کھائو اور نیک عمل کرو بےشک میں جانتا ہوں جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘
اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا تو وہاں بھی یہ قید لگا دی کہ مال پاک ہونا چاہیے۔
سورۃ البقرہ کی آیت 267 میں ہے: ’’اےایمان والو! خرچ کرو ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو تم کمائو اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے۔‘‘
احادیث میں بھی پاکیزہ روزی کی ترغیب دی گئی ہے اور یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ جس شخص کا ذریعہ معاش حرام اور ناجائز ہو گا اس کی دعا قبول نہیں ہو گی۔ 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اے لوگو! بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ صرف پاک ہی قبول کرتا ہے، اللہ نے سارے ایمان والوں کو بھی وہی حکم دیا ہے جو اس نے اپنے انبیاء کو دیا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اے پیغمبرو! کھائو پاکیزہ چیزوں میں سے اور نیک اعمال کرو بے شک میں جانتا ہوں جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘
اور یہ بھی فرمایا ہے: ’’اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھائو جو ہم نے تمہیں دی ہیں‘‘۔ اس کے بعد آپﷺ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر طے کر کے آتا ہے، پراگندہ بال ہے، آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے یا رب، یا رب، لیکن اس کا کھانا حرام ہے، پینا حرام ہے، لباس حرام ہے، اس کے جسم کو حرام سے غذا دی گئی ہے، اس کی دعا کہاں قبول ہو گی؟‘‘ (صحیح مسلم)
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ مخلوقات میں سے اپنے لیے صرف پاکیزہ ہی کو پسند فرماتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود پاک ہے، اس لیے وہ صرف پاک ہی سے محبت کرتا ہے، خواہ کوئی عمل ہو یا کلام یا صدقہ وہ صرف پاک ہی کو قبول کرتا ہے۔‘‘ (نظرۃ النعیم: ج2، ص 485) یہی انسانوں کا حال ہے جو پاک اور سعادت مند ہوتا ہے، وہ صرف پاک چیز پر ہی راضی ہوتا ہے۔ اسی سے اس کو سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اس کی زبان سے ایسا پاکیزہ کلام صادر ہوتا ہے جو بارگاہِ الٰہی میں شرفِ باریابی پاتا ہے۔ ایسے شخص کو فحش گفتگو، جھوٹ، غیبت، چغلی، بہتان اور ہر خبیث کلام سے شدید نفرت ہوتی ہے۔ وہ صرف ایسے اعمال کی طرف مائل ہوتا ہے جنہیں شریعت، عقل اور فطرت اچھا قرار دیتے ہیں۔ 
مثال کے طور پر وہ ایک اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا، اس کی رضا کو اپنی خواہش پر ترجیح دیتا ہے۔ اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دیتا ہے۔ اس کی مخلوق کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے، انہیں تکلیف نہیں دیتا۔ ان کی عزت و آبرو سے نہیں کھیلتا، ان کی اچھائیوں کو پھیلاتا ہے اور ان کی برائیوں اور کمزوریوں کو چھپاتا ہے۔ اس کے اخلاق بھی اعلیٰ اور پاکیزہ ہوتے ہیں۔ مثلاً حلم و وقار، صبر و شکر، صدق ووفا، تواضع اور رحمدلی، رحمت و سکینت، عفت و طہارت، جودو سخا، شجاعت اور استغناء، محبت اور مروت ، خورد نوش کے لیے حلال اور پاک چیزوں کو پسند کرتا ہے، وہ دوستی بھی ایسوں سے لگاتا ہے جو صاف ستھرے ہوتے ہیں۔ وہ رشتہ بھی وہیں کرتا ہے جہاں کردار و عمل کی پاکیزگی ہوتی ہے۔ گویا وہ ہر اعتبار سے پاک ہوتا ہے اس کی روح بھی پاک، بدن بھی پاک، اخلاق بھی پاک، عمل بھی پاک، کلام بھی پاک، کھانا بھی پاک، پینا بھی پاک، لباس بھی پاک، کلام بھی پاک، دوستی بھی پاک، آنا جانا بھی پاک، ٹھہرنا اور لوٹنا بھی پاک، یہ سعادت مند شخص ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارے میں فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ وہ لوگ جن کی جان فرشتے اس حال میں نکالتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں وہ ان سے کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو، تم جنت میں داخل ہو جائو ان اعمال کے بدلے جو تم کیا کرتے تھے۔‘‘ (النحل:32)
طیب اور پاک کی ضد خبیث ہے، جیسے طیب شخص ہر شعبے میں، ہر چیز میں ہر اعتبار سے پاکیزگی پسند ہوتا ہے، اس طرح خبیث شخص کا ہمہ جہت اور ہمہ وقت میلان خباثت کی طرف ہوتا ہے۔ دل میں بھی خباثت، زبان پر بھی خباثت اور اعضاء میں بھی خباثت کے جراثیم پائے جاتے ہیں لیکن ان میں سے کچھ لوگ سچی توبہ کے ذریعے ان جراثیم کو ختم کرنے اور گناہوں سے اپنے آپ کو پاک کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جب وہ اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں تو ان پر خباثت اور نجاست کا کوئی اثر نہیں ہوتا، ان کے برعکس جو توبہ نہیں کر سکیں گے اور طہارت اور خباثت دونوں مادوں کے ساتھ آخری عدالت میں پیش ہوں گے ۔ 
انہیں گندگی سے پاک کرنے کے لیے دوزخ میں ڈالا جائے گا تاکہ وہ جنت میں داخل ہونے کے قابل ہو سکیں کیونکہ جنت میں کوئی بھی ناپاک شخص داخل نہیں ہو سکے گا، دوزخ میں انہیں اتنی ہی دیر رکھا جائے گا جتنی دیر میں ان کا خبث دور ہونے میں وقت لگے گا، چونکہ مشرک اور کافر کا عنصر بھی خبیث ہوتا ہے اور خباثت اس کے رگ و ریشہ میں رچی بسی ہوتی ہے، اس لیے وہ دوزخ میں رہنے کے باوجود خباثت سے پاک نہیں ہو سکے گا۔ چنانچہ وہ کبھی بھی جنت میں داخل ہونے کا حقدار نہیں ہو گا۔
جیسے کتے کو اگر سمندر میں ڈال کر کئی بار غسل دے دیا جائے تو بھی وہ پاک نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح مشرک پاک نہیں ہو سکتا، البتہ اگر وہ دنیا میں کفر و شرک سے توبہ کر لیتا تو اس کا پاک ہونا ممکن تھا۔ دین سے دوری کی وجہ سے ہمارے ہاں پاک نا پاک اور حلال حرام کا امتیاز اٹھتا جا رہا ہے، دولت کی ہوس نے بہت سوں کو اندھا کر دیا، وہ صرف دولت کے طلب گار ہیں چاہے وہ کسی بھی راستے سے اور کسی بھی طریقے سے آئے، ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کا تقویٰ صرف پانی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، اگر پانی میں چڑیا گر کر مر جائے تو انہیں اس کی پاکی ناپاکی کی فکر ہوتی ہے لیکن رزق میں ہاتھی جتنا حرام بھی شامل ہو جائے تو انہیں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔
اگر یہ نکتہ ملحوظ رہے کہ خبیث اور ناپاک مال سے کیا گیا نہ تو حج اور عمرہ قبول ہوتا ہے، نہ صدقہ خیرات پر کوئی اجرو ثواب ملتا ہے، نہ مساجد اور مدارس میں چندہ دینے سے وہ پاک ہو سکتا ہے، بلکہ اس کے برعکس اس کے نتائج بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔ دعائیں قبول نہیں ہوتیں، اولاد نافرمان ہو جاتی ہے، گھریلو زندگی تلخیوں سے بھر جاتی ہے۔ سکون اور اطمینان عنقا ہو جاتا ہے۔ اس نکتہ کو ملحوظ رکھنے سے ناپاک مال سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔