نیکیوں میں مسابقت کرو !
(سورۃ البقرہ کی آیت 148کی روشنی میں)
مسجد جامع القرآن، قرآن اکیڈمی، لاہورمیں امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے 7 جون 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص
مرتب: ابو ابراہیم
خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
سورۃ البقرہ کے 17ویں اور 18ویں رکوع میں تحویل قبلہ کے متعلق احکامات اور ہدایات آئی ہیںاور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تحویل قبلہ تحویل اُمت کی علامت بھی تھی۔ یعنی مسجد اقصیٰ سے مسجدالحرام کی طرف قبلے کی تبدیلی کے ساتھ ہی بنی اسرائیل کو معزول کرکے اُن کی جگہ نبی اکرمﷺ کی اُمت کو اُمت وسط قرار دیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّـتَـکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًاط} ’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک اُمت ِوسط بنایا ہے‘تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ ‘تم پر گواہ ہو۔‘‘ (البقرۃ: 143 )
جب تحویل قبلہ کا معاملہ پیش آیا تو یہود کی طرف سے اعتراضات اُٹھائے گئے کہ مسلمانوں کا تو قبلہ ہی واضح نہیںہے ، پہلے رُخ کہیں اور تھا اب کہیں اور ہوگیا ۔ اگر اب والا قبلہ ٹھیک ہے تو پچھلی نمازیں ضائع ہو گئیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے جواب دیا :
{وَمَا کَانَ اللہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَـکُمْ ط} ’’اور اللہ ہرگز تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والا نہیںہے۔‘‘ (البقرۃ: 143 )
اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے لفظ ایمان کو صلوٰۃ کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ مومن ہو اور بے نمازی ہو یہ ممکن نہیں ہے۔ مگر آج عید قربان پر بڑا مہنگا جانورتو قربان کیا جائے گا لیکن فجر کی نماز ضائع ہورہی ہوگی۔ حالانکہ نماز فرض ہے اور قربانی واجب ہے۔ جس رب کے حکم کو مان کر آپ قربانی کر رہے ہیں اُسی نے نماز کا حکم بھی دیا ہے :
{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ(2)}’’پس آپ(ﷺ) اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کیجیے اور قربانی کیا کیجیے۔‘‘(الکوثر)
پہلے نماز ہے پھر قربانی ہےاور دونوں ضروری ہیں۔اسی طرح تحویل قبلہ ایک ظاہرکی تبدیلی ہے ۔ ظاہر اہم ہے مگر سب کچھ نہیںہے ۔ سورۃالبقرہ میں فرمایا:
{وَلِکُلٍّ وِّجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیْہَا} ’’ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے جس کی طرف وہ رُخ کرتاہے‘‘ (البقرہ :148)
ہرانسان کی زندگی کا کوئی نہ کوئی رُخ ہے جس کی طرف وہ اپنا رُخ کیے ہوئے ہوتاہے ۔ آگے فرمایا:
{فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ ط} ’’تو (مسلمانو!) تم نیکیوں میں سبقت کرو۔‘‘ (البقرہ :148)
لفظ خیرات خیر سے آیا ہے اور یہ کوئی ہلکا لفظ نہیں ہے ۔ فرمایا خیرات میں ، نیکیوں میں مسابقت کرو ۔ مگر آج ہمارا مقابلہ کس چیز میں ہے ؟ قرآن پاک بھی بتاتا ہے:
{اَلْہٰىکُمُ التَّکَاثُرُ(1) حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ(2)} (التکاثر)’’تمہیں غافل کیے رکھا ہے بہتات کی طلب نے!یہاں تک کہ تم قبروں کوپہنچ جاتے ہو۔‘‘
تم اس دنیا کی محبت میں،اس کے مال و اسباب کی محبت میں غافل ہو گئے، اسی کو تم نے مطلوب و مقصود سمجھا ، یہاں تک کہ تم قبروں کو پہنچ گئے ۔ہر ایک کا کوئی نہ کوئی رُخِ زندگی ہے ، اسی کے لیے محنت کر رہا ہے ، اپنے آپ کو کھپا رہا ہے مگر تم خیرات کے معاملے میں ، نیکیوں کے معاملے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ صحابہ کرام ؇میں یہ جذبہ موجود تھا۔ غزوئہ تبوک کے موقع پر حضرت عمر گھر کا آدھا سامان لے کر آئے اور سوچ رہے تھے کہ آج میں حضرت ابو بکر صدیق پر سبقت لے جاؤں گا۔ دیکھا تو حضرت ابو بکر صدیق پورے گھر کا سامان لے آئے، اللہ کے رسولﷺ نے پوچھا: گھر والوں کے لیےکیا چھوڑا ہے؟ عرض کیا : گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو چھوڑ آیا ہوں ۔ یہ مسابقت خیرات میں تھی ، اللہ کو راضی کرنے کی ساری دوڑ لگی ہوئی تھی ، آخرت کی فکر ترجیح اول تھی جبکہ دنیا کی فکر بہت کم تھی ۔ ابھی سورج نکلا نہیں اور ایک صحابی مارکیٹ سے واپس آرہے ہیں ۔ کہا میری آج کی ضرورت پوری ہو گئی،اتنا ہی کافی ہےجبکہ دوسری طرف نیکیوں میں سخت مقابلہ ہے۔ اسی لیے تو قرآن میں آیا کہ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔ آج ہماری ساری دوڑ دنیا کمانے میں لگی ہوئی ہے اور آخرت کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ رات بارہ بجے تک مارکیٹس کھلی ہوئی ہیں ، منافع خوری ، ذخیرہ اندوزی ، ہر چیز میں ملاوٹ اور فراڈ، سب کچھ چل رہا ہے مگر حالات پھر بھی ڈگر پر نہیں آرہے کیونکہ اللہ راضی نہیں ہے ۔ ہمارا سارا مقابلہ ، ساری جدوجہد ،سارا جذبہ اور سارا غصہ دنیا کمانے میں نکل رہا ہے ۔ اللہ کے احکامات ٹوٹ رہے ہیں ، اللہ کی حدود پامال ہورہی ہیں ، اللہ اور رسول ﷺسے جنگ جاری ہےمگر قوم کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا ، بے حیائی کا طوفان گھروں میں پہنچا ہوا ہے، تعلیمی اداروں کا بیڑا غرق ہو گیاہے مگر قوم کو احساس ہی نہیں ہو رہا۔ اس پر غصہ آئے گا تو کچھ حیا کی، ایمان کی حفاظت کی کوشش ہوگی۔ اُمت کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ اپنے ذاتی امور و معاملات میں اللہ کے پیغمبر ﷺ نہ غصہ کرتے تھے اور نہ کسی سے بدلہ لیتے تھے لیکن جب اللہ کی حدود میں سے کوئی حد ٹوٹتی تو سب سے زیادہ غصہ اللہ کے رسول ﷺ کو آتا تھا۔آج ہمیں احساس ہی نہیں ہورہا ہے، تبھی تو ہمارا ستیاناس ہے۔اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔
اسی طرح بندہ چاہتا ہے کہ میں نمایاں ہو جاؤں، میری کوئی ویلیو ہو،کوئی میری تعریف کرے ، دوسروں سے آگے نکل جاؤں ۔ اللہ نے اس جذبے کو کچلا نہیں بلکہ بتایا کہ تم نیکیوں میں دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔یہی اصل مسابقت ہے ۔ ورنہ دنیا میں جتنا بھی کمالو گے وہ تمہارے کام نہیں آئے گا ۔ آج دولت کمانے میں دوڑ لگی ہوئی ہے ، بھائی بھائی کو قتل کررہا ہے ، بیٹا باپ کو قتل کر رہا ہے ، حقوق غصب ہو رہے ہیں ، جائیدادوں پر قبضے ہورہے ہیں ، ہر طرف قبضہ مافیا کا راج ہے ۔ معاشرے کا تو بیڑا غرق ہونا ہی ہے۔ یہی مسابقت اگر نیکی کے کاموں میں ہوتی ، خیر کے کاموں میں ہوتی ، تقویٰ میں ہوتی تو آج ہمارا یہ معاشرہ جنت نظیر بن چکا ہوتا۔ جب نیکیوں میں مسابقت کا دور تھا تو کیسی مثالیں قائم ہورہی تھیں؟ سات گھروں سے کھانا چلتا ہوا واپس پہلے گھر پر آگیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اپنے سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی کا خیال تھا کہ مجھ سے زیادہ میرے بھائی کو ضرورت ہوگی۔ اللہ اکبر۔ قرآن مجید میں مومنین کی شان بیان ہوئی :
{وَیُـؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَـوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ط} ’’اور وہ تو خود پر ترجیح دیتے ہیں دوسروں کو خواہ ان کے اپنے اوپر تنگی ہو۔‘‘(الحشر :9)
یہ وہ معاشرہ تھا جو قرآن کی تعلیمات اور حضور ﷺکی تربیت کے نتیجے میںقائم ہوا تھا ۔ آج دونوں ہاتھوں سے بے چارے غریب آدمی کو لوٹا جارہا ہے ، جو کچھ اس کے پاس ہے چھینا جارہاہے ، کوئی خوفِ خدا نہیں ہے ۔ یہ قرآن سے دور ی کا نتیجہ ہے ۔ آگے فرمایا:
{اَیْنَ مَا تَـکُوْنُوْا یَاْتِ بِکُمُ اللہُ جَمِیْعًاط} ’’جہاں کہیں بھی تم ہو گے اللہ تم سب کو جمع کر کے لے آئے گا۔‘‘ (البقرہ :148)
آخرت کا یہ بیان دو اعتبارات سے ہے۔ اگر سات پردوں میں چھپ کر بھی گناہ کر رہا ہوں تو اللہ کو حساب دیے بغیر جان نہیں چھوٹے گی اور اگر قوم کو بیچ رہا ہوں، اربوں کی کرپش کرکے بھی دنیا میں بچ جاتا ہوں ، کوئی عدالت ، کوئی ادارہ کچھ نہیں کر سکتا تو پھر بھی آخرت کے مواخذے سے بچ نہیں سکتا ۔ آگے اللہ فرما رہا ہے:
{اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ(148)} ’’یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ (البقرہ :148)
اگرکوئی نیکی اور خیر کا کام کر رہا ہے مگر دنیا میں اس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آرہا ہے تو پریشان نہ ہو ، اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ وہ تمہارے اعمال کا بھرپور اجر تمہیں عطا فرمائے۔ اگر دنیا میں نہیں تو آخرت میں ضرورعطافرمائے گا۔ سورۃ الکہف میں ہم پڑھتےہیں کہ خضر ؑ نے بغیر اُجرت کے ایک دیوار کی مرمت کردی کیونکہ وہ دیوار یتیم بچوں کی تھی اور ان کے والد کے بارے میں قرآن کہتا ہے :
{وَکَانَ اَبُوْہُمَا صَالِحًاج} ’’اور اُن کا باپ نیک آدمی تھا۔‘‘(الکہف:82)
باپ کی نیکی اولاد کے کام آئے گی ۔ جتنی مرضی دولت اور جائیداد چھوڑ کر جاؤ ، کیا پتا اولاد کے کام آئے یا نہ آئے ، لیکن اللہ کو راضی کرکے جاؤ گے، نیکی کے کام کر کے جاؤ گے تو وہ لازماً اولاد کے کام آئیں گے ۔ آج اپنی اولاد کو ہم بہترین تحفہ جو دے سکتے ہیں وہ خود ہمارا اپنا نیک بننا ہے ۔ ہم نے تصور بنا لیا کہ اولاد نیک ہوگی تو وہ ہمارے لیے صدقہ جاریہ بنے گی ۔ بے شک حدیث میں لکھا ہے لیکن احادیث میں جا بجا یہ بھی لکھا ہے کہ خود نیک بنو ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ہم نیک بنیں گے تو ہماری نیکی اولاد کے بھی کام آئے گی اور ہمارے بھی کام آئے گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد ہمارے مرنے کے بعد ہمارے لیے صدقہ جاریہ بنے تو پہلے ہمیں خود نیک بننا ہوگا ۔