اداریہ
خورشید انجم
بھارتی انتخابات اور یہود وہنود کا گٹھ جوڑ
بھارت میں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان زیر بحث رہا اور مودی نے متعدد بار پاکستان کو نشانہ بنایا مثلاً اپنے مخالفین پر بزدلی کا الزام لگایا کہ وہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے خوفزدہ ہیں ،اسی طرح کہا کہ اگر پاکستان نے چوڑیا ں نہیں پہنی ہوئیں تو ہم پہنا دیں گے۔ ہمیں معلوم تھا کہ پاکستان کے پاس کھانے کو اناج نہیں لیکن اب ہمیں پتہ چلا ہے کہ ان کے پاس چوڑیوں کی بھی کمی ہے۔ لیکن مذکورہ بالا اور اس طرح کے بیانات کے باوجود پاکستان میں بھارتی انتخابات کے حوالے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں دیکھی گئی۔بہر حال نریندر مودی نے تیسری بار بھارتی وزیراعظم کے طور پر حلف اُٹھا لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جون کے آغازمیں جب 7 مراحل پر مشتمل اور تین ماہ سے زائد مدت پر محیط لوک سبھا کے انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو اُنہوں نے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ انتخابات سے قبل تمام Exit Polls اس بات کی گواہی دیتے رہے کہ وزیراعظم مودی کی جماعت بی جے پی کا یہ نعرہ کہ ’’اب کی بار، چار سو پار‘‘ نہ صرف پورا ہو کر رہے گا بلکہ حکمران جماعت شاید اس سے کہیں زیادہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ مودی کے اس دعویٰ کی بڑی ٹھوس وجوہات تھیں۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ریاستِ بھارت کی پوری مشینری مودی کے قبضہ میں آ چکی تھی۔ گجرات کے مسلم کُش فسادات میں ملوث تمام مجرموں کو بھارتی عدالتوں نے ایک ایک کرکے باعزت بری کر دیا تھا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے انصاف کا خون کرتے ہوئے بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے 5 اگست 2019ء کےاقدام کو پانچ برس پورے ہونے کو ہیں اور اب نہ تو حکومت ِپاکستان اور نہ ہی دیگر مسلم ممالک اس حوالے سے کوئی آواز بلند کرتے ہیں۔ پھر یہ کہ امریکہ اور مغربی ممالک کے نزدیک بھارت خطہ میں اُن کا مضبوط اور اہم ترین اتحادی ہے۔ اگرچہ بھارت نے افغانستان میں 20 سالہ امریکی جنگ کے دوران امریکہ کی خاطر خواہ مدد نہ کی، لیکن افغانستان کے حوالے سے مشرف کے پاکستان کی تسلیم و رضا کی پالیسی کے باعث امریکہ کو بھارت کی کھلی مداخلت کی ضرورت ہی نہ تھی۔ چین کے حوالے سے البتہ بھارت کو کواڈ وغیرہ کا حصہ بنایا گیا۔ دنیا بھر کے اقتصادی فورمز پر بھارت کی خوب پیٹھ ٹھونکی گئی۔ 2014ء سے 2024ء تک نریندر مودی کے دو ادوار کے دوران بھارت کی معاشی ترقی اوسطاً ساڑھے آٹھ فیصد رہی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس معاشی ترقی سے بھارتی اشرافیہ ہی مستفید ہوئی اور آج بھی بھارت میں بسنے والوں کی ایک بڑی تعداد بدترین غربت اور افلاس کا شکار ہے بلکہ فٹ پاتھوں پر سونے پر مجبور ہے۔پھر یہ کہ مودی نے صرف اور صرف کٹر ہندو ووٹر کو ٹارگٹ کیا ۔بھارت میں ہندو آبادی کا 78 فیصد ہیں اور اکثریت آج بھی دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔ لہٰذا مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے خلاف کیے گئے اقدامات نے مودی کو ہندو اکثریت کا سب سے پاپولر لیڈر بنا دیا۔ مودی کی جماعت بی جے پی کو ہندو انتہا پسند تنظیموں، آر ایس ایس اور وی ایچ پی کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ہندتوا کے خواب کو عملی تعبیر دینے والے مودی خود آر ایس ایس کے رکن ہیںاور بی جے پی آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے۔ چنانچہ گزشتہ دونوں انتخابات کے نتیجہ میں بی جے پی کو واحد اکثریتی جماعت کی حیثیت حاصل رہی تاہم حالیہ انتخابات میں بی جے پی کو زبردست دھچکا پہنچا ہے۔ بھارت میں لوک سبھا کی 543 نشستوں پر انتخابات میں بی جے پی کو صرف 240 نشستوں پر کامیابی حاصل ہو سکی۔ گویا بی جے پی سادہ اکثریت حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی، اگرچہ حکمران اتحاد این ڈی اے کو 295 سیٹیں ملیں اور یوں مودی مسلسل تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ کانگرس نے گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں 47 سیٹیں زیادہ جیت کر کل 99 سیٹیں حاصل کیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ راہول گاندھی بھارت میں اپوزیشن کے ایک مضبوط اور سنجیدہ لیڈر کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ راہول گاندھی کی ’’بھارت جوڑویاترا‘‘ نے کانگرس کی بہتر کارکردگی میں اہم کردار ادا کیا۔ پھر یہ کہ سوشل میڈیا انفلونسر دھروراٹھی جن کے صرف یوٹیوب پر 2 کروڑ سے زائد فالورز ہیں اُن کی چشم کُشا ویڈیوز نےحالیہ انتخابات میں مودی کی جماعت کی ناقص کارکردگی میں اہم کردار ادا کیا۔ اِس دور میں سوشل میڈیا کے تعمیری یا تخریبی کردار کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی مرکزی و صوبائی حکومتیں اور مقتدر حلقے سوشل میڈیا کو ’’لگام دینے‘‘ پر اس قدر اصرار کررہے ہیں۔بہرحال کانگرس اور اُس کی ہم خیال جماعتوں کے اتحاد’ ’انڈیا‘‘ نے 236 نشستیں حاصل کیں۔ اگر بھارت میں بھی فارم 45 اور 47 والا معاملہ کیا گیا ہوتا تو شاید نتائج مختلف ہوتے۔
حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کوروایتی طور پر مضبوط سمجھے جانے والے کئی علاقوں اور نشستوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایودھیا جہاں چند ماہ قبل مودی نے شہید بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کا افتتاح کیا تھا وہاں بی جے پی کو شرمناک شکست ہوئی۔ کیرالہ اور رائے بریلی میں بھی بی جے پی کو خاک چاٹنا پڑی اور دیگر کئی علاقوں مثلاً اُترپردیش، آسام، فرید کوٹ، حیدر آباد دکن، راجستھان، کیرالہ، رائے بریلی وغیرہ میں کانگرس، سماج وادی پارٹی کے علاوہ مسلمان اور سکھ اُمیدواروں نے بی جے پی کے اُمیدواروں کوبڑے مارجن سےچت کردیا۔ خود مودی کو اپنے آبائی حلقےوارنسی (اترپردیش) میں معمولی اکثریت سے کامیابی ملی۔ان اعداد و شمار کو دیکھ کر ہمارے اکثر دانشور حضرات اور تجزیہ نگار یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ لوک سبھا کے انتخابات میں مودی کو شکست فاش ہوگئی ہے۔ بی جے پی کا ہندوتوا کا بیانیہ گنگا وجمنا برُد ہوگیا ہے۔ بھارت کے ووٹر نے مودی اور بی جے پی کے انتہا پسندانہ بیانیے کو مکمل طورپر مسترد کر دیا ہے۔بعض دانشور حضرات تو یہاں تک فرما رہے ہیں کہ مودی کی اس شکست نے بھارت کے شکست و ریخت ہونے کے اُس عمل کو بریک لگا دی ہے جو ایک طاقتور مودی حکومت کے ہوتے ہوئے یقینی دکھائی دے رہی تھی۔ اگرچہ ان تمام تجزیوں میں کچھ وزن ضرور ہے لیکن حقیقتِ حال کو کانگرسی لیڈر سونیا گاندھی نے بڑی خوبصورتی سے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’’انتخابی نتائج مودی کی اخلاقی اور سیاسی‘‘ شکست ہیں۔ اس حوالے سے دورائے نہیں ہو سکتیں کہ تیسری بار بھارتی وزیراعظم بننے والے نریندر مودی کی حکومت گزشتہ دو ادوارِ حکومت کے مقابلہ میںنسبتاً کمزور ہوگی اور اُسے قائم رہنے کے لیے دیگر ہم خیال پارٹیوں کی بیساکھیاں درکار رہیں گی۔ مضبوط اپوزیشن حکومت کو من مانی نہیں کرنے دے گی۔وہ ہر اُس بل کے پاس ہونے کے راستے میں رکاوٹ بنے گی جس کے لیے سادہ اکثریت سے زیادہ حمایت درکار ہوگی۔ پھر یہ کہ حکومتی اتحاد اگر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا تو موجودہ مودی حکومت دھڑام سے گِر سکتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مودی کی تمام اتحادی جماعتیں ہند وتوا کی کٹر حامی ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ان تمام جماعتوں نے مسلمان دشمنی کو اپنے ووٹ کی بنیاد بنایا اور اِن کے ووٹر، حمایتی آج بھی بھارت سے مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کا صفایا کرکے اُس اکھنڈ بھارت کو قائم کرنا چاہتے ہیں جس کا تاریخ کے کسی دور میں کہیں وجود نہ تھا لیکن اب انتہا پسند ہندوؤں کے خوابوں اور خیالوں کا مرکزی نقطہ ہے۔
یاد رہے کہ انتخابات سے قبل مودی نے اس عزم کا ایک سے زائد مرتبہ اظہار کیا تھا کہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد وہ اُن آزادیوں کو بھی سلب کرلے گا جو مسلمانوں کو عائلی معاملات میں حاصل ہیں۔اپنے انتخابی جلسوں کے دوران مسلمانوں کو ’’عرب سے آئے درانداز‘‘ اور ’’زیادہ بچے پیدا کرنے والے (ناسور)‘‘ قرار دینے والا وزیر اعظم مودی کیا صرف اس وجہ سے اپنے تیور بدل لے گا کہ اسے انتخابات میں خواہش سے کم نشستیں ملیں؟ اس خام خیالی کے برعکس مودی اور اُس کے اتحادی خوب جانتے ہیں کہ اُن کی فتح کا محور و مرکز انتہا پسند ہندو ہیں۔ لہٰذا اپنے ووٹ بینک کو محفوظ رکھنے اور بڑھانے کے لیے وہ اپنی سابقہ پالیسیوں کو مزید تیز کر دیں گے۔
پھر یہ کہ مشرقِ وسطیٰ اور دنیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال کے باعث امریکہ اور اسرائیل کو مودی کے بھارت کی اشد ضرورت ہے۔ لہٰذا وہ نہ صرف مودی کی مکمل معاونت کریں گے بلکہ کم نشستوں اور کمزور حکومت کی یہ ’’ تلوار‘‘ شاید مودی کو مجبور کر دے کہ وہ خطے میں امریکی عزائم کو پورا کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگانے سے بھی گریز نہ کرے۔ چین کے حوالے سے بالعموم اور پاکستان کے حوالے سے بالخصوص امریکہ اور اسرائیل کے جارحانہ عزائم کی طرف پیش قدمی میں نریندر مودی پہلے سے زیادہ مستعد نظر آئے گا۔ مزید یہ کہ انتہا پسندانہ فکر و عمل کا حامل وزیرِ اعظم مودی بھارتی مقتدرہ اور اشرافیہ کے لیے بھی ایک ڈھال اور نعمت سے کم نہیں۔ عوام کا معاملہ اگرچہ مختلف ہو گا۔ مودی کے فسطائی رویہ اور اقدامات کے باعث بھارت کی پہلے سے ناراض اقلیتوں اور علیحدگی پسند گروہوں کو دیوار سے لگا دینے کی کوشش کی گئی تو سخت ترین عوامی ردِ عمل آسکتا ہے جو مستقبل میں خانہ جنگی کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے۔ اگرچہ کانگرس کے دورِ حکومت میں بھی بھارت کے مسلمان مجموعی طور پر دوسرے درجے کے شہری رہے ہیںاور ہندوؤں کی روایتی تنگ نظری و تنگ دلی کا اظہار مختلف مواقع پر ہوتا رہا ہے اور پاکستان کے خلاف ان کا خبث باطن کہیں نہ کہیں ظاہر ہو جاتا تھا جیسا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ’’ہم نے ہزار سالہ شکست کا انتقام لےلیا ہے۔‘‘ اسی طرح اس نے سپین میں ایک باقاعدہ سٹڈی مشن بھیجا تھا کہ تحقیق کی جاسکے کہ وہاں سے مسلمانوں کا کیسے صفایا کیا گیا تھا۔
مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے لیے بھی کانگرس کے آخری دورِ حکومت میں بالخصوص اسرائیل کا تعاون حاصل کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ لیکن مقبوضہ کشمیر اور خود بھارت میں مسلمانوں کی سلسلہ وار نسل کُشی کے لیے جو اقدامات مودی نے اپنے دونوں ادوارِ حکومت میں کیے اُن کا ماضی میں کانگریسی دور میں کیے گئے ظلم و ستم سے کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد مودی حکومت نے اپنا وزن باقاعدہ طور پر صہیونی ریاست اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔ غزہ پر اسرائیلی بمباری اور درندگی میں نہ صرف بھارتی فوجیوں نےباقاعدہ حصہ لیا بلکہ بھارتی اسلحہ، بارود اور ڈرونز بھی استعمال کیے گئے۔ اس تناظر میں دیکھیںتو بھارت اور اسرائیل میں گہری مشابہت پائی جاتی ہے اور ہنود و یہود کے مشترکہ دشمن پاکستان کے بارے میں اسرائیل کے پہلے وزیراعظم بن گوریان نے 1967ء کی جنگ کے بعد اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ بین الاقوامی صہیونی تحریک کو کسی طرح بھی پاکستان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان ہمارا اصلی اور حقیقی آئیڈیالوجیکل جواب ہے۔ بھارت سے دوستی ہمارے لیے نہ صرف ضروری ہے بلکہ مفید ہے ۔ ہمیں اس تاریخی عناد سے فائدہ اٹھانا چاہیے جو ہندو پاکستان اور اس میں رہنے والے مسلمانوں کے خلاف رکھتا ہے۔ اور اس کے بعد بھارت اور اسرائیل کے تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے گئے۔ اسی طرح کی مشابہت اسرائیل اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم میں بھی پائی جاتی ہے۔ اگر نیتن یاہو نے اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد X (سابقہ ٹویٹر)پر گریٹر اسرائیل کا نقشہ پیش کیا جو یہودیوں کا دیرینہ خواب ہے تو ہندوؤں کے ہاں بھی گریٹر انڈیا کا خواب ہے اور اپنے ان توسیع پسندانہ عزائم کو انڈین پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں دیوار پر لگے نقشے کے ذریعے واضح کر دیا گیا ہے جس میں پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال کو انڈیا کے اندر ضم کر کے دکھایا گیا ہے۔دونوں وزرائے اعظم کی جانب سے جاری کردہ نقشہ ان کے توسیع پسندانہ عزائم کو ظاہر کرتا ہے اور اس کے لیے دونوں ممالک مسلم کش پالیسیاں اختیار کیے ہوئے ہیں۔ان حالات میں جب کہ بھارت اور اسرائیل دونوں کا نشانہ پاکستان ہے اور اس میں خاص طور پر پاکستان کے ایٹمی دانت( صلاحیت) کا ختم کرنا ان کی ترجیح اوّل ہے اور اس کے لیے کئی بار کوشش بھی کی جا چکی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آئین سے اسلامی شقوں کا نکالنا شامل ہے۔ ان حالات میں جب کہ ’’تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں‘‘ کے مصداق دشمن تاک لگا کر بیٹھا ہے، بھارتی انتخابات کے حوالے سے عدم دلچسپی اور آنے والے واقعات کی پیش بینی کر کے اس کا تذکرہ نہ کرنابلی کو دیکھ کر کبوتر کا آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہے اس لیے ’’اپنی خودی پہچان او غافل مسلمانِ پاکستان‘‘ کے مصداق یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنا فرض پورا کریں۔ بھارتی مسلمان نے اپنی جان کی قیمت پر بھارت کی دھرتی ماتا کے ٹکڑے کروائےاور ہمیں پاکستان بنوا کر دے دیا کہ ہم پر تو جو بیتے گی سو بیتے گی، تم اس خطہ ارضی میں شریعت نافذ کرو۔ ہم صرف اپنے ہی عمل کے ذمہ دار نہیں بلکہ بھارتی مسلمانوں کی ذمہ داری کا فرض کفایہ بھی ہمارے کندھوں پر ہے لہٰذا "The best Defense is a good Offense" کے مصداق ہمارے بچاؤ کا واحد، پہلااور آخری حل یہی ہے کہ یہاں اسلام کا نظام خلافت قائم کیا جائے جو پوری دنیا کے لیے لائٹ ہاؤس کا کام کرے گا اور اگر یہ نہیں تو پھر سب کہانیاں ہیں بابا:
چمن کے مالی اگر بنا لیں موافق اپنا شِعار اب بھی
چمن میں آ سکتی ہے پلٹ کر ،چمن سے روٹھی بہار اب بھی