(الہدیٰ) فرعون کا تکبراور حضرت موسیٰ ؑ کو جھٹلانا - ادارہ

10 /
الہدیٰ
 
فرعون کا تکبراور حضرت موسیٰ      ؑکو جھٹلانا
 
آیت 36 {فَلَمَّا جَآئَ ہُمْ مُّوْسٰی بِاٰیٰتِنَا بَیِّنٰتٍ} ’’تو جب موسیٰ ؑپہنچا اُن کے پاس ہماری روشن نشانیاں لے کر‘‘
{قَالُوْا مَا ہٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًی وَّمَا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِیْٓ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ (36)} ’’انہوں نے کہا کہ یہ کچھ بھی نہیں سوائے گھڑے ہوئے جادو کے‘اور ہم نے ایسی کوئی بات اپنے پہلے آباء و اَجداد میں نہیں سنی۔‘‘
ہمارے لیے یہ بالکل نئی بات ہے کہ اللہ جو اس کائنات کا خالق ہے وہ کسی انسان کو اپنا نمائندہ بنا کر دنیا میں بھیجے اور وہ اس حیثیت میں لوگوں سے اپنی اطاعت کا مطالبہ کرے۔ ہم نے اپنے باپ دادا سے بھی نہیں سنا کہ ان کے زمانے میں پہلے کبھی ایسا ہوا تھا۔
آیت 37 {وَقَالَ مُوْسٰی رَبِّیْٓ اَعْلَمُ بِمَنْ جَآئَ بِالْہُدٰی مِنْ عِنْدِہٖ وَمَنْ تَکُوْنُ لَہٗ عَاقِبَۃُ الدَّارِط} ’’اور موسیٰ  ؑ نے کہا: میرا پروردگار خوب جانتا ہے اُس کو جو ہدایت لے کر آیا ہے اُس کی طرف سے‘اور (وہی خوب جانتا ہے کہ )کس کے لیے دارِ آخرت کا اچھا انجام ہے۔‘‘
{اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ(37)} ’’یقیناًظالم لوگ فلاح نہیں پائیں گے۔‘‘
آیت 38 { وَقَالَ فِرْعَوْنُ یٰٓــاَیُّہَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَـکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ ج} ’’اور فرعون نے کہا : اے درباریو!مَیں تو اپنے سوا تمہارے لیے کسی معبود کو نہیں جانتا۔‘‘
اس ملک میں میری حکومت ہے اور یہاں صرف میرا حکم چلتا ہے۔ چنانچہ میں اپنے علاوہ کسی اور کو تمہار۱ ’’الٰہ ‘‘یا ’’ربّ ‘‘ماننے کے لیے تیار نہیںہوں۔
{فَاَوْقِدْ لِیْ یٰہَامٰنُ عَلَی الطِّیْنِ} ’’تو اے ہامان! ذرا تم میرے لیے مٹّی کی اینٹوں کو آگ سے پختہ کرو‘‘
یعنی گارے سے اینٹیں بنا کر انہیں بھٹّے میں پکانے کا بندوبست کرو۔
{فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْٓ اَطَّلِعُ  اِلٰٓی  اِلٰہِ مُوْسٰی لا} ’’پھر میرے لیے ایک اونچا محل بنوائو تاکہ میں جھانک سکوں موسیٰ کے الٰہ کو‘‘
موسیٰ جس الٰہ کی بات کرتا ہے ‘میں اس اونچی عمارت پر چڑھ کر آسمانوں میں جھانک کر اُس الٰہ کو دیکھنا چاہتا ہوں ۔
{وَاِنِّیْ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ(38)} ’’اور مَیں توسمجھتا ہوں کہ وہ جھوٹا ہے۔‘‘
 
درس حدیث
موت اور افلاس میں خیر کا پہلو
 
عَنْ مَحْمُوْدِ بْنِ لَبِیْدٍ اَنَّ النَّبِیَّ  ﷺ قَالَ:((اِثْنَانِ یَکْرَھُھُمَا ابْنُ اٰدَمَ یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَالْمَوْتُ خَیْرً لِّلْمُؤْمِنِ مِنَ الْفِتْنَۃِ وَیَکْرَہُ قِلَّۃَ الْمَالِ وَقِلَّۃُ الْمَالِ اَقَلُّ لِلْحِسَابِ))(رواہ احمد)
حضرت محمود بن لبید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’دو چیزیں ایسی ہیں جن کو آدمی ناپسند ہی کرتا ہے (حالانکہ ان میں اس کے لیے بڑی بہتری ہوتی ہے) ایک تو وہ موت کو پسند نہیں کرتا‘ حالانکہ موت اس کے لیے فتنہ سے بہتر ہے‘ اور دوسرے وہ مال کی کمی اور ناداری کو نہیں پسند کرتا ‘ حالانکہ مال کی کمی آخرت کے حساب کو بہت مختصر اور ہلکا کرنے والی ہے۔‘‘