(اداریہ) معاشی اور معاشرتی بھنور میں پھنسا پاکستان - خورشید انجم

10 /

اداریہ 

معاشی اور معاشرتی بھنور میں پھنسا پاکستان

وہ بھی زمانہ تھا جب بجٹ کا عام آدمی سے بڑا گہرا تعلق ہوتا تھا۔ ایک عمومی خوف کی لہر پھیل جاتی تھی کہ شاید کچھ بنیادی ضروریاتِ زندگی کی اشیاء مہنگی ہو جائیں گی وگرنہ تمام سال کسی حکومتی اقدام سے مہنگائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مارکیٹ میں طلب اور رسد اپنی رسہ کشی میں مصروف رہتے تھے اور چیزیں مہنگی سستی ہوتی رہتی تھیں۔ البتہ یہ گزرے وقتوں کی باتیں ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں سے بجٹ تو محض ہندسوں کا ایک گورکھ دھندہ بن کر رہ گیا ہے۔ الفاظ اور اعدادو شمارکا ایک الٹ پھیر ہےجسے بعض حلقے میڈیا ڈپلومیسی کا خوشنما نام بھی دیتے ہیں۔ لیکن اب درحقیقت بجٹ معاشی ’ ڈپلومیسی‘ کے نام پر ملکی اور بین الاقوامی طور پر منافقت کا دور دورہ ہوتاہے۔ گویا آئندہ سال کا بجٹ اورگزشتہ برس کی معاشی ناکامیوں یعنی اکنامک سروے آف پاکستان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں رہ گیا بلکہ دونوں معاشی منافقت کا پلندہ بن کر رہ گئے ہیں۔ پٹرول، بجلی، گیس وغیرہ، ادویات اور دیگر ضروریاتِ زندگی جن پر ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومت کا کنٹرول بڑھتا جا رہا ہے اور حکومت پر آئی ایم ایف کا شکنجہ سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا ہے ،ان تمام اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں بجٹ سے پہلے اور بعد کئی کئی مرتبہ ہوش رُبا اضافہ کر دیا جاتا ہے اور ماہ جون میں عوام کو دھوکہ دینے کے لیے ایسےبجٹ کی ’خوش خبری‘ سنا دی جاتی ہے جس پر تاقیامِ قیامت عمل درآمد نہیں ہونا ہوتا۔ عام آدمی پر نئے ٹیکسوںکا پہاڑ لاد کر یہ مژدہ سنایا جاتا ہے کہ یہ ٹیکس تو در اصل اشرافیہ پر لگایا گیا ہے۔ اشرافیہ  بلکہ جسے استحصالیہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا، سے تعلق رکھنے والے تمام افراد اور اداروں کو خوب نوازا جاتا ہے۔اپوزیشن واویلا مچاتی رہتی ہےاور جونہی یہ اپوزیشن حکومت میں آتی ہے سیاہ سفید میں بدل جاتا ہے ۔ پھر اُسے ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے۔مہنگائی کو ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والی حکومت نے گزشتہ مالی سال 24-2023ء کا اکنامک سروے آف پاکستان اور پھرایک دن کے فصل سے 25-2024ء کا بجٹ پیش کردیا ہے۔ گزشتہ برس کی کارگزاری کی بات کریں تو دنیا کی پانچویں بڑی آبادی کے حامل ملک کی شرح نمو صرف31.2 فیصد رہی جوشاید ہمارے خطہ ہی نہیں دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں کم ترین ہو۔ سرکاری اعدادو شمار نے بتایا کہ پاکستان کی فی کس آمدن 1680 ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ ہماری حسرت ہی رہی کہ اُس خواب سے بیدار نہ ہوں جس میں ملک کا ہر فرد سالانہ ساڑھے چار لاکھ روپے سے زیادہ کما رہا ہو!
سرمایہ کاری کی تمام جزئیات تو بُری طرح گرتی نظر آئیں لیکن ایسا فارمولا لگایا گیا کہ کُل سرمایہ کاری بڑھتی دکھائی دی۔شاید صرف کاغذوں میں ہی کیونکہ گلی،محلوں میں چھوٹا دکانداراورکھیتوں کھلیانوں میں چھوٹا کاشتکارماتم کرتے نظر آئے۔چھوٹی صنعتوں میں ہو کا سا عالم ہے۔اکنامک سروے میں بتایا گیا ہے کہ سال پہلے کی قیمتوںمیں 25 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ۔سودی قرضوں کی واپسی پر زرِ مبادلہ خرچ کرنے کے باعث آمدن کے کھاتے میں8.34فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔جس کے باوجود بیرونی قرضہ بڑھ کر 5.67 کھرب روپے تک جا پہنچا جس میں بیرونی  قرضہ1.24 کھرب روپے جبکہ مملکت خداداد کا اندرونی قرضہ بمع سود 4.43کھرب روپے ٹھہرا۔ گویا آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے ہی نہیںجونکوں کی صورت میں چمٹی اندرونی اشرافیہ بھی ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے سود کے خاتمہ کے حوالے سے 28 اپریل 2022ء کے معرکۃ الآراء فیصلہ کو آئے دو برس سے زیادہ گزر چکے لیکن حکومت و عدالت، سرکاری و نجی ادارے اور افراد تو اللہ اور رسول ﷺ سے جنگ کو ختم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ وعدے اور دعوے معنی اُس وقت رکھتے ہیں جب عمل کی طرف کوئی پیش رفت ہو۔کرپشن بڑھتی جا رہی ہے لہٰذا ہماری ایک تجویز یہ بھی ہے کہ آئندہ بجٹ میں کرپشن پر ہونے والے ’خرچہ‘ کی بھی ایک مد رکھ لی جائے۔ بہرحال گزشتہ سال اگر معیشت بدستور وینٹی لیٹر پر رہی تو حالت خطرہ سے باہر نکلنے کے آئندہ سال بھی کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہے۔
بجٹ برائے مالی سال 25-2024ء کا کل حجم 9.18 کھرب روپے ہے جس میں سے تقریباً دس کھرب روپے تو قرضوں پر سود کی مد میں خرچ ہوں گے ۔ دفاعی بجٹ اور دفاعی اداروں کی مراعات اور چھاؤنیوں کے لیے مختص رقم کو ملا کر دیکھیں تو 8.2 کھرب روپے خرچ کئے جائیںگے۔ جو یقیناً خرچ کی اہم ترین مد ہے۔ پھر یہ کہ وہاں بوٹ بھی بھاری ہیں اور چھڑی بھی سخت۔پھر یہ کہ وہ ایف بی آر جس کے چیئر مین کے بقول ادارےمیں سالانہ 700 ارب روپے سے زائد کی کرپشن ہوتی ہے وہ تقریباً 13 کھرب کے ٹیکس اکٹھے کرے گی۔ بتایا جا رہا ہے کہ ٹیکس سے عوامی بہبود ہوگی لیکن ٹیکس کا اکثر بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑے گا۔بڑے جاگیردار، بڑے سرمایہ دار، سیاست دان، جج ،جرنیل اور بیوروکریٹس تو ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے منصوبے بناتے ہیں وہ کیوں زیادہ ٹیکس ادا کریں گے۔
ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ بیس برس قبل ایک ڈکٹیٹر نے امریکہ کی جنگ کا حصہ بن کر ملک کو تباہی کے دہانے لا کھڑا کیا ۔ پھر دو فوجی آپریشن کیے گئے جس سے دہشت گردی کا خاتمہ تو نہ ہو ا لیکن لاکھوں کی تعداد میں عوام بے گھر ہوگئے اور نفرتیں بڑھتی گئیں۔امریکہ کے خوف سے آپریشن کیے گئے تو نقصان ہی ہوا۔ آج چین کو خوش کرنے کے لیے کارروائیاں کیسے ملکی مفاد میں ہوسکتی ہیں؟اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی ایک ناسور ہے جس نے وطن عزیز کو بے پناہ نقصان پہنچایاہے۔ لیکن کیاا س طرف بھی کوئی توجہ دینے کوتیارہے کہ مشرف دورسےقبل پاکستان میں دہشت گردی نہ ہونے کے برابر تھی۔پھر    ڈامہ ڈولا کا ڈرون حملہ کیا گیا،لال مسجد کا سانحہ ہوااور اپنوں کو ہی ناراض کرلیا گیا۔لیکن اب بھی وقت ہے پانی ابھی سرسے نہیں گزرا۔اس وقت ضرورت زخموں پر مرہم رکھنے کی ہے۔ ایک حقیقی "Truth and Reconciliation"کمیشن تشکیل دیا جائے۔ ہر فرد ، ہر ادارہ اپنی طرف سے کی گئی زیادتیوں کو تسلیم کرےاور اُس پر معافی مانگے، مظلوموں کے لیے تلافی کا بندوبست کیا جائے، آئندہ ملکی مفادمیں سب کو ساتھ لے کر چلنےکا عزم کیا جائے۔ اس بات کو سمجھا جائے کہ امریکہ،بھارت اور اسرائیل ہمارے ازلی دشمن ہیں ۔وہ پاکستان کی نظریاتی اساس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اُن کو بری طرح کھٹکتی ہے۔ اُن کی شدید خواہش ہے کہ پاکستان میں افراتفری پھیلے۔ ان کے ایجنٹ ملک میں دہشت گردی کو ہوا دیتے ہیں لیکن ہمیں بھی اصل دشمن کی پہچان کرکے اُسے تنہا کرنا ہے۔ اپنے دوستوں کو بھی پہچاننا ہے اور ناراض لوگوں کو بھی دوبارہ ساتھ ملانا ہےتاکہ امن و خوشحالی کی طرف سفر دوبارہ شروع کیا جا سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ معاشی خود کفالت حاصل کیے بغیر ایک مقتدر ریاست وجود میں نہیں آسکتی۔مسائل کا هایک عمومی اور عارضی حل یہ ہے کہ اخراجات کو کنٹرول کیا جائے اور آمدن کے ذرائع  بڑھائے جائیں لیکن ہماری حکومتوں کا رویہ یہ ہے کہ وہ اشیاء ضروریہ پر ٹیکس لگا رہی ہیں اور فلموں اور ڈراموں کے لیے بڑی بڑی رقوم مختص کر رہی ہیں ۔ ہمارا مسئلہ محض بچتوںسے بھی حل نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان کا مسئلہ دوسرے ممالک سے کچھ مختلف ہے۔ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے۔ اس کی بنیاد لا الٰہ الا اللہ پر ہے لہٰذا پاکستان کو    خود کفیل اور مقتدر ریاست بنانے کے لیے اس کی معیشت کو نظریاتی بنیادوں پر اٹھانا ہوگا۔ یہی پاکستان کے جملہ داخلی اور خارجی مسائل کا حقیقی اور دائمی حل ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس حالت میں جبکہ پاکستانیوں کا بال بال قرضہ میں پھنسا ہوا ہے، کیا کیا جائے ؟ ہمارے نزدیک کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ اس ناپاک قرضہ سے جس کا ہم سود بھی ادا کر رہے ہیں اُس سے فوری چھٹکارا حاصل کریں۔ ہماری رائے میں ہمیںہمالائی ہمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ایک بڑا رسک لینا ہوگا وہ یہ کہ اپنے قرض خواہان سے کہہ دیں کہ جہاں تک سود کا تعلق ہے وہ ہماری شریعت میں حرام ہے اور اب ہمارے ملک کی ایک بڑی اور اہم عدالت کا فیصلہ بھی سود کے خلاف آچکا ہے لہٰذا سود تو ہم ادا نہیں کریں گے البتہ اصل زر جب بھی اور جیسے ہی ممکن ہوا ادا کر دیا جائے گا۔ ہم جانتے ہیں دنیا میں کوئی اس کو تسلیم نہیں کرے گا اور ہمیں ڈیفالٹر قرار دے کر ہمارے خلاف عالمی سطح پر اقدام کیے جائیں گے۔ لیکن وہ تو آج نہیں تو کل ہونا ہی ہے، کیا عالمی مہاجن کےپاؤں پڑنے سے وہ ہمیں معاف کر دیں گے۔ وہ ہرگز ایسا نہیں کریں جبکہ اُس وقت ہم اپنا سب کچھ اُن کی خدمت میں پیش بھی کر چکے ہوں گے۔اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقات کو ہوش کے ناخن لینے اور صحیح فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!
طاغوتی قوتوں کے وار کی بات کریں تو سیاسی اور معاشی میدانوں میں تو مغر ب ایک عرصہ ہوا مسلمان ممالک کو شکستِ فاش دے ہی چکاہے۔ا گر بغور مطالعہ کیا جائے تو 57     مسلم ممالک کا طرزِ حکمرانی، انتظامی ڈھانچہ، عدالتی نظام ،افواج کےطور طریقے سب اُس مغربی اساس پر قائم ہیں جن کی بنیاد سیکولرازم اور لبرل ازم پر رکھی گئی ہے۔ معاشی حوالے سے اوپر سطروں میں پوسٹ مارٹم کیا جا چکا ہے اور آج تمام مسلمان ممالک کی معیشت بھی سود کے گورکھ دھندے میں جکڑی ہوئی ہے۔ البتہ معاشرتی اور خاندانی سطح کی بات کریںتو ابھی یہ قلعہ اپنی جگہ قائم ہے اگرچہ اُس کی فصیلیں بھی کچھ اپنوں کی نادانیوں اورکوتاہیوں اور کچھ غیروں کی سازشوں کے باعث تیزی سے شکست وریخت کا شکار ہورہی ہیں۔
کبھی حقوق نسواں کے نام پربیک جنبشِ قلم پارلیمنٹ میں عورتوں کی سیٹیں 33 فیصد تک بڑھا دینا، ویلنٹائن ڈے اور عورت مارچ جیسی دجالی سرگرمیوں کی پشت پناہی کرنا، کبھی گھریلو تشدد کے نام پر ایسے بل کی منظوری کے لیے تگ ودو کرنا جس سے خاندانی نظام تہ وبالا ہو جائے۔ پھر ٹرانس جینڈر ایکٹ کو قانون کی شکل دے کر مملکت ِخداداد میں ہم جنس پرستی اور Perverted Sexuality کو فروغ دینے کی کوشش کرنا۔’’تعلیم کے لیے ناچو ‘‘جیسے بیہودہ پروگرام کو سرکاری سرپرستی حاصل ہونا اور ہم جنس پرست عورتوں پر مشتمل ایک امریکی میوزک بینڈ کو پاکستان بھر کی یونیورسٹیوں اور آرٹس کونسلوں میں دورہ کروانا۔ ایبٹ آباد میں ایک شخص انتہائی بے باکی سےــ" Gay Club "قائم کرنے کی درخواست دیتا ہے ا ور علاقے کا ڈی سی آفس اسے ضروری کارروائی کے لیے mark کر دیتا ہے۔ گویا ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کے معاشرتی اور خاندانی نظام کو تباہ وبرباد کرنے کی سعی جاری ہےاور اس قسم کے شوشے چھوڑ کر دراصل امت مسلمہ کی نبض کو چیک کیا جاتا ہے کہ غیرت و حمیت کی نبض چل رہی ہے یا نہیں۔ اگر ردِ عمل میں بھر پور طریقے سےاحتجاج ہوجائے تو کسی اگلے ایشو تک کے لیے پسپائی اختیار کرلی جاتی ہےاور حمیت جس کا نام تھا گئی تیمور کے گھر سے کے مصداق اگر خاموشی ہو تو فھوالمطلوب۔ اسی فتنہ پردازی کے سلسلے میں ایک حالیہ کڑی کراچی میں حکومت ِسندھ کے یونیسف کے تعاون سے شیرِمادر بینک(Mother's Milk Bank)کے قیام کے اعلان کی صورت میں سامنے آئی۔ اس معاملے کی فقہی حیثیت پر تو علماء کرام نے سیر حاصل بحث کی اور حکومت سندھ کے اس اقدام کے خلاف دینی طبقات اور عوام الناس کے شدید احتجاج کے بعد فیصلہ کو معطل کرکے شرعی رائے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل بھیج دیا گیا ہے۔یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ دورِ جدید کی بے لگام تمدنی’ترقی‘ نے نت نئے مسائل کا طوفان لا کھڑا کیا ہے اور بقول عمر بن عبدالعزیزؒ ’’حکما زادالفجور کثرت المثائل‘‘اہم اور کلیدی سوال یہ ہے کہ کیا دورِ جدید جس پر مغربی دجالی تہذیب کے گہرے اثرات ظاہر و باہر ہیں اُس تہذیب کے پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر مسلمان ممالک ہر معاملہ میں لبرل/سیکولر طرزِ فکر پر عمل پیرا ہو جائیں!ایسی انتہا پسندی کی روش اختیار کرلیں کہ وحی کی رہنمائی کو پس ِپشت ڈال دیا جائے اوررضاعت جیسے اہم ترین دینی معاملہ جس پر قرآن و حدیث کی نصوص قطعی دلالت کرتی ہیں اُسے بھی تختہ مشق بنا لیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جاہلیت ِجدیدہ ہے اور انسان پر ظلم وستم ڈھانے اور اُسے انفرادی اور اجتماعی طور پر تباہ و برباد کرنے میںجاہلیت ِ جدیدہ،جاہلیت ِقدیمہ پر بازی لے گئی ہے۔ اس کا انجام تباہی وبربادی کے سوا کچھ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ پاکستانی قوم اور اُس کے زمامِ کار چلانے والوں کو ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین!