(امیر سے ملاقات ) امیرسے ملاقات قسط 28 - محمد رفیق چودھری

10 /

موجودہ دور کے فتنے صرف نوجوانوں کو ہی متاثر نہیں کر رہے

بلکہ ہر عمر کے افراد کے لیے خطرہ ہیں ، معاشرے میں پھیلتی ہوئی

بے راہ روی کے سدباب کے لیے ضروری ہے کہ ہم نکاح کو آسان بنائیں ،
اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دین کی تعلیم کی

طرف لوگوں کو ترغیب دلائیں۔

امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات

میز بان :آصف حمید

سوال: شادی شدہ مرد اگر غیر ازدواجی تعلقات رکھتے ہیںیا کسی غیر محرم خاتون کی طرف متوجہ ہوتے ہیں لیکن دوسرا یا تیسرا نکاح کرنے کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے، اچھے خاصے دیندار لوگ بھی اس برائی کا شکار ہیں، جواز یہ پیش کیا جاتاہے کہ اپنی نیت اور سوچ کو پاک رکھتے ہوئے غیر محرم عورت سے بات کی جا سکتی ہے۔ان باتوں میں کتنی سچائی ہے ؟( ڈاکٹر عبدالقدیر)
امیر تنظیم اسلامی:اس وقت جو معاشرے کی مجموعی صورتحال ہےاس میں شیطانی فتنے کسی کو بھی اپنا شکار بنا سکتے ہیں، بے حیائی اور فحاشی کا طوفان ہر بندے کے جذبات کو بھڑکانے کا سبب بن سکتا ہے ، چاہے وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ہو ۔ کسی غیر محرم خاتون سے بات کرنا تو دور کی بات ، غیر محرم عورت کو دیکھنے سے بھی شریعت منع کرتی ہے ، چاہے وہ سکرین پر ہو ، یا بل بورڈ پر ہو ، یاسمارٹ فون کی سکرین پر ہو ۔کیا یہ ساری چیزیں وہ نہیں ہیں جو جذبات کو بھڑکایا کرتی ہیں ؟ دین تو یہ کہتا ہے کہ غیرمحرم عورت کو بُری نیت سے دیکھنا بھی آنکھ کا زنا ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ یہ بُری نگاہ شیطان کے زہر میں بجھے ہوئے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔آج سوشل میڈیا کے دور میں سمارٹ فون رکھنے والا کوئی بھی شخص اس سے مکمل محفوظ نہیں۔ اللہ ہی بچائے تو بندہ بچ سکتا ہے اور بندے کو بچنے کی فکراور کوشش کرنی چاہیے۔ بہرحال خطرے سے تو کوئی بھی بچا ہوا نہیں ہےالبتہ ہم یہ ضرور کہیں گے کہ جو بندہ شادی شدہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک حصار دیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے نوجوانوں سے خطاب فرمایا :  تم میں سے جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہو نکاح کرے کہ یہ نگاہوں کو نیچا رکھتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بھی فرمایا :اگر تمہاری نگاہ کسی غیرمحرم پر پڑے اوراس سے تمہارے اندر کوئی جذبہ پیدا ہو تو جاؤ اور اپنی بیوی سے تعلق قائم کرو تاکہ تمہارا جذبہ صحیح مقام پر استعمال بھی ہو اور جائز طریقے پر اس کی تکمیل بھی ہو۔ شادی شدہ فرد کو یہ حصار میسر ہے کہ وہ اپنی حیا کی حفاظت آسانی سے کر سکتا ہے ۔ تاہم قرآن مجید میں مردو عورت کو اپنے نگاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم ہے اور مخلوط ماحول اور غیر محرم کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنے سے بھی شریعت منع کرتی ہے۔ اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا : جب تنہائی میںد و غیر محرم ہوں گے توان کےسا تھ تیسرا شیطان ہوگا ۔ حضورﷺنے یہ جو احتیاطیں بتائی ہیں ان کا لحاظ رکھنا اور اللہ سے دعا بھی کرنا کہ اے اللہ ! تو مجھے ان شرور سے محفوظ فرما اور میرے نفس کا تزکیہ عطافرما ، یہ مومن کا بہت بڑا سہارا ہیں ۔ اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ نے دعا بھی سکھائی ہے : 
((اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذِبِکَ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم)) ’’اے اللہ! ہم تیری پناہ میں آنا چاہتے ہیں شیطان مردود سے ۔‘‘
اور بھی کئی احتیاطیں اللہ کے رسول ﷺ نے تجویز فرمائیں۔ اگر کسی کی استطاعت نکاح کی نہیں ہے تو حضور ﷺ نے اس کو روزہ رکھنے کی بھی تعلیم عطا فرمائی ہے کیونکہ روزہ تقویٰ حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ بہرحال موجودہ دور کے فتنے صرف نوجوانوں کو ہی متاثر نہیں کر رہے بلکہ ہر عمر کے افراد کے لیے خطرہ ہیں ۔ ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ تین قسم کے لوگوں پر اللہ نظر رحمت بھی نہیں فرمائے گا ۔ ایک غریب متکبر ، دوسرا بوڑھا زانی اور تیسرا وہ حاکم جو جھوٹ بولتا ہے ۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔
سوال: بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ پردہ تو آنکھ کا ہوتا ہے، دل کا پردہ ہوتا ہے، میری نیت صاف ہےوغیرہ ۔ ایسی باتوں میں کتنی سچائی ہے ؟ 
امیر تنظیم اسلامی:دین کا حکم میری عقل نہیں بتائے گی بلکہ وحی کی تعلیم بتائے گی۔ جیساکہ بعض لوگ عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہیں کہ جتنے پیسے قربانی پر خرچ کرتے ہیں ، اتنے غریبوں پر خرچ کریں ۔ جبکہ شریعت کہتی ہے کہ قربانی واحب ہے ، قربانی والے دن قربانی کریں ، باقی پورا سال غریبوں کی خدمت کریں ۔ اسی طرح جو یہ کہتا ہے کہ میری نیت صاف ہے ، پردہ تو دل کا پردہ ہوتا ہے اُس سے کہیے کہ پھراگرنماز بھی دل کی نماز ہوتی ہے ، روزہ بھی دل کا روزہ ہوتا ہے ، حج اور عمرہ بھی دل کے ہوتے ہیں تو باقی بچے گا کیا ؟پھر تو کوئی بھی عمل باقی نہیں بچے گا ۔نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور عمل کا شریعت کے مطابق ، سنت کے مطابق ہونا بھی ضروری ہے۔اب کوئی کہے جی میرا دل بڑا پاک صاف ہے میں  غیر محرم خواتین سے باتیں کرتا ہوں ۔جبکہ اللہ کے رسول ﷺ فرما رہے ہیں جہاں دو غیر محرم تنہائی میں ہوتے ہیں وہاں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔اب جہاں شیطان ہوگا وہاں دل کتنے پاک صاف رہیں گے اور معاملہ کہاں تک جاسکتاہے؟ اللہ ہماری حفاظت کرے ۔ جہاںتک دیندار لوگوں کا اس میں ملوث ہونے کا معاملہ ہے توشیطان سب کا دشمن ہے اور بحیثیت انسان ہم سب کمزور ہیں۔ اللہ کے پیغمبر ﷺ کو فرمایاگیا:
{وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ(99)} (الحجر:99) ’’اور اپنے رب کی بندگی میں لگے رہیں یہاں تک کہ یقینی شے وقوع پذیر ہو جائے۔‘‘
اللہ کے پیغمبر علیہ السلام اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’ میں تمہیں بھی اور اپنے آپ کو بھی اللہ عزوجل کا تقوی اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہوں‘‘۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا تھا:
’’اور مَیں اپنے نفس کو بَری قرار نہیں دیتا‘یقیناً (انسان کا) نفس تو برائی ہی کا حکم دیتا ہے‘سوائے اُس کے جس پر میرا ربّ رحم فرمائے۔ یقیناً میرا ربّ بہت بخشنے والا‘ نہایت رحم کرنے والاہے۔‘‘(یوسف :53)
یوسف علیہ السلام نسل در نسل انبیاء میں سے تھے ۔ وہ بھی اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ ! اگر تو نے ان عورتوں کا فریب مجھ سے دور نہ کیا تو میں ان کی طرف مائل ہو جاؤں گا۔ آج اگر کوئی کہے کہ میں بڑا پاک صاف ہوں ، بڑا متقی ہوں ، بڑا دین کا کام کرنے والا ہوں اور شر سے بے خوف ہوں تو یہ بھی شیطان کا حملہ ہے۔ امام احمد بن حنبل  کے متعلق ذکر ملتا ہے کہ آخری ایام میں بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور منہ سے یہ الفاظ جاری تھے : (لاالآن،لا الآن ، لاالآن) ابھی نہیں، ابھی نہیں، ابھی نہیں ۔کچھ افاقہ ہوا تو بیٹے نے پوچھا : اباجان! کیا آپ مرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ؟ فرمایا : یہ بات نہیںہے بلکہ شیطان مردود وسوسے ڈال رہا ہے کہ احمد تو بچ گیا ۔ میں کہہ رہا ہوں ابھی نہیں بچا جب تک کہ خاتمہ ایمان پر نہ ہو جائے ۔ یہ انبیاء اور ائمہ کی کیفیت تھی اور آج کے دور میں کوئی کہے کہ میں محفوظ ہو گیا تو شیطان کے اس حملے سے اللہ بچائے ۔
سوال:آپ کے خیال میں ہمارے معاشرے میں دوسرے نکاح سے گریز کی کیا وجوہات ہیں۔ آپ اپنی ذاتی مثال سے رفقاء کو ایک سے زیادہ نکاح کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔ آپ کے لیے دوسرا نکاح کا عمل کیسا رہا؟ مزید کیسے اس سنت کو فروغ دیا جا سکتا ہے تاکہ معاشرے سے بے راہ روی کا خاتمہ کیا جاسکے؟
امیر تنظیم اسلامی: ایک مستند رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں سوا دو کروڑ لڑکیاں اور لڑکے ایسے ہیں جو نکاح کی عمر کو پہنچے ہوئے ہیں مگر ان کے نکاح نہیں ہورہے۔ ایک کروڑ لڑکیاں 30 سے 35 سال کی عمر کو پہنچ چکی ہیں مگر ان کے ہاتھ پیلے نہیں ہورہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نکاح کو مشکل بنا دیاگیا ہے۔ دوسرے نکاح کی بات تو بعد میں آئے گی ، بے راہ روی کے سدباب کی بات ہورہی ہے تو اس کے لیے پہلے نکاح  کو تو آسان بنائیں ۔ بچوں کی عمریں نکلی چلی جا رہی ہیں،وہ بے نکاحی زندگی گزار رہے ہیں تو پھر بے راہ روی کا راستہ کیسے نہیں کھلے گا ؟ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے نکاح کو آسان بنانے کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا کہ نکاح مسجد میں ہو ، خطبہ نکاح میں جو آیات تلاوت کی جاتی ہیں ، ان کا ترجمہ بھی پیش کیا جائے۔ سنت رسولﷺ کے مطابق نکاح اور ولیمہ ہو اور کوئی غیر ضروری اخراجات اور رسومات نہ ہوں۔ لڑکی والوں پر کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے۔ اللہ کا شکر ہے کہ آج ہزاروں کی تعداد میں لوگ سنت کے مطابق نکاح کررہے ہیں۔ لیکن اسی معاشرے میں اکثریت میں وہ لوگ ہیں جو بڑے بڑے ارمان پال کر نکاح کو مشکل بنا رہے ہیں ، عمریں نکلی جارہی ہیں اور پہلا نکاح بھی نہیں ہورہا ۔ اگر کروڑوں کی تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں بے نکاحی زندگی گزار رہے ہیں اور اوپر سے شیطانی تہذیب کے حملے بھی بڑھ رہے ہیں تو کیسے بچاؤ ممکن ہوگا ۔ مسلم شریف میں حدیث ہے ، رسول اللہ ﷺنے فرمایا : زنا چھ طرح کا ہے ۔ آنکھ کا زنا، کان کا زنا، زبان کا زنا، دل کا زنا، ہاتھ کا زنا، پیر کا زنا، شرمگاہ کا زنا(اس کے علاوہ ہے ) جس پر حد لگتی ہے ۔ یعنی نامحرم کو بُری نیت سے دیکھنا ، اس کی باتیں سننا ، زبان سے جذبات بھڑکانے والی باتیں کرنا ، دل میں نامحرم کے بارے میں بُرا خیال لانا ، ہاتھ سے چھونا اور بُری نیت سے چل کر جانا سب زنا کے زمرے میں آتا ہے ۔ حدیث میں آیاکہ کوئی تمہارے سر میں کیل ٹھونک دے اس کو برداشت کرلینا مگر تم نامحرم کو چھوؤ یا وہ تمہیں چھوئے اس کو برداشت نہ کرنا۔ جب بے نکاحی زندگی گزر رہی ہوگی تو ان سب چیزوں سے بچاؤ کیسے ممکن ہوگا ؟ لہٰذا سب سے پہلے ہم نکاح کو آسان بنائیں تب بے راہ روی کا سدباب ہو سکتا ہے ۔یہ بڑے بڑے جہیز ، فضول کی رسومات اور لڑکی والوں پر بے پناہ اخراجات کا بوجھ نکاح کو مشکل بنا رہا ہے اور دوسری طرف بے راہ روی کے راستے کھل رہے ہیں ۔ اگر اولاد کسی بُرے کام میں پڑ گئی تو والدین بھی اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ آج یونیورسٹیز تو ڈیٹنگ سپاٹس بن چکی ہیں جہاں  ہرطرف نامحرم جوڑے بیٹھے نظر آتے ہیں ، ماں باپ کو احساس ہی نہیں ہے کہ اولاد کیا کر رہی ہے؟  اوپر سے شیطانی تہذیب کے حملے ، موسیقی کے مقابلے ، ڈانس سب کچھ یونیورسٹیوں میں ہورہا ہے ، امریکہ سے ہم جنس پرستوں کے بینڈ بلائے جارہے ہیں ۔ ان حالات میں ہماری اقدار کا بیڑا تو غرق ہوگا ۔ ان تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ نکاح کو آسان بنایا جائے۔ ہمارے آئین (آرٹیکل 31)میں لکھا ہوا ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کوایسی تمام سہولیات مہیا کرے جن کے باعث تاکہ وہ کتاب و سنت کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزار سکیں ۔
سوال:دوسرا نکاح کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے ۔ اگر ہمارے ہاں ہندوانہ ذہنیت یا کسی اور وجہ سے ایک نکاح تک معاملہ محدود ہو گیا ہے تو کیا یہ بھی اللہ کے حکم سے انحراف نہیں ہے ؟ 
امیر تنظیم اسلامی: جہاں تک دوسرے نکاح کا معاملہ ہے تو اس میں رکاوٹ کی بنیادی وجہ دین سے دوری ہے ۔ دوسری وجہ ہندوانہ تہذیب کے اثرات ہیں کہ ہندوؤں کے ہاں اس کو بُرا سمجھا جاتاہے ۔ تیسری وجہ مغربی تہذیب کے اثرات ہیں کہ مغرب میں نکاح کا تصور ختم ہو رہا ہے جبکہ بغیر نکاح کے دوستیاں اور تعلقات عام ہورہے ہیں ۔ جبکہ ہمارا دین ہمیں اجازت دیتاہے کہ ہم دوسرا ، تیسرا ، چوتھا نکاح کریں ۔جب خالق کائنات اجازت دے رہا ہے تو اعتراض کا جواز ہی باقی نہیں رہتا اور اگر کوئی مسلمان دوسرے نکاح کی مخالفت کررہا ہے تواسے اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔ اکثر یہ بھی نقطہ اعتراض پیش کیا جاتاہے کہ جی عدل نہیں کر سکیں گے ۔ اب عدل نہ کرنے والے تو ایک بیوی کے ساتھ بھی عدل نہیں کر سکتے ، تو کیا اس وجہ سے نکاح کا انکار کیا جائے گا؟ انبیاء کرام کی عظیم اکثریت نے ایک سے زیادہ نکاح  کیے ، اللہ کے آخری رسول ﷺاور صحابہ کرام ؇ نے یہ عمل کرکے دکھایا ۔ نکاح کا مقصد صرف تسکین نہیں ہے۔نسل انسانی کا دوام بھی ایک مقصد ہے اور کفالت بھی ایک مقصد ہے۔ عورت کو اللہ تعالیٰ نے معاش کی ذمہ داری سے آزاد کیا ہے ۔ بیوی ہے تو شوہر کی کفالت میں ہوگی ، بیٹی ہے تو باپ کی کفالت میں ہوگی ۔ اللہ کے نبی ﷺ نے بیواؤں سے بھی نکاح کیا تاکہ انہیں کفالت اور تحفظ مل سکے ۔
سوال: بعض لوگ دوسرا نکاح کرتے ہیں تو پہلی بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں یا بالکل سائیڈ پر لگا دیتے ہیں ۔ جواز یہ بنائے جاتے ہیں کہ اولاد نہیں ہوئی ، پسند نہیں تھی ، والدین نے شادی کروادی تھی وغیرہ وغیرہ ۔ کیا اس وجہ سے بھی ہمارے ہاں دوسرے نکاح کو ناپسند کیا جاتاہے کہ اس وجہ سے پہلی بیوی کو مصائب اُٹھانے پڑتے ہیں ؟ 
امیر تنظیم اسلامی:دوسرا نکاح اللہ کا حکم سمجھ کر کرنا چاہیے۔ پیغمبروں کی تعلیمات کو جواز بنا کر کرنا چاہیے ۔ جب ہم دین کو مدنظر رکھ کر چلیں گے تو پھرمخالفت نہیں ہوگی ۔ اس حوالے سے لوگوں کی ذہن سازی کی بھی ضرورت ہے۔دین سے دوری ، دین بے زاری ، مغربی اور ہندوانہ تہذیب کے اثرات ، نکاح کا مشکل بنایا جانا ،بُری مثالیں، یہ سب چیزیں نکاح میں رکاوٹ ہیں۔ ان رکاوٹوں کو ہم شریعت کے تقاضوں پر عمل کرکے ، دین کے پیغام کو ، پیغمبروں کی تعلیمات کو عام کرکے ہٹا سکتے ہیں ۔ دوسرا نکاح وقت کی ضرورت بھی ہے کیونکہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ شیخ احمد دیدات کا ایک انگریز محقق کے ساتھ مناظرہ ہوا ۔ شیخ صاحب نے اعداد و شمار بیان کرکے بتایا کہ امریکہ میں مردوں کے مقابلے میں کئی ملین عورتیں زیادہ ہیں ۔ اگر ہر امریکی ایک شادی کرے تب بھی کئی ملین عورتیں شادی کے بغیر رہیں گی ۔ ان میں اگر آپ کی بیٹی بھی شامل ہو تو آپ کیا کریں گے ؟  اس پر انگریز لاجواب ہو گیا ۔
سوال:سوال میں پوچھا گیا ہے کہ آپ اپنی ذاتی مثال سے ایک سے زیادہ نکاح کی ترغیب دیتے رہتے ہیں ۔ یہ الزام ہے یا حقیقت ہے ؟ 
امیر تنظیم اسلامی: ایک بات واضح ہے کہ اللہ کے پیغمبر ﷺکی سنت مدنظر رہی ۔ تین سال پہلے میں نے دوسرا نکاح کیا ۔ اس سے قبل بھی مختلف پروگرامز میں یہ بات آتی رہتی تھی کہ جس کےپاس گنجائش ہو ، سہولت ہو تو انہیں اس سنت کو زندہ کرنا چاہیے۔ مفتی شفیع صاحبؒ نے اپنی تفسیر معارف القرآن میں لکھا ہے کہ جس طرح نبی اکرم ﷺ نے حضرت زینب سے نکاح کر کے اس بُری رسم کا خاتمہ کر دیا کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح نہیں کیا جاسکتا ۔ اسی طرح جن شخصیات کے پاس دینی ذمہ داری ہو ، عوام کی نمائندگی ہو انہیں ہمت کرکے بُری رسموں کے خاتمے کے لیے اقدام کرنا چاہیے تاکہ عوام کی ذہن سازی بھی ہو ۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے جس طرح نکاح کو آسان بنانے کےلیے مہم شروع کی ، یہ بھی کئی بُری رسموں کے خاتمے کی مہم تھی۔ میں نے جب دوسرا نکاح کیا تو اس کے پس منظر میں بھی یہی سوچ تھی کہ ایک تو جو دوسرے نکاح کو شجرممنوعہ سمجھ لیا گیا ہے اس سوچ کا خاتمہ ہو اور سنت زندہ ہو تاکہ رفقاء کی ذہن سازی بھی ہو ۔ اللہ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے مجھے بڑا نوازا ہے ۔ باقی ترغیب دلانا الگ بات ہے ، میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر دوسرے نکاح کے لیے کوئی ہمت پکڑنا چاہتاہے تو اسے ضرور دوسرا نکاح کرنا چاہیے ۔
سوال: معاشرے میں جو بے راہ روی پھیل رہی ہے ، شادی شدہ حضرات بھی اس گناہ میں ملوث ہورہے ہیں تو اس کو روکنے کا ایک ذریعہ نکاح بھی ہے۔ اس جائز راستے میں رکاوٹ ڈالنا کتنا بڑا جرم ہے ؟ 
امیر تنظیم اسلامی: ایک صحابی؄ کی نوبہنیں تھیں اور والدہ بھی حیات نہیں تھیں تو انہوں نے ایک بیوہ خاتون سے شادی کرلی تاکہ بہنوں کی تربیت کا اہتمام ہو سکے ۔ ضروری نہیں کہ صرف خواہش نفس کو پورا کرنے کے لیےنکاح کیا جائے اس کے دیگر بھی کئی مقاصد ہو سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر پہلی بیوی خدانخواستہ بیمار ہو جائے ، معذور ہو جائے اور شوہر دوسری شادی کرلے تو پہلی بیوی کو بھی پروٹیکشن مل جائے گی اور شوہر اپنی خواہش نفس پوری کرنے کے لیے کسی برائی میں بھی مبتلا نہیں ہوگا ۔ میں نے جو دوسرا نکاح کیاتو اس کے پس پردہ کچھ دینی اور تنظیمی مقاصد بھی تھے کہ اللہ نے اپنی بندی کو تنظیمی معاملات میں بڑی صلاحیت دی ہے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اپنے گھر کے اعتبار سے بھی اورتنظیم کے اعتبار سے بھی بڑا فائدہ ہوا ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ بہت سارے پہلوؤں سے دوسرے نکاح کی انسان کو ضرورت رہتی ہے اور اگر اللہ توفیق دے تو اس ضرورت کو پورا کرنا چاہیے ۔
سوال: دوسرے نکاح کی سنت کو مزید کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے ؟ 
امیر تنظیم اسلامی: اس حوالے سے ترغیب دلانے میں کوئی حرج نہیںہے کیونکہ لوگوں کی ذہن سازی بھی ہونی چاہیے۔ دوسرے نکاح کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں کچھ غلط فہمیاں ہیں ،کم علمی کی وجہ سے خوامخواہ کی مخالفت ہے یا کچھ بُری مثالوں کی وجہ سے منفی تاثرات ہیں تو ان کو دور کرنا ضروری ہے ۔ اس حوالے سے مولانا اسلم شیخوپوری ؒ کا ایک مضمون بہت اہم ہے جس میں انہوں نے دلائل کے ساتھ اور بڑے اعتدال کے ساتھ دوسرے نکاح کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالی ہے ۔ حالانکہ وہ خود معذور تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے بھی دوسری شادی کی تھی ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے دلائل کو مختلف پیرایوں کے ساتھ عام کیا جائے تو بہت سے گھرانوں کی خواتین کا بھلا ہو جائے ، بہت سے گھر اُجڑنے سے اور بہت سی زندگیاں تباہ ہونے سے بچ جائیں گی۔ آج ایک طرف بہت بڑی تعداد بغیر نکاح کے زندگی گزار رہی ہے اور دوسری طرف طلاق اور خلع کی شرح میں بھی خوفناک اضافہ ہورہا ہے ۔ اس بہت بڑے مسئلےسے نمٹنے کا واحد راستہ خالق کائنات نے بتادیا ہے اور وہ یہ ہے کہ نکاح کو آسان بنایا جائے اور اس کو فروغ دیا جائے ۔
سوال: ہمارے قانون نے بھی دوسری شادی کے لیے کچھ ایسی شقات رکھ دی ہیں کہ گویا اسے ناممکنات میں سے بنا دیا ہے ۔ جیسا کہ پہلی بیوی سے اجازت لی جائے اور پھر یونین کونسل سے بھی اجازت نامہ لیا جائے۔ ہمارے ہاں دوسرے نکاح میں یہ بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے اور اس کے علاوہ پہلی بیوی بھی اس کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے ۔ اس حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں ؟
امیر تنظیم اسلامی: جو بیویاں شوہر کو دوسرے نکاح سے روکتی ہیں تو وہ اپنے شوہر کو کیا راستہ دکھانا چاہ رہی ہیں ؟ کیا وہ کسی گناہ میں ملوث ہو جائے ؟ جبکہ دین نے نکاح کا جائز راستہ بتایا ہے۔ صبر بھی ضروری ہے لیکن نکاح کو بھی آسان بنایا جائے ۔ انڈیا میں ایک مرتبہ علماء نے مشترکہ فیصلہ کیا کہ نکاح اس وقت پڑھایا جائے گا جب کھانے کا وقت نہ ہو اور اس کا نکاح نہیں پڑھایا جائے گا جو جہیز کا مطالبہ کرے گا۔ اس طرح کے اقدامات یہاں بھی علماء کو کرنے چاہئیں ۔ نکاح میں رکاوٹ بننا اصل میں لوگوں کو بے راہ روی کی طرف دھکیلنا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دین کی تعلیم کی طرف لوگوں کو ترغیب دلائیں، دوسرے نکاح کے حوالے سے مثبت مثالوں کو عام کریں تاکہ نکاح کا معاملہ آسان ہو سکے، بہت سی خواتین کو تحفظ مل سکے، بہت سے مرد و خواتین کی زندگیاں برباد ہونے سے بچ جائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کی آخرت بچ جائے ۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ حیا اور ایمان دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایک چلا جائے تو دوسرا بھی چلا جاتا ہے ۔ اگر حیا جائے گی تو ایمان بھی جائے گا اور آخرت میں کامیابی کے لیے ایمان شرط ِ لازم ہے ۔ جب ان سارے معاملات کو شریعت کے دائرے میں رہ کر سمجھیں گے تو حکمتیں بھی سمجھ میں آئیں گی اوردوسرے نکاح کے حوالے سے اچھی مثالیں بھی پیش کریں گے تو آسانی ہوگی۔ ان شاءاللہ!