(نقطۂ نظر) حالت ِ احرام میں گرفتاری - ایوب بیگ مرزا

10 /

حالت ِ احرام میں گرفتاری


ایوب بیگ مرزا

 

اللہ تعالیٰ سورۃ الحج کی آیت نمبر 25 میں فرماتا ہے: (ترجمہ) ’’جن لوگوں نے کفر کیا اور جو اللہ کے راستے سے روک رہے ہیں اور اُس مسجد ِحرام کی زیارت میں مانع ہیں جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے بنایا ہے جس میں مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق مساوی ہیںاِس (مسجد حرام) میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا اِسے ہم درد ناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے ۔‘‘ اس مبارک آیت میں اللہ تعالیٰ کفر کا ارتکاب کرنے والوں سے مخاطب ہے کہ اگر وہ مسجد حرام کی زیارت میں رکاوٹ بنیں گے تو انہیں دردناک عذاب سے دو چار ہونا پڑے گا۔ ظاہر ہے یہ قبیح حرکت اگر کوئی مسلمان یا مسلمان ریاست کرے گی، پھر یہ کہ یہ حرکت ایام حج میں کی جائے یعنی کسی مسلمان کے حج کرنے میں رکاوٹ پیدا کی جائے تو اِس جرم کی سنگینی میں کسی قدر اضافہ ہو جائے گا اور اس کا اندازہ کرنا ہر گز آسان نہیں ہے ۔ کسی بھی مسلمان پر اِس کے تصور سے ہی لرزہ طاری ہو جائے گا ۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ملک گیر شہرت کے حامل صحافی عمران ریاض حج کے کاغذات مکمل کر کے دو تین مرتبہ ایئر پورٹ پہنچے لیکن ہر مرتبہ اُنہیں سر کاری اہلکاروں نے کوئی نہ کوئی عذر تراش کر واپس بھیج دیا ۔ حالانکہ اُن کا نام ECL میں بھی نہیں تھا۔ تب انہوں نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور اُنہیں حج پر جانے کی عدالت نےاجازت دے دی۔ موصوف احرام باندھ کر جب ایئر پورٹ پہنچے تو وہاں مقامی پولیس کے اہلکاروں نے اُن کے ساتھ بد سلوکی کی اُن کو گھیر لیا اور احرام ہی کی حالت میں اُنہیں گرفتار کر لیا حالانکہ لاہور ہائی کورٹ نے واضح طور پر اُنہیں حج پر جانے کی اجازت دی تھی۔ ایئر پورٹ کے قریب اُن کی گاڑی پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔ عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ اس بدسلوکی اور بدتمیزی پر پولیس کے دو اہلکار خود بھی رو پڑے۔ یہ بات بلا خوف تردید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ کسی شخص کو حالتِ احرام میں گرفتار کیا گیا۔ ستم ظریفی کا اندازہ کریں کہ جب اُنہیں عدالت میں ایک شخص کے ساتھ 25 کروڑ روپے کے فراڈ کرنے کا ملزم بنا کر پیش کیا گیا تو مدعی خود کہہ اٹھا کہ اِس شخص نے میرے ساتھ کوئی فراڈ نہیں کیا لہٰذا جج نے مقدمہ خارج کر دیا۔ لیکن عدالت کے باہر ہی اُن کی گرفتاری یہ کہہ کر دوبارہ ڈال دی گئی کہ اِس شخص نے ائیر پورٹ میں لگے ایک بیرئیر سے اپنی گاڑی ٹکرائی تھی اور کارِ سرکار میں مداخلت کی تھی اور ایک دن کا ریمانڈ لے لیا ایسے میں حج کا وقت گزر گیا تو اُنہیں رہا کر دیا گیا گویا مقصد صرف ایک مسلمان کو حج کرنے سے روکنا تھا۔
یہ کس درجہ کا گناہ ہے اِس کا اصل فیصلہ تو علماء کرام اور مفتیان دین ہی کریں گے البتہ محض رائے دینا ہر کس و ناکس کا حق ہے۔ راقم کی نظر میں سورۃ الحج کی آیت نمبر 25 کافروں کو اِس جرم پر درد ناک عذاب کی خبر دے رہی ہے لیکن اگر خود مسلمان اِس انتہائی سنگین جرم کے مرتکب ہوں گے تو جرم کی سنگینی میں انتہائی اضافہ ہو جائے گا۔ واللہ اعلم! ایک عجیب بات یہ کہی گئی کہ عمران ریاض کون سا بھلا آدمی ہے۔ اِس پر راقم سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور یہ سوال پریشان کرنے لگا کہ کیا حج کے لیے صرف مسلمان ہونا ہی شرط ہے یا تہجد گزار، راستباز، پاک باز، نفلی عبادات میں مصروف رہنے والا اور ہر قسم کے گناہ اور خطا سے بچا رہنے والا مسلمان ہی حج کرنے کا استحقاق رکھتا ہے۔ راقم نے تو نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث مبارک سنی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ حجِ مبرور مسلمان کو گناہوں سے ایسےپاک کر دیتا ہے جیسے وہ معصوم نوزائیدہ بچہ ہے۔ گویا اللہ کا گناہ گار بندہ حج پر جائے گا تو معافی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ہم میں سے کون خطاؤں اور گناہوں سے بچا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے گناہ دھو ڈالتا ہے۔ مسلمانانِ برصغیر نے تقسیم ہند کے لیے جان و مال کی قربانی دی تھی کہ ہم پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنائیں گے۔ پاکستان کا تو مطلب ہی لا الٰہ الا اللہ بتایا گیا تھا اور جس ہندوستان سے ہم الگ ہوئے تھے کہ وہ ہمارے اسلام میں رکاوٹیں کھڑی کرے گا۔ وہاں یعنی بھارت کی حکومتی عہدہ دار سمرتی ایرانی مسلمانوں کے لیے فریضہ حج ادا کرنے کے لیے سہولیات کی لمبی فہرست میڈیا کے سامنے پیش کر دیتی ہے۔ حکومت پاکستان کا کسی پاکستانی مسلمان کو فریضہ حج کی ادائیگی سے روکنے پر ایک شیطانی وسوسہ نے راقم کو بری طرح جھنجوڑ ڈالا کہ کیا تقسیم ہند کے خلاف بعض علماء اور دانشوروں کی یہ بات درست تو نہ تھی کہ پاکستان میں اسلام نہیں آئے گا اور بھارت میں مسلمان نہیں رہے گا۔ اِس وسوسہ کو فوری طور پر جھٹک دیا گیا، اس لیے کہ راقم بہرحال پاکستان کے قیام کو مسلمانوں کے لیے نعمت سمجھتا ہے۔ راقم کا ایمان ہے حالات آج جیسے نہیں رہیں گے۔ یہ سب کچھ لوگوں کا امتحان ہے اور کچھ کو بے نقاب کر رہا ہے۔
راقم کو یہ سوال بھی مسلسل پریشان کر رہا ہے کہ گزشتہ دو سال سے ایسے واقعات کیوں ہو رہے ہیں جو گزشتہ پون صدی میں نہیں ہوئے تھے یا بڑی کم تر سطح پر ہو رہے تھے۔ امتِ مسلمہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی عورت کے خلاف عدت کے دوران نکاح کرنے پر نہ صرف مقدمہ قائم ہوا بلکہ عدالت نے خوبصورت عدل کرتے ہوئے میاں بیوی کو لمبی سزا سنا دی۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ کسی سویلین حکومت نے آئین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہو اور سپریم کورٹ نے اِس کی تلافی نہ کی ہو (یاد رہے ماضی میں اگر کسی سویلین فرد یا حکومت نے آئین سے روگردانی کی تو سپریم کورٹ نے فوراً اِس کی تلافی کر دی) پاکستان میں پہلی مرتبہ بعض خواتین کو طویل عرصہ سے جیل میں بند کیا گیا ہےاور جونہی اُن کی ایک مقدمہ میں ضمانت یا بریت ہوتی ہے، جیل سے باہر کھڑی پولیس کوئی نیا مقدمہ گڑ کر اُنہیں دوبارہ گرفتار کر لیتی ہے۔ خدا جھوٹ نہ بلائے تو یہ عمل اندازاً ایک درجن مرتبہ دہرایا جا چکا ہے۔ سیاست دانوں کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کرنا پاکستان میں نئی بات نہیں ہے۔ لیکن اتنے احمقانہ اور مضحکہ خیز مقدمات آج تک پاکستان میں قائم نہیں ہوئے کہ خود پراسیکوٹر اپنی ہنسی نہ روک سکے اور عدالت میں قہقہے گونجتے رہیں۔
جیسے سائفر کیس، جس کے بارے میں کبھی حکومت کہے سائفر ایک جھوٹ ہے (ایک درباری صحافی تو یہ بھی کہہ گئے کہ اگر کوئی سائفر آیا ہوگا تو میں صحافت چھوڑ دوں گا۔ اب جب اِس حوالے سے اُن سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ بات گول کر جاتے ہیں)جہاں تک سائفر کا تعلق ہے۔ عمران خان جب وزیراعظم تھے تو اُن کی زیر صدارات سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ جس میں سائفر پر گفتگو ہوئی اسے ملک کے داخلی معاملے میں مداخلت قرار دے کر ڈی مارش کرنے کا فیصلہ ہوا۔ بعدازاں شہباز شریف دور حکومت میں بھی سیکورٹی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں امریکہ میں پاکستانی سفیر اسد مجید بھی شریک ہوا اورعمران خان کے دور میں ہونے والے سیکورٹی کمیٹی کے فیصلوں کو برقرار رکھا گیا۔حیران کُن طور پراب اُس کی گم شدگی کا مقدمہ ایک سیاسی لیڈر پر قائم کر دیا گیا۔ اِسی لیے دوران سماعت ایک جج نے یہ ریماکس دیے کہ مجھے تو مقدمہ کا سر پیر ہی پتہ نہیں چل رہا۔ قصہ کوتاہ ایسے ایسے واقعات ہو رہے ہیں جن کی نظیر نہیں مل رہی۔ راقم نے اس بات کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ 80 فیصد سے زائد پاکستانیوں نے ایک مؤقف اختیار کر لیا ہے اور مراعات یافتہ طبقہ یا سیاسی تعصب کے شکار حضرات صف ِمخالف میں کھڑے ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ منبر و محراب سے بھی جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی آوازبہت کم آ رہی ہے۔ ٫اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کے بارے میں کوئی خاص فیصلہ کر لیتا ہے تو پہلے ہرطرح سے اتمام ِحجت کر لیتا ہے۔ جیسے جیسے ظلم و ستم کی دردناک داستانیں سامنے آ رہی ہیں خوف محسوس ہو رہا ہے۔ خاکم بدہن کوئی آسمانی آفت نہ ٹوٹ پڑے کیونکہ ظلم کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا، اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ انسان مفادات کے تابع ہو کر یا خوف زدہ ہو کر ظلم پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں لیکن آسمان ظلم پر ایک حد تک خاموشی اختیار کرتا ہے۔ پنجابی کی مثل ہے’’ اَت خدا دا ویر۔‘‘ اللہ اہل پاکستان کو اپنی حفاظت میں رکھے، کہیں حکمرانوں کے کرتوت عوام کو بھی نہ بھگتنے پڑ جائیں کیونکہ کہتے ہیں کہ گندم کے ساتھ گُھن بھی پِس جاتا ہے۔ پھر یہ کہ اُس نے مظلوموں کی آزمائش بھی کرنا ہوتی ہے کہ وہ کھڑے رہنے کی کتنی صلاحیت رکھتے ہیں اور ظلم کے خلاف جدوجہد میں کتنے مخلص ہیں اور ظالم کو بھی مکمل طور پر بے نقاب کرنا ہے تاکہ جب سزا کا معاملہ ہو تو اُس کے پاس جواب دینے کے لیے کچھ نہ ہو۔ راقم کو تو یہ فکر زیادہ نہیں ہے کہ اِس سارے عمل میں کس کس سے کیا ہوتا ہے، اس لیے کہ سب امتحان سے گزر رہے ہیں۔ راقم کی اصل فکر اُس پاکستان کے لیے ہے جو کلمہ طیبہ کے نام پر وجود میں آیا تھا۔ جس سے اسلام کے نفاذ کے حوالے سے بڑی توقعات ہیں۔ جسے مملکت ِ خداداد پاکستان کہا جاتا ہے وہ ایٹمی پاکستان جس سے امت ِمسلمہ کی بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ اِس پاکستان کو ظالم اور کرپٹ مافیا بُری طرح نوچ رہا ہے اُس کا گوشت چَٹ کر چکا ہے اور اب اُس کی ہڈیاںجھنجھوڑ رہا ہے۔ اُنہیں کوئی فکر نہیں چونکہ اُن کی جائیدادیں اور مال و دولت لندن، امریکہ اور خدا جانے کہاں کہاں ہے۔ وہ پہلے کی طرح پھر اپنے بیرونی آقاؤں کے پاس پہنچ جائیں گے، مسئلہ تو ہَمہ شُمُہ کا ہے۔ بہرحال بندوں سے مایوس ہو کر بھی راقم کو اللہ کے فضل و کرم اور اُس کی رحمت سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ بڑا غفور رحیم ہے۔