(زمانہ گواہ ہے) بھارتی انتخابات اور ہندو شدت پسندی کا زوال - محمد رفیق چودھری

10 /

بھارت سیکولرازم سے ہندو توا کی طرف جس تیز رفتاری سے جارہا تھا

اس کو حالیہ انتخابات نے ایک روک لگا دی ہے : ایوب بیگ مرزا

دنیا میں جو گریٹ گیم چل رہی ہے، حالیہ بھارتی انتخابات کے نتائج

اس کے مفاد میں ہیں، کیونکہ مودی کی نسبتاً کمزور حکومت کو بیرونی

طاقتیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں گی :رضاء الحق

بھارتی انتخابات اور ہندو شدت پسندی کا زوال کے موضوعات پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میںمعروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: گزشتہ دو انتخابات میں بی جے پی بہت بڑی اکثریت کے ساتھ کامیاب ٹھہری تھی ۔ اس مرتبہ اس کا نعرہ تھا : اب کی بار چا سو پار لیکن حکومت بنانے کے لیے جتنی سیٹیں درکار تھیں ان سے بھی بہت کم سیٹیں حاصل کیں اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر بمشکل حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے ۔ گزشتہ دونوں انتخابات کے برعکس اس مرتبہ بی جے پی کو کم سیٹیں ملنے کی وجوہات کیا ہیں ؟
ایوب بیگ مرزا: بھارتی لوک سبھا کے یہ اٹھارویں انتخابات تھے جن میں دو بڑے اتحاد حصہ لے رہے تھے ۔ ایک نیشنل ڈیموکریٹک الائنس تھا جس کی سربراہی بی جے پی کر رہی تھی ، دوسرا اتحاد انڈین نیشنل کانگریس کا تھا جس کو کانگریس لیڈ کر رہی تھی ۔ حکومت بنانے کے لیے 272 سیٹوں کی ضرورت تھی جبکہ بی جے پی نے صرف 240 سیٹیں حاصل کیں جبکہ اس کی اتحادی جماعتوں نے 54 سیٹیں حاصل کیں ، اس طرح 294 سیٹیں لے کر نیشنل ڈیموکریٹک الائنس حکومت بنانے میں کامیاب ہوا اور نریندر مودی نے تیسری مرتبہ وزیراعظم بن کر پنڈت نہرو کا ریکارڈ برابر کر دیا لیکن اس کی جیت میں ہار کا ایک عنصر نمایاں ہے ۔ 2014ء کے انتخابات میں بی جے پی نے 282 سیٹیں حاصل کی تھیں ، یعنی حکومت بنانے کے لیے درکار سیٹوں سے بھی دس سیٹیں زیادہ تھیں ۔ 2019ء کے انتخابات میں تو بی جے پی نے گویا کلین سویپ کیا تھا اور اس کی اپنی 303سیٹیں تھیں جبکہ اتحادیوں کو ملا کر کل 353 سیٹیں حاصل کی تھیں ۔ گزشتہ دونوں انتخابات میں بی جے پی اس پوزیشن میں تھی کہ وہ خود حکومت بنا سکتی تھی ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس مرتبہ بی جے پی کو زبردست دھچکا لگا ہے اور وہ اکیلی حکومت بنانے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھی جبکہ اس کے مقابلے میں کانگریسی اتحاد نے 2019ء کے انتخاب میں 91سیٹیں حاصل کی تھیں جبکہ اس مرتبہ صرف کانگریس کی اپنی 99 سیٹیں ہیں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس نے 231سیٹیں حاصل کی ہیں ۔ مودی سرکار کو خاص طور پر آندھرا پردیش اور بہار میں مسائل کا سامنا ہوگا کیونکہ آندھرا پردیش میں چندرا بابو نائڈو کی ٹی ڈی پی نے 16 سیٹیں حاصل کی ہیں اور بہار کے بیتش کمار کی جنتا دل نے 12 سیٹیں حاصل کی ہیں ۔ ان دونوں صوبوں میں سپیشل سٹیٹس کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے جس سے بہت بڑی خرابی پیدا ہو گی۔مودی نے جتنی بھی وزارتیں ابھی تک تقسیم کی ہیں ان میں سے تمام اہم وزارتیں بی جے پی کے پاس ہیں۔ بہرحال ایک (Hung parliment) جیسی صورتحال کا سامنا ہوگا ۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ الیکشن میں دھاندلی کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا ہے تاہم پری پول رگنگ بہت ہوئی ہے ۔ جیسا کہ کجریوال کی گرفتاری ، میڈیا کو پیسے دے کر اپنے کنٹرول میں کرنااور کانگریس کے اثاثے ضبط کرنا وغیرہ ۔ پھر یہ کہ مودی شعبدہ بازی میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ الیکشن کے نتائج آنے سے قبل وہ 45 گھنٹے تامل ناڈو کی ایک چٹان پر واقع دینا کماری کے مندر میں رہے اور میڈیا ان کی سرگرمیوں کی پل پل کی خبریں دیتا رہا۔ 45 گھنٹوں کے بعد جب وہ مندر سے باہر آئے تو ہجوم میں ایک نعرہ گونجا : اب کی بار چا رسو پار ۔ لیکن نتائج نے یہ نعرہ پاش پاش کردیا اور بھارت سیکولرازم سے ہندو توا کی طرف جس تیز رفتاری سے جارہا تھا اس کو ان انتخابات نے ایک روک لگا دی ۔
سوال:اس الیکشن میں حیران کن طور پر بی جے پی ایودھیا میں بھی ہار گئی ہے جہاں بابری مسجد کی جگہ مودی نے رام مندر تعمیر کر کے پورے بھارت کے ہندوؤں کو متحرک کیا تھا۔ آپ کے خیال میں کیا انڈیا میں انتہا پسندی کا رجحان کم ہو رہا ہے اور نریندر مودی کا جادو ختم ہو رہا ہے؟
رضاء الحق : مودی ایک مشن پر ہےجس کاآغاز اس نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام سے کیا۔ پھر 2014ء سے لے کر اب تک اپنے دو ادوار حکومت میں اس نے اپنے مشن کی تکمیل کے لیے بہت سارے اقدامات کیے ۔ جیسا کہ بھارت کے قانون شہریت میں تبدیلی ، کشمیر کا سپیشل سٹیٹس ختم کرنا اور ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر وغیرہ ۔ اس کے علاوہ اس نے حالیہ الیکشن سے قبل اپنی تقاریر میں بارہا اعلان کیا کہ بھارت میں مسلمانوں کو عائلی قوانین میں جو آزادی حاصل ہے اسے وہ وزیراعظم منتخب ہوکر ختم کردے گا ۔ اپنی ایک تقریر میں اس نے مسلمانوں کو عرب سے آئے ہوئے در انداز کہا۔ایک تقریر میں اس نے مسلمانوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے والےناسور کہا ۔ اس کے کہنے کا مطلب تھا کہ مسلمان ہندوؤں کے لیے خطرہ ہیں ۔ پھرمودی نے ون نیشن ون الیکشن کا نعرہ بھی دیا ۔ وہی نعرہ جی 20 کانفرنس میں بھی کارفرما نظر آیا ۔ مودی کو اپنے مشن کی تکمیل کے لیے ملکی سطح پر بھی اور بین الاقوامی سطح پربھی معاون و مددگار ملے ہوئے ہیں ۔ بھارتی میڈیا اس کے کنٹرول میں ہے ، بھارتی اسٹیبلشمنٹ اس کے ساتھ ہے اور مودی کو خوب استعمال کر رہی ہے ۔ بھارتی عدلیہ بھی اس مشن میں اس کے ساتھ ہے اور اس نے گجرات میں ہونے والے فسادات کے مجرموں کو چن چن کر بری کر دیا ہے ۔ اسی طرح بابری مسجد کے حوالے سے بھی بھارتی عدلیہ کا فیصلہ شرمناک تھا ۔ بین الاقوامی سطح پر امریکہ ، اسرائیل اور یورپی یونین بھی اس کے ساتھ ہے ۔ لیکن اس سب کے باوجود حالیہ انتخابات میں بی جے پی کو کم ازکم اخلاقی شکست ہوئی ۔ اس میں شک نہیں کہ مودی تیسری مرتبہ وزیراعظم بن جانے میں کامیاب ہوگیا لیکن انتخابات کے نتائج مودی کی توقعات کے برعکس تھے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کانگریس نے بھارت جوڑو یاترا کے ذریعے بہت اچھی مہم چلائی ۔ مسلمانوں کو بھی احساس ہو گیا کہ بی جے پی کی پالیسی ان کے حق میں نہیں ہے ، اس لیے انہوں نے بھی بی جے پی کی مخالفت میں ووٹ دیا ۔ چنانچہ جہاں بی جے پی کاہولڈ تھا وہاں بھی اس کو شکست ہوئی۔اس کے علاوہ درو راٹھی بھارت کا ایک مشہور وی لاگر ہے اس نے بھی مودی سرکار کو بے نقاب کیا ۔ ایودھیا میں بی جے پی کی شکست کی دو بنیادی وجوہات تھیں۔ ایک یہ کہ وہاں بابری مسجد کو شہید کرکے مسلمانوں کو ناراض کیا گیا۔ دوسرا یہ کہ ایودھیا پر انتہا پسند ہندوؤں کی بڑھتی ہوئی اجارہ داری کو عام ہندو نے بھی محسوس کیا اور اس کے خلاف الیکشن میں ردعمل دیا ۔ لیکن سوال پھر وہی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مودی اپنا مشن چھوڑ دے گا ؟ممکن ہے مودی کی انتہاپسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے بھارت کو جو نقصان پہنچا ہے وہ تھوڑی دیر کے لیے رُک جائے اور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف اقدامات میں کچھ کمی آجائےلیکن چونکہ بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی سیاست نفرت پر مبنی ہے ، اس لیے ہو سکتا ہے وہ اپنے ہاتھ سے نکلے ہوئے ہندوانتہا پسند ووٹ بینک کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اقلیتوں کے خلاف مزید جارحانہ پالیسی اختیار کرے ۔
سوال: نریندر مودی بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کا ریکارڈ برابر کرتے ہوئے تیسری دفعہ وزیراعظم تو بن گئے لیکن ان کو جو کمزور مینڈیٹ ملا ہے یہ انتہا پسندی کی طرف بی جے پی کے رحجان میں کچھ بریک لگا پائے گا ؟
ایوب بیگ مرزا:میں سمجھتا ہوں کہ ایک بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ حالیہ بھارتی انتخابات میں جمہوریت کی فتح ہوئی ہے کیونکہ مودی فسطائیت کے راستے پر چل رہا تھا ، وہ بھارت کا ہٹلر بن کر جمہوریت کو کچلتا چلا جا رہا تھا ۔ اس نے میڈیا کو بھی اپنے کنٹرول میں کرلیا تھا اور بھارت کے بڑے صنعت کاروں کو بھی اپنے ساتھ ملالیا تھا جس کی وجہ سے معاشی سطح پر طبقاتی خلیج بڑھ رہی تھی ، امیر پہلے سے زیادہ امیر ہورہا تھا جبکہ عام آدمی غریب سے غریب تر ہوتا چلا جارہا تھا ۔ پھر یہ کہ سیکولرازم جو بھارت کی بنیاد ہے اس کو بھی مودی نے پاؤں تلے روند ڈالا تھا لیکن حالیہ انتخابات میں عوام نے ان پالیسیوں کے خلاف ردعمل ظاہر کیا اور مودی کے عزائم کے راستے میں ایک دیوار کھڑی کردی ۔ عوام نے جمہوریت کے حق میں ووٹ دیا ہے ۔ ورنہ اگر چار سو پار والی بات ہو جاتی تو بھارت میں جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا جاتا ۔ بعض لوگ یہاں تک کہہ رہے تھے کہ مودی جس راستے پر چل نکلا ہے ممکن ہے وہ یک جماعتی نظام نافذ کر دے ۔ ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ ماضی میں سوائے اندرا گاندھی کی نافذ کردہ ایمرجنسی کے انڈیا میں بہرحال جمہوریت ڈی ریل نہیں ہوئی ۔ لیکن اس ایمرجنسی کا نتیجہ بھی یہ نکلا تھا کہ اندرا گاندھی اپنی سیٹ بھی ہار گئی تھی۔ جب بھی آپ عوام کے ساتھ سختی کریں گے تو اُلٹا نقصان ہوگا ۔ لوگوں کی ہمدردیاں دوسری طرف چلی جائیں گی۔ اب بھی میں سمجھتا ہوں کہ مودی ایک دوراہے پر کھڑا ہے ۔ ممکن ہے وہ سمجھ جائے کہ عوام نے اس کی انتہا پسندانہ پالیسی کو ناپسند کیا ہے تو وہ تھوڑا سیکولرازم کی طرف جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس طرح کوئی فوج پسپا ہورہی ہوتی ہے تو وہ زور دار حملہ کرتی ہے اسی طرح مودی بھی اپنی پالیسی میں جارحانہ طور پر آگے بڑھے اور وہ کر گزرے جو اس کا مشن ہے۔ اس صورت میں انڈیا کا بہت بڑا نقصان بھی ہو سکتا ہے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ بھارت میں مڈ ٹرم الیکشن کی نوبت آجائے ۔ ایک بات یہ بھی سننے میں آرہی ہے کہ مودی کی خواہش ہے کہ اگر اس کی پالیسی نہ چل سکی تو 2027ء میں وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوکر صدارت کا اُمیدوار بن جائے گا۔ بہرحال مودی کی جو شخصیت ہے مجھے نہیں لگتا کہ وہ حالات کو سمجھے گابلکہ وہ حالات سے ٹکرانے کی کوشش کرے گا اور پاش پاش ہو جائے گا۔بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مودی کے دور میں بھارت ترقی کررہا تھا حالانکہ اس ترقی میں نمائش زیادہ تھی جبکہ اخلاقی اور فکری سطح پر بھارت بہت بڑے گڑھے میں گررہا تھا ۔ عوام نے حالیہ انتخابات میں بھارت کو اس گڑھے میں گرنے سے روکا ہے ۔ جمہوریت میں  خامیاں بھی ہیں مگر کچھ اچھائیاں بھی ہیں ۔ جیسا کہ بھارت میں جمہوریت کی فتح نے انتہاپسندی کا راستہ روکا ہے ۔
سوال:حالیہ بھارتی انتخابات ، ان کے نتائج اور خاص طور پر مودی کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن جانے سے اس خطے کی سیاست اور پوری دنیا میں جو گریٹ گیم چل رہی ہے اس پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟
رضاء الحق :میرے خیال میں امریکہ، مغربی یورپ اور اسرائیل انتہائی خوش ہوں گے کہ مودی وزیراعظم بن گیاکیونکہ ان کے لیے مودی سے زیادہ موزوں انڈیا میں کوئی نہیں ہے ۔ پھر یہ کہ کمزور حکومت بیرونی طاقتوں کے مفاد میں ہوتی ہے ۔ خاص طور پر جب کوئی جماعت خود حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ ہو اور اتحادیوں کی محتاج ہو تو بیرونی طاقتیں زیادہ پریشر ڈالنے اور اپنے مفادات پورے کروانے کی پوزیشن میں ہوتی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کے مستقبل کے جو منصوبے ہیں ، محسوس ہوتا ہے ہے کہ ان کے لیے اب انڈیا کو زیادہ استعمال کیا جائے گا ۔ بھارت کے فوجی پہلے ہی غزہ میں جاکر اسرائیل کے لیے لڑ رہے ہیں ، اسلحہ اور بارود بھی انڈیا سے جارہا ہے ، ڈرونز بھی جارہے ہیں لیکن یہ سلسلہ اب مزید بڑھ جائے گا ۔ مغربی یورپ کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے ۔ روس اور چین کو بھی جہاں بھارت کی ضرورت ہو گی وہاں اس کو استعمال کریں گے ۔ یعنی دنیا میں جو گریٹ گیم چل رہی ہےاس کے لیے حالیہ بھارتی انتخابات کے نتائج موزوں ہیں۔ دوسری طرف مودی کی انتہا پسندی کو بھارتی انٹیلی جنس نے بھی خوب استعمال کیا ۔ خاص طور پر کینیڈا اور امریکہ میں سکھ رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی ۔ اسی طرح پڑوسی ممالک میں بھی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھارتی ایجنسیوں کے لیے معمول رہا ۔ یہ سلسلہ مودی کی وزارت عظمیٰ میں اب بھی جاری رہ سکتا ہے ۔ عالمی گریٹ گیم میں دنیا کے جو بڑے کھلاڑی ہیں وہ یقیناً انڈیا کو اہمیت دیتے ہیں ۔ دنیا میں جتنی بھی بڑی کمپنیز ہیں ان میں سے اکثر کے سی ای اوز انڈیا سے ہیں اور زیادہ تر سربراہان مملکت کے ماتحت لوگوں میں سے بھی اکثر بھارتی ہیں ۔ انڈیا نے بہرحال دنیا میں اپنا اثرو رسوخ پیدا کیا ہے اور اپنی طاقت بھی بڑھائی ہے ۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو سپورٹ کرتی ہیں اور اس کی سہولت کار ہیں چاہے انڈیا نسل کشی کا مرتکب ہی کیوں نہ ہورہا ہو ۔ عالمی گریٹ گیم میں بہرحال انڈیا کا رول ہے ۔
سوال:2024 ءاس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں الیکشنز ہوئے ہیں۔آپ کے نزدیک انڈیا میں جمہوریت کی فتح ہوئی ہے اور آزادی کے بعد سے اب تک وہاں جمہوریت کا تسلسل برقرار رہا ہے ، اس تناظر میں آپ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کے انتخابات کا موازنہ کس طرح کریں گے ؟
ایوب بیگ مرزا:صاف بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے انتخابات کا تقابل کیا ہی نہیں جا سکتا ۔ پہلے بھی پاکستان انتخابات کے حوالے سے بھارت سے بہت پیچھے تھا اور اب تو کوئی تقابل رہا ہی نہیں ۔ پہلی بات یہ ہے کہ انڈیا میں کوئی نگران حکومت نہیں ہوتی بلکہ پہلے سے موجود حکومت کی نگرانی میں الیکشن ہوتے ہیں اور 40 دن سے زیادہ عرصہ انتخابات میں صرف ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود کہیں سے دھاندلی کے الزامات سامنے نہیں آتے کہ کہیں نتائج تبدیل کیے گئے ہوں یا جعلی ووٹ کاسٹ کیے گئے ہوں ۔ جبکہ پاکستان کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے ۔ یہاں کوئی الیکشن ایسا نہیں گزرا جس میں دھاندلی کے الزمات نہ لگے ہوں ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ 1970ء کے انتخابات شفاف تھے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں بھی واضح طور پر دھاندلی ہوئی ۔ دھاندلی پہلے بھی ہوتی تھی ، کبھی پانچ فیصد ، کبھی دس اور کبھی پندرہ فیصد لیکن آپ کسی برائی کو پانچ دس پرسنٹ سے اُٹھا کر اسی نوے فیصد پر لے جائیں تو وہ دنیا سے چھپی نہیں رہ سکتی اور یہ بھی ممکن نہیں کہ اس کا ردعمل سامنے نہ آئے اورنتیجہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ عدم استحکام مزید بڑھ رہا ہے۔ اس سے بڑی دھاندلی کیا ہوگی کہ پاکستان کی ایک بڑی پارٹی جس کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی ہے اس کا انتخابی نشان ہی چھین لیا گیا ۔ حالانکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ کسی پارٹی کا انتخابی نشان نہیں چھینا جا سکتا ۔ اللہ کرے پاکستان میں بھی کوئی وقت آئے کہ یہاں بھی الیکشن میں دھاندلی کا الزام نہ لگے اور لگے بھی تو تھوڑا بہت لگے ، ایسا نہ ہو کہ فارم 45 کچھ اور کہہ رہا ہو جبکہ فارم 47 کچھ اور کہہ رہا ہو ۔ یہ کام پہلی دفعہ ہوا ہے ۔ پاکستان کو اس معاملے میں بڑی اصلاح کی ضرورت ہے۔
سوال:نریندر مودی نے حکومت بناتے ہی مسلم دشمنی کا ثبوت دے دیا۔ اس کے سابقہ دونوں ادوار میں کم ازکم ایک مسلمان وزیر کابینہ میں ضرور ہوتا تھا لیکن اس مرتبہ اس نے علامتی طور پر بھی کسی مسلمان کو وزیر نہیں بنایا ۔ اس مسلم دشمنی کی کیا وجوہات ہیں اور اس کے وہاں کی مسلم کمیونٹی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟
رضاء الحق :جب سے مودی حکومت میں آیا ہے ، ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی انتہا پسندی بڑھی ہے کم نہیں ہوئی ۔2014ء میں پہلی بار جب وہ وزیراعظم بنا تھا تو اس وقت وہ اتناکٹر مذہبی نہیں تھا لیکن اب آپ دیکھ لیں کہ حالیہ الیکشن کے دوران وہ 45 گھنٹے ایک مندر میں بیٹھا رہا ہے اور میڈیا نے اس کو فل کوریج دی ہے ۔ یعنی آہستہ آہستہ وہ سیاسی لیڈر سے مذہبی لیڈر بنتا جارہا ہے ۔ وہ خود RSSکا ممبر بھی ہے جو کہ 1925ء میں قائم کی گئی تھی ۔ RSSنازی جرمنی کے ہٹلر سے متاثر ہے اور ہندوتوا کی فلاسفی پر گامزن ہے ۔ RSSاور VHPکا گٹھ جوڑ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ اب تو ان کی انتظامیہ اور عدلیہ بھی اسی رنگ میں رنگی جا چکی ہے اور واضح دکھائی دیتاہے وہ مسلم مخالف اور ہندو انتہا پسندی کے حق میں ہیں ۔ وہ اگر نازی جرمنی کے انجام سے سبق سیکھ لیں تو بھارت کے لیے بہتر ہوگا لیکن محسوس یہ ہوتاہے کہ وہ سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ابھی بھی اسی بات پر قائم ہیں کہ ہم نے بھارت کو کٹر ہندو ریاست بنانا ہے ۔ اکھنڈ بھارت، جو کہ ایک دیو مالائی کہانی اور خیالی پلاؤ ہے جس کا تاریخ میں کہیں بھی کوئی وجود نہیں ملتا ،ان کی پالیسی کا کارنر سٹون (cornerstone) ہے اور اسی بنیاد پر وہ مسلمانوں کے خلاف اقدامات کرتے چلے آرہے ہیں ۔ بنیادی طور پر مودی اور اس کے ہمنوا ہندو انتہا پسند طبقہ کی جو ہٹ دھرمی ہے یہ علیحدگی پسند تحریکوں کو تقویت دیتی ہے۔ اس وقت بھی انڈیا میں 21 کے قریب علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں جن میں  سکھوں کی خالصتان تحریک بھی شامل ہے ۔ سکھوں کے خلاف بھی ان کے مظالم روز بروز بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔ جب ان کو کارنر کیا جائے گا تو وہ بہرحال جواب دیں گے ۔ مسلمانوں کے خلاف تو ان کی پالیسی بہت واضح ہے ۔ بہت سارے علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف اقدامات کیے جارہے ہیں۔ یہی چیز آگے چل کر علیحدگی پسند تحریکوں میں ایسی جان پیدا کرے گی کہ انڈیا میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے ۔ مسلمانوں کے لیے واحد راستہ یہی ہے کہ وہ سیاسی طور پر متحد ہوں ، جیسے اس مرتبہ انہوں نے متحد ہو کر بی جے پی کا راستہ روکا ہے ۔ اسی طرح دیگر اقلیتیں جو بی جے پی کی پالیسیوں سے خائف ہیں وہ بھی متحد ہو جائیں ۔ تمام اقلیتوں کے لیے متحد ہو کرمزاحمت کرنا آسان ہوجائے گا اور ایک مشترکہ سیاسی جدوجہد کے ذریعے وہ بی جے پی کو دباؤ میں لا سکتے ہیں ۔