(کارِ ترقیاتی) چھٹ گئی ہے ملمع کی سب نمود - عامرہ احسان

10 /

چھٹ گئی ہے ملمع کی سب نمود

عامرہ احسان

حج اِس سال غزہ اور اقصیٰ کے شہداء کے خون کی لالی اور یہود کے ہاتھوں قدس اور غزہ کی مساجد کی بے حرمتی کے مناظر اپنے پس منظر میں لیے آیا اور گزر گیا۔ تکبیرات، تلبیہ حاجیوں کی پکار میں آواز ملاتے غزہ کے نوجوانواں، بچوں نے بھی بلند کیا۔ شیاطینِ کل عالم پر رمی جمار کی چاہ، منیٰ سے باہر بھی غیرحاجیوں نے پوری کی! حاضری کس کی قبول ہوئی۔ تلبیہ کس کا دل کی گہرائیوں سے اور کس کا نفس اور شکم کے خم و پیچ سے ہو کر نکلا۔ کون دلاں دیاں جانے ہُو!
یہ منظر غزہ کا ہے: غزہ کا نوجوان 6 ماہ کی بچی گود میں اٹھائے، ولولوں سے بھرپور، زندگی سے مہکتا، ذوق و شوق سے بچے ہمراہ لیے لبیک اللھم لبیک غزہ کے ملبوں کے درمیان پکارتا چلا جارہا ہے۔ قبلہ اوّل کے لیے بلاؤں سے گزرتے، حرم کے محافظ، ہر زخم مسکرا کر جھیلتے، شعب ابی طالب، طائف، احد احد پکارتے بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے بیٹے، لبیک اِن کی کتنی معتبر ہے! حاضر تو یہی ہیں! کسی کی لبیک حاضری پر بھی قبول نہ ہو خدانخواستہ اور کسی کی لبیک شہید مساجد کے ملبوں کے بیچ چلتے پھرتے قبول ہوجائے، قریب و مجیب رب کے سوا کسے معلوم! غزہ کی گلی گلی میں نیز سرنگوں میں مجاہدین کی تکبیرات کی رونق سے کھنڈر بھی دمک رہے تھے! غزہ کا زخمی کٹی ٹانگوں کے ساتھ وہیل چیئر پر۔ پیچھے پیچھے بچوں کی بارات اور اللہ اکبر کبیراً کی صدائیں گرج گونج کر بتانِ آزری کو رب تعالیٰ کی کبریائی سے دہلاتی رہیں! ہواؤں فضاؤں میں پھیلتی اسرائیل کو حواس باختہ نفسیاتی مریض بناتی رہی ہیں۔ اسرائیلی فوجی مسلسل خودکشی کر رہے ہیں۔ نفسیاتی علاج کی درخواستیں  3 گنا بڑھ چکی ہیں۔ 18 ہزار افراد کی لسٹ موجود ہے۔  29 فیصد اسرائیلی نفسیاتی بیماری PSTD میں مبتلا، 42 فیصد ڈیپریشن کا شکار، 44 فیصد اضطراب بے چینی (Anxiety)  کے مریض۔ غزہ قیامتوں سے گزر کر بھی ہنستا مسکراتا، ولولوں سے بھرا قرآن، تکبیرات۔ کلماتِ ذکر سے فضائیں معطر کرتا سکینت، ا طمینانِ قلب بانٹ رہا ہے۔ ملبے میں دبی بچی کو جس محبت، شفقت، دل سوزی، احتیاط سے اللہ اکبر فللہ الحمد کی پکاروں میں نکال رہے ہیں، یہ انہی کے سیرت و کردار اور حوصلوں کی عظیم داستان ہے (اس سے پہلے یہ سب شام پر روس، امریکا، بشار الاسد کے ہاتھوں، دنیا کی نگاہوں سے اوجھل رکھ کر ہو گزرا۔ وہاں وائٹ ہیلمٹ، نامی رضا کار شیرجوان بھی ایسے ہی تھے پورے خطے کی تباہی فتنہ دجال کا حصہ ہے) ہم کہاں کھڑے ہیں؟ وہ اقصیٰ کے محافظ، ہم میکڈونلڈ کے محافظ! جب اسلام آباد میں نوجوانوں نے میکڈونلڈ پر مظاہرہ کرنے کی جسارت کی تو پولیس ڈنڈے لیے ٹوٹ پڑی۔ گرفتار کرلیا۔ حوالہ حوالات ہوئے اس گستاخی پر!
حج میں شیاطین پر کنکریاں برسیں، یہاں کتائب القسام مجاہدین نے ”رجوم“ راکٹ دشمن کے کمانڈ ہیڈ کوارٹر پر برسا کر تعینات شیطانی، دجالی اسرائیلی فوج کو نشانہ بنایا۔ ادھر استنبول میں بعد نمازِ عید ترک نمازیوں نے تکبیرات پڑھتے، سینگوں والے شیطانی بائیڈن اور نیتن یاہو کے تصویری پوسٹر پر کنکریاں برسا کر سلگتے دل ٹھنڈے کیے۔ یہ تو مسلم عوام ہیں اور حکمران؟ بحرین میں اسی ماہ خفیہ اجلاس میں اسرائیلی افواج کا چیف اسٹاف برزی بیلوی، اردن، سعودی عرب، امارات کے فوجی نمائندے امریکی سینیٹ کے تحت، باہمی تعاون کے لیے سر جوڑ بیٹھے تھے! اولئک کالانعام بل ھم اضل …… جانوروں کی طرح سمجھ سوچ فکر سے عاری بلکہ اس سے بھی گئے گزرے پتھروں کی طرح سخت دل بلکہ اس سے بھی سخت تر! انہی نے اسرائیل کو سہارا حوصلہ دے رکھا ہے ورنہ اسرائیلی فوج کے چھکے چھوٹ رہے ہیں۔ مجاہدین کے ہاتھوں منہ کی کھا رہے ہیں۔ قسام نے ہفتے (15 جون) کی صبح 8 اسرائیلی فوجی مار ڈالے۔ 22 جنوری کو 21 قابض فوجیوں کے مرنے کے بعد یہ دوسرا شدید دھچکا ہے۔ اسرائیلی عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہوچکا۔ شدید مظاہرے جنگ کے خلاف، حکومتی حکمت عملی کے خلاف جاری ہیں۔ فوج اور سیاسی حکومت مابین دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ سابق جرنیل کا کہنا ہے یہ ایسی شکست ہے جو اسرائیل نے اپنے قیام سے لے کر آج تک نہیں دیکھی۔
اور حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا پر بلاشرکت غیرے اَن دیکھی حکومت یہود کی چل رہی تھی۔ سرمایہ کاری، بینک، تحقیقی علمی اداروں پر گرفت، میڈیا نیٹ ورک،سیاست عالمی سطح پر، وال اسٹریٹ کی ساری دولت، جوا، فلم انڈسٹری، پورنوگرافی (فحش نگاری ہمہ نوع)، غیراخلاقی، خفیہ بدکاری کی ویب سائٹس، رسالے، کلب کھربوں ڈالر کی یہ صنعتیں یہودی کنٹرول کرتے ہیں۔ آج پوری دنیا اسرائیل کے خلاف اٹھی کھڑی ہوئی ہے۔ یہود دشمنی (Anti-Semitic) کا کوڑا جو دوسروں پر مسلط رکھا گیا، اب اسے کوئی خاطر میں نہیں لاتا! ایک مذاق بن چکا ہے۔ جاپانی تک اتنے غیور ہوگئے کہ ان کے ہوٹل اسرائیلی سیاحوں کے ٹھہرانے سے انکاری ہیں۔ اسرائیلی فوجی کو جگہ دینا وہ جنگی جرم کے مترادف جان رہے ہیں! 
نوجوان طلبہ’’جین زی‘‘ نسل بھونڈ بن کر ان کی جان کو چمٹ گئی ہے۔امریکا کے بعد برطانیہ، فرانس جرمنی میں بھی ردعمل شدید ترین ہے۔ لندن اسکول آف اکنامکس کے طلبہ اپنے موقف پر ڈٹے کھڑے ہیں۔ یونیورسٹی کو اسرائیل میں سرمایہ کاری سے روکنے کو۔ وہ اسے’’گلوبل طلبہ انقلاب‘‘کا نام دے رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے۔ وہاں کا نظام تعلیم بھی پنجہ یہود میں ہے، یہ طلبہ نے جان لیا اور جھاڑ کا کانٹا بن کر لپٹ گئے۔ مؤقر ترین تعلیمی اداروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ پاکستان میں نظام تعلیم برطانیہ کی غلامی کا نام ہے۔ اپنی شناخت سے دست برداری۔ بدترین معیار تعلیم، اختلاط ہر سطح پر رائج کرکے صرف عشق عاشقی، ہولی، دیوالی، میلے ٹھیلے! نہ اُردو، نہ انگریزی، نہ سائنس،  نہ تاریخ جغرافیہ! سب سے تہی دامن۔ چرب زبانی، فریب کاری، مکاری، کرپشن کی تربیت، یہ حاصل ہے تعلیم کا، جو اب بزنس، تجارت بن چکی۔ برطانوی طلبہ نعرہ زن ہیں کہ ہمیں اپنے نصاب غیراستعماری بنانے ہیں۔ قومی مارچ برائے فلسطین چل رہا ہے۔ جرمنی، فرانس، برطانیہ میں مظاہروں میں شدت وحدت اتنی ہے گویا یہ انہوں نے قومی مقصد ٹھہرا لیا ہے کہ فلسطین آزاد کروائیں گے! امریکا میں بھی تحریک کا یہی عالم ہے۔’’کوڈپنک‘‘ کے متحرک کارکن ہر اہم مقام میٹنگ میں جا پہنچتے اور منتظمین کی جان کو آلیتے ہیں۔ 'AIPAC' (جو امریکی اسرائیلی پبلک آفیرز کمیٹی ہے، اسرائیلی نواز پالیسیاں یقینی بنانے کو اہم حلقوں پر اثر انداز ہوتی ہے) کے غیررسمی غیردفتری اکٹھ میں پہنچ کر ان کارکنان نے قتل عام اور غزہ مظالم کے طعنے دے کر ان کا بیٹھنا حرام کردیا! اِس دوران غزہ کے اغوا کردہ شہری قیدیوں پر خوف ناک تشدد، فاقہ زدگی، غیرانسانی حالات میں تمام تر عالمی قوانین کے چیتھڑے اڑانے کی خبریں بھی سامنے آئیں۔ 12 سالہ معصوم بچے پر قید میں خوف، بھوک اور تشدد توڑا۔ اس نے (بچے کی ویڈیو کے ذریعے) اسرائیل کا مکروہ کردار، بھیانک ترین جرائم کا راز فاش کر دیا۔ اتنا کہ اسرائیل نوازی جرم بنتی جارہی ہے    ؎
باطل ہوئے حقوق کے اعلامیے تمام
پل بھر میں چھٹ گئی ہے ملمع کی سب نمود
پاکستان کی غزہ سے بے نیازی پر ہم ہی سمجھ بیٹھے تھے کہ شاید قوم بالکل بے حس مردہ ضمیر ہو چکی۔ مگر سانگھڑ میں ایک معصوم اونٹنی پر وڈیرے کے ظلم پر (کھیت میں چرنے پر ٹانگ کاٹ ڈالی) جس طرح بریکنگ نیوز بنی، سوشل میڈیا پر شور و غل مچا، حساسیت کی شدت بھڑک اٹھی تو اطمینان ہوا کہ یہ ظلم برداشت نہ کرنے والی قوم ہے! (مگر اس کے لیے اونٹ، کتا، گدھا ہونا ضروری ہے، گدھے کے ایک واقعے کا بھی لوگوں نے از خود نوٹس لیا)۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا بیان تو اسلامی تاریخ سے ناواقفیت کا شاہکار ہے (ملاحظہ فرمائیں: حضرت صالح ”علیہ السلام رضی اللہ عنہا“ کے دور میں ایک اونٹنی پر ظلم پر اللہ کا عذاب پوری قوم پر آیا، قوم ختم کردی گئی۔ ہماری پوری قوم کو اللہ کے حضور معافی مانگنی چاہیے)۔ ڈی چوک پر دو جیتے جاگتے انسان غزہ پر آواز اٹھانے کے جرم میں کچل دینے پر قوم کی پیشانی پر بل نہ آیا؟ حیوانی ہمدردی کے زمزمے ابل پڑے۔ اسلامی قوانین کی بات کریں تو وہ ٹانگ کے بدلے ٹانگ ہے۔ (اونٹنی کی ٹانگ کے بدلے وڈیرے کی ٹانگ؟ فلسطینیوں کی ٹانگوں کا بدلہ نیتن یاہو کی صرف 2 ٹانگوں سے چکانے بارے کیا اجازت ہوگی؟) گورنر نے کہا کہ اونٹنی کے مالک کو انہوں نے 2 اونٹنیوں کا تحفہ دے دیا ہے (یہ عوام کی ٹیکسوں سے دیا گیا تحفہ ہے، گورنر کی ذاتی جیب سے حاتم طائی کی قبر پر لات نہیں ماری جاسکتی!) گرہمی وڈیرہ وہمی گورنر۔ کارِ سرکار تمام خواہد شد! پاکستان کی فراست کا یہ گورنری شاہکار۔ ایں سرکار ہمہ خانہ آفتاب است! سو ایٹمی پاکستان، اُمت کا گلِ سرسبد پاکستان، داستانِ پارینہ رہ گئی! راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری ہے!